یہ محض سوئے اتفاق ہے یا اس میں بھی کوئی پیغام ہے کہ تب بھی تاریخ 31 اکتوبر ہی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخانہ کتاب شائع کرنے والے بدبخت پبلشرراج پال کو واصل جہنم کرنے کے جرم میں غازی علم الدین شہید کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور آج جب شان رسالت مآبؐ میں گستاخی کی مرتکب ملعونہ آسیہ بیبی کو جیل سے رہا کیا گیا تو تاریخ 31 اکتوبر ہی تھی۔ دونوں واقعات میں اگرچہ نوے برس کا فاصلہ ہے اور فرق یہ بھی نمایاں ہے کہ تب حکمران غیر ملکی اور کافر تھے، جب کہ آج حکمران بھی مسلمان ہیں اور جج بھی مسلمان ، مگر حالات کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں ۔ آج بھی ہم کفار ہی کی حکمرانی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
اللہ تعالی نے قرآن کی سورۃ منافقون میں آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منافقین کہتے ہیں کہ ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو ، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطی جھوٹے ہیں۔” ( سورۃ المنافقون ، آیت نمبر1) یہ فرمان الٰہی موجودہ دور کے طاقتور بالخصوص حکمراں طبقات پر صادق آتا ہے۔ یہ لوگ اپنے عوام کے سامنے تو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ، اطاعت ، اور وفاداری کا اعلان کرتے ہیں ، لیکن دنیا کی محبت نے ان کو عالمی طاقتوں کا تابعدار اور وفادار بنا دیا ہے ۔ ۔ان طاقتوں کی اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ دشمنی روز اول سے ظاہر ہے ۔ آئین ، قانون اور رواداری وغیرہ کے سبق پڑھانے والے ہمارے سیکولر دانشوروں کو یاد ہونا چاہیے کہ غازی علم الدین شہید کی وکالت کے لیے اس خطہ کے سب سے بڑے قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح خود عدالت میں حاضر ہوتے رہے ، اور اس وقت کے سب سے بڑے دانشور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے غازی علم الدین کی شہادت پر ان الفاظ میں تاسف کا اظہار کیا اور علم الدین شہید کو خراج تحسین پیش کیا کہ ہم نے ساری عمر علم و دانش کی باتیں کرتے اور فلسفہ پڑھتے پڑھاتے گزار دی ، جب کہ تر کھانوں ( بڑھئیوں) کا ایک لڑکا عشق رسولؐ میں ہم سب پر بازی لے گیا ۔۔
مسلمان بےعمل ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے ، وہ گناہ گار ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتا۔ ماضی میں قوموں پر اللہ کے عذاب کا اصل سبب اللہ کے نبیوں کی تکذیب اور توہین ہے۔ محمدؐ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ یعنی وہ پوری انسانیت کے لیے اس کائنات کے مالک و حاکم کے مستند نمائندے ہیں۔ عالم کفر کے حقیقی حکمراں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں قرآن اللہ کا کلام اور محمدؐ اللہ کے آخری رسول ہیں ، عالم اسلام کی رائے عامہ کا جائزہ لینے کے باوجود اپنے آلہ کار حکمران طبقات کو مجبور کررہے ہیں کہ امت مسلمہ “آزادی اظہار” اور “رواداری” کے نام پر توہین رسالت جیسی گھٹیا وارداتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ لیکن کوئی گناہ گار اور بےعمل مسلمان بھی اس خباثت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ آسیہ کی رہائی انصاف کا خون ہے اور امت مسلمہ کے منہ پر طمانچہ ۔ عدالت عظمیٰ کے موجودہ متنازع فیصلے میں یقیناً اللہ کی طرف سے کوئی نشانی ہے کے اس کے لیے اس دن کا انتخاب ہوا ہے یعنی 31 اکتوبر۔ اس دن جناب غازی علم الدین شہید نے حرمت رسولؐ کے لیے پھانسی کو قبول کیا تھا اس فرق کے ساتھ کہ اس وقت انگریزوں کی براہ راست حکومت تھی ، اب انگریزوں کے غلام پاکستان کے اوپر حکمران ہیں ۔ کیا اسلام کی محبت کے دعویدار حکمران طبقات کو اللہ کی عدالت میں پرسش کا کوئی خوف نہیں ہے ؟؟ پوپ بینی ڈٹ شش دہم نے توہین رسالتؐ کی تھی تو کراچی میں شاعروں ، ادیبوں کے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر جمیل الدین عالی نے ایک اہم بات کہی تھی ، انہوں نے کہا تھا کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا دفاع اتنی بڑی چیز ہے کہ اگر اس مسئلے پر عالمی جنگ بھی چھڑ جائے تو وہ معمولی بات ہوگی۔ اقبال نے بہت پہلے ہی ایک اہم پیغام امت مسلمہ کو دے دیا تھا۔ کہ
“اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے ، جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی”
عوام اپنا احتجاج اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک کہ ہمارے نبیؐ کے گستاخوں کو سزا نہ مل جائے باقی اللہ ہمارے ساتھ ہے اس آیت کے ساتھ کہ
“تمہاری طرف سے ہم ان کا مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں۔” ( الحجر 95:15)