”یہ  وہ نگری ہے جہاں  انصاف  نہیں  ملتا“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت  اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کی ذات  مبارکہ دنیا کی ہر شے سے عزیز تر ہو اور ایمان کی تکمیل بھی اسی صورت ممکن ہے۔

٣١ اکتوبر غازی علم دین کی شہادت کے دن ملعونہ آسیہ کی رہائی  کا فیصلہ کوئی  حادثاتی عمل نہیں بلکہ یہ اس امر کی گواہی ہے امت مسلمہ کےدلوں میں خنجر گھونپنے والے دشمنان دین ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہیں ۔طرفہ تماشہ یہ ہےکہ ملک میں اٹھانوے فیصد ہونے کے باوجود  ہم اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو اپنی ہی عدالت سے سزا نہیں دلاسکے۔ ہم ستر سال گذرنے کے باوجود اپنے ملک میں ایسا قانون نہ بنا سکے کہ جس نے یہ حرکت کی اسے اسی وقت لٹکا دیا جائے ۔

جب ملک کے منصف بر وقت انصاف  نہیں دیتے تو ممتاز قادری جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور یہی عدالتیں اسے پھانسی پر چڑھا دیتی ہیں اور شاتم رسول کو رہائی مل جاتی ہے ۔

جس ملک میں اقلیت کواس قدر آزادئ اظہار کی اجازت ہو کہ کروڑوں لوگوں کی جان سے پیاری ہستی کی شان میں گستاخی کرنے پر بھی انھیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ رہا کردیا جائے اس ملک کے حکمرانوں اور عدالتوں کو اکثریت کے اظہار آزادی سے ڈرنا چاہیے ۔ پھر کسی کو اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی ممتاز قادری اٹھ کر کسی سلمان  تاثیر  کا قتل کردے۔

ہمارے ملک میں مغرب کی نقالی کا بڑا چلن ہے کاش کہ چیف  جسٹس  صاحب کو پتہ ہوتا کہ چند روز  قبل یورپین عدالت نے نبی صلی اللہ  علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے۔

 اعلی عدلیہ کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ اس دن کو تاریخی دن بنادیتے اور دنیا کو پیغام دیتے کہ اعلی عدلیہ صرف توہین عدالت ہی نہیں توہین رسالت بھی برداشت نہیں کر سکتی لیکن  چیف  جسٹس صاحب کے اس فیصلے نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم اکثریت  میں  ہوتے ہوئے بھی اپنے نبیﷺ کی عزت اور ناموس کی حفاظت نہ کرسکے۔

چیف جسٹس صاحب  آپ کے نزدیک دنیا کے پانی کی بہت اہمیت ہو اور جس کےلئے آپ کافی تگ و دو بھی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن آپ جس ملک میں منصف ہیں اس کی عوام کے نزدیک حوض کوثر کے پانی کی زیادہ اہمیت ہے کاش کہ آپ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ ہونے دیتے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں