میڈیا ہائوسز کی بے باکیاں

حسب روایت اے ۔ آر ۔ وا ئی چینل کی نئی ڈرامہ سیریل خود پرست بھی دیگر ڈراموں کی طر ح اس میڈیا ہاؤس کے بے باک اور بے لگا م طرز عمل کی بھرپور عکاسی کرتے نظر آ تے ہیں ۔
ڈرامے کے مصنف “دادین شاہ شاید “شرمین عبید چنائے ” کے طرز تحریر سے بہت متاثر ہیں یا شاید یہ ڈرامہ نگاروں نے کامیابی کا کلیہ بنا لیا ہے کہ ایسے موضوعات پر ڈرامے بنائے جائیں جو کہ ہمارے معاشرے کے بدنما رستے ہوئے ناسور ہیں۔
ڈرامے کی کہانی بنیادی طور پر دو گھرانوں کے گرد گھومتی ہے ۔ جس میں سے ایک گھرانہ تو درمیانے طبقے کے عام سے افراد پر مشتمل ہے جن کی دو عدد نوجوان بیٹیاں انتہائی بے باک اور آزاد خیال ہیں جبکہ ان کی بیوہ ماں نہا یت لالچی عورت ہے اور بیٹیوں کی بے جا حمایت کر تی ہے جس کی وجہ سے دونوں لڑکیاں نہ تو گھر کے کام میں دلچسپی لیتی ہیں بلکہ اپنی دو عدد بھابیوں کے ساتھ نہایت بدتمیزی سے پیش آتی ہیں ۔ دن رات باہر گھومنا پھرنا ، بڑی بہن کا منگیتر کے ساتھ فلمیں دیکھنے جانا اور منگیتر کے دوست کے ساتھ بے تکلفی ۔ یہ سارے مناظر ہمارے معاشرے میں کسی طور پر قابل قبول نہیں ہیں ۔ یہ ماحول دکھا کر نوجوان نسل کو بے حیائی اور اپنے بڑوں سے بدتمیزی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے ۔ جبکہ دوسرا گھرانہ امیر ترین سُنار خاندان ہے ۔ گھر کی سربراہ “بخت آور” بیوہ ہے اور اس کے دو عدد بیٹے ماں کے اشاروں پر چلتے ہیں ۔
“بخت آور” کو نہایت سخت گیر اور مغرورعورت دکھا یا گیا ہے جو اپنی بہو کو بالکل بھی خا طر میں نہیں لاتی بلکہ نو کرانیوں کی طرح کا سلوک کرتی ہے اور اس کے بڑے بیٹے کو شراب نوشی کا عادی دکھایا ہے جو نشے کی حالت میں بیوی کو مارتا پیٹتا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال یہ دکھا ئی گئی کہ جب پہلے گھرانے کی بے باک لڑکی چھوٹے بیٹے سے شادی ہو کر اس گھر میں آتی ہے اسے ساس کے حکم پر جب برقعہ پہنایا جاتا ہے تو یہ منظر ایسے دکھا یا جا تا ہے کہ جیسے کوئی “سنگین ظلم “کیا جا رہا ہواور بہو بے چاری بہت ہی مظلوم ہو۔
اس ڈرامے میں باپردہ عورتوں کو چالاک اور مکار دکھا یا گیا ہے ۔ ایک رشتہ کروانے والی عورت با پردہ بھی ہے جو کہ نہایت لالچی ہے ۔ بخت آور جو کہ نہایت سختی سے پردہ پر عمل کرتی اور کرواتی ہے ۔” درود” اور “تفاسیر” کی محا فل میں بھی شرکت کرتی ہے مگر اسے بے نمازی اور جھوٹی تسبیحات پڑھنے والی منافق عورت دکھا یا گیا ہے ۔
پورے ڈرامے میں بے باک ، منہ پھٹ اور بے حیائی کا پیکر لڑکی کو مظلوم اور معصوم پیش کیا گیا ہے کیونکہ مصنف کے خیا ل میں یہ لڑکی منافقت نہیں کرتی جبکہ باپردہ اور با حجاب خواتین کا کردار نہایت گھناؤنا دکھا یا گیا ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے مصنف کو درود اور تفاسیر میں شرکت کرنے والی کو ن سی ایسی نیک خاتون ملی جس سے متاثر ہو کر یہ ڈرامہ تحریر کیا گیا ہے؟
میرا دعویٰ ہے کہ ہمار ے معاشرے میں بے شک بخت آور جیسی سخت دل ساس موجود ہو ں گی مگر قر آن کی تفسیر میں شرکت کرنے والی ایک بھی خا تون ایسے کردار کی حامل نہ ہو گی کیونکہ قر آن پاک کا اعجاز ہے کہ وہ دلوں پر اثر ضرور کرتا ہے اور قر آن پاک کا علم حاصل کرنے والے کی شخصیت پر ضرور نکھار کر لے کر آتا ہے ۔
لیکن چونکہ اے ۔ آر ۔ وائی چینل کا یہ مشن نظر آ تا ہے کہ وہ نئی نسل کو دین سے دور کرکے ہی دم لیں گے لہٰذا ایک کے بعد ایک وہ اسی نو عیت کے ڈرامے نشر کر رہے ہیں ۔
موجودہ دور میں جبکہ مغربی تہذیب کی یلغار ہے اور نوجوان نسل بہت تیزی سے اس سے متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ہمارا قومی اور دینی فریضہ ہے کہ ہم ایسے ڈرامے پیش کریں کہ جنہیں دیکھ کر نو جوان نسل حیا اور حجاب کو اپنا فخر سمجھیں ۔
ساری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا سب سے زیادہ موثر اوراور ذہنوں پر اثر انداز ہونے والا ذریعہ ہے ۔ اس میڈیا کے بڑے کینوس پر دکھائے جانے والے مواد کو لوگ مستند سمجھتے ہیں ۔
برائے مہربانی “پیمرا” اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اور اپنی شق نمبر 3نقطہ ای اور نقطہ نمبر آر کے تحت فوری طور سے اس ڈرامے کا نوٹس لیں اور تمام چینل مالکان کو ہدا یات جاری کریں کہ وہ اپنے ڈرامے بنائیں جن میں ہماری مشرقی روا یات اور اسلامی شعار کی جھلک نظر آتی ہو اور ایک محب وطن شہری اور امت محمدیہ ؐ کا سچا نمائندہ ہونے کا ثبوت دیں ۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہترین انداز اور بالکل صحیح تجزیہ۔۔۔واقعی ایسے ڈرامے نئ نسل کی دھن سازی کر رہے ہیں۔ ہمیں کسی بھی طرح یہ سب روکنا ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں