یہ بات تو اب تکرار لاحاصل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں مسئلہ غنڈہ گردی یا کسی طلبہ تنظیم کا نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ لگے سابقے ”اسلامی” کا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ وہاں درپیش ہونے والے واقعے میں ملوث ہو نہ ہو، ثواب کی خاطر اس پر الزام دھر دیا جاتا ہے۔ اور معاملہ قائداعظم یونیورسٹی کا ہو جو سیکولر اور قوم پرست طلبہ کی غنڈہ گردی کی وجہ سے مہینے بند رہے، کراچی یونیورسٹی کا ہو کہ طلبہ اور اساتذہ کسی لسانی تنظیم کے ہاتھوں پٹ جائیں، پشاور یونیورسٹی کا ہو یا کوئٹہ میں اساتذہ و طلبہ قتل کر دیے جائیں، اس کا ذکر کیا، سرے سے ایسے واقعات کو میڈیا سے گول کر دیا جاتا ہے۔
خیر آج کل پھر پنجاب یونیورسٹی زیربحث ہے، الزام ہے کہ جمعیت کے کارکنان نے کسی شوہر کو مارا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ وہاں بیٹھا تھا۔ اب یونیورسٹی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ معاملہ یہ گارڈ کے ساتھ پیش آیا ہے ، جہاں تکرار کی وجہ سے طلبہ جمع ہو گئے اور یہ واقعہ پیش آیا۔ جمعیت کا کہنا ہے کہ اس نے تو بیچ بچاؤ کرایا۔ مگر کیا ہے کہ اس صورت میں مصالحہ نہیں لگنا تھا تو جمعیت کو بھی بیچ میں دھر لیا گیا۔ حالانکہ احباب نے بتایا کہ ویڈیو میں جو بندہ ان صاحب کو ہجوم سے نکال کر باہر لایا ، وہ جمعیت کا اس علاقے کا ناظم ہے۔
گارڈ اور وہاں لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ نازیبا حرکات کی وجہ سے منع کیا، یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے مہذب شکل دے دی کہ کھانا کھا رہے تھے۔ گارڈ نے منع کیا، مگر سامنے چونکہ بھائی صاحب کسی نجی ٹی وی کے صحافی تھے، تو گارڈ کا روکنا تو ایک لحاظ سے گستاخی ہی ٹھہرا۔ معمول میں پولیس کو بھی لفٹ نہیں کروائی جاتی، بلکہ دو ہاتھ جڑ دیے جاتے ہیں، یہ تو پھر بےچارہ گارڈ تھا۔ چنانچہ تکرار کا ہونا لازمی تھا۔ ویسے یہ امر تو حیران کن ہی ہے کہ میاں بیوی کو گپ شپ یا کھانے کےلیے یونیورسٹی کی ضرورت پڑے۔ اس دونوں کاموں کےلیے تو گھر میں وافر سے زیادہ وقت ہوتا ہے۔ ویسے جو احباب ”میاں بیوی” ہونے پر زیادہ تکرار کر رہے ہیں، ان کے لیے کیا مشکل ہے، ذرا معلوم کروا لیں کہ واقعتاً ہے؟
اب جو احباب جمعیت پر غصہ نکال رہے ہیں، وہ انتظامیہ کے اس مؤقف کے بعد کیا کہیں گے؟ اور پھر خود متعلقہ بندے نے بھی کہہ دیا ہے کہ معاملہ اب ختم ہو گیا ہے؟ تو تکرار مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہو گیا ہے۔ جمعیت کا نام آ جائے تو رائٹ ہو یا لیفٹ، چستی بائی ڈیفالٹ ہی آ جاتی ہے۔
پس تحریر – ذاتی طور پر میرے خیال میں مورل پولیسنگ کسی طلبہ تنظیم کا کام نہیں ہے۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی ہوں یا نہیں، یا عام طلبہ ہی ہوں، دونوں صورتوں میں یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ ایسے معاملات کو کنٹرول کرے۔ مسلسل واقعات کے بعد ایک خیال ذہن میں آتا ہے کہ کہیں یہ سب بائی ڈیزائن تو نہیں ہوتا کہ کچھ عرصے بعد کچھ نہ کچھ وقوع پذیر ہو جاتا ہے، اور جانے انجانے میں جمعیت ملوث ہو جاتی ہے یا بغیر ملوث ہوئے اسے دھر لیا جاتا ہے۔ جمعیت کے نظم کو اس پہلو سے بھی غور کرنا چاہیے۔