پرائمری اسکولوں کا نظام تعلیم زوال پزیر کیوں ہے؟ اسکی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ پرائمری اسکولوں کی تعلیم انسان کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کہ حیثیت رکھتی ہے. کیونکہ ایک بچہ ماں کی گود کے بعد اسکول میں دنیا کے علوم اور روزمرہ زندگی کے اصول اور دنیا کی ہر اچھی بری بات کو سیکھنے کے لیے اسکول جاتا ہے تاکہ وہ معاشرے کا ایک اچھا رکن بن سکے.
پرائمری اسکول کی تعلیم بچوں کے لیے اس اینٹ کی مانند ہوتی ہے جس طرح کسی عمارت کی پہلی اینٹ. اگر اینٹ صحیح طور سے رکھ دی گئی تو عمارت سیدھی تعمیر ہوگئی، نہیں تو اس کا گرنا ناگزیر ہے.
لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام کا ڈھانچہ بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے. اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کی بات کریں یا قدیم زمانے کے نصاب تعلیم کی، اسکولوں میں موجود ناقص انتظامات ہوں یا غیر نصابی ملازمین کی کمی، بچوں کی صحت اور تربیت تو پھر رہنے ہی دیں.
اسیا محسوس ہوتا ہے کہ اساتذہ کا مقصد اسکول آکر ٹائم پاس کرنا اور تنخواہیں لے کر گھر بیٹھ جانے کے سوا کچھ نہیں رہا. کچھ ہی سال پہلے جب ہم نے اسکول میں قدم رکھا تو ہمارے اساتذہ نے ہمیں صحیح راستے پر چلنا سکھایا. ان اساتذہ میں بچوں سے لگاؤ، ملک سی محبت اور جذبہ خدمت نمایاں تھا.
آج جدید سائنسی دور میں جہاں انٹرنیٹ نے دنیا کو گرفت میں لے لیا ہے ادھر ہی دنیا نے اسکولوں کو جدید دور کے مطابق ڈھال لیا ہے. ان جدید اصولوں کی بنیاد پر بچے ملک و قوم کو ترقی یافتہ ملکوں کی دوڑ میں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں.
ہمارے معاشرے میں بچوں کی حیثیت ایک گدھے کی سی ہوگئی ہے. کتابوں کی صورت میں بچوں کے بھاری بھر کم بیگ انکے کندھوں کوزمین کی جانب دباتے ہوئے ہمیں منہ چڑاتے نظر آتے ہیں کہ تم آج بھی اس قدیم تعلیمی نصاب کا حصہ ہو، تم آج بھی پستی کی حالت میں ہو، تم آج بھی تیسری دنیا کے کوئی عام سی مملکت سے ہو، تم کیا دنیا کا مقابلہ کروگے، تمہارے بچے کتابوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں، یہ کیا اپنے آپ کو مشکل میں ثابت قدم رکھ پائینگے.
تعلیم جہاں انسانوں اور جانوروں میں فرق بتاتی تھی آج ہمارے بچوں کے ساتھ تعلیم کے نام پر جانوروں جیسا سلوک ہورہا ہے.
محبت مجھے ان جوانوں سے
جو ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند