تدریسی اصولوں کا موثراستعمال:۔تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد کا فن تدریس کے اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال استاد موضوع کو معیاری انداز میں طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی انداز میں نفس مضمون کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ،کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل، استاد کا موضوع سے متعلق اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلومات کے اعادہ و جائزہ کے علاوہ موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخصیت کو باکمال اور تدریس کو بااثر بنا سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعے اساتذہ مقاصد تعلیم کی جانب کامیاب پیش رفت کر سکتے ہیں۔ موثر تدریس اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اصولوں سے اساتذہ کیوں، کب اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی لائحہ عمل کی ترتیب اور منظم منصوبہ بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں، کب ، اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے علاوہ تدریسی باریکیوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے ۔ تدریسی اصولو ں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ موثر اور عملی تدریس کو ممکن بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس،نئے تعلیمی رجحانات ، تجزیہ و تنقید، مطالعہ و مشاہدہ ،شعور اور دلچسپی کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پرکاربند استا د معلم سے زیادہ، ایک رہنما اور رہبرکے فرائض انجام دیتاہے۔ جدید تعلیمینظریات کی روشنی میں استاد ایک مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسلامی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔
(1) ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میلان ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم، پائیدار اکتساب اور علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔
(2)درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت لازمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ،فروغ اور برقراری میں تعلیمی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب (Activity Based Teaching)کو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی ،شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب (Practical Learning)فروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں سرگرمیوں پر مبنی تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سرگرمیوں(activities)کو اپنی تدریس کا لازمی جزو بنا لیں۔
(3)دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تلاش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہلاتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چارٹ،نقشے،خاکے،تصاویر،قصے ،کہانیوں،دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
(4)اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے چاہیئے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مناسب لائحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب میں بہت معاون ہوتی ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔
(5)اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (Learning Diversities)کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت ، ذہانت ، جذباتیت، احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم میں دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خوش گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔
(6)موثر تدریس ،بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صلاحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار لائیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس اس اہم کام کی تکمیل میٖں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔
(7)سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط،نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا،معلومات زندگی کو عملی زندگی سے جوڑنا ہی علم ارتباط (principal of correlation)کہلاتا ہے۔علم ارتباط کو فن تدریس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کی بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلومات ،دانشوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور علم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محفوظ ہوجاتے ہیں بلکہ وقت ضرورت معلومات کو بازیاب (Retention and Retreival)کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
(8)تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ، بہتر سے بہتر طریقہ تدریس(Teaching methods)،تدریسی حکمت عملی(teaching strategies)،تعلیمی معاون اشیاء (Teadching aids)اور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ،طلبہ کی استعداد، اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔
(9)تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ،صحت مند رویوں ، عادات کی تشکیل و استحکام،نظم و ضبط(discipline) کا فروغ ،کردار سازی، زندگی میں معاون مہارتوں اور عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا ہے۔ اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار لائیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔
(10)اعادہ (Recapitulation)اور تعین قدر ،جانچ (Evaluation)کے ذریعے اکتساب کی ترقی اور تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر تدریس اور مستحکم اکتساب کے لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر) اور اعادہ (Recapitualation)کو لازما جگہ دیں۔مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و تعین قدر ہی اساتذہ کو اصلاحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصلاحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ،اکتسابی ، اخلاقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔
(11) طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہنی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔
(12) تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر اورعصری تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کیف ،پائیدار،موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے عین مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے نا واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صلاحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔
تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے بلکہ معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اسی طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تلاش کرنے کیعلاوہ اپنے تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ بات کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صلاحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے نفسیاتی ،معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کو ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ،کامیاب اور موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے استاد کا لائق ،قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔
90 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
ماشاءاللہ عمدہ معلومات سے لبریز حوصلہ افزا مضمون
اساتذہ کی تعلیم کے پروگراموں کی نظریاتی اور عملی اجزاء اور امور
ماشاءاللہ
ما شا اللہ زبردست
ماشا ءاللہ بہت خوب
What’s up everyone, it’s my first pay a quick visit at this web site, and article is genuinely fruitful for me, keep up posting these
articles or reviews.
This information is priceless. Where can I find out more?
Hello, everything is going well here and ofcourse every one is
sharing facts, that’s actually fine, keep up writing.
Tremendous things here. I am very glad to look your
post. Thank you a lot and I’m looking ahead to contact you.
Will you kindly drop me a mail?
great post, very informative. I wonder why the opposite specialists of this
sector do not understand this. You must proceed your writing.
I’m sure, you’ve a great readers’ base already!
Thanks a lot for sharing this with all people you actually understand what
you’re speaking approximately! Bookmarked.
Kindly additionally visit my web site =). We can have a
link change contract between us
I feel that is one of the such a lot significant info for me.
And i’m happy reading your article. However should statement on some common issues, The site style is perfect, the articles is actually great : D.
Good job, cheers
Hi, this weekend is fastidious designed for me,
because this moment i am reading this fantastic informative
paragraph here at my house.
Please let me know if you’re looking for a article writer for
your weblog. You have some really good articles and I think I would be a good asset.
If you ever want to take some of the load off, I’d
love to write some content for your blog in exchange for a link
back to mine. Please send me an e-mail if interested.
Cheers!
We stumbled over here from a different web page and
thought I might as well check things out. I like
what I see so now i am following you. Look forward to looking at your
web page for a second time.
Great blog you have here.. It’s difficult
to find high-quality writing like yours these days. I honestly appreciate individuals
like you! Take care!!
My brother recommended I might like this website.
He was entirely right. This post actually made my day.
You cann’t imagine just how much time I had spent
for this information! Thanks!
This design is steller! You obviously know how to keep a reader
amused. Between your wit and your videos, I was almost moved to start my own blog
(well, almost…HaHa!) Wonderful job. I really enjoyed what you had to say, and more than that, how you
presented it. Too cool!
naturally like your website however you need to check the spelling on several
of your posts. Several of them are rife with spelling
problems and I to find it very bothersome to inform the
reality on the other hand I’ll certainly come back
again.
I just like the valuable information you provide to your
articles. I will bookmark your weblog and check again here frequently.
I am moderately sure I’ll be told many new stuff proper here!
Good luck for the following!
Thanks to my father who informed me on the topic of this webpage, this weblog is genuinely awesome.
You’re so awesome! I don’t think I’ve truly read through
something like that before. So nice to find someone with genuine thoughts on this issue.
Really.. thanks for starting this up. This website is one thing that’s
needed on the internet, someone with a little originality!
I need to to thank you for this good read!! I certainly enjoyed every little bit of it.
I have you bookmarked to check out new stuff you post…
Hi there, I enjoy reading through your article. I like to
write a little comment to support you.
Nice weblog here! Additionally your web site loads
up very fast! What host are you using? Can I am getting your associate hyperlink to
your host? I wish my site loaded up as quickly as yours lol
Hello, I enjoy reading through your post. I wanted to write a little comment
to support you.
Thanks for the good writeup. It in truth used to be a leisure account
it. Glance complex to more brought agreeable from you!
However, how could we keep in touch?
I love your blog.. very nice colors & theme.
Did you design this website yourself or did you hire someone to do it
for you? Plz reply as I’m looking to construct my
own blog and would like to know where u got this from. thanks
Thank you a bunch for sharing this with all people you really recognise what you are speaking about!
Bookmarked. Kindly additionally consult with
my web site =). We will have a link trade arrangement among
us
I was curious if you ever thought of changing the structure of your
site? Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so people could connect with it better.
Youve got an awful lot of text for only having one or 2 pictures.
Maybe you could space it out better?
Pretty! This has been an incredibly wonderful article. Thanks for providing this info.
I would like to thank you for the efforts
you’ve put in writing this website. I am hoping to see the same high-grade content from you in the future as well.
In truth, your creative writing abilities has encouraged me to get my
own, personal blog now 😉
WOW just what I was searching for. Came here by searching for Sex Dating
I loved as much as you’ll receive carried out right here.
The sketch is attractive, your authored subject matter stylish.
nonetheless, you command get bought an edginess over that you wish be delivering the following.
unwell unquestionably come more formerly again since exactly the same
nearly a lot often inside case you shield this increase.
Hi! Someone in my Facebook group shared this website with us so I came to take
a look. I’m definitely loving the information. I’m book-marking and will be tweeting this to
my followers! Terrific blog and superb design.
What’s Taking place i’m new to this, I stumbled upon this I have found It positively helpful
and it has helped me out loads. I’m hoping to give a contribution & help other users like its aided me.
Great job.
Good post. I learn something new and challenging on websites I stumbleupon every
day. It’s always helpful to read articles from other writers and
practice something from their web sites.
My family members every time say that I am killing my time here at net, but I know
I am getting knowledge everyday by reading thes nice posts.
It’s awesome to go to see this web site and reading the views of all mates about this
article, while I am also eager of getting knowledge.
My partner and I stumbled over here coming from a different
web page and thought I should check things out.
I like what I see so i am just following you. Look forward to finding out about your web page repeatedly.
Hello fantastic website! Does running a blog such as this require a massive amount work?
I’ve virtually no expertise in coding however I had been hoping to start my own blog in the near future.
Anyways, if you have any suggestions or tips for new blog owners please share.
I know this is off subject however I simply had to ask.
Thanks!
Howdy! I know this is kind of off topic but I was wondering if you knew where I could locate a captcha plugin for my comment form?
I’m using the same blog platform as yours and I’m having trouble finding one?
Thanks a lot!
Ahaa, its nice dialogue about this article at this place at this website, I have read all that, so at this time me also commenting here.
Hello my friend! I wish to say that this article is amazing, great written and include almost all vital infos.
I’d like to look extra posts like this .
Does your blog have a contact page? I’m having problems locating
it but, I’d like to shoot you an e-mail. I’ve got some creative ideas
for your blog you might be interested in hearing.
Either way, great website and I look forward to
seeing it improve over time.
We are a group of volunteers and starting a new
scheme in our community. Your site provided us with valuable info to work on. You’ve
done an impressive job and our whole community will be grateful to you.
Its like you read my thoughts! You seem to grasp a lot about this, like you wrote the e book in it or something.
I feel that you could do with a few p.c. to force the message house a bit, but other than that, that is wonderful blog.
An excellent read. I’ll definitely be back.
Please let me know if you’re looking for a article author for your site.
You have some really great posts and I think I would be
a good asset. If you ever want to take some of the load
off, I’d absolutely love to write some content for your blog
in exchange for a link back to mine. Please blast me an email if interested.
Regards!
السّلام علیکم!
فاروق طاہر صاحب نے تدریس کے موجود اور مستقبل کے تقاضوں کو بری مہارت سے بیان کیا ہے ۔یہ تحریر واقعی ذہنوں
کو جھنجھوڑ نے والی ہے۔اور اساتذہ میں تحریک پیدا کرتی ہے کہ کیسے وہ خود کو تدریس کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔تا کہ وقت کے ساتھ چلتے ہوئے تدریس کے تقاضوں کو بطریقہ احسن سر انجام دے پائیں۔
دعا گو
نغمہ شاہین
Howdy just wanted to give you a quick heads up. The
words in your content seem to be running off the screen in Ie.
I’m not sure if this is a format issue or something to do with browser compatibility but I thought I’d post to let you know.
The design and style look great though! Hope you get the problem solved soon. Thanks
My blog post :: vpn special
I am not sure where you’re getting your info, but good topic.
I needs to spend some time learning more or understanding more.
Thanks for wonderful info I was looking for this information for my mission.
Also visit my blog :: vpn special
I every time spent my half an hour facebook vs eharmony to find love online read this webpage’s posts every day along with a cup of coffee.
You really make it seem so easy with your presentation but I find this matter to be really something which I think I would never understand.
