ووئےےے میرا بستہ دے ۔۔ بستہ ادھر رکھ
مجھے چابی دے ، میں تجھے چابی بنادوں گا “
ایک تین سال کا بچہ شہادت کی انگلی اٹھائے اپنی ٹیچر اور دوسرے بڑوں سے اس طرح اس انداز میں بات کررہا ہو تو کیا اسے معصوم کہا جاسکتا ہے ۔۔ ؟؟؟؟ کہتے ہیں ناں کہ “خوبصورت” کا “عیب” بھی “کمال” لگتا ہے ، بچہ بےشک پیارا ہے لیکن اسے معصوم کہنے والے شاید “ادب آداب” سے ناواقف ہیں ۔ ان کی بھی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کرنا ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ جس کے پاس بھی “قلم کی طاقت” ہے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے میں پھیلتی ہر “برائی” کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالا جائے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بچے کی اس بدتمیزی کو پروموٹ کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا بدتہذیبی کو فروغ دینا نہیں ۔۔ ؟؟ اس بچے کے ساتھ دوسرے بچوں کو کھڑا کرنا اور یہ کہنا کہ ” اس کا انداز اپناؤ ” صحیح ہے ۔؟ میڈیا آخر چاہتا کیا ہے ۔۔ ؟؟ کبھی چائے والا تو کبھی گاؤں کی لڑکیاں مطلب کہ مسلمان اتنے فارغ ہوچکے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کام کوئی مقصد ہی نہیں ۔۔۔۔ ہم نے کبھی اپنے بڑوں سے نظریں ملا کر بھی بات نہیں کی ، پہلے زمانے میں بڑوں کا جو ڈر خوف ہوا کرتا تھا وہ ان کی اہمیت و عزت کو واضح کردینے کے لیے ہی کافی تھا ۔ اس بچے کو بار بار مارننگ شو میں بلانا اس سے بار بار وہی سب کروانا اسے غصہ دلانا ، اکسانا اس کی بدتمیزی پر قہقہے لگانا چہ معنی ۔۔ ؟؟؟ آج ہمارے نزدیک یہ فن ہے ، بچے کا انداز بڑا یونیک لگ رہا ہے کل کو جب اپنے بچے اس ٹون میں بات کریں گے تو کیا آپ شاباشی دیں گے ؟؟ پھر تو آپ سر پیٹ کرکہیں گے کہ پتا نہیں کہاں سے بدتمیزی سیکھی ۔ میرے بچے تو ایسے نہیں تھے وغیرہ وغیرہ ۔۔ افسوس کا مقام ہے ان لوگوں کے لیے جو اس بچے کی بدتمیزی کو سراہ رہے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے حمایت کررہے ہیں اور رہا ہمارا میڈیا تو اس کی تو خواہش ہی یہی ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو بس ان کی ریٹنگ بڑھے۔۔۔۔ ایک طرف اگر بدتہذیبی کو فروغ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف نامحسوس طریقے سے اس بات کو بھی بچوں میں منتقل کیا جارہا ہے کہ غصہ ایک بہت اچھی چیز ہے ۔۔ کیا ہم اپنا معیار دکھا رہے ہیں غیر مسلموں کو ۔۔۔ ؟؟ افسوس کا مقام ہے اللہ ہم سب کو ہدایت دے .