بھائی جان

میں ڈائیوو بس کے مسافر لاؤنج میں اپنی بیٹی اور بھائی جان کے ساتھ بیٹھی تھی، بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ دینا تھا اور اس کا سینٹر پشاور میں تھا، راولپنڈی سے پشاور جانا ایک مشکل امر تھا، اسی لیے بھائی جان سے ذکر کیا، اور وہ فوراً ہی مان گئے، اپنے دوست سے کہہ کر ایک ہوٹل میں بکنگ بھی کروا دی تاکہ رات آرام کر کے صبح آسانی سے امتحانی سینٹر پہنچ جائیں۔ میں دو روز قبل ہی بیرونِ ملک سے آئی تھی، ابھی سفر کی تکان بھی نہ اتری تھی کہ اگلا سفر آگیا، اور میں’’ مرتی کیا نہ کرتی ‘‘کے مصداق تیار ہو گئی۔ بس چلنے میں ابھی کچھ وقت تھا، سوچا نماز ہی ادا کر لوں، بھائی جان کو سامان کے پاس چھوڑ کر میں اور’’ وداد‘‘ کمرہء نماز میں آگئے، نماز کی ادائیگی کے بعد واپس نشست پر بیٹھی ہی تھی کہ مجھے بھائی جان کے گلے میں سیاہ ڈوری جھولتی نظر آئی، میں جو انہیں نماز کے لیے جانے کا کہنے ہی والی تھی، ان کی جانب تنبیہی نظروں سے دیکھا:
’’بھائی جان، یہ گلے میں کیا لٹکا رکھا ہے آپ نے؟‘‘۔
میرا اندازہ تھا کہ یہ یا تو لاکٹ ہے، جیسا کہ عموماً چھچھورے نوجوان گلے میں ڈالتے ہیں جس کی میں بھائی جان جیسے با وقار شخص سے توقع نہ رکھتی تھی یا پھر ۔۔۔
اس سے آگے سوچنا میرے لیے اور بھی مشکل تھا، ہمارا گھرانا ابتداء ہی سے مزاروں، درگاہوں اور پیری مریدی سے دور تھا، میں معاملے کا صحیح طور ادراک نہ کر پائی تھی، ان کے گلے میں کیا لٹک رہا تھا، کچھ معلوم نہ تھا ، کیونکہ اسے ان کی واسکٹ یا قمیص نے چھپا رکھا تھا۔
’’بڑے کام کی چیز ہے‘‘۔ بھائی جان نے مختصر جواب دیا۔
کام کی چیز؟؟ یعنی میرے اندازے یا خدشے کی تصدیق ہوا ہی چاہتی ہے۔ میرے دل میں گرمی جمع ہونے لگی، مجھے وہ دن یاد آگئے، جب بھائی جان نمازوں سے غفلت برتتے تھے اور امی جان کس قدر پریشان رہتی تھیں، ان کی انتہائی دل سوزی سے کی جانے والی نصیحتوں کو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے، ان کا مختصر جواب ہوتا:
’’آچھ چھ چھا ۔۔ ابھی پڑھتا ہوں‘‘۔ ان کی ساری سستی ان کے کہنے کے انداز سے واضح ہو رہی ہوتی۔
امی جان کبھی انہیں ڈانٹتیں اور کبھی ابو جان کو موردِ الزام ٹھہراتیں، جو دنیا کو سنوارنے کے لیے کبھی یہاں اور کبھی وہاں پھرتے رہے اور اپنے بیٹوں کی انگلی پکڑ کر مسجد لے جانے کا اہتمام نہ کیا، بس تلقین ہی کرتے رہے، یا نماز کی عدم ادائیگی پر سزا!!
سزائیں مستقبل سنوارتیں تو جیلوں کی آبادی روز بروز بڑھتی نہ جاتی، وہ حسرت سے کہتیں۔لیکن بھائی جان کو نہ تو سزا ہی نمازی بنا سکی نہ امی جان کی محبت بھری التجائیں۔ وہ نماز کے وقت کہیں دائیں بائیں ہو جاتے، چھت پر گھوم گھام کر نیچے اترتے تو گھر والے اور کاموں میں مصروف ہو چکے ہوتے، پھر کونسی نماز اور کب کی نماز؟
امی جان صبح سویرے بھائی جان کا ناشتہ بناتیں تو بڑے اہتمام سے ہدایت کی خوب ساری دعائیں مانگ کر، اس پر پھونک دیتیں، شاید دعا ہی سے ان کی زندگی کے شب و روز کا معمول بدل جائے اور اس میں فرض نماز کی جانب رغبت پیدا ہو جائے۔ وہ نمازی بیٹیوں سے بھی کہتیں، بھائی جان کے لیے خاص دعا کرو، اللہ اس کا دل بدل دے، ایسا نجانے کب تک ہوتا رہا، بیٹیاں ایک ایک کر کے اپنے گھروں کو سدھاریں، بھائی جان کبھی نمازی بن جاتے اور کبھی سستی گھیر لیتی، امی جان کی بیماری کے دوران وہ کافی پکے نمازی بن گئے تھے، مگر اس وقت امی جان کو انہیں دیکھنے کی ہمت نہ رہی تھی، وہ اپنی نمازیں ہی بمشکل ادا کرتیں اور انہیں کی فکر میں غلطاں رہتیں، اگرچہ ایک روز ان کا ہاتھ تھام کر انہوں نے نحیف آواز میں حضرت یعقوب ؑ کی سنت پوری کرتے ہوئے پوچھا تھا: ’’ما تعبدون من بعدی‘‘، اور بھائی جان نے نرمی سے ہاتھ اٹھا کر ہولے سے کہا تھا: ’’اسی رب کی ہی کروں گا‘‘، اور پھر مسکراتے ہوئے بولے تھے: ’’تسلی رکھیں، آپ کی نہیں کروں گا‘‘۔
میں یادوں کے بھنور سے نکل آئی تھی، اس کالی ڈوری کے ساتھ لگی چیز کو وہ ’’بڑے کام کی چیز‘‘ کہہ رہے تھے، میرے اندر اندیشے سر اٹھانے لگے۔ میں نے اچانک پوچھا:
’’نماز پڑھتے ہیں آپ ؟‘‘۔
۔ ’’ہاں پڑھ لیتے ہیں، جب توفیق ملتی ہے‘‘۔
’’توفیق سے کیا مراد ہے آپ کی؟ ایک دن میں کتنی بار توفیق مل جاتی ہے عموماً؟‘‘۔ میں جھنجھلاہٹ میں سوال پر سوال کر رہی تھی اور وہ حسبِ معمول ٹالنے کے انداز میں جواب دے رہے تھے۔
’’بھائی جان، امی جان ابوجان کو دنیا سے گئے ایک سال بھی نہیں ہوا پورا، وہ تمام عمر آپ کی نمازوں کے لئے پریشان رہے ، پتہ نہیں وہ درست ہوئیں یا نہیں، مگر آپ نے گلے میں تعویز بھی ڈال لیا، شرک کی علامت کے طور پر اور اس کے فائدے کے قائل بھی ہو گئے؟ انہیں کتنی نفرت تھی غیر اللہ سے امیدیں لگانے سے‘‘۔
۔ ’’تعویز؟؟ انہوں نے حیرت سے کہا، مسکراتے ہوئے۔
’’آپ کہاں کہاں جانے لگے ہیں اب؟‘‘۔ میں نے وکیلوں کی طرح جرح کی۔
’’اوہ ۔۔ ایسی بات نہیں، میں تو کہیں نہیں گیا، یہ تو کسی نے لا کر دیا ہے، تحفہ ہی سمجھو‘‘۔ انہوں نے پھر مبہم جواب دیا۔
’’ویسے ہے یہ فائدہ مند‘‘۔ وہ اس کے گرویدہ ہی لگے مجھے۔
۔ ’’یعنی آپ اس کی کرامات کے بھی قائل ہو گئے ہیں‘‘۔ میرا رونے کا دل چاہ رہا تھا۔
وہ بولے:’’ تم تو خومخواہ اس کے خلاف بول رہی ہو، مجھے تو اس کے بعد بہت کچھ صاف دکھائی دینے لگا ہے، بس یوں سمجھو زندگی ہی بدل گئی ہے‘‘۔
’’آپ کو پتا ہے اس میں کیا لکھا ہوا ہے، دینے والا کون ہے، کوئی با عمل یا بے عمل؟‘‘، میں سفلی علوم اور الٹے پلٹے تعویزوں کا سوچ کر ہی گھبرا رہی تھی۔
کہنے لگے: ’’لکھا ہوا کچھ نہیں ہے، اگر لکھا بھی ہے تو بہت باریک سا، نظر بھی نہیں آتا صحیح طرح، لیکن اس کا اتنا فائدہ ہے کہ اس سے لکھا ہوا سمجھ اچھی طرح آتا ہے، بس یوں سمجھو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے‘‘۔
’’اچھا، تو سائنس اور ٹیکنالوجی اب ان علوم پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں؟‘‘ میں اکتاہٹ سے بولی۔
۔’’ایسا ہے کہ اس کے بعد تو مجھے لوگوں کی شکلیں بھی بڑی صاف دکھائی دینے لگی ہیں، یوں سمجھو، لوگوں کو پہچاننے میں بڑی مدد ملتی ہے؟‘‘۔
’’پھر تو آپ مجھے بھی پہچان گئے ہوں گے، اس کی مدد سے‘‘۔ میں نے انتہائی رکھائی سے کہا۔
اس سے زیادہ صبر کی مجھ میں طاقت بھی نہ تھی، میں منہ موڑ کر بیٹھ گئی اور بظاہر وداد کی جانب متوجہ ہو گئی، جو ہماری ساری گفتگو میں خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ بھائی جان کو بھی میری ناراضی کا اندازہ ہو گیا، میرا خیال تھا وہ اٹھ کر باہر چلے جائیں گے، کیونکہ ایسے موقع پر وہ یونہی کیا کرتے تھے، مگر وہ وہیں بیٹھے رہے (پوری ڈھٹائی سے)۔ پھر اپنے تعویز کی ڈوری سے کھیلنے لگے اور اسے باہر نکال لیا، شاید وہ مجھے چڑا رہے تھے، میں نے کن اکھیوں سے اس نئے دور اور نئی ٹیکنالوجی کے تعویز کو دیکھا اور پھر میرا اور وداد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، انہوں نے کسی کھلونے کی مانند اسے گھمانا اور کھولنا شروع کر دیا، اسی سے اس کی ایک ٹانگ باہر نکلی اور پھر دوسری، اسی طرح ایک اور گھمائی کے بعد کچھ اسکرین نما چیز برامد ہوئی، انہوں نے ڈوری کو ایک جھٹکا دیا ، اور چھوٹے سے کور سے برآمد ہونے والی ’’عینک‘‘ کانوں پر لگا لی!!!
سامنے لگی فل سائز ٹیلیوژن سکرین پر نظریں جمائے بڑے اطمینان سے بولے:
’’دیکھو، اب یہ شکل بھی بہت اچھی نظر آ رہی ہے اور تحریر بھی صاف پڑھی جا رہی ہے، یہی ہے اس کی کرامت!!‘‘۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں