کیاعشقِ مصطفیٰؐ یہی ہے؟

نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ  کی شان میں ماہ ربیع الاول میں بیش بہا عقیدت کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔ محافلِ میلاد اور دروس کی تقریبات سجائی جاتی ہیں ،ہر کوئی اپنے طریقے سے شانِ مصطفیؐ بڑھانے کیلئے کوشش کرتا ہے۔ نبی محمدﷺ  سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن کیا ایک مہینہ  نبی سے محبت  کیلئے کافی ہوگا ؟کیا نبی محمدﷺ سے محبت اطاعت کے بغیر کافی ہے ؟۔

یقیناً  نہیں ۔محبت کے ساتھ اطاعت لازمی شرط ہے ۔نبی مہربانؐ خالق وجہ کائنات ہیں اور محبوبِ خدا بھی۔اور رب کائنات کی اپنے محبوب  سے محبت کی عملی شکل یہ ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کی محبت نہ صرف انسانوں کے دلوں میں بلکہ حیوانات اور نباتات کے دل میں ڈال دی اور اس کی مثالیں ہمیں سیرت طیبہ کے واقعات سے ملتی ہیں اور قران پاک بھی اس پر گواہی دیتا ہے۔ سورہ الم نشرح میں اللہ  تعالی فرماتے ہیں ورفعنا لک ذکرک اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا۔

بقول شاعر

پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا

دونوں جہاں میں ان کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے

محبت دراصل اطاعت مانگتی ہے۔ رسول محمدﷺ  کی اطاعت اور ان کا اتباع اسی صورت ممکن ہے کہ قران پاک اور سنت کو مضبوطی سے تھام لیں اور عمل کے تقاضے پورے کریں۔لیکن یہاں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہمارا اسلام صرف جنازے کو مسجد لیجانےتک محدود ہے چاہے اس شخص نے عمر بھر مسجد کا منہ نہ دیکھا ہو اور کفن میں عورت کو پانچ کپڑے پہنانے تک محدود ہے چاہے اس  عورت نے عمر بھر پردہ نہ کیا ہو۔۔۔۔باقی تمام معاملات میں ہماری اطاعت کہاں چلی جاتی ہے؟۔

سورہ الحجرات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو تم رسول کے  آگے پیش قدمی نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے بلند آواز سے بات کرو ایسا نہ ہوکہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں۔ قران کی روسے رسول کے آگے پیش قدمی کرنے اور ان کے  سامنے بلند آواز  سے بات کرنے پر اللہ تعالی مومنوں کو یہ وعید دے رہے ہیں کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائینگے ۔ جبکہ ہم  مکمل طور پر دین سے دور ہیں، ہم غیروں کے نظام پر راضی رہتے ہیں ان کے قوانین اپنے ملک میں نافذ کرتے ہیں، سودی نظام چلاتے ہیں  لیکن  ریاستِ مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔پارلیمنٹ  کا ممبر  منتخب کرنا ہو یا کونسلر ترجیح لبرل طبقے کو دیتے ہیں۔بہترین نظام حکومت اور کرپشن فری معاشرے  کی مثالیں یورپ اور چین سے لاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں  میں اسلام صرف نکاح طلاق اور نماز جنازہ کی حد تک رہ گیا ہے۔شریعت محمدﷺ  پر عمل کرنے والے پر ملا کا ٹیگ لگا دیتے ہیں لیکن پھر بھی اطاعت اور محبت کےدعوے کرتے ہیں ۔ہماری اجتماعی زندگی ہی نہیں ہے بلکہ ہماری انفرادی زندگیاں بھی اطاعت محمدیؐ سے خالی ہیں ۔نبی محمدﷺ  کی اطاعت اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکتے لیکن  کل روئے ارضی پر اسلام کے غلبے کےخواب دیکھتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے انسان پانی کے بھرے گلاس  کو دیکھ کر چاہے کہ وہ اس کے حلق تک پہنچ جائے۔

نبی محمدﷺ  کی حدیث کے مطابق مسلمانوں پر ایک وقت ایسا آئیگا  ان کی حیثیت سمندر کے جھاگ کےمانند ہوگی۔وجہ قران سے دوری، موت سے کراہت (مفہوم)۔ آج امت مسلمہ اسی دور گذر رہی ہے، ہر طرف مسلمان کٹ رہے ہیں مر رہے ہیں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔اور نام نہاد مسلمان حکمران  اقتدار سے چمٹے عیاشیاں کررہے ہیں۔قوموں ملکوں اور عصبیتوں میں بٹے مسلمان اپنے نبی محمدﷺ  کی شان میں گستاخی  کے خلاف ملکر آواز بلند نہیں کر سکتے ۔مغرب کی جانب سے نعوذ باللہ  گستاخانہ خاکوں کا اعلان ہوتا ہے  ستاون اسلامی ممالک اور دو ارب سے زائد مسلمان لیکن ایسا لگتا ہے گویا سانپ سونگھ گیاہو ۔کسی ملک کی ہمت نہیں ہوتی کہ احتجاج ریکارڈ کروائے معاشی بائیکاٹ کرے سفیر  کو ملک بدر کردے۔اس وقت مسلم حکمرانوں کا ان ممالک سے معاملات  کا یہ عالم ہوتا ہے کہ  ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔جبکہ ہر نماز میں نبی محمدﷺ  پر صلوۃ  بھیجتے ہیں ہر اذان کے بعد محمدﷺ  کے درجات کی بلندی کی دعائیں کرتے ہیں مگر تہذیب حاضر کی چمک کے سامنے دین کی خوشخبریاں ماند پڑ جاتی ہیں۔

اللہ کےنبی کو ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کی مدد اور نصرت کریں اللہ تعالی اور اس کے فرشتے کافی ہیں مگر یہ  ہماری اپنی ضرورت ہے کہ ہم شافع محشر کی شفاعت کیلیے اپنی بھرپور  کوشش کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں سنت کے مطابق گذاریں۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تحریر بہت خوب لکھا ہوا ہے

جواب چھوڑ دیں