انسانی فکر کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ واحد مفکر ہیں جنہوں نے دو فکری نظاموں اور ان سے پیدا ہونے والے تجربے کی موت کا اعلان کیا۔ اور یہ اعلان ایک صدی پہلے ہی حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے کہا کیا تھا؟ مولانا مودودیؒ نے 30 دسمبر 1946ء کے روز سیالکوٹ کے قریب مراد پور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔‘‘
(شہادتِ حق، از مولانا مودودی، صفحہ 15)
مولانا مودودی کی پیشگوئی کا پہلا آدھا حصہ 1991ء میں اُس وقت پورا ہوا جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور کمیونزم تحلیل ہوگیا۔ اُس وقت کہیں اور کیا، سوویت یونین کے دارالحکومت اور کمیونزم کے مرکز ماسکو میں واقعتاً کمیونزم کا تحفظ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کمیونزم کے خلاف بغاوت کی علامت بورس یلسن جو بعد ازاں روس کا صدر بنا، ایک ٹینک پر سوار ہوکر ماسکو کی سڑکوں پر گھوم رہا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ اچانک کہیں سے کمیونزم اور سوشلزم کے متوالوں کا ایک ہجوم نمودار ہوگا اور وہ بورس یلسن کی تکا بوٹی کردے گا، اور کچھ نہیں تو ان پر پتھرائو کرے گا۔ یہ بھی نہیں تو ان پر لوگ انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کردیں گے۔ مگر ان میں سے کوئی بات بھی ہوکر نہ دی۔ کمیونزم یا سوشلزم کا کوئی ایسا والی وارث پورے ماسکو میں موجود نہ تھا جو اپنے نظریے کے دفاع کے لیے باہر نکلتا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا۔ مولانا کی پیشگوئی کا باقی آدھا حصہ بھی اب فکری سطح پر حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے۔ ’’سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی‘‘ لبرل ازم کا ایک ستون ہے، اور لبرل ازم کے ایک ستون کیا پورے لبرل ازم کے بارے میں خود مغرب کے دانش ور کہہ رہے ہیں کہ لبرل ازم بحران کا شکار ہے، بلکہ بعض دانش وروں نے تو اس کی موت کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ اب لبرل ازم کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی نے یہ کیسے جانا کہ کمیونزم اور لبرل ازم کا مستقبل کیا ہے؟
مولانا مودودی ستارہ شناس نہیں تھے مگر زندگی کے کچھ بنیادی اصولوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ بیانیے یا Narrative کو سمجھنا ہو تو مہا بیانیے یا Meta Narrative کو سمجھ لو۔ تاریخ یا History کو سمجھنا ہو تو ماورائے تاریخ یا Meta Historyکا فہم حاصل کرو۔ وقت یا Timeکو سمجھنا ہو تو ابدیت یاTime lessnessکو ذہن نشین کرلو۔ مولانا یہ باتیں سمجھتے تھے۔ چونکہ مولانا زندگی کی مبادیات کو سمجھتے تھے اس لیے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ انسان غیر کامل یا Imperfect ہے، چنانچہ وہ کبھی کامل فکری یا عملی نظام نہیں بنا سکتا۔ چنانچہ اس کا بڑے سے بڑا نظریہ بھی آج نہیں تو کل ضرور ناکام ہوگا۔ لیکن لبرل ازم کے بحران یا اس کی موت کا قصہ کیا ہے؟
لندن سے شائع ہونے والا ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ مغرب کا اہم ترین فکری اور صحافتی رسالہ ہے۔ یہ رسالہ 175سال سے تواتر کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ دی اکنامسٹ لبرل ازم اور سیکولرازم کا ترجمان بھی ہے اور ان کے فروغ کا ذریعہ بھی۔ مغربی دنیا میں رائے سازی کے حوالے سے دی اکنامسٹ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے دی اکنامسٹ نے اپنے 15سے 21ستمبر 2018ء کے شمارے میں لبرل ازم کے بحران پر دس صفحات پر پھیلا ہوا ایک طویل مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون کی فکری اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ مضمون مغرب کے 37 دانش وروں کی 37کتب اور 12 دانش وروں کے 12مضامین کا نچوڑ ہے۔ مضمون کا عنوان ہے
Reinventing liberalism for the 21st century
یعنی’’21ویں صدی کے لیے لبرل ازم کی تشکیلِ نو‘‘ یا ’’21ویں صدی کے لیے لبرل ازم کی ایجادِ نو‘‘۔ مضمون کے عنوان ہی سے لبرل ازم کی حالت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ کسی نظریے کی تشکیلِ جدید یا Reinvention کی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب وہ نظریہ موجودہ حالت میں روبہ زوال ہو، یا اسے کسی بہت ہی بڑے بحران نے گھیر لیا ہو۔
دی اکنامسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق کبھی لبرل ازم ایک ’’فلسفہ‘‘ تھا، مگر اب ایک عقیدہ ہے۔ اکنامسٹ نے اس سلسلے میں Broader Faith یا وسیع عقیدے کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
( دی اکنامسٹ صفحہ 41)
لبرل ازم کے بحران پر گفتگو سے قبل وسیع عقیدے یا Broader Faith کی اصطلاح پر گفتگو ضروری ہے۔ مغرب میں فلسفہ ایک عقلی حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس عقلی حقیقت میں نہ کہیں خدا ہے، نہ کہیں کوئی رسول ہے، اور نہ کہیں کوئی وحی ہے۔ چنانچہ فلسفے کے دائرے میں عقیدے یا Faith کا بھی کوئی وجود نہیں، بلکہ فلسفہ ایک اعتبار سے لفظ عقیدے کی ضد ہے۔ لیکن مغرب میں لبرل ازم کے سب سے بڑے ترجمان دی اکنامسٹ کا کہنا ہے کہ فی زمانہ لبرل ازم ایک عقیدہ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ جدید فکر کے بہت ہی بڑے مسائل میں سے ایک ہے کہ جدید فکر مذہب کی دشمن بھی ہے مگر وہ خود کو بھی ایک مذہب کی طرح مقدس باور کراتی ہے۔ وہ خدا کی منکر ہے مگر انفرادی عقل کو تقریباً خدا ہی سمجھتی ہے۔ جدید مفکرین کو جدیدیت رسولوں اور پیغمبروں کی طرح پیش کرتی ہے۔ جدیدیت کہتی ہے کہ مذہب تو Dogma یا ایک منجمد جذبہ ہے، مگر خود جدیدیت کے اپنے تصورات کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جدیدیت اور اس کے متاثرین کی نظر میں اہلِ مذہب تو تنگ نظر ہیں، مگر اہل مذہب سے ہر بات میں مماثل ہونے کے باوجود جدیدیت کو پوجنے والے کشادہ دل اور وسیع النظر ہیں۔ شکر ہے جدیدیت کے سب سے بڑے علَم بردار رسالے کی زبان پر دل کا چور آگیا اور اسے کہنا پڑا کہ ہمارے زمانے تک آتے آتے لبرل ازم ایک وسیع عقیدے میں ڈھل چکا ہے۔
ہمارے پاس وقت ہوتا تو ہم آپ کی خدمت میں دی اکنامسٹ کے پورے مضمون کا ترجمہ پیش کرتے، مگر فی الحال آپ کو اس کی آزادانہ تلخیص پر گزارا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ دی اکنامسٹ لبرل ازم کے بحران کے حوالے سے کیا کہہ رہا ہے؟
دی اکنامسٹ ستمبر 1843ء میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کا بانی جیمس ولسن تھا۔ دی اکنامسٹ کے بقول ولسن کے ذہن میں دی اکنامسٹ کے قیام کے تین مقاصد تھے: آزاد تجارت، آزاد منڈی اور محدود نمائندہ حکومت کی علَم برداری اور فروغ۔ یہ نئے سیاسی فلسفے کے تین بنیادی اصول تھے۔ اس فلسفے کا نام لبرل ازم تھا۔ دی اکنامسٹ کے مطابق اب لبرل ازم ایک وسیع عقیدہ یا Broader Faith بن چکا ہے۔ اب اس عقیدے کا ایک حصہ سیاسی ہے، ایک معاشی ہے اور ایک اخلاقی ہے۔ عقیدے کی وسعت نے ابہام یا confusionکو جنم دیا ہے۔ بہت سے امریکی لبرل ازم کو بائیں بازو کے ساتھ منسوب کرتے ہیں جو بڑی حکومت کے تصور پر یقین رکھتا ہے۔ فرانس میں لبرل ازم کو منڈی کی بنیاد پرستی یا Market Fundamentalism کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ دی اکنامسٹ کے مطابق خواہ آپ لبرل ازم کے کسی بھی تصور سے وابستہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ لبرل ازم ہر طرف سے حملوں کی زد میں ہے۔ حملوں کی وجہ لبرل اشرافیہ ہے۔ یہ اشرافیہ تین چیزوں کی ذمے دار ہے: عالمی تجارت کی عالمگیریت، نقل مکانی کی نسبتاً بلند سطح، ایسے لبرل عالمی نظام یا World Order کا قیام جو آمریت کی عسکری طاقت یا Hard powerکی علامت ہو۔ لبرل اشرافیہ نے یہ کام کہیں اپنی پیٹھ تھپتھپانے کے لیے کیے ہیں، کہیں تبدیلی کے لیے، اور کہیں یہ کام کمزور قوموں یا کمزور افرادکی قیمت پر انجام پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقبولِ عوام یا Populrist سیاست دانوں یا تحریکوں نے لبرل اشرافیہ کی مخالفت کی بنیاد پر انتخابی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن پر اسی تناظر میں کامیابی حاصل کی۔ برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون پر نیسجل فراج کی کامیابی کا یہی پس منظر ہے۔ پنج ستارہ تحریک کے برسلز کی بیوروکریسی پر غلبے کا مفہوم بھی یہی ہے، اور ہنگری میں وکٹر اوربون کی جارج سوروز پر فتح کا بھی یہی مطلب ہے۔ عوام پسند رہنمائوں نے ماضی کے رہنمائوں کو Boss بننے کے مرض کا شکار باور کرایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رہنما خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کی بیماری میں مبتلا ہیں، اس پر طرہ یہ کہ ان کا عوام سے رابطہ ہی نہیں۔ چنانچہ انہوں نے رائے دہندگان کو یقین دلایا کہ تم ہمیں کامیاب کروگے تو ہم اشرافیہ سے اختیار چھین کر عوام کو واپس دلا دیں گے۔ مگر مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے، لبرل ازم کو دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتوں سے بھی خطرہ ہے۔ روس زوال پذیر ہے مگر پھر بھی لبرل ازم کے لیے خطرہ ہے، کیونکہ وہ لبرل ازم کے عالمی نظام کو چیلنج یا کم از کم اس میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مستقبل قریب میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت چین ہوگا۔ چین میں یک جماعتی نظام ہے، اس کے نتیجے میں معاشی ترقی اور لبرل ڈیموکریسی لازم وملزوم نہیں رہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دی اکنامسٹ اپنی 175ویں سالگرہ اپنے عقیدے کا دفاع کرتے ہوئے منا رہا ہے۔
لبرل ازم کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے اپنی بنیادوں کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے خود کو بار بار نئی صورت میں دریافت کیا ہے، یا خود کو Reinvent کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لبرل ازم کی بنیادیں کیا ہیں؟ لبرل ازم کا ایک بنیادی خیال یہ ہے کہ معاشرہ تنازعات کی جا ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مناسب سیاسی ماحول میں نزاعی کیفیات سے مقابلے و مسابقے کی فضا اور سودمند بحث و تکرار کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ لبرل ازم کا دوسرا اہم خیال یہ ہے کہ معاشرہ متحرک ہے اور معاشرے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے، چنانچہ لبرل ازم کے پرستاروں کو اس سلسلے میں کام کرتے رہنا چاہیے۔ لبرل ازم کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ لبرل ازم طاقت بالخصوص کچھ ہاتھوں یا کسی خاص ادارے میں مجتمع ہونے والی طاقت پر اعتبار نہیں کرتا۔ لبرل ازم کا ایک اور اہم زاویہ طاقت کے تناظر میں یہ ہے کہ وہ فرد کی مساوی شہری تکریم پر اصرار کرتا ہے۔ اس اصرار سے انسانوں کے انفرادی، سیاسی اور ملکیتی حقوق کی اہمیت عیاں ہوتی ہے۔
مارکسسٹوں کے برعکس لبرلز ترقی کو خیالی پلائو یا خیالی مقاصد کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ تنازعات میں الجھے ہوئے افراد کی تکریم انہیں ایسا کرنے سے روکتی ہے۔ قدامت پرستوں کا مسئلہ روایت اور استقرار یا Stability ہوتا ہے، تاہم ’’لبرلز‘‘ ترقی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، مادی معنوں میں بھی اور کردار اور اخلاقی یا Ethicalمعنوں میں بھی۔ چنانچہ لبرلز کو اصلاح پسند اور سماجی تغیر کے لیے احتجاج کرنے والا سمجھنا چاہیے۔ آج لبرلز کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں اشرافیہ اور ’اسٹیٹس کو‘ کی قوتوں کا حصہ نہ سمجھا جائے، اسی صورت میں وہ اصلاح کی روح کو زندہ رکھ سکیں گے۔
ولسن جس لبرل فلسفے کو عام کرنا چاہتا تھا وہ صنعتیانے کے عمل یاIndustrialization کے عہد میں پیدا ہوا۔ اسی عہد میں امریکی اور فرانسیسی انقلابات رونما ہوئے، چنانچہ لبرل ازم نے جان لاک اور آدم اسمتھ جیسے روشن خیال مفکرین سے استفادہ کیا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لبرل ازم روشن خیال مفکرین کے ورثے سے نمودار ہوا۔ پہلے سیاست دان جنہوں نے خود کو لبرل کہا وہ اسپین کی سرزمین سے اٹھے۔ تاہم لبرل ازم کا مرکز بہرحال برطانیہ تھا جو دنیا کی غالب سیاسی اور معاشی طاقت تھا۔
اُس زمانے کے لبرلز آج کل کے لبرلز کی طرح نہیں تھے۔ آپ خارجہ امور کو لے لیجیے۔ وکٹورین لبرلز جنگ مخالف تھے، وہ تجارتی روابط کی حوصلہ افزائی کرتے تھے مگر فوجی اتحادوں سے گریز کرتے تھے۔ بعد ازاں لبرل ازم کی توسیع پسندی کی روایت نے نوآبادیاتی تجربے کے لیے جواز جوئی کی ۔ نوآبادیات کی حمایت کرتے ہوئے لبرلز نے یہ جواز پیش کیا کہ اس سے قوانین اور ملکیتی حقوق کی صورت میں اُن لوگوں کو ترقی میسر آتی ہے جن کے پاس یہ حقوق نہیں ہوتے۔ دی اکنامسٹ کو نوآبادیات کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔ اس نے 1862ء میں یہ دلیل دی کہ نوآبادیات ہمارے لیے قابلِ قدر ہوسکتی ہیں بشرطیکہ وہ آزاد ہوں، لیکن ’’غیر مہذب‘‘ اقوام رہنمائی، سرپرستی اور درس و تدریس کے سلسلے میں ہماری مرہونِ احسان ہیں۔
اپنے آغاز میں لبرل ازم سیاسی جمہوریت کے ساتھ اس طرح منسلک نہیں تھا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک نظر آتے، البتہ آج ایسا ہی لگتا ہے۔ قدیم زمانے کے لبرلز ایسے سفید فام تھے جو خود کو باقی ماندہ انسانیت سے برتر سمجھتے تھے۔ جان اسٹورٹ مل اور کئی دیگر مفکرین نے خواتین کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کی مگر دی اکنامسٹ ابتداً اس کے خلاف تھا، البتہ جان اسٹورٹ مل اور کئی دیگر مفکرین جائداد کے بغیر تمام لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کے سخت خلاف تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ’’اکثریت کی آمریت‘‘ جنم لے گی۔
آپ ریاست اور منڈی کے باہمی تعلق کو لے لیجیے۔ ابتدائی زمانے کے لبرلز آزاد تجارت کے قائل تھے اور وہ اس سلسلے میں ریاست کا کوئی کردار نہیں دیکھتے تھے۔ دی اکنامسٹ نے اپنے اداریوں میں سرکاری تعلیم کے لیے ریاست کی جانب سے محصولات عاید کرنے کی مخالفت کی تھی، تاہم 20ویں صدی کے اوائل میں یورپی لبرلز اور ان کے امریکی عم زادوں نے اپنی رائے تبدیل کی اور کہا کہ محصولات اور سماجی فلاحی نظام منڈی کی ناکامیوں کو حد میں رکھنے کے لیے ریاست کی جانب سے کی جانے والی ناگزیر مداخلتیں ہیں، اس سے لبرلز میں اختلافِ رائے پیدا ہوگیا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو کساد بازاری سے نمٹنے اور سماجی تحفظ یا Social Insuranceفراہم کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت کو ضروری خیال کرتے تھے، دوسری طرف وہ لوگ تھے جو ریاست کی مداخلت کے خلاف تھے اور ریاست کی مداخلت کو خطرناک سمجھتے تھے۔ اس سے ’’نیو لبرل ازم‘‘ کا ظہور ہوا جو منڈی کے معاملات میں ریاست کی مداخلت کے سخت خلاف ہے۔ بہرحال آج صورتِ حال یہ ہے کہ لبرل ازم پر سے اعتبار اٹھ رہا ہے اور لبرل ازم خود اپنے بارے میں تشکیک کا شکار ہے۔ لبرل ازم کو سرد جنگ کے خاتمے کے سبب جو عروج حاصل ہوا تھا وہ مشکلات کا شکار ہے۔ عراق میں فوجی مداخلت جس کی دی اکنامسٹ نے حمایت کی تھی، اور مشرق وسطیٰ میں ناکام ہونے والے دیگر منصوبوں نے لبرلز کی انا پرستی کا پول کھول دیا۔ عالمی مالیاتی بحران چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس کی وجہ ضابطوں سے بڑی حد تک آزاد مالیاتی بندوبست ہے۔ لبرل ماہرینِ معاشیات تجارت اور خودکاریت یا Automation سے انسانوں کو ہونے والے نقصانات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ لبرل عالمی نظام موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اسی طرح لبرل عالمی نظام ابھرتی ہوئی نئی معیشتوں کے ساتھ اپنے اداروں کو ہم آہنگ کرنے میں بھی ناکام ہوگیا ہے۔ لبرل مفکرین اُن چیزوں پر بھی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں جو معاشیات سے زیادہ اہم ہیں۔ مثلاً انسانوں کا مذہبی اور لسانی تشخص۔ ان ناکامیوں سے صاف ظاہر ہے کہ لبرل ازم کو تشکیلِ نو یا خود کو Reinventکرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ آزاد منڈی اور آزاد معاشرے کے حق میں ہیں انہیں اُن لوگوں کو الوداع کہہ دینا چاہیے جو نہ آزاد منڈی کے حق میں ہیں، نہ آزاد معاشرے کے۔ اور جو دونوں کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ اسی طرح لبرلز کو ’’سب کی ترقی‘‘ کے سلسلے میں اپنے وعدوں کی تکمیل پر توجہ دینی ہوگی۔ ان سب باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ لبرل ازم کے پرستاروں کو ہر آن بدلتی ہوئی دنیا پر اپنے اصولوں کا ازسر نو اطلاق کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا ایجنڈا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ لبرلز اپنے خوف پر قابو پائیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو ’’سچے لبرلز‘‘ کو چاہیے کہ خوف زدگان پر حملے کریں۔ 19ویں صدی کا لبرل انقلابی یا Radicalتھا۔ اس کی انقلابیت کا ایک پہلویہ تھا کہ وہ اپنی بنیاد سے رجوع کرتا تھا۔ اس کی انقلابیت کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ سماجی اداروں میں تغیر کی جدوجہد کرتا تھا۔ جدید لبرلز کو بھی ایسی انقلابیت اختیار کرنی ہوگی۔
ایک زمانہ تھا کہ مغرب میں یہ نعرہ مقبول تھا “Jesus christ is free trade and free trade is jesus christ.”یعنی (معاذ اللہ) حضرت عیسیٰؑ آزاد تجارت ہیں اور آزاد تجارت حضرت عیسیٰؑ ہے۔ یہ نعرہ 1840ء میں سر جان بوئنگ نے ایجاد کیا تھا۔ اسی زمانے میں مکئی پر محصولات عاید کیے گئے تو ایک فیکٹری کے مالک Ebenzer Elliottنے ایک چھوٹی سی نظم لکھ ڈالی جو بہت مقبول ہوئی، اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
وہ کہتے ہیں دو، دو اور وہ لے جاتے ہیں
وہ پُر عزم اور طاقت ور ہیں
وہ ہمارے کیک پر محصولات لگاتے ہیں
اور ہمارا کیک لے جاتے ہیں
اور ہمارے کیک کو ضائع کردیتے ہیں
لبرلز کے خیال میں تجارت میں محصولات اختلافات، حسد اور دشمنیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایک فرد دوسرے فرد کے، ایک طبقہ دوسرے طبقے کے، اور ایک قوم دوسری قوم کے خلاف ہوجاتی ہے۔ لیکن لبرلز جو بات نہیں بتاتے وہ یہ ہے کہ آزاد تجارت کا تصور کسی فلسفے کا رہین منتنہ تھا۔ صنعتی اور سیاسی انقلابات نے مغربی اقوام کو دوسری قوموں پر بالادستی مہیا کردی تھی۔ آزاد تجارت صرف کہنے کو آزاد تھی، ورنہ اپنی اصل میں یہ تجارت پابند اور یک طرفہ تھی۔ ایک طرف صنعتی معنوں میں ترقی یافتہ اقوام تھیں، اور دوسری جانب صنعتی انقلاب سے محروم پسماندہ یا ترقی پذیر اقوام۔ ان کے درمیان آزادانہ تجارت ممکن ہی نہ تھی، اس لیے کہ مغربی اقوام کے پاس جدید کارخانے تھے، Mass Productionتھی۔ دوسری طرف وہ اقوام تھیں جن کے پاس صرف خام مال تھا، یا انسانی محنت سے حاصل شدہ اشیا۔ اس کے باوجود مغربی اقوام نے جہاں ممکن ہوا ظلم کی انتہا کردی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انگریزوں نے برصغیر میں کپڑا سازی کی مقامی صنعت کو شعوری طور پر تباہ کیا اور لاکھوں جولاہوں کو بے روزگار کردیا۔ آج 21ویں صدی ایک نئے عنوان سے آزاد تجارت کے سلسلے میں مغربی اقوام کے دعووں کا پول کھول رہی ہے۔ جب تک چین بڑی معیشت بن کر نہیں ابھرا تھا اُس وقت تک امریکہ آزاد منڈی، آزاد تجارت اور ان دونوں کی عالمگیریت کا سب سے بڑا علَم بردار تھا، مگر اب امریکہ آزاد تجارت کے تصور کو روندتے ہوئے چین کی مصنوعات پر محصولات عاید کیے چلا جارہا ہے۔ خود دی اکنامسٹ نے اپنے ایک حالیہ شمارے میں شکایت کی ہے کہ چین کی معاشی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ آزاد تجارت یک طرفہ ہوگئی ہے۔ لیکن 19ویں اور 20ویں صدی میں جب تجارت کے میدان میں مغرب کو فیصلہ کن برتری اور غلبہ حاصل تھا اُس وقت بھی تجارت یک طرفہ تھی، مگر اُس وقت کسی امریکہ، کسی یورپ اور کسی دی اکنامسٹ نے یہ نہیں کہا کہ عالمی تجارت یک طرفہ ہے، یا صرف مغرب کے حق میں ہے۔ قصہ کوتاہ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ آزاد تجارت کا تصور بھی نام نہاد لبرل ازم کے ٹھیکے داروں کے ہاتھ سے نکل کر چین کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ بھارت، برازیل اور ترکی بھی بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرے تو لبرل دنیا اس محاذ پر مزید بحران کا شکار ہوگی۔ لبرل ازم نے جو دنیا پیدا کی ہے اس کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا کی صنعتی پیداوار 50 بڑے شہری مراکز میں سمٹ جائے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ مراکز عالمی صنعتی پیداوار کا 60 فیصد مہیا کریں گے، جب کہ ان شہروں کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف 7فیصد ہوگی۔ اس طرح دولت اور طاقت کا ارتکاز ہولناک صورت اختیار کرلے گا۔ اس صورتِ حال کے خوفناک مضمرات ہوں گے، آزاد تجارت کا تصور مزید پابندیوں کا شکار ہوجائے گا۔
تارکینِ وطن یا نقل مکانی کے مسئلے نے لبرل ازم کے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق اس وقت امریکہ کی مجموعی آبادی میں 13فیصد لوگ ایسے ہیں جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے ۔ 1965ء میں امریکہ کے اندر تارکین وطن کی تعداد صرف پانچ فیصد تھی۔ یورپی ممالک میں تارکین وطن کا مسئلہ مزید سنگین ہوچکا ہے۔ اس وقت سویڈن میں تارکین وطن آبادی کا 19فیصد ہیں۔ ایک نسل قبل سویڈن میں ان کی تعداد مجموعی آبادی کا صرف8فیصد تھی۔ جرمنی میں غیر ملکی افراد مجموعی آبادی کا 11فیصد، اور اٹلی میں 8.5 فیصد ہیں۔
یورپ میں نقل مکانی یا تارکینِ وطن کے مسئلے نے ایسی حکومتوں کی راہ ہموار کردی ہے جو لبرل ازم کی ضد ہیں۔ جنہیں عرفِ عام میں فاشسٹ یا انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں کہا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے اراکین کی تعداد 28 ہے، اور 28 میں سے 6ممالک میں غیر لبرل حکومتیں برسر اقتدار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل میں تارکینِ وطن کی آمد میں کمی نہیں، بلکہ اضافہ ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کا شمالی حصہ جنوبی حصے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور امیر ہے، جدید ذرائع ابلاغ نے اس بات کو عام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حسنِ اتفاق سے عصری دنیا میں رسل و رسائل یا ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام موجود ہے کہ مزید بے شمار لوگ اپنی غربت کے باوجود امیر ملکوں کا رخ کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دنیا کے 14فیصد افراد اپنے ملکوں کو چھوڑ کر امریکہ اور یورپ میں مستقلاً آباد ہونا چاہتے ہیں۔ موسمیاتی تغیرات افریقی ممالک کے لوگوں کو بڑی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور کرسکتے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگ ضرور امیر ملکوں میں آئیں گے۔ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ امیر ممالک میں عمریں بڑھ رہی ہیں اور بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، چنانچہ امیر ممالک میں غریب ممالک کے تارکینِ وطن کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے، مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ دی اکنامسٹ کے بقول بدقسمتی سے عالمی نقل مکانی کو روکنے کے لیے کوئی مناسب نظام بھی موجود نہیں۔ چنانچہ تارکین وطن کی آمد سے ایک جانب مغربی ممالک کی سیاست پر نسل پرستی کا غلبہ ہورہا ہے، دوسری جانب مقامی افراد اور تارکینِ وطن میں فاصلے بڑھ رہے ہیں، تیسری جانب مقامی افراد کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے اور تارکین وطن کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، چنانچہ مغرب کے لبرل معاشرے تیزی کے ساتھ غیر لبرل ہوتے جارہے ہیں۔ نقل مکانی کے بارے میں لبرل ازم کی سوچ میں یہ تغیر آیا ہے کہ 19ویں صدی کے لبرلز کا خیال تھا کہ ریاستوں کی ذمے داری صرف اُن لوگوں تک محدود ہے جو ریاستوں کی حدود میں آباد ہیں، اس سے آگے ان کی کوئی ذمے داری نہیں۔ مگر جدید لبرل ازم آفاقی تناظر کا حامل ہے، چنانچہ وہ نقل مکانی اور تارکین وطن کے مسئلے کو 19ویں صدی کے لبرلز سے مختلف انداز میں دیکھتا ہے۔ دی اکنامسٹ کا خیال ہے کہ اگر نقل مکانی کے تمام خواہش مندوں کی آرزو بر آئے تو دنیا کی مجموعی پیداوار یا GDP دوگنی ہوجائے گی۔ اس صورتِ حال نے مغرب کے لبرل معاشروں کو متحارب گروہوں میں تقسیم کردیا ہے۔ مغربی ممالک میں ایسے لبرلز بھی ہیں جو تارکین وطن کے مسئلے کی وجہ سے رنگ، نسل اور طبقاتی نفسیات کی پرستش میں مبتلا ہورہے ہیں اور وہ تارکین وطن پر اپنی ثقافتی اقدار مسلط کررہے ہیں۔ اس سے تارکین وطن میں جو جذبات پیدا ہورہے ہیں اور ہوں گے اور جیسی حب الوطنی جنم لے گی وہ ظاہر ہے ۔ 19ویں صدی میں لبرلز کہا کرتے تھے کہ تارکین وطن مقامی زبانیں سیکھ کر مقامی کلچر میں جذب ہوجائیں گے۔ فی زمانہ یہ ایک جابرانہ خیال ہے۔ امریکہ کو “Melting Pot” کہا جاتا رہا ہے، مگر یہ چھوٹی سطح کی جارحیت ہے، اس لیے کہ اس اصطلاح میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ جو باہر سے امریکہ آئے گا بالآخر اپنا تشخص چھوڑ کر امریکی بن جائے گا۔
بسمارک نے 19ویں صدی میں (مادّی معنوں میں) فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی۔ 20 ویں صدی میں ہر جگہ مزدور انجمنوں نے فلاحی ریاست کے تحفظ کی جنگ لڑی۔ ولیم بیورج نے برطانیہ میں فلاحی ریاست کو بنیاد مہیا کی۔ وہ خود ایک لبرل سیاست دان تھا۔ مغرب میں لبرلز اور قدامت پرستوں نے اس لیے فلاحی ریاست کے تصور کو گلے لگایا کہ فاشزم اور سوشلزم کے خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ فاشزم اور سوشلزم کا اصل خطرہ یہ تھا کہ یہ دونوں نظام ہائے حیات وسائل کی بہتر تقسیم کا نعرہ اور وعدہ لیے کھڑے تھے۔ فلاحی ریاست کی تخلیق سے بہرحال لبرل ازم کو فائدہ ہوا۔ لبرل ازم ایک جانب سرمایہ داری کے ضرر رساں پہلوئوں سے عوام کو بچاتا ہے اور دوسری جانب فرد میں ذمے داری کے جوہر کو ابھارتا ہے۔ لبرل ازم کہتا ہے کہ فرد کی آزادی کو بڑھائو، آزادانہ تجارت میں اضافہ کرو، نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرو، بوڑھوں کو پینشن مہیا کرو، عوام کو صحت کی مفت اور بہتر سہولتیں فراہم کرو، زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع تخلیق کرو۔ مگر 21 ویں صدی میں ہو یہ رہا ہے کہ یورپی ممالک عوام کو مہیا کی جانے والی سہولتوں میں کمی کررہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب مغرب پر سوشلزم یا فاشزم کا خوف مسلط نہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ فلاحی ریاست تو نہیں بدلی مگر معاشرے بہرحال بدل گئے ہیں۔ لبرل ریاست میں ریاست لوگوں کو اپنی مدد آپ پر مائل کرنے کے لیے مداخلت کرتی تھی، مگر اب اکثر صورتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ چنانچہ یورپ میں فلاحی ریاست کا ادارہ بھی بحران کا شکار ہے اور لبرل سیاست دانوں اور رہنمائوں پر عوام کے اس اعتبار میں کمی آئی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔
مغرب میں مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کاری یا Robotisation نے بھی معاشرے اور فلاحی ریاست کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ آنے والی دہائیوں میں لبرل معاشروں اور لبرل ریاستوں کے عوام یہ سمجھنے میں ناکام رہیں گے کہ انہیں کون سے ہنر کی ضرورت ہے، اور ان کے کیریئر کس طرح آگے بڑھیں گے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی ان مسائل کو سنگین بناتی جارہی ہے۔ مغرب میں یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ اگر لبرل ڈیموکریسیز کو کام کرتے رہنا ہے تو مغرب کے معاشروں کو ایک نئی فلاحی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی، اور اگر وہ ایک نئی فلاحی ریاست کے تصور کی طرف جاتے ہیں تو انہیں ٹیکس کے ایک نئے نظام کی بھی ضرورت ہوگی۔ ایسا نظام جو زیادہ مؤثر بھی ہو اور جو معاشرے کو ان چیزوں کی طرف مائل کرے جو معاشرہ چاہتا ہے، اور ان چیزوں سے روکے جن سے معاشرے کو نقصان ہوسکتا ہے۔
اگر لبرل عالمی نظام یا لبرل ورلڈ آرڈر کی انانیت، خود پسندی اور خود پرستی کو نمایاں کرنے کے حوالے سے ایک دستاویز کا نام لیا جائے تو وہ امریکہ کے ممتاز دانش ور فرانسس فوکویاما کے مضمون The End of History یعنی ’تاریخ کا خاتمہ‘ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ مضمون 1989ء میں لکھا گیا۔ فوکویاما نے دیوارِ برلن کے انہدام سے چند ماہ قبل سوال اٹھایا کہ کیا دنیا مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کی عالمگیریت یا آفاقیت کی صورت میں انسانیت کے حتمی طرزِ حکومت کا مشاہدہ کررہی ہے؟ فوکویاما کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ تھا کہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ 2018ء میں فوکویاما کا مذکورہ خیال غیرمعمولی محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین جو گزشتہ 30 برسوں سے دنیا کی سب سے کامیاب معیشت ہے، اور جو آنے والے 30 برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگا، زیادہ لبرل نہیں ہورہا بلکہ کم لبرل ہورہا ہے۔ صرف یہی نہیں، چین نیم سرمایہ دارانہ لبرل ازم کی بنیاد پر ابھرتی ہوئی نئی دنیا کے لوگوں سے داد وصول کررہا ہے۔ صرف مسلم دنیا میں نہیں کئی دوسری جگہوں پر بھی جنگ کا تجربہ یا جنگ کا خوف کمیونٹیز کو لبرل ازم سے زیادہ متحد کررہا ہے۔ دی اکنامسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے سروے کے مطابق 2017ء میں جمہوری اعتبار سے دنیا کے 167 ممالک میں نصف سے زیادہ ترقیِ معکوس کا شکار ہیں۔ یعنی وہ جمہوری اعتبار سے آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہے ہیں، یعنی غیر جمہوری بن رہے ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل ہے جہاں ایک ایسا صدر اقتدار میں ہے جو آمروں کو ڈیموکریٹس پر ترجیح دیتا ہے۔
فوکویاما کا خیال تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد لبرل ازم انٹرنیشنل پروجیکٹ امریکہ کی طاقت پر انحصار سے بے نیاز ہوجائے گا۔ خیال تھا کہ امریکہ، یورپ اور ایشین ٹائیگرز کی خوشحالی کی مثالیں باقی ماندہ دنیا کو بھی لبرل ڈیموکریٹ بنادیں گے۔ چونکہ لبرل ڈیموکریسی کا کوئی متبادل موجود نہ تھا اس لیے خیال تھا کہ متبادل کی عدم موجودگی بھی لبرل ڈیموکریسی کی عالمی فتوحات میں کردار ادا کرے گی۔ لاطینی امریکہ میں آمریتوں سے جان چھڑانے کی لہر چلی ہوئی تھی، یہ بھی لبرل ڈیموکریسی کے لیے ایک نیک فال تھی۔ کچھ عرصے تک لبرل ڈیموکریسی آگے بڑھی بھی، مگر بہرحال وہ آج بھی آفاقیت سے دور ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اگر اسے Unhappy Atlas کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان اقدار کی تردید کررہے ہیں جن کی بنیاد پر NATO اور WTO وجود میں آئے۔ یہاں تک کہ انہیں اس امر سے بھی دلچسپی نہیں کہ نیٹو یا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن باقی بھی رہتے ہیں یا نہیں۔ یہ رویہ حیرت انگیز ہے۔ نائن الیون کے بعد صرف30 فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ امریکہ کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور اسے دنیا کے دوسرے ممالک کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ 2016ء کے ایک سروے کے مطابق 57 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ اپنی فکر کرے، دنیا کی نہیں۔ اس کی پشت پر عراق اور افغانستان میں مداخلتوں کی ناکامی کا تجربہ موجود ہے۔ لبرل ممالک کی نئی نسل عظمتِ رفتہ کی بازیافت میں منہمک روس کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتی۔ ان کا یہی رویہ ابھرتے ہوئے چین کے حوالے سے بھی ہے۔ امریکہ میں 1980ء اور 1990ء کے بعد پیدا ہونے والے نوجوانوں میں سے صرف نصف کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ دنیا پر امریکہ کی فوجی برتری قائم رہے۔
لبرلز کا خیال یہ ہے کہ ریاستی کنٹرول اپنی نااہلیتوں اور اختیارات کے غلط استعمال کے بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جس طرح ڈیجیٹل زندگی کا خیرمقدم کیا ہے اس سے کمیونسٹ پارٹی کو ریاستی کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے نئے آلات ہاتھ آگئے ہیں۔ چنانچہ نیا لبرل آرڈر اس مفروضے پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا کہ چین بہت جلد لبرل ہوجائے گا۔
لبرلز کا یہ خیال بھی تھا کہ آمریتوں میں ایجاد و اختراع کا کام اتفاقاً یا ایک آدھ بار ہی ہوتا ہے جیسا کہ سوویت یونین نے خلائی راکٹ Sputnik خلا میں بھیجا تھا۔ لبرلز کے نزدیک آمریتوں میں ایجاد و اختراع میں کوئی تواتر نہیں ہوتا۔ تاہم چین نے اس خیال کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ چین نے آمریت ہونے کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں میں اپنی ایجادات و اختراعات سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ چین مستقبل کی ٹیکنالوجیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چین کے دیوقامت ڈیجیٹل ادارے چینیوں کی ضروریات، عادات اور خواہشات سے متعلق وسیع Data کو احسن طریقے سے بروئے کار لا رہے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ بسا اوقات دنیا کی پُرامن اور ہم آہنگ ترقی کی بات کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ’’عظیم طاقت کی سفارت کاری چینی خصوصیات کے ساتھ‘‘ کی بات بھی کرتے ہیں۔ موسمی تغیرات اور عالمی تجارت کے بارے میں بھی وہ مبنی بر اصول عالمی نظام کی بات کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال وہ حال ہی میں تعمیر ہونے والے چینی جزائر کے بارے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق نکتہ چینی سے بھی صرفِ نظر کردیتے ہیں۔ ان رویوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں چین وہاں عالمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرے گا جہاں اس کا فائدہ ہوگا، اور جہاں اس کا فائدہ نہیں ہوگا وہاں وہ تنہا پرواز کو ترجیح دے گا۔ دی اکنامسٹ چین پر اتنا تبصرہ کرکے خاموش ہوجاتا ہے اور اسے یاد ہی نہیں آتا کہ وہ چین میں جو عیب تلاش کررہا ہے وہی عیب امریکہ اور بڑی یورپی طاقتوں میں گزشتہ 70 سال سے موجود ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جہاں چاہتے ہیں بین الاقوامی قانون کی پابندی کرتے ہیں، اور جہاں ان کا مفاد نہیں ہوتا وہ قانون کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔ بہرحال اس سلسلے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے دی اکنامسٹ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ چین کی فوجی طاقت بھی بڑھے گی، مگر وہ عسکری طاقت کے محاذ پر امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ اکنامسٹ نے دنیا بھر کے لبرلز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی اور طاقت کے بجائے امریکہ ہی پر انحصار کریں کیونکہ امریکہ سے توقع ہے کہ وہ بالآخر درست کام کرلے گا۔ اس مشورے کا مطلب یہ ہے کہ لبرلز چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے مرعوب، اور چین کے آزاد منڈی اور آزاد تجارت سے عشق سے متاثر نہ ہوں بلکہ امریکہ کی تمام تر خون آشامی اور انسانیت سوزی کے باوجود اس سے چمٹے رہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کو دیکھا جائے تو لبرل ازم کا بحران بھی عیاں ہے اور اس کا باطن بھی۔ لیکن آئندہ سطور میں آپ جو کچھ ملاحظہ کرنے والے ہیں اس سے لبرل ازم اور لبرل عناصر کے باطن کی شیطنت پوری طرح عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔
دی اکنامسٹ لکھتا ہے کہ 21 ویں صدی کے لبرلز کو 20 ویں صدی کے دو حقائق کو یاد رکھنا چاہیے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ دو عالمی جنگوں کے دوران لیگ آف نیشن کی ناکامی سے ثابت ہوگیا کہ لبرل ازم کے Ideals پُرعزم قومی ریاستوں کی عسکری طاقت کے بغیر بیکار یا Worthless ہیں۔ مزید برآں کمیونزم کی شکست سے کمیٹڈ اتحادوں کی اہمیت عیاں ہوگئی۔ دی اکنامسٹ کے مطابق دوسری حقیقت جو لبرل عناصر کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جو ریاستیں ان کے طرزِ زندگی کو تحفظ مہیا کرنے والی ہوں وہ نہ صرف اپنے دفاع کے قابل ہوں بلکہ ان میں دوسروں کے عزائم کو ناکام بنانے کی صلاحیت بھی ہو۔ چنانچہ امریکہ اور اس کے ایشیائی اتحادیوں کو ہتھیار اور فوجیوں کی تربیت پر مزید مالی وسائل خرچ کرنے چاہئیں۔ پہلے سے موجود اتحاد صحت مند ہوں گے تو ایسے ممالک کے مزید اتحاد قائم ہوسکتے ہیں جو چین کے عزائم سے خطرات محسوس کرتے ہیں۔
دی اکنامسٹ کے مذکورہ بالا تجزیے اور اعتراف نے لبرل ازم، لبرل ریاستوں اور لبرل عناصر کو جس طرح عیاں کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مغرب اسلام پر صدیوں سے الزام لگا رہا ہے کہ وہ تلوار کے ذریعے پھیلا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے پھیلائو کے سلسلے میں تقویٰ، علم اور کرداری نمونوں کی اہمیت بنیادی ہے، اور اس سلسلے میں عسکری طاقت کی اہمیت ثانوی اور سرسری ہے۔ اس کے برعکس کمیونزم بھی طاقت کے زور پر پھیلا اور لبرل ازم اور سیکولرازم بھی طاقت کے ذریعے پھیلے۔ خدا کا شکر ہے کہ لبرل ازم کے سب سے بڑے علمی اور صحافتی علَم بردار رسالے نے جو پونے دو سو سال سے لبرل ازم کا مقدمہ لڑ رہا ہے اور اس کے فروغ کے لیے کام کررہا ہے، پہلی بار کھلے عام اس کا اعتراف کرلیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے دو شاخسانوں یعنی کمیونزم اور لبرل ازم و سیکولرازم نے قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق بحروبر میں فساد برپا کردیا ہے۔ انہوں نے اربوں انسانوں سے ان کا خدا چھین لیا ہے۔ ان کے رسول چھین لیے ہیں۔ ان کی مقدس کتابیں چھین لی ہیں۔ ان کے دلوں سے خدا اور انسانوں کی محبت چھین کر ان کے دلوں کو دنیا اور اس کی چیزوں کی ناپاک محبت سے بھر دیا ہے۔ مغربی تہذیب کے شاخسانوں نے انسانی رشتوں کو زہرآلود کردیا ہے۔ انہوں نے نسل پرستی، رنگ پرستی، زبان پرستی اور مفاد پرستی کو عام کردیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کمیونزم کا عالمی نظام یا World Order بھی طاقت پر کھڑا ہوا تھا اور لبرل ازم اور سیکولرازم کا عالمی نظام یا World Order بھی صرف اور صرف طاقت پر کھڑا ہوا ہے۔ چین کے ابھار نے صرف سیکولر اور لبرل دنیا کی معاشی طاقت کو چیلنج کیا ہے، مگر صرف اتنی سی بات پر امریکہ اور یورپ کے لبرلز لرز رہے ہیں اور چین کے خلاف جگہ جگہ سازشیں کررہے ہیں۔ حالانکہ چین انہی کے Ideals کو سینے سے لگائے کھڑا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لبرل ازم اور سیکولرازم میں اتنی بھی برداشت، اتنی بھی گنجائش، اتنی بھی اخلاقیات اور اتنی بھی تہذیب نہیں کہ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی دل میں اس کے لیے جگہ نکال سکے اور پُرامن بقائے باہمی کی کوئی صورت نکال سکے۔ لبرل ازم، اور لبرل عناصر اپنے مقلد چین کے سلسلے میں اتنے تنگ نظر، تنگ دل اور بے رحم ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے متبادل ’’اسلام‘‘ یا اسلامی تہذیب کے لیے ان کے دل کتنے تنگ اور ان کی بے رحمی کتنی بڑھی ہوئی ہوگی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ طاقت پرست خود لبرل ازم اور سیکولرازم ہے مگر وہ طاقت پرستی کا الزام اسلام اور مسلمانوں کے سرتھوپ رہا ہے۔ وہ انہیں کبھی بنیاد پرست کہتا ہے، کبھی دہشت گرد۔ کبھی وہ سیاسی اسلام ایجاد کرتا ہے، کبھی صوفی اسلام… مگر جیسا کہ تاریخ شاہد ہے دہشت گرد لبرل ازم ہے، سیکولرازم ہے۔ وہ فوجی طاقت کو پالیسی کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے۔ وہ عراق پر پابندیاں لگا کر دس سال میں پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ انسانوں کو غذا اور دوائوں کی قلت سے مار ڈالتا ہے۔ روانڈا میں خانہ جنگی سے دو برسوں میں دس لاکھ افراد مارے جاتے ہیں مگر لبرل ازم اور سیکولرازم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، اس لیے کہ 10 لاکھ انسانوںکی بے معنی ہلاکت سے لبرل اور سیکولر مغرب کو نہ کوئی فائدہ تھا نہ نقصان۔ لبرل ازم کی طاقت پرستی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ سیکولر اور لبرل مغرب کی دنیا اگر علم و فضل، اخلاق و کردار اور امن پر کھڑی ہوتی تو امریکہ کو سو سے زیادہ ممالک میں فوجی اڈے قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ کی معیشت اس کی جنگی صنعت پر کھڑی ہوئی ہے! اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امن، انسانیت اور مکالمہ لبرل مغرب کے ذہنی و تہذیبی سانچے اور اس کے مفادات کے لیے زہر اور گالی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغرب کی ’’طاقت پرستی‘‘ لبرل ازم کے دو سو سال پرانے دی اکنامسٹ ہی نے آشکار نہیں کی، بلکہ مغرب کے مفکرین اور دانش ور بھی کھل کر مغرب کی ’’طاقت پوجا‘‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ رالز جدید مغرب کے بڑے سیاسی مفکرین میں سے ایک ہے۔ اس نے ایک جگہ صاف کہا ہے کہ لبرل سرمایہ داری کے منکر معاشرے کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اسی طرح کچل دینا چاہیے جس طرح مضر صحت کیڑے مکوڑوں کو کچلا جاتا ہے۔ مغرب کے ایک اور مفکر ڈربن کا فقرہ ہے:
I am not ready to argue with any one who is not liberal, i am not going to argue with him, i am going to shoot him.
ترجمہ: میں ایسے کسی شخص کے ساتھ بحث و تمحیص میں الجھنا نہیں چاہتا جو لبرل نہ ہو۔ میں اس کے ساتھ بحث نہیں کروں گا۔ میں اسے گولی مار دوں گا۔
(انقلابی عمل۔ ایک تجزیہ۔ صفحہ 34)
مغرب کے مفکرین کے ان فقروں سے ظاہر ہے کہ لبرل اور سیکولر لوگوں کے لیے غیر لبرل بالخصوص مذہبی عناصر ایسے کیڑے مکوڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں کچل دینا ضروری ہے، کیونکہ انہیں نہ کچلنے سے ’’لبرل اور سیکولر انسانوں‘‘ کو نقصان ہوسکتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیںکہ جدید مغربی تہذیب علم اور مکالمے پر کھڑی ہے۔ 20 ویں صدی کے عظیم ترین سیاسی مفکرین میں سے ایک ڈربن صاف کہہ رہا ہے کہ ’’غیرلبرل‘‘ لوگ اس قابل بھی نہیں کہ ان سے بحث کی جائے۔ وہ صرف اس قابل ہیں کہ وہ لبرل لوگوں، لبرل گروہوں، لبرل ریاستوں سے بات کریں تو انہیں گولی مار دی جائے۔ یہی بات دی اکنامسٹ نے مختلف الفاظ میں کہی ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ طاقت کے بغیر لبرل ازم نہ کوئی قبول کرے گا اور نہ وہ ایک نظام کی حیثیت سے باقی رہے گا۔ مائوزے تنگ نے کہا تھا: طاقت بندوق کی نال سے نمودار ہوتی ہے۔ لبرل مفکرین اور مغرب کا علمی و صحافتی جریدہ اکنامسٹ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ طاقت ہی اصل چیز ہے۔ طاقت نہیں تو لبرل ازم اور سیکولرازم بھی نہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اسلامی مفکر، اسلامی دانش ور یا اسلامی صحافی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمیں طاقت کے ذریعے اسلام نافذ کرنا چاہیے؟ اول تو ایسی بات اسلام کی روح کے منافی ہوگی، لیکن اگر کوئی ایسی بات کہہ دے گا تو مغرب کہے گا ہم تو پہلے ہی کہتے تھے اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اور پھر روئے زمین پر اس مفکر اور خود اسلام کا رہنا دشوار ہوجائے گا۔ لیکن سیکولرازم اور اس کے علَم بردار طاقت کا ننگا کھیل پیش کریں تو بھی یہ انسان کی خدمت ہے۔ علم کی خدمت ہے۔ شعور کی خدمت ہے۔ تہذیب کی خدمت ہے۔ انسانیت کی خدمت ہے۔
دی اکنامسٹ نے اپنے مضمون میں امریکہ کے آنجہانی سینیٹر جان مکین کی اس تجویز کا ذکر کیا ہے کہ ہمیں قوموں اور ملکوں کا نیا اتحاد قائم کرنا چاہیے اور اس کا نام ’’جمہوری لیگ‘‘ رکھنا چاہیے۔ دی اکنامسٹ کے بقول لبرلز کو اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ دی اکنامسٹ کے بقول دنیا کو بین الاقوامی تعلقات کے دائرے میں ایسے وژن کی ضرورت ہے جو لبرل آئیڈیلز کا دفاع کرسکے۔ دی اکنامسٹ کے بقول اگر لبرل صرف دروں بینی کرتے رہیں گے، یا اپنی فکر پر عمل نہیں کریں گے، یا اپنی طاقت سے دست بردار ہوجائیں گے تو وقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
دی اکنامسٹ نے یہ آخری فقرے یونہی نہیں کہہ دیے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق لبرل ازم کا حال اتنا ابتر ہوچکا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لبرل ازم کے حوالے سے کئی مایوس کن کتب اور مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا عنوان ہے:Retreat of western liberalism یعنی مغربی لبرل ازم کی پسپائی۔ دوسری کتاب کا عنوان ہے: Has the West Lost It? یعنی کیا مغرب نے لبرل ازم کو کھو دیا ہے؟ دی اکنامسٹ کے بقول رسالوں میں اس طرح کے عنوانات کے ساتھ مضامین شائع ہو رہے ہیں: Is Democracy Dying۔ کیا جمہوریت مر رہی ہے؟ What is killing liberalism یعنی لبرل ازم کو کیا چیز مار رہی ہے؟ دی اکنامسٹ لکھتا ہے کہ لبرل ازم جس اعتماد کے ساتھ سر اٹھا کر چلتا تھا وہ کبھی کا رخصت ہوچکا ہے، اور اس کی جگہ خود تشکیکی رویّے یا Self doubt نے لے لی ہے۔
