(مستند کتب حدیث وسیرت کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش،حلیہ مبارک، پرورش،اعلانِ نبوت سے پہلے کی زندگی، پہلانکاح اوراولادکی تفصیل)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریشی خاندان سے اورحضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے ۔مکہ ، عرب میں ایک شہر ہے ۔مکہ میں سب سے پہلے بسنے والے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ ہیں ۔ قبیلہ بنو جرہم کے کچھ لوگ بھی اسی زمانہ میں وہاں آبسے تھے،انہی میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے نکاح فرمایا تھا،ان کی اولادمیں بنی فہر یا نصر بن کنانہ ہیں ،اور ان کی ولاد کو قریش کہتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں ہی وہ مشہور مقام ہے ،جس کو خانۂ کعبہ کہتے ہیں ۔کعبہ کی تعمیر کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں ۔ مکہ شہر کا نام ہے ۔ کعبہ اس شہر میں واقع ایک عمارت کانام ہے اور اس کے ارد گرد صحن کا نام مسجد حرام ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
20اپریل 571 ء یعنی جس سال اصحابِ فیل کا واقعہ ہوا ، اسی سال ۹ /ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنو ہاشم میں سے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا سلسلۂ نسب کلاب پر جاکر مل جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو یا بارہ چچے اور چھے پھوپھیاں تھیں۔اللہ تعالیٰ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت عجیب عجیب واقعات دکھا کر اپنی شان دکھائی ۔ واقعۂ اصحابِ فیل کے سلسلے میں ابو رغال نے اپنی قوم سے دھوکاکرکے یمن کے گورنر کی مدد کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس کو ہلاک کردیا ،لوگوں نے اس کی قبر پر پتھر برسانے شروع کردیے، تاکہ یاد رہے کہ جو شخص اپنی قوم سے غداری کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برسا کرتی ہے۔
نبی الانبیاء ﷺکاحلیہ مبارک
داڑھی مبارک گھنی اور خوبصورتی کے ساتھ بھر پور ،سر مبارک کے بال چمک دار کسی قدر گھونگریلے، بالوں میں تیل یا مشک جیسی چیزوں کا استعمال فرماتے تھے۔ خوش بوکے استعمال کی وجہ سے بالوں میں کسی قدر ہموار پن سا آگیا تھا۔گنتی کے کچھ بال تقریباًبیس(20)بال داڑھی اور سر مبارک کے، سفید تھے ۔ پیشانی کشادہ اور روشن تھی۔بھو ئیں لمبی، دراز اور باریک، بیچ میں کشادگی ۔دونوں کے بیچ میں ایک رگ تھی ،جو غصے کے وقت ابھر جاتی اور پھڑکنے لگتی تھی۔ آنکھیں بڑی بڑی ،پلکیں گنجان وسیاہ اور تلوار جیسے زخم کے ساتھ دراز ۔ رخسارنرم ، سرخی مائل تھے۔ ناک بلندی مائل مگر زیادہ اونچی نہ تھی ، پہلے پہل دیکھنے والا اونچی سمجھتا ،مگر غور سے معلوم ہوتا کہ نور اور چمک کے باعث بلند معلوم ہوتی ہے ، بانسا خوبصورتی کے ساتھ اوپر اٹھا ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامنہ(دہن )مبارک مناسب طور پر کشادہ ، دندان مبارک باریک ،روشن ، سامنے کے دانت ایک دوسرے سے کسی قدر چھدرے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم گفتگو فرماتے توایسا معلوم ہوتا تھا،جیسے تاروں کی کرنیں دندان مبارک سے پھوٹ رہی ہیں ۔ چہرۂ انور چودھویں رات کے چاند سے بھی پیارا ، کسی قدر گولائی لیے ہوئے ، وجاہت سے بھرا ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تواس وقت چہرہ انور سے ایسی ہیبت اور عظمت ٹپکتی کہ دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا۔ گردن سانچے میں ڈھلی ہوئی چاندی سے زیادہ خوبصورت وسفید سفید۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی کلائیاں لمبی اور چوڑی ،ہتھیلیاں پُر گوشت ، چوڑی اور ریشم اور حریرسے بھی زیادہ نرم تھیں۔دونوں کندھوں کے بیچ میں بائیں طرف کو سخت ہڈی کے قریب تھی ۔ خوبصورتی کے ساتھ گوشت مبارک اُبھرا ہوا تھا جو بدن کی عام رنگت سے کسی قدر زیادہ سُرخی لیے ہوئے تھا اور اس کی شکل کچھ بندھی مٹھی کے مشابہ تھی۔ چاروں طرف بڑے بڑے تل تھے جو بڑائی کی وجہ سے مسوں کے برابر معلوم ہوتے تھے اور گرد اگرد بال تھے ۔ مہر نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر تھی ۔سینہ مبارک چوڑا اور بھرا ہوا تھا،۔شکم مبارک سینہ کے برابر، نہ آگے بڑھا ہوا ۔ بالائی حصہ پر کسی قدر بال تھے،جب کہ باقی سینہ اور شکم بالوں سے صاف تھا ،صرف سینہ مبارک سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک سی ایک دھاری تھی۔دو نوں کاندھے گوشت سے بھرے ہوئے، ایک دوسرے سے فاصلہ پر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں مبارک پُر گوشت ، زیبائش کے ساتھ ہمواراور صاف ستھرے تھے۔ایڑی مبارک پر گوشت کم تھا۔انگلیاں مناسبت کے ساتھ درازاور لمبی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے وقت تیزی، کشادگی، پھرتی اور متانت کے ساتھ پاؤں مبارک رکھتے تھے،گویارفتار مبارک تیز ہوتی ،قدم مبارک کسی قدر کشادہ پڑتا ،جس کی صورت یہ ہوتی کہ پیر مبارک زمین پر آہستہ پڑتا،کسی قدر آگے کو جھکاہوا، مگر اُس کا اُٹھنا قوت کے ساتھ ہوتا تھا، ایسا معلوم ہوتا گویا ڈھلان میں اُتر رہے ہیں ۔
غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کارنگ سفید ،جس میں سرخی کی آمیزش تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضا کے جوڑ اور اُن کی ہڈیاں بڑی ، چوڑی اور مضبوط تھیں۔ قد مبارک دیکھنے میں درمیانی تھا ، نہایت مناسب، مگر معجزہ تھا کہ جب چند آدمیوں کے ساتھ چلتے تو سب سے اونچے معلوم ہوتے۔بدن مبارک گٹھا ہوا ، خوبصورت ، سجاوٹ کے ساتھ بھرا ہوا ، جتنا کوئی غور کرتا خوب صورتی زیادہ معلوم ہوتی تھی ۔ بدن مبارک پر بال بہت کم ، چمک زیادہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ اور لعاب کی خوش بو ، مشک وغیرہ کی خوشبوسے بھی بڑھ کر تھی ۔ لعاب مبارک کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی ہتھیلیوں پر لیتے،چہرے اور سر پر ملتے،پسینہ مبارک کا کوئی قطرہ مل جاتا تو عطر کی طرح رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز کو زمین نگل جاتی تھی ۔یہ تو لفظوں میں تعبیریں ہیں،جو حسنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجمانی سے عاجز ودرماندہ ہیں ،خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سانچے میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھالا تھا،آپؐ کو بنانے کے بعد اس سانچے کو ہی توڑدیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدماجد کی وفات ہوچکی تھی ۔ پھر جب چھے سال کی عمر ہوئی تو والدہ نے بھی انتقال فرمایا اور پرورش ام ایمن اور دادا عبدالمطلب کے سپرد ہوئی ۔ مگر جب عمر مبارک آٹھ سال دو ماہ دس دن ہوئی تو ایک سو چالیس برس کی عمر پاکر داداعبدالمطلب کا بھی انتقال ہوگیا اور پرورش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے سپرد ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چند دن آپ کی والدہ ماجدہ نے دودھ پلایا ،پھرابولہب کی باندی ثوبیہ نے اور پھر مستقل طور پر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو یہ خدمت سپرد ہوئی ۔ آپ کو دو سال دودھ پلایا گیا اور اس عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں بہت کچھ برکتیں ظاہر ہوئیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑکپن میں بہترین اخلاق کا مجسمہ تھے۔اپنی کمائی سے گذربسر کرنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ بارہ سال کی عمر میں چچا ابو طالب شام کی طرف تجارتی سفر کے دوران اپنے ساتھ لے گئے ۔ راستے میں بحیرا راہب سے ملاقات ہوئی ، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتاب میں مذکور علامات اور نشانیوں کی مدد سے پہچان لیا اور واپس کرادیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس برس کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے تجارت کے وکیل ہوکر شام تشریف لے گئے جہاں ’’نسطورا‘‘ نامی راہب سے ملاقات ہوئی، جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی بشارت دی ۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گرمی کے وقت برابر سایہ ہوتا تھا ۔ بہت جلد تمام مال فروخت کرکے دوسرا مال لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ تشریف لائے ، جب یہ مال مکہ میں فروخت کیا گیا تو دو گنا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
سرکار دوجہاں ﷺکاپہلانکاح اوراولاد
سفرِ شام سے واپس آنے کے دو ماہ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا، جن کی عمر چالیس سال تھی اور بیوہ تھیں۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال دو ماہ دس دن تھی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تقریباً پچیس برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد زندہ رہیں ۔ چھے بچے ہوئے ،جن میں چار صاحب زادیاں(حضرت زینب،حضرت رقیہ،حضرت ام کلثوم اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنھنّ) اوردو صاحب زادے(حضرت قاسم اورحضرت عبداللہ رضی اللہ عنھما) شامل ہیں،صاحب زادوں کاتوبچپن میں انتقال ہوا،جب کہ صاحب زادیوں کے نکاح اوراولاد ہوئی،لیکن ان میں سے بھی صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نسب چلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتویں صاجب زادے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چار لڑکیاں اور لڑکا ’’ہند‘‘ جو پہلے شوہر سے تھا ،اپنے پیچھے چھوڑے۔رضی اللہ عنھاوارضاھا!