معلومات (سبق) کی پیش کش(Presentation of Knowledge)؛۔تعلیمی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دلکش اور دل پذیر انداز میں معلومات کو پیش کرنے کے فن سے واقف اساتذہ ہی موثر تدریس اور بہتر اکتساب فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔تدریس ایک معمولی کام نہیں بلکہ تنظیم و ترتیب ،محنت شاقہ ،سنجیدہ غور و فکر کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ کمرۂ جماعت میں استادیک عالم ،فاضل شخص کی صورت میں داخل ہوتا ہے اور معلومات کو بغیر کسی تنظیم و ترتیب اور منصوبہ بندی کے روایتی اندا ز میں منتقل کرنے میں جٹ جاتا ہے۔ دوران تدریس طلبہ پر اپنی علمیت کا سکہ جمانے کی سعی و کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ بچے بے بسی سے استاد کی علم و فضیلت کی اس بے موسم اور غیر متوقع بارش سے سہم جاتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھائے جانے والے سبق کو بے دلی سے (passively)سننے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ۔افتادگی، بے دلی اور بوجھ پن کے ساتھ وہ معلومات کو اپنی بیاضوں (نوٹ بکس) میں تحریر کر نے لگ جاتے ہیں۔،تحریر کردہ نوٹس کو رٹّہ لگاکر ، امتحان گاہ یا پھر کمرۂ جماعت میں لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب یہ سب ہونے لگے تب ہم کیسے ایک فطری تعلیمی عمل کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس سے بچوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتااوربچوں میں سطحی پن بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ معلومات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور بہت ہی قلیل مدت میں وہ بچوں کے ذہن سے محو بھی ہوجاتے ہیں۔اس طور سے فراہم کردہ تمامتر معلومات کو طلبہ یاد نہیں رکھ پاتے ، جس کی وجہ سے وہ ان معلومات کی شناخت ،اطلاق اور استعمال سے بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے کبھی بھی اس طریقہ تدریسکو اعتبار کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔کئی مرتبہ اساتذہ اپنے مضمون اور موضوع پر عبور و دسترس کے باوجودعامیانہ اور غیر موثر طریقہ سے معلومات کی پیش کشی کی وجہ سے دلچسپ اکتسابی فضاء پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ فن تدریس اساتذہ سے کمرۂ جماعت میں اپنے معلومات کی پیش کشی کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اساتذہ مناسب اور منظم طریقوں کو برؤے کار لاتے ہوئے معلومات کی منتقلی کو یقینی بنائیں تاکہ بامقصد اور کارآمد اکتساب کو پروان چڑھایا جاسکے۔آج کے تصنع اور ریاکاری سے پر سماج نے جہاں طلبہ کو تن آسان ،سہل پسند اور غفلت کا خوگر بنادیا ہے وہیں اساتذہ کی ذمہ داریاں اور پیشہ وارانہ تقاضوں کوپہلے سے کئی زیادہ بڑھا بھی دیا ہے۔ماہر تعلیم ہربرٹ اسپنسر نے سبق کی منصوبہ بندی میں معلومات کی پیش کش (Presentation of Knowledge)کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ معلومات کی پیش کشی کے اثرات کو درس و تدریس اور اکتساب پر واضح طور پر محسو س کیا جاسکتا ہے۔ مضبوط و مستحکم اکتساب کی بنیادیں معلومات کی پیش کش پر تعمیر کی جاتی ہیں۔طلبہ میں پھیلی سستی ،بے فکری اور عدم توجہ کی وجہ سے ان کا مستقبل تبا ہ وتاریک ہو رہا ہے۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں طریقہ تدریس کو دلچسپ و موثر بنا تے ہوئے اساتذہ، طلبہ کی صلاحیتوں کوپروان چڑھا نے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ذیل میں صراحت کردہ رہنمایانہ خطوط پر عمل آور کے ذریعے اساتذہ معلومات کی پیش کشی میں اصلاح و ترمیم کے ذریعے سبق کی پیش کش کو مزید دلچسپ اور مفید بنا سکتے ہیں۔