It seems too complex and extremely broad for me.
I’m looking forward for your next post, I’ll try to get
the hang of it!
my web site – eharmony special coupon code 2024
Hmm it seems like your site ate my first comment (it was super long) so I guess I’ll just sum it up
what I wrote and say, I’m thoroughly enjoying your blog. I as well am an aspiring blog writer but I’m still new to the whole thing.
Do you have any points for beginner blog writers?
I’d definitely appreciate it.
My page – nordvpn special coupon code 2024
Does your blog have a contact page? I’m having trouble locating it but, I’d
like to shoot you an email. I’ve got some ideas for your blog
you might be interested in hearing. Either way, great site and I look forward to seeing it improve over time.
I’m learning so much from your blog.
Thanks for creating this helpful resource!
I’ll definitely be bookmarking this resource!
It’s remarlable to paay a visit ths web pazge and reading thhe
viewqs oof alll mats concerniing this post, whhile I am also eageer of gettig familiarity.
Helo There. I found your blog using msn. This iss a rewally well wrritten article.
I will bee sure to bokmark iit and come bback to
reawd more off your useful info. Thank for the post. I wwill certainbly return.
Howdy! Quifk question that’s compledtely off topic. Do you knopw hhow too maake yoiur ssite mohile friendly?
My weblog looks weird wen bowsing from myy iphone4.
I’m trying to find a temmplate oor plugn that might bee able tto correct thnis issue.
If you have any recommendations, please share. Thanks!
Wonderful write-up! I completely agree with your points.
Thanks for sharing
Very neat post. Want more.
Wow that was strange. I just wrote an really long comment but after Iclicked submit my comment didn’t appear. Grrrr… well I’m not writing all that over again. Anyway, just wanted to say wonderful blog!
hydroxychloroquine generic hydroxychloroquinegnr – plaquenil brand
That is a great tip especially to those fresh to the blogosphere. Short but very precise infoÖ Thank you for sharing this one. A must read post!
what does ivermectin treat ivermectin near me
It’s going to be end of mine day, except before finish I am reading this enormous piece of writing to increase my knowledge. erdal of sweden bromma matchc.teswomango.com/map6.php
Hi, this weekend is good in support of me, as this occasion i am reading this impressive informative paragraph here atmy residence.Here is my blog lose weight diet
Pretty section of content. I just stumbled upon your blog and in accession capital to assert that I getactually enjoyed account your blog posts. Anyway I will be subscribing to your augment and even I achievementyou access consistently quickly.
There’s certainly a lot to find out about this subject. I like all the points you’ve made.
Very good blog article.Really thank you! Want more.
Thanks-a-mundo for the blog article.Much thanks again.
Wow, great article post.Thanks Again. Cool.
Im thankful for the blog.Much thanks again. Keep writing.
wow, awesome post.Thanks Again. Really Cool.
I really like and appreciate your blog.Thanks Again. Awesome.
American Standard Telephone Hookスーパーコピー高品質安いスーパーコピー届く
Looking forward to reading more. Great blog post.Much thanks again. Keep writing.
I think this is a real great post.Really thank you! Fantastic.
Very good article.Really thank you!
Howdy! I’m at work browsing your blog from my new iphone 3gs!Just wanted to say I love reading through your blogand look forward to all your posts! Keep up the great work!
It as wonderful that you are getting thoughts from this paragraph as well as from our dialogue made here.
Very neat blog post. Really Great.
wow, awesome post.Thanks Again. Great.
Major thanks for the post. Will read on…
ivermectin goat dosage heartgard plus ivermectin pyrantel
It’s tough to occur by proficient individuals On this particular topic, but you seem such as you understand what you’re discussing! Many thanks orof.infoforwomen.be/map22.php lediga jobb bor??s
It¡¦s really a cool and useful piece of information. I¡¦m satisfied that you simply shared this helpful info with us. Please stay us up to date like this. Thanks for sharing.
magnificent points altogether, you simply gained a brand new reader.What could you suggest in regards to your put up thatyou made a few days ago? Any positive?