دی اکنامسٹ کا خیال ہے کہ لبرل ازم بحران میں مبتلا ہے، مگر وہ اپنی تشکیلِ نو کرسکتا ہے، یعنی خود کو Re-Invent کرسکتا ہے۔ مگر مغرب میں اب ایسے دانش ور اور اسکالر موجود ہیں جو صاف کہہ رہے ہیں کہ لبرل ازم کی موت واقع ہوچکی ہے اور اس مُردے کو اب کسی بھی طرح زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ہی ایک صاحب پیٹرک جے ڈینن (Patrick J. Deenen) ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی تصنیف Why Liberalism Failed کا ہر جگہ چرچا ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ روزنامہ ڈان کراچی نے بھی اس کتاب پر حال ہی میں ایک تبصرہ شائع کیا ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق ڈینن نے لبرل ازم کی تباہی کی کئی وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے دو بنیادی ہیں۔ ایک یہ کہ لبرل ازم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان خودمختار وجود ہے چنانچہ وہ فطرت سے الگ ہے۔ اس خیال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان نے فطرت کو غیر سمجھ کر اُس کے خلاف جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ فرانسس بیکن اور ڈیکارٹ نے خیال ظاہر کیا تھا کہ جدید سائنس فطرت کو ہمارا محکوم اور ہمیں اس کا آقا بنادے گی۔ اس رویّے سے مادی معنوں میںکئی کامیابیاں بھی ملیں مگر اس سے وہ ماحولیاتی بحران بھی پیدا ہوا جس کی انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ڈینن کے مطابق لبرل ازم کا تصورِ انسانیت بھی پست ہے۔ لبرل ازم انسان کو بے ضمیر اور بحری قزاق سمجھتا ہے۔ ہوبس نے صاف کہا ہے کہ انسانیت طاقت کی کبھی نہ ختم ہونے والی خواہش رکھتی ہے۔ صرف موت ہی انسان کو اس خواہش سے نجات دلاتی ہے۔ لبرل ازم کے بانیوں نے انسان کی وحشت اور درندگی کا یہ علاج تلاش کیا کہ معاشرے میں لالچ کے مقابلے پر لالچ کو لاکھڑا کیا۔ انفرادی مفاد،انفرادی مفاد کے مقابل آگیا۔ اس سے نگرانی یا چیک اینڈ بیلنس کا ایک نظام وضع ہوا۔ مگر اب ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ ہم نہ فطرت سے الگ ہیں اور نہ ہی صرف نظریے کے ذریعے انسان کے لالچ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ فرد کی بڑھتی ہوئی آزادی نے روایت کو اتنا ضعف پہنچا دیا ہے کہ شادی، خاندان، کمیونٹی اور کلچر کا ادارہ منہدم ہوگیا ہے۔ مغرب نے حکومت کے اختیارات میں اضافے اور آزاد عالمی منڈی کے ذریعے معاملات پر قابو پانے کی کوشش کی، مگر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی۔ بدقسمتی سے لبرل ازم کے پاس ایسی قوت نہیں ہے جس کی مدد سے منہدم اداروں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے۔ ڈینن کے بقول آزادی کا روایتی تصور یہ تھا کہ آزادی اپنی جبلت یا نفس سے آزادی کا نام ہے۔ گاندھی اکثر سوال کیا کرتے تھے کہ اگر ہم اپنے نفس کے غلام ہیں تو سیاسی آزادی کا کیا فائدہ۔
(ڈان کراچی۔ 14 اکتوبر 2018ء)
ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ اگر لبرل ازم کی موت واقع نہیں ہوئی ہے تو بھی اس کا دم لبوں پر ہے، اور اس کا بحران اتنا ہمہ گیر اور اتنا گہرا ہے کہ اس کا علاج ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ یہ سوویت یونین اور سوشلزم کے آنجہانی ہونے کے بعد انسانیت کے لیے سب سے خوشگوار اطلاع ہے۔ اس لیے کہ اب لبرل ازم کے متبادل کی بحث انسانیت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ بلاشبہ اسلام ہر ازم کا متبادل ہے، اور بلاشبہ مستقبل بھی اسلام کا ہے۔ مگر اسلام کو متبادل بناکر پیش کرنا ایک بہت ہی بڑا چیلنج ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ علم اور عمل کے بغیر لبرل ازم کا متبادل مہیا کرنا ناممکن ہے، اور مسلمانوں سے علم کی بات کی جاتی ہے تو وہ علم کی جگہ نعرہ اور عمل کی جگہ جلسہ جلوس رکھ دیتے ہیں۔ نعرے اور جلسے جلوس کی بھی زندگی میں اہمیت ہے، مگر وہ کبھی بھی علم اور اس سے پیدا ہونے والے عمل کی جگہ نہیں لے سکتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو ایک نیا مستقبل تخلیق کرنا ہے تو اس کا راستہ خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ تعلق، اور علم اور اس سے پیدا ہونے والے عمل سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ باطل بال کی کھال اتارکر خود کو ایک عالمگیر نظام میں ڈھال سکتا ہے، یا خود کو Systematize کرسکتا ہے، مگر جن کے پاس حق ہے وہ اپنے حق کو نظام میں نہیں ڈھال سکتے، یعنی اسے Systematize نہیں کرسکتے! شاید اس کے لیے امتِ مسلمہ کو ڈیڑھ صدی پر محیط اس احساسِ کمتری سے نکلنا ہوگا جو مغرب کے غلبے سے پیدا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے حق کو برتر سمجھ کر اسے بسر بھی کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہم ’’الحق‘‘ کی بنیاد پر عالمگیر نظام بندی یا Systematization کی طرف جا سکیں گے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک لبرل ازم اور سیکولرازم کے بحران بلکہ اس کی موت کی خبر کو پہنچایا جائے۔ یہاں ہمیں اپنی نائن الیون سے پہلے لکھی ہوئی ایک نظم یاد آرہی ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’بغاوت ہوچکی ہے‘‘۔ نظم یہ ہے:
بغاوت ہو چکی ہے
گو میں اسبابِ بغاوت کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں
مگر میں دیکھتا ہوں
کوئی منظر آنکھ کو قائل نہیں کرتا
سماعت کا گڑھا
نغموں سے پُر ہو کر بھی خالی ہے
سوادِ روح میں جیسے
بدن کے راز رقصاں ہیں
اِدھر شہرِ بدن میں
روح کے چرچے کا فیشن ہے
دلیلیں جس قدر تھیں
عقل کے کوٹھے پہ جا بیٹھیں
تصوف پیکرِ اضداد کی چوکھٹ پہ بیٹھا ہے
بنی آدم کو وہ پانی فراہم ہے
کہ جس میں پیاس شامل ہے
یہ پانی چشمۂ مغرب سے آتا ہے
(سنا یہ ہے کہ اب اس کے سوا چشمہ نہیں کوئی؟)
یہ عالم آتشِ دل کا کہ اس پر چار کپ چائے بنانی ہو
تو مشکل ہو
چلو اچھا ہوا تاریخ بھی انجام کو پہنچی
بغاوت ہو چکی ہے
گو میں آغازِ بغاوت کو عیاں کرنے سے قاصر ہوں
کہ میں تو صرف شاعر ہوں
اس نظم کو غور سے پڑھیے۔ ممکن ہے یہ لبرل ازم کے عالمگیر بحران یا اس کی موت کے حوالے سے آپ سے کچھ کہہ رہی ہو۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...