لبرل انتہا پسندوں کا اصل چہرہ

وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں۔
وہ ایک ذہین، منجھی ہوئی،قابل اور بارہا انعام یافتہ مقرر ہیں، ملک گیر تقریری اور مباحث کے صحت مند مقابلوں کی شریک رہیں اور انعام یافتہ ہیں، انہیں اسی طرح کے ایک مقابلے میں مدعو کیا گیا اور بزور فرمائش مدعو کیا گیا سب کچھ ان کے متعلق جانتے ہوئے لیکن جب وہ مقررہ جگہ پانچ گھنٹے کا سفر کاٹ کر پہنچیں تو ان کو ناصرف مقابلے سے باہر کیا گیا بلکہ تضحیکی انداز روا رکھا گیا اور بغیر پانی پوچھے واپسی کا راستہ دکھادیا گیا صرف اس وجہ سے کہ وہ حجاب اوڑھے ہوئے تھیں اور انہوں نے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
جی ہاں “فروا منیر” ایک بہترین مقررہ ہیں جو اکثر و بیشتر تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں۔لاہور گرائمر اسکول کی اسلام آباد برانچ میں انہیں ایک تقریری مقابلے میں شرکت کے لیئے مدعو کیا گیا۔جب وہ وہاں پہنچیں تو انہیں محض ان کے حجاب کی بنیاد پر مقابلے میں شرکت سے نہ صرف روک دیا گیا بلکہ واپسی کا مشورہ دے دیا گیا۔
اچنبھے کی بات ہے پر کسی کو اچنبھا ہوا؟
اگر یہ خبر کسی یورپی ملک سے آئی ہوتی تو ہم الٹی کلاہ بازیاں کھا رہے ہوتے پر چونکہ یہ خبر پاکستان کی ہے تو ہم نے کیا کیا؟
وہی کیا جو ہم کرتے ہیں، مطلب سانہو کی؟
جناب حیرت والا اور پریشانی والا عنصر ہے کہ ہماری شرم، غیرت اور حمیت مردہ ہوچکی اور جلد ہی ہمارے ضمیر کا جنازہ پڑھایا جانے والا ہے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ہماری درسگاہیں اب مذہب اور وطن کے باغی صرف تیار ہی نہیں کررہیں بلکہ خود بھی مذہب اور وطن سے کھلی بغاوت پر اتر آئیں ہیں۔
حجاب اور داڑھی ہمارے اسلامی شعار اور فرائض میں سے ہیں جن کو مغرب نے آزادی اظہار رائے اور جمہوری آزادی کے تابع لانے کی سر توڑ کوشش شروع کی تو ہماری مخالفتیں مول لینا پڑیں تو وہی گھنائونا کھیل مغرب کے ذہنی غلاموں نے پاکستان میں کھیلنا شروع کردیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
ایک طرف یہ سو کالڈ آزادی اظہار رائے والے شخصی آزادی کے قائل ہیں اور ہمیں قائل کرتے ہوئے ان کی زبانیں خشک ہوتیں ہیں پر وہیں یہ حجاب اور داڑھی کو پسند کرنے والے افراد پر قدغن لگانے کے متمنی اور قائل ہیں؟
اگر مولوی کو عورت کی بے لباسی یا کم لباسی اور مرد کی عورتوں والی حرکات پر اعتراض  کرے تو یہ دقیانوسیت اور مذہبی انتہا پسندی ہے ۔لبرلز کا حجاب اور داڑھی پر لال پیلا ہونا اور معاشرے میں ان شعار کے حامل افراد کی راہیں مسدود کرنا کونسی وسعت قلبی و وسعت نظری اور جدیدیت ہے؟
بیکن ہاؤس اسکول کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھائے، تہذیب اور کلچر کے نام پر ہندوازم سکھائے، دو قومی نظریہ کی دھجیاں اڑائے، جہاد اور فساد کو مدغم کرکے اسلام سے متنفر کرے، حیض کے سینیٹری پیڈز دیواروں پر چسپاں کرکے اس کو عام سا عمل کہے، ڈانس اور آرٹ کے نام پر کمسن ذہنوں کو جنسیت کی طرف راغب کرے، قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کروائیں اور مظلوم ثابت کریں اور ملک کی محافظ فوج کے خلاف ذہن سازی کرے تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
پنجاب اسکولز اینڈ کالجز والے یہی سب کریں تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
امریکن لائسف اسکول والے یہی سب کریں تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
الائیڈ اسکول والے یہی سب کریں تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
دی ایجوکیٹرز والے یہی سب کریں تو تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
کراچی گرامر سکول والے یہی سب کریں تو تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
کانووننٹ ا سکولز والے یہی سب کریں تو تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
لاہور گرامر سکولز والے یہی سب کریں تو تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
الغرض سبھی مغربی طرز کے  اسکولز والے یہی سب کریں تو تو یہ پالیسی ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت۔