(1)فن تدریس کا سب سے پہلا اصول پڑھانے سے پہلے طلبہ کو پڑھنے کے لئے آمادہ(تیار) کرنا ہے۔سبق کی تدریس سے قبل بچوں میں سیکھنے کا جذبہ ،شوق و ذوق پیدا کیا جائے۔ شوق و ذوق کی بیداری اور محرکے کے بغیر یہ کام انجام دینا بہت ہی مشکل ہے۔بچوں میں محرکہ پیدا کرنے میں سابقہ معلومات کا اعادہ بے حد کارگرہو تا ہے۔سبق یا معلومات کی پیش کش کا آغاز حوصلہ افزا ء سوالات، دلچسپ سرگرمی یاسابقہ معلومات کے اعادہ سے انجام دیں۔یہ طرزعمل سابقہ معلومات اور نئی معلومات میں ایک تسلسل پیدا کرتے ہوئے سبق و معلومات کی تفہیم کو آسان بنا نے میں معاون ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے ذریعے طلبا نئی معلومات کو بہت جلد قبول کر پاتے ہیں۔اساتذہ معلومات کی پیش کش میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ نئے معلومات کی ترسیل سے قبل طلبہ کی سابقہ معلومات سے مکمل طور پر آگہی حاصل کریں۔پچھلی جماعتوں میں پیش کیئے گئے معلومات اور مفروضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے معلومات پیش کریں۔ہربرٹ کی نظر میں سبق کو موثر بنانے کے لئے سبق کی موثر تیار ی ضروری ہے۔اگر استاد سبق پڑھنے کی موثرتیاری کرئے گا تبھی طلبہ میں سبق پڑھنے کا شوق اور محرکہ پیدا ہوگا۔ہربرٹ نے بچوں کی سابقہ معلومات سے سبق اور تدریس کو جوڑنے پر بہت زور دیا ہے۔وہ بچوں کی سابقہ معلومات پر سبق کی بنیاد رکھنے کا موئید نظر آتا ہے۔ میرا تدریسی تجربہ بھی اساتذہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تدریس کو مفید اور موثر بنانے کے لئے معلومات پیشکرنے کا آغاز طلبہ کی سابقہ معلومات سے کریں۔اساتذہ مناسب طریقے سے سابقہ معلومات کو پڑھائے جانے والے مواد سے مربوط کردیں تاکہ طلبہ کو نفس مضمون کی تفہیم میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو۔
(2)معلومات کی پیش کش، کو موثر بنانے میں طلبہ کے نفسیاتی تقاضوں اور ذہنی استعداد کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔معلومات کی وضاحت اور تفہیم ،طلبہ کی علمی سطح کو مدنظر رکھ کر کی جائے تاکہ وہ بغیر کسی الجھن اور دقت کے ذہنی طور پر معلومات کو قبول کر سکیں۔ سوالات کے ذریعے طلبہ کی علمی سطح کی جانچ اور معیار کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے معلومات کی پیش کشی کو ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی لیاقت اور قابلیت میں قابل قدر اضافہ ہوسکے۔مختصراً اس بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ’’طلبہ کی ذہنی بالیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ معلومات پیش کرنے کے فرائض انجام دیں۔‘‘
(3)اگر بعض وجوہات کی بناء طلبہ کسی مضمون کی مبادی معلومات ،)بنیادی معلومات Basic knowlege) نہ سکھیں ہوں تب ان کو اس موضوع کی مزید)آگے کی ، اعلیadvance Knowledge (معلومات فراہم کرنا بے فیض اور وقت کا زیا ں ہوتا ہے۔بنیادی معلومات کے بغیر اعلی معلومات پیش کرنا بے معنی ہوتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی اور تیزی اس وقت دیکھنے میں آتے ہے جب ان کو کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات کا علم ہوتا ہے یاپھر اعلی معلومات کی پیش کشی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کردئیے جاتے ہیں۔اگر طلبہ کی بنیادی معلومات اور ان کی علمی سطح کا ادراک کئیے بغیر تدریسی فرائض انجام دیئے جائیں گے تو یہ ناقص تدریس ہی کہلائی گی۔ اعلی معلومات کی پیش کشی کے دوران استاد کو اس بات کا علم ضروری ہے کہ پیش کردہ معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے ہم آہنگ اور ان کے معیار کے مطابقہیں۔ اگر طلبہ کسی مخصوص موضوع و مضمون کی مبادیا ت سے نا واقف ہوں تب استاد اعلی معلومات کی فراہمی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کرے تاکہ طلبہ میں نئے معلومات کو حاصل کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہوسکے۔
(4)معلومات کی تفہیم و وضاحت کے دوران معروف)معلوم Known)سے غیر معروف)نامعلوم (Unknown کارشتہ جوڑیں۔معروف معلومات سے غیر معروف کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے اساتذہ طلبہ کو جذباتی اور ذہنی طور پر اکتساب کے لئے ابھارسکتے ہیں۔ معلومات کی پیش کش کے وقت اس بات کا خاص خیال ر ہے کہ پیش کی جانے والی معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے مربوط ہوں۔اگر سابقہ معلومات (معروف معلومات) پیش کیئے جانے والے معلومات (نامعلوم معلومات)میں ربط ہوگا تب بچے نئی معلومات آسانی سے سیکھیں گے۔معلوم حقائق کے بل پر غیر معروف حقائق کو آسانی سے سیکھاجا سکتا ہے۔
(5)اساتذہ کو ا درسی کتاب( جو طلبہ کی ضروریات کی تکمیل کی متحمل نہ ہو ) پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایک معرو ف حقیقت ہے کہ طلبہ کو استاد پڑھتا ہے نا کہ درسی کتاب۔اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیگر تعلیمی وسائل، ٹولس(تدریسی معاون اشیاء)اور دیگر درسی کتابوں کا بھر پور استعمال کریں تاکہ پریزنٹیشن(پیش کش ) کو موثر بنایا جاسکے۔ سبق کی تدریس ہو یا معلومات کی پیش کش استاد اور طالب علم دونوں کی شراکت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ بشب مویشو(Bishop Moisshou)کی کتاب ثانوی درجات کی تدریس سے ایک سطر بیان کرنا میں بے حد ضروری تصور کرتا ہوں تاکہ اساتذہ کو دروان درس و تدریس کوئی شک و شبہ نہ رہے۔”Stduent is the centre of the whole educational process, he is the life of the teachers effort.”اس قول کی روشنی میں اساتذہ درسی کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے علم کی منتقلی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کریں۔ استاد کتنا پڑھا چکاہے یہ بات میری نظر میں اہمیت کی حامل نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک بچوں نے کتنا سیکھا یہ بات بہت اہم ہے۔نصاب (syallabus)کی تکمیل کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اوراق پلٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ درسی کتاب میں پوشیدہ علوم کو طالب علم نے کتنا سیکھا یہ بہت اہمیت والی بات ہے۔سبق کی تدریس میں اساتذہ صرف درسی کتب پر اکتفاء نہ کریں اور درسی کتب کی صحت اور معیار پر مکمل اعتبار نہ کریں ۔اپنے علم اور تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے تدریسی فرائض انجام دیں۔
(6) منظم تدریس اور پر کیف اکتساب کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب مثالوں اور وضاحتوں سے کام لیں۔تدریسی مرحلوں میں منطقی ترتیبکو ملحوظ رکھیں۔روزانہ کی اساس پر سبق کی منصوبہ بندی کریں۔منصوبہ بندی کے دوران استاد روزانہ کے اسباق کی منصوبہ بندی کو پورے نصاب سے مربوط وہم آہنگ رکھے تاکہ نصاب کے مقاصد کو باآسانی حاصل کیاجاسکے۔ماہر تعلیم مائیکل کے مطابقکسی مخصوص دن،ایک خاص مقررہ وقت پر سلسلہ وار اکتسابی تجربات کو سبقکہتے ہیں۔”A lesson may be defined as a series of learning experiences which occur in a single block of time on a particular day.”موثر پیش کش کے لئے اساتذہ کا تعلیمی مواد ، تدریسی معاون اشیاء،تدریسی سرگرمیوں اور دیگر تعلیمی وسائل سے باخبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک باخبر استاد ہی ایک باشعور معاشرہ تعمیرکر سکتا ہے۔
(7)اساتذہ تفہیم ،تشریح اوروضاحتوں کے بیچ طلبہ کو مختصر وقفہ فراہم کریں تاکہ وہ غور و فکر کر سکیں، اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، اپنے شکوک و شہبات کے ازالہ کے لئے سوالات کر سکیں۔ تفہیم و تشریح کے دوران مختصر وقفہ طلبہ کے لئے سود مند ہوتا ہے۔یہ مختصر سا وقفہجہاں طلبہ کو افہام و تفہیم کے عمل میں ایک فعال کردار اداکرنیپر مائل کرتا ہے وہیں اساتذہ کو بھی آرام و استراحت کا موقعفراہم کر دیتا ہے۔
(8)وضاحت ،تفہیم و تشریح کے لئے استعمال کردہ زبان طلبہ کی معیار کے مطابق ہونی چاہیئے اور اس کے برموقع و برمحل استعمال کے ہنر سے استاد کی آشنائی ضروری ہوتی ہے۔ اساتذہ اہم نکات کی تفہیم کے لئے الفاظ و جملوں پر زور دینے اور مخصوص اشاروں (gestures)کے استعمال سے ہرگز گریز نہ کریں۔
(9)معلومات کی پیش کش کے دوران طلبہ کی جانب سے کیئے جانے والے سوالات کا احیتاط سے سامنا کریں۔طلبہ کے سوالا ت سے بدمزہ اور غصہ ہونے کے بجائے خوش گواری سے پیش آئیں اور سوالات کو تدریس میں ایک موثر وسیلہ کے طور پر استعمال کریں۔
(10)اہم نکات کی مناسب اور وضعی تکرار اہم معلومات کے تعین میں مددگار ہوتی ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہو وضاحتی اور تفہیمی خلاصہ پیش کریں۔
(11)تفہیم و وضاحت کے لئے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو تدریسی معاون اشیاء کا استعمال کریں۔تدریسی معاون اشیاء (ٹیچنگ ایڈس) کا استعمال طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کو پروان چڑھانے کے ساتھ مشکل تصورات کو عام فہم اور آسان بنانا کر پیش کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(12)سبق کے آخر میں طلبہ کی جانچ اور اعادہ سے ان کے اکتساب کی سطح کا علم ہوتاہے ۔پریز نٹیشن (پیش کش ) کے اختتام پر جانچ اور اعادہ سے اساتذہ کی تدریسی تاثیر اور جامعیت کا بھی اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے اساتذہ اپنے ہر پریزنٹیشن کے اختتام پر جانچ اور اعادہ (Evaluation @ Recapitulation)سے ضرور کام لیں۔
(13)سبق کا آغاز جس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح سبق کا اختتام بھی اہم ہوتا ہے۔ بہتر اختتامیہ طلبہ کے ذہنوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقش بنادیتا ہے۔سبق کے اختتام پر اساتذہ تھوڑا تجسس باقی رکھیں تاکہ طلبہ میں خود اکتسابی ،تحقیق اور جستجو کی کیفیت پیدا ہو سکے۔اختتام پر کوئی ایسا پہلو نا تمام چھوڑ دیں جس سے طلبہ خود کو تشنہ کام محسوس کر نے لگے ۔یہی تشنگی طلبہ کو تحقیق اور جستجو کی جانب مائلرکھے گی۔ طلبہ میں خوداعتمادی کی کیفیت پروان چڑھے گی ،وہ آزاد اور خود کار اکتساب کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔
کمرۂ جماعت (کلاس روم) میں اساتذہ بغیر کسی منظّم منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے اسباق اور نصاب کی تکمیل میں مصروف رہتیہیں۔اسباق و نصاب کی تکمیل کے دوران وہ اکثربھول جاتے ہیں کہ جو معلومات وہ طلبہ کو فراہم کر رہے ہیں کیا طلبہ کے ذہن انھیں جذب بھی کر پا رہے ہیں یا نہیں۔سبق کی تدریس اورمعلومات کو پیش کرنے کے فن (تکنیک) سے اساتذہ کا آراستہ ہونا بے حدضروری ہے۔استاد خواہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو اگر وہ معلومات اور سبق کی پیش کش کے فن سے نابلد ہوتب وہ طلبہ میں اکتسابی گراوٹ اور بیزارگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی کامیابی کا انحصار خواہ وہ کوئی بھی مضمون ہواساتذہ کی معلومات (سبق) کی پیش کش پر ہوتا ہے۔سبق طلبہ کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اگر استاد اس کو دلچسپ اور دل پذیر بناکر پیش کرے۔پیش کش جس قدر موثرہوگی اکتساب کا معیار بھی اتنا ہی بلند و ارفع ہوگا۔تدریس میں تاثیر اور اکتساب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تدریس کے فنی اصولوں پر اساتذہ کو کاربند ہونے کی سخت ضرورت ہے۔جب اساتذہ فنی اصولوں کی باریکیوں کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تب درس و تدریس ان کے لئے نہایت سہل اور دلچسپ سرگرمی بن جائے گی۔اساتذہ یہ بات اپنی ذہنوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیں کہ درس و تدریس صرف پڑھانے کا نہیں بلکہ پڑھنے کا بھی نام ہے۔(جاری ہے)
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