دادی اماں کھیل کو جائیں

بچپن میں مل کر ایک کھیل کھیلا کرتے تھے، ایک بچی دادی اماں بن جاتی اور باقی سب اس سے اجازت مانگا کرتے۔ دادی اماں دادی اماں، کھیل کو جائیں، اور اجازت ملتے ہی سب بھاگ جاتے، اور کچھ دیر بعد جب دادی اماں واپس بلاتیں، تو کھیل میں مگن کوئی بچہ واپس آنے کو تیار نہ ہوتا۔ آخر کار دادی اماں مختلف چیزوں کا لالچ دیتیں، آؤبچو، میں تمھیں رنگین چوڑیاں دوں گی، کھلونے دوں گی، سونے کی زنجیر دوں گی، اور ہر بار بچے بیک زبان پکارتے، نہیں آتے نہیں آتے۔ آخر میں دادی اماں کہتیں، آؤ بچو، میں تمہیں قرآن مجید دوں گی۔ اس پر سب ہی بچے بھاگے چلے آتے، یہ ممکن نہ تھا کہ اس اعلان پر کوئی بھی بچہ کھیل میں مگن رہ جاتا، یعنی کھیل ہی کھیل میں قرآن کریم کی اہمیت اور اس کی فضیلت ذہن نشین کروا دی جاتی اور یہ احساس کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔

ہم بچپن سے نکلے تو یہ کھیل بھی زمانے کے شور و شغب میں دب کر رہ گئے، لیکن اس سے اگلے مرحلے میں یہی کام کچھ نظموں نے کیا، جیسے:
قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا
قرآن دل کی رونق قرآن ہے سہارا
اللہ میاں کا خط ہے جو میرے پاس آیا
استانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سپارہ

لڑکپن میں والدہ صاحبہ سے سن کر ہی اس نظم کے مصرعے ذہن کے پردے پر جم گئے:
ہے فقط قرآں ہی دنیا میں کتاب ِ زندگی
کھولتا ہے جس کا اک اک لفظ باب ِ زندگی
زندگی قرآن پر ہو موت بھی قرآن پر
مومنوں کا ہے یہی لب ِلباب ِزندگی

گزشتہ زندگی کے ماہ و سال ذہن کے پردے کی اسکرین پر دم بھر کو ٹھہرتے ہیں اور پھر اگلا منظر آجاتا ہے اور ایک منظر جو کچھ زیادہ گہرا ہے وہ گزشتہ عید الفطر کا دن ہے۔ ہم اپنے دو بچوں کے ساتھ سعودیہ کی ایک مسجد میں نماز ِعید کی ادائیگی کے لیے جمع ہیں، جہاں ہر جانب رنگ برنگے ملبوسات میں خواتین اور بچے بچیاں مسجد کے ہال میں بکھرے ہوئے ہیں، کسی پہچان کے بغیر خواتین بچوں میں عیدی بانٹ رہی ہیں، بچوں کے ہاتھوں میں خوبصورت ٹوکریاں ہیں جن میں سے چاکلیٹس، ٹافیاں اور تحائف چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنے ہی جیسے بچوں میں بانٹ رہے ہیں، بہت پیارا منظر۔!

عید کی خوشیوں کا بھرپور احساس، خواتین میں کھجوریں، اور جوس وغیرہ تقسیم کیے جا رہے ہیں، عید ملنے کا سلسلہ عید کی نماز کے بعد تک جاری ہے۔ میں کسی شناسا کی تلاش میں نگاہیں دوڑاتی ہوں تو پاکستانی بچیاں نظر آ جاتی ہیں۔ وہ بڑے تپاک سے سعودی منتظمہ سے مل رہی ہیں، طاق شب میں ان کی شناسائی قائم ہوئی ہے اور وہ اس عمر کی بچیوں کے مسجد میں آنے کی بہت قدر دان ہیں، ان سے مل کر وہ مجھ سے بھی گلے ملتی ہیں اور پھر مجھے ایک ہدیہ کے لیے بلاتی ہیں۔ میں شش و پنج کا شکار کہ شاید وہ مجھے ان کی والدہ سمجھ رہی ہیں۔ میں وضاحت کرتی ہوں، مگر وہ ہدیہ میرے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، ’’ھذا لک‘‘، اور میں خوشی اور حیرت کے عجب احساس سے اسے تھام لیتی ہوں۔ یہ چرمی باکس میں قرآن کریم کے تیس پارے ہیں، جیبی سائز میں!!میری عیدی مجھے دل شاد کر دیتی ہے، اللہ کے گھر سے قرآن کا تحفہ پانا خوش نصیبی سے بڑھ کر خوش نصیبی ہے۔ وللہ الحمد

اس کے چار ماہ بعد میں عمرہ کے سفر میں ہوں، میرے دل میں اک خواہش ابھرتی ہے کہ میں قرآن مجید کی تلاوت کا اختتام حرم میں کروں، راستے میں مکمل کرنے کا موقع بھی ہے مگر میں آخری چند صورتیں حرم کی برکت پانے کے لیے بچا لیتی ہوں، اور پھر جمعہ کی صبح تہجد کے وقت طواف کرتے ہوئے دل میں خواہش ابھرتی ہے کہ میں اس کو حالت ِ طواف میں مکمل کروں، وہیں ساتویں چکر میں یہ سورتیں پڑھ کر ختم ِ قرآن کی دعامانگتی ہوں، اللھم آنس وحشتی فی قبری اے اللہ اس قرآن کو میری قبر کی وحشتوں کا ساتھی بنا دے، اے اللہ قرآن ِ عظیم کے ذریعے مجھ پر رحم فرما، اسے میرے لئے امام، نور اور ہدایت اوررحمت بنا۔ اے اللہ میں اس میں سے جو بھول گئی ہوں مجھے یاد کروا دے، اور سکھا دے جو میں نہیں جانتی، اور رات اور دن کے کناروں میں مجھے اس کی تلاوت کی توفیق عطا فرما اور اسے میرے حق میں شہادت ِ قاطع بنا دے۔ آمین۔ اے اللہ قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور اور میرے رنج کے ازالے اور میرے غموں اور فکروں کے دور کرنے کا ذریعہ بنا دے، آمین۔

نماز ِمغرب سے کچھ پہلے باب الفہد سے اندر خواتین کے حصّے میں بیٹھی تھی جب حرم کی ایک ذمہ دار صفوں میں جا جا کر خواتین کو دعا کی تلقین کر رہی تھی، میرے قریب آئی تو میں نے پوچھا کہ کوئی خاص دعا ہے اس وقت کے لیے؟ وہ بولی : جو مرضی مانگو، جمعہ کی شام قبولیت کا وقت ہے، اور ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ وہ میرے پاس آئی، میں تمہیں حرم کا قرآن تحفہ دینا چاہتی ہوں، مغرب کے بعد یہیں میرا انتظار کرنا۔ ابھی مغرب میں کچھ دیر باقی تھی کہ وہ قرآن کریم کا خوبصورت نسخہ لے آئی۔ حرم ِکعبہ میں ملنے والے اس تحفے کا نعم البدل دنیا کی کوئی چیز نہیں۔ میں نے اسے سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر اپنے ارد گرد بیٹھے جم ِغفیر کو دیکھا، جن میں سے اللہ تعالی نے میرا انتخاب کیا تھا، مجھ گنہ گار کا، عاجز مسکین بندی کا، یہ تو میری ذات سے بہت بڑی بات ہے، لیکن خوشی کا اک گونا احساس ہے جو ہر بار دوچند ہو جاتا ہے۔ اس قرآن مجید کے تحفے کو پا کر میرا دل بے اختیار چاہا کہ اس کے شکریے کے طور پر پھر اسی مطاف میں پہنچ جاؤں، میں نے اپنی ساتھی رضیہ بہن کو فون کیا، قرآن ان کے بیگ میں رکھوایا، اور ہم دونوں نے طواف کیا، اللہ سے دعا کہ وہ اس نعمت کا قدر دان بنا دے۔ آمین۔

حقیقت ہے کہ اس جیسی کوئی نعمت دنیا میں نہیں ہے، بچپن میں کھیل کھیل میں دادی اماں سے قرآن پانے کی خوشی آج حرم کی اہل کار فاطمہ کے ہاتھ سے لیکر دو چند ہوگئی۔
اللھم زیّن اعمالنا بالقرآن اے اللہ ہمارے اعمال کو قرآن سے مزین کر دے۔ آمین۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں