اللہ تعالی نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیاہے اور تمام انسانوں میں خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقام محمود کاشرف بخشا۔یعنی نبی کریمؐ وہ ہستی ہیں جن کی تعریف رب العالمین نے خود کی اوراللہ سے محبت کو نبی کریمؐ کی اطاعت سے مشروط کردیا۔اللہ کا نبی کریمؐ سے محبت کا عالم دیکھیے کہ کہا “جولوگ اللہ اور اسکے رسولؐ کواذیت دیتےہیں ان پر دنیا اورآخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اوران کے لیے رسواکن عذاب مہیا کیا گیاہے۔”(الاحزاب 57)
اسی طرح فرمایا”اللہ اور اسکے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو!جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود سلام بھیجو”۔(الاحزاب56)
محمد ﷺ طائف سے واپسی پر زخموں سے نڈھال ہیں۔ اللہ کی اپنے نبیؐ سے محبت کہ جبرائیلؑ آتےہیں اور کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا انچارج فرشتہ حاضر ہے آپؐ اشارہ کریں تو پہاڑوں کو آپس میں ملادے جن کے درمیان مکہ اورطائف واقع ہے۔اور دونوں شہروں کو پیس کر رکھ دے اور نبیؐ کی امت سے محبت کا عا لم دیکھیے کہتے ہیں کہ”اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے توامید ہےکہ ان کی نسلیں ضرورخدائے واحد کی پرستار ہونگی۔”
اللہ کے بنیؐ نے دعوت وتبلیغ کے میدان میں ہرطرح کے ظلم وستم سہے۔آپؐ کی دو بیٹیوں کو طلاق ہوئی آپؐ کابائیکاٹ کیاگیا۔تمسخر اڑایاگیا۔غرض آپ ؐ نے اللہ اور اسکے بندوں کی محبت میں ہر طرح کی ذہنی وجسمانی اذیتیں برداشست کیں۔اور اس دعوت کو قبول کرنے والے سمجھ گئےتھےکہ اللہ اور اسکے نبیؐ سےمحبت ایمان کاتقاضہ ہے۔اس لیے ایمان لانے کےبعدان کے شب روز،فکروعمل،محبت کےمعیار سب کچھ یکسر بدل گئےتھے۔صحابہ کرامؓ نے رسول اللہؐ کی محبت واطاعت میں ہجرت کی،جان ومال سے جہادکیا۔انصار ومہاجرین کے درمیان ایسی مواخات قائم ہوئی جس کی مثال قیامت تک نہیں ملتی کہ انصار ناصرف اپنی نصف زمین بلکہ اپنی بیویاں تک دینے کےلیے تیار ہوگئے۔
حضرت مصعب ؓ بن عمیر ہر روز نیا لباس پہنتے اور ایسی خوشبو لگاتے کہ اگر گزریں تو محلہ معطر ہوجاتا تھا لیکن قبول اسلام کے بعد سب چھوڑنا برداشت کرلیا اور ٹاٹ سے ستر چھپاکر آپؐ کی خدمت میں حاضرہوگئے۔
جنگ بدر کے موقع پر 313 مسلمان جو بے سروسان تھے جبکہ دشمن تعداد میں ہزار اور اونٹوں پرسوار، جدید اسلح سے لیس،رسد باافراط تھی۔ یعنی دونوں فوجوں میں زمین آسمان کا فرق۔لیکن صحابہ کی محبت دیکھیے کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، اور مقدادؓبن عمرو بھرپور انداز میں تعاون کی پیش کش کرتے ہیں کہ آپؐ حکم الہی کے مطابق جدھر بھی اقدام کریں گے ہم آپ ؐ، کے ساتھ ہونگےاور بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گےکہ موسیؑ جاؤ تم اور تمھارا خدا مل کر لڑیں ہم تو یہیں بیٹھےہیں “۔ اسی طرح سعد بن عبادہ ؓ اٹھے اورکہا کہ اگر آپ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈالنے کاحکم دیں توہم بلاپس وپیش سمندر میں اپنے گھوڑوں سمیت گھس جائیں گے اور اگر ہم کو حکم دیں کہ برک الغماد تک گھوڑوں پر سوارجاؤاور دشمن سے لڑو توہم اسےبھی مانیں گے۔”(یعنی بری وبحری جنگ میں آپ کے ساتھ ہیں)۔
ایک مرتبہ محمدؐ نے مسجد میں کسی شخص سے بیٹھنے کے لیے کہا اس وقت حضرت عبداللہؓ بن الروح وہاں سے گزر رہے تھے ان کے کان میں نبیؐ کی آواز آگئی آپ ؓ سنتے ہی سر پر لکڑیوں کا گٹھل لیے بیچ گلی میں ہی بیٹھ گئے۔
تاریخ صحابہ کرامؓ کی نبی کریمؐ سے محبت کے واقعات سے بھری ہے۔اسی لیے قرآن نے کہا رضی اﷲ عنھم و رضوا عنہ۔
عشق محمدؐ کے دعوے دار توہم بھی ہیں ۔لیکن افسوس !
بقول شاعر
مجھےمیرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
کیونکہ محبت کو عمل کی دنیا میں پرکھاجاتاہے۔ہماری محبت کامعیار یہ ہے کہ درود شریف کاوظیفہ کروالیا۔ ربیع الاول میں چراغاں ومیلادکرلیا ۔ اسکول کے نصاب میں اسلامیات کےنام سے ایک کتاب جس کو بچہ رٹ کر امتحان پاس کرلے۔ اگر صاحب حیثیت ہیں تو حج وعمرہ کرآئے۔
اللہ کے نبیؐ جوکتاب وسنت عمل کےلیے چھوڑکرگئےتھے وہ زیادہ سےزیادہ پڑھنے کی حد تک رہ گئی۔وہ سیاسی، معاشی، معاشرتی نظام کتابوں میں گم ہوگئے ۔اور یہ عاشقان مصطفےؐ دشمنان مصطفے سے مرعوب ہوگئے۔اب یہ حال ہے کہ امت مسلمہ خون میں نہارہی ہے۔مسلمانوں کوذبح کیاجارہاہے۔شہروں کو بم سے تباہ کیاجارہا ہے۔ ناموس رسالتؐ پر حملے ہورہے ہیں۔توہین رسالتؐ کے مجرموں رہائی دی جارہی ہے۔حدودآرڈنینس میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ شراب کو حلال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی قرآن وسنت کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے۔لیکن ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ناہماری رات کی نیند اڑتی ہے۔ناہماری شاپنگ وہوٹلنگ میں کمی آتی ہے۔نا ہم گھروں کی سجاوٹ پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں۔ پھر بھی محبت کے دعوئے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
سوچیے!یہ کیسی محبت ہے