لیکن محب وطن اور مشرقی و مذہبی درسگاہوں والے کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھائیں، تہذیب اور کلچر کے نام پراسلام اور مشرقیت سکھائیں، دو قومی نظریہ کی تشریح سمجھائیں، جہاد اور فساد کو الگ کرکے اسلام سے فریب کریں، حیض جیسے فطری و شرعی مسائل پر حکمت و مصلحت کا انداز اپنائیں، کھیل کود اور ورزش کے نام پر کمسن ذہنوں کو مضبوط اور طاقتور بننے کی طرف راغب کریں، قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کروائیں اور زندیق ثابت کریں اور ملک کی محافظ فوج کے خلاف ذہن سازی کرنے والوں کی اوقات بتائیں اور فوج سے محبت سکھائیں تو یہ دقیانوسیت، انتہا پسندی اور جاہلیت ہے، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کا قتل ہے؟
واہ بھئی لبرلز اور جمہوریت پسندو! تمہاری اخلاقی اقدار کی گراوٹ اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ تم اپنے علاوہ کسی بلکہ یوں کہوں کہ مسلمانوں کا وجود سرے سے برداشت کرنے کے قائل ہی نہیں۔
تمہاری پروردہ خاتون اپنی مرضی اور شوق سے ننگی گھومے تو کوئی ملکی قانون اور معاشرتی پالیسی کا اطلاق اس پر نہیں کہ اس کا جسم اسکی مرضی، لیکن کوئی مسلمان مذہبی خاتون اپنی مرضی اور شوق سے باپردہ اور باحجاب نکلے تو من گھڑت پالیسی کا اطلاق بھی ہوگا اور تضحیک و تنقید بھی ہوگی موئی آزادی اظہار رائے کے جھنڈے تلے اور تب دھوم سے جنازہ نکالا جائے گا میرا جسم میری مرضی والے فارمولے کا کہ وہ بھی مسلمان ہی تصور ہوگا جب اس کو کوئی مسلمان اپناکر اپنے شعار کی ترویج اور تبلیغ کرے گا بالکل لبرلز کی طرح لیکن ان کے متضاد۔
تم خود کپڑے پھاڑو تو فیشن اور دوسرا پھاڑے تو زیادتی؟
یہ کیسا اصول ہے آزادی اظہار رائے کا کہ تم گالیاں بھی نکالو تو وہ برادشت کی جائیں اس اصول کے تحت لیکن وہیں کوئی مسلمان اس اصول کا فائدہ اٹھاکر آیت اور حدیث سنادے تو وہ جرم اور گناہ سمجھا جائے اور ناقابل برداشت کہہ کر قدغن لگائی جائے؟
ہم نے دلوں کو سمجھا لیا ہے کہ تمہیں ننگ پسند ہے تو رہو ننگے لیکن اپنی چار دیواری یا کمیونٹی میں  بطور نظریاتی اقلیت بالکل اسی طرح ہمیں بطور نظریاتی اکثریت حق اور اختیار ہے سرعام اپنے مذہبی اور ملکی کلچر کے مطابق رہن سہن رکھنے اور معاملات زندگی گزارنے کا۔
تمہیں کھیل کے اصول پتہ ہیں پھر یہ بے ایمانی کیوں؟
تم اپنی اولادوں کو تو خود ہاتھوں ہاتھ جہنم کے گڑھے میں دھکیل رہے ہو تو ہماری اولادوں پر تمہاری نظریں کیوں؟
حکومت پاکستان اور عوام اب ہوش کے ناخن لے اور اس خبر اور اس جیسے ہر منظر عام پر آنے والے معاملے کو ہلکا مت لے بلکہ سخت ایکشن لے تاکہ درسگاہوں اور تعلیم و نصاب سے لیس دشمن جو جنگ ہم اور ہماری نئی نسل پر مسلط کررہا ہے اس کا بہتر انداز میں دفاع کیا جاسکے اور کل وقتی تدراک ممکن ہو۔
مسلمان وسعت نظری و وسعت قلبی اور شخصی آزادی سمیت صبر و تحمل کا عملی نمونہ ہیں لیکن لبرلز اور فاشسٹ طبقہ ہائے زندگی دراصل آزادی اظہار رائے کی آڑ میں چھپے دقیانوسیت اور انتہا پسندی کے اصل چہرے ہیں جو اپنی ملمع کاری کی بدولت نظر میں نہیں آتے یا ایک دوسرے کا نقاب بن کر صاف چھپتے بھی نہیں اور دکھاتے بھی نہیں کی عملی تصویر بنتے ہیں۔
فروا منیر ہماری عزت ماب بہن بیٹی ہے اور اس کی ہوئی اس طرح کی تذلیل اور تضحیک براہ راست شخصی آزادی پر حملہ تو ہے ہی پر ساتھ ہی ساتھ یہ براہ راست ملک اور مذہب دونوں سے کھلی غداری اور بغاوت بھی ہے اور لبرلز کا حکومتی رٹ کو چیلنج ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ کر آئین سے متصادم قوانین بناکر ان کا اطلاق کیا جائے اور جو نہ کرے اس کو سزا دی جائے۔
لال مسجد والوں نے کیا کیا تھا یہی کہ قانون کو ہاتھ میں لیکر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا تھا بالکل اسی طرز پر اب یہ لاہور گرامر والوں نے لبرلز خیالات کو قانون اور پالیسی بناکر آئین کے خلاف جاکر قانون ہاتھ میں لیا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔
ہمارا آئین صاف صاف کہتا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون اور نظریہ پروان نہیں چڑھے گا جو اسلام کے منافی ہو۔
لہذا میری تمام سوشل اور یوتھ ایکٹیوسٹس کی طرف سے حکومت پاکستان، چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ اس خبر کا نوٹس لیں اور حکومتی رٹ کے اطلاق کو یقینی بنائیں اور آئین کی بالادستی کو ترجیح دیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں