عافیہ تجھے سلام

امریکا میں قید ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی جانب سے وزیر اعظم عمرا ن خان کو لکھے گئے خط کے بعد حکومت نے ان کی رہائی کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ نے چند روز قبل پاکستانی قونصل جنرل سے ملاقات میں وزیر اعظم کے نام ایک خط ان کے حوالے کیا تھا جس میں انہوں اپنی قید کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کپتان سے رہائی دلانے کا مطا لبہ کیا تھا اوران کی تعریف بھی کی تھی ۔اس خط کے بعد قوم کو یہ خوشخبری ملی ہے کہ امریکی حکومت نے ڈاکٹرعافیہ کی رہائی سے متعلق نظرثانی کی یقین دہا نی کرادی ہے۔یہ کپتان کی حکومت کی ان کاوشو کا ں کا نتیجہ ہے جو انہو ں نے اپنے دور اقتدار میں آنے کے ساتھ شروع کی تھیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے دورے پر آنے والی امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران وزیر خارجہ نے عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت عافیہ صدیقی کے معاملے میں بنیادی انسانی حقوق کو ضرور مدنظر رکھے،وزیر خارجہ نے عافیہ صدیقی کو امریکی جیل میں انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنائے جانے کے معاملے پربھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔اس سے قبل بھی شاہ محمود قریشی امریکی دورے میں امریکی حکام سے اس سلسلے میں بات چیت کر چکے تھے ۔پاکستانی دفتر خارجہ نے معاملے کو امریکا کے ساتھ اٹھائے جانے اور امریکا کی جانب سے اس پرنظر ثانی کی تصدیق کر دی ہے۔
قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہا ئی کا مطالبہ دیرینہ تھا ،امریکا کی پاکستان کی جانب سے رہائی کی درخواست پر امید ہوچلی ہے کہ و جلد رہا ہونے والی ہیں ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدانہوں نے کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی،اس کے بعد بوسٹن ٹیکساس میں جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں ،پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میں علمائی (.Ph.D) کی سند حاصل کی۔2002 میں پاکستان واپس آئیں، مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے امریکا ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلے میں دورہ پر گئیں۔ اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کیلئے ڈاک کا ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003 میں کراچی آ گئیں۔امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے شک ظاہر کیا کہ ڈاک کا یہ ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔صورتحال سے وہ خوف کا شکار ہوئیں۔ 30 مارچ 2003کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے سے غائب ہو گئیں بعدمیں یہ خبریں سامنے آئی کہ انہیں کو امریکیوں نے اغوا کر لیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور بڑے بچہ کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ایک ماہ تھی۔ یہ سب اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دور میں ہوا،مگر معاملہ میڈیا میں آنے کے باوجود واضح نہ ہو سکا ۔
ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ صحیح معنوں میں اس وقت سامنے آیا جب برطانوی صحافی ایوان ریڈلے جو خود طالبان کی قید سے رہا ہوکر آئی تھیں نے پاکستان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایک پاکستانی خاتون افغانستان کی بگرام ایئر بیس پرجیل میں قید ہے جس کی خوفناک چیخیں کسی مسیحاکو مدد کیلئے پکار رہی ہیں ،انہوں نے بتایاتھا کہ اس خاتون کا نام ڈاکٹرعافیہ صدیقی ہے اور اس قیدی نمبر 650ہے۔ایوا ن ریڈلے نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے انسانیت سوز سلوک کا بھی ذکرکیا۔یہ انکشاف تما م پاکستانیوں کیلئے ایک افسوسناک پیغام تھا ۔اس واقعہ کے بعد پورے ملک میں ایک فضا بنی اورڈاکٹر عافیہ کا ایشو ایک اہم ایشو بن گیا ۔ملک بھر کے قلماکاروں ،صحافیوں اور دانشوروں نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملہ کو اپنا موضوع سخن بنایا اور کھل کر ایک ذہین ،باکردار ااوربے گناہ خاتون کی وکالت کی۔پاکستا ن ڈاکٹر عافیہ سے متعلق ہونے والی اس اہم ڈیولپمنٹ کے بعد جماعت اسلامی پاکستان نے اس ایشو کو عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے اٹھایا اور کراچی سمیت ملک بھر میں ریلیاں ،مظاہرے اور کانفرنسز منعقد کیں اور اپنے ہر جلسے اورفور م پر آواز بلند کی جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس نیٹ ورک نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے طویل تحریک چلائی اورڈاکٹر عافیہ کی والدہ ڈاکٹر عصمت اوربہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا حوصلہ بڑھایا ۔ہومن رائٹس نیٹ ورک اور جماعت اسلامی کی اس بڑی تحریک کے نتیجے میں ملک بھر میں عوام کو معلو ہوسکا کہ ڈاکٹر عافیہ بے گناہ ہے اوراسے رہا ہونا چاہیے ۔اس کے بعد ملک بھر کی سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے معاملہ کو سمجھااور اس پر اپنی آواز اٹھائی ۔مشرف اور اس کے بعد کئی حکومتیں گزر گئیں مگر کسی حکومت کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا سے بات چیت کرتی اورعافیہ کو رہائی دلاتی۔
امریکا نے ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ اپنی عدالت میں چلا یا اوراور متعدد بھونڈے الزامات کے تحت انہیں قید کی سزا سنادی گئی ،ان الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر اسلحہ تان کر حملہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ اس سزا کے خلاف پاکستان بھر میں مذمت کی گئی ۔ان کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی ۔ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے صبر آزما تحریک چلائی۔ سابقہ حکمرانوں تک اپنی بات پہنچائی لیکن شاہد امریکی غلام اسے رہاکرنے میں بے بس تھے ۔
وزیراعظم نے اپنے انتخابی جلسوں میں بھی ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کا وعدہ کیا تھا ۔اب وہ وقت آگیا جب اس سلسلے میں اہم ڈیولپمنٹ ہونے جارہی ہے ،کپتان حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق امریکا سے رابطہ کیا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی یہ کاوش رنگ لائے گی اورقوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان واپس آئیں گی ۔ہم اس موقع پر قوم کی اس عظیم اوربہادربیٹی کو سلام اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے بڑی بہادری اور حوصلے سے سب کچھ برداشت کیا ہے اورشرمندہ ہیں کہ ہماری سابقہ حکومتوں میں سے ایک حکومت میں انہیں گرفتار کیا گیا اور باقی حکومتوں نے ان کی رہائی کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔کپتان کی حکومت کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ عافیہ کہ معاملے پر قوم کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ہمیں امید ہے کہ قوم بیٹی جلد پاکستان میں ہوگی ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں