ملعونہ آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف مختلف مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے ان میں سب سے زیادہ مقبول جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاکستان رہی جسے عمران خان نے “چھوٹا سا طبقہ” کا لقب دیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی لیکن تحریک لبیک پاکستان پھر بھی ڈٹی رہی۔
ہمارے پیارے نبی اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله علیہ وسلم جو ہمارے آئیڈیل ہیں اور جنہیں دنیاکی تاریخ میں ایک عظیم شخصیت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ان کی شان میں گستاخی کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اسے برداشت کرے اور بس میں ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ان کی شخصیت ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
یہ بات تو ہم ہر جگہ پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر ہی بنا، پاکستان کا آئین قرآنِ پاک اور سنتِ رسول صلى الله علیہ وسلم کے مطابق ہے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر کام، ہر اقدام اور ہر عمل آئین کے برخلاف ہے۔
ملعونہ آسیہ مسیح کی بریت اور اس سے پہلے حلف نامہ میں ترمیم کے خلاف جس طرح تحریک لبیک پاکستان اور اس کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے گزشتہ اور حالیہ حکومتوں کی ناک میں دم کیا اور ان کو سبق سکھایا اس کی مثال نہیں ملتی، اس کا کریڈٹ ان کو ہر صورت ملنا چاہیے۔
جس طرح ہم اپنے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے تو یہ کیسے کر ممکن ہے کہ ہم ان اقدام اور عوامل کوبھی برداشت کریں جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل خلاف ہیں جن کی کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت مبارک پر پہرا دینا ہم سب کا فرض ہے لیکن ہمارا فرض یہ بھی ہے کہ ہم ان تمام عوامل کے خلاف بھی آواز اٹھائیں جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل خلاف ہیں، آخر یہ بھی ہمارا فرض ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے جو بولڈ اسٹیپ حکومت کے خلاف لیا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس کے لیے ارادے نیک اور حوصلے بلند ہونے چاہییں ۔ دوسری جانب عوام کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ آسیہ مسیح کی بریت کا فیصلہ آتے ہی پوری قوم نے پاکستان میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دینا شروع کردیے۔ ان عوام میں صرف تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نہیں تھے بلکہ ہر وہ پاکستانی تھا جو سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
یہاں بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ ہمارے عوام بہت دکھی اور ستائے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھانا چا ہتے ہیں لیکن پلیٹ فارم کی تلاش ہوتی ہے جیسے آسیہ ملعونہ کی بریت کے بعد کی مثال لے لیں کہ کسی طرح عوام نے تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے پورے پاکستان میں سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دیا۔
یہاں میں چند ایسے امورپر علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی توجہ مرکوزکراناچاہتا ہوں جو جو تعلیماتِ رسولؐ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہیں:
سودی نظام:
سودی نظام نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور دنیا کا پورا نظام ہی سود پر کھڑا ہے۔ پاکستان بھی اس کی زد میں ہے، پاکستان کے تقریباً ادارے سود کی اینٹوں پر ہی کھڑے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں خدا کی رحمتوں اور نعمتوں کا نزول نہیں ہو رہا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 278 اور 279 میں فرماتا ہے “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مؤمن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اُسےچھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے”۔ تمام مذہبی جماعتوں کو سودی نظام کے خاتمے کے لیے یک جاں ہونا پڑے گا اور اللہ اور اس کے رسول سے جاری اس جنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
فحاشی:
پاکستان میں جس نوعیت اور مقاصد کے لیے ڈرامے، فلمیں اور اشتہارات بنائے جاتے ہیں اس کا ایک مقصد صرف عورت کی نام نہاد آزادی کو پروان چڑھانا ہے۔ پاکستان میں ایسے ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائے اور دیکھائے جاتے ہیں جس سے ہماری خواتین کے دماغوں میں نام نہاد آزادی کے تصورات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بہت باریکی سے چست لباس کے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے اور ایسی بداخلاقی سکھائی جارہی ہے کہ گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے پورا خاندانی نظام تباہ ہوتا جارہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھارتی چینلز پر تو پابندی لگا دی ہے لیکن شاہد ان کو پاکستانی ڈراموں اور فلموں سے کوئی منفی تاثر پھیلتا نظر نہیں آرہا۔ مذہبی جماعتیں اگر اس فحاش کلچر کیخلاف آواز اٹھائیں تو ہمارے خاندانی نظام کو مزید تبائی سے بچایا جاسکتا ہے۔
تھرپارکر میں غذائی قلت:
گزشتہ ایک دہائی سے تھر کے عوام خشک سالی اور غذائی قلت کا شکار ہیں، کئی بچےاور جانور غذائی قلت اور خشک سالی کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ناجانے مزید کتنے ہونے ہیں، اللہ رحم فرمائے، آمین۔ یہ اموات موجودہ دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے پاس طرح طرح کے سیمینار اور فیسٹیول پر اڑا کے لیے بےتحاشہ مالی وسائل ہیں لیکن تھر کی تڑپتی اور مرتی عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک ہوکر حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا، آخر یہ بھی تو دین کی خدمت ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے، “جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی”۔ القرآن (۵: ۲۳)
مہنگائی:
آج کل مہنگائی عروج پر ہے، موجودہ حکومت نے مہنگائی کے طوفان کو بےلگام کرکے ناجانے کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے ہیں۔ ایک عام شخص کی آمدنی وہیں کی وہیں ہے اور اخراجات بڑ ھ گئے ہیں جس کی وجہ سے دیگر مسائل نے بھی جنم لینا شروع کردیا ہے۔ کئی خاندان فاقہ کشی کی نظر ہوچکے ہیں، لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے بچوں سمیت خودکشی پر اتر آئے ہیں جو کہ حرام ہے۔ دینی جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ کئی خاندان فاقہ کشی سے بچ سکیں۔
یہ تو ہیں چند مسائل جو بصریحاً تعلیماتِ نبویؐ کے خلاف ہیں اور ان کے لیے آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ اگر ان مسائل کو ابھی سے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ان پر قابو پانا اور مشکل ہو جائے گا۔
انگریزی کا ایک مشہور محاورہ ہے ” Nip the evil in the bud” اس کی تشریح یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی برائی کوابتدا ہی میں ختم کردینا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ معاشرے میں اپنے پنجے گاڑ لے۔