نانا پاٹیکر کے خلاف سابق اداکارہ تنوشری دتا کے ذریعہ جنسی ہراسانی کا الزام عائد کئے جانے کے بعد جنسی ہراسانی کے خلاف ہندوستان میں شروع ہونے والی خواتین کی مہم’’می ٹو‘‘(مَیں بھی جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہوں) میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ ٹیلی ویژن پر کام کرنے والی کئی معروف خواتین اور صحافیوں نے اپنے تلخ تجربوں کا ذکر کیا ہے اور ذہنی اذیت دینے کی بات کھل کر بتائی ہیں۔ ایسے میں نت نئی نیز اہم شخصیات کے ناموں کے انکشافات کے سبب ہلچل بڑھتی جا رہی ہے۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میں خواتین اِس ٹرینڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کرچکی ہیں۔ اِن الزامات میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے اِس کا اندازہ تو اُسی وقت ممکن ہے جب الزامات کی گہرائی سے تفتیش ہوگی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں جاری ہیش ٹیگ می ٹو مہم کے ذریعہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے نامناسب واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ مہم گزشتہ برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ہالی ووڈ کی متعدد خواتین نے مشہور پروڈیوسر اور فلمساز ہاروی وائنسٹن پر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ دی نیویارکر میگزین کے مطابق ہاروی پر تیرہ سے زیادہ خواتین نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ اُن میں گوے نیتھ پالٹرو اور اینجیلینا جالی جیسی اہم ایکٹرس بھی شامل تھیں۔ جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد وائنسٹن کی برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس (بافٹا) اور آسکر کی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔جس کے بعد امریکہ کی فلمی اور ٹی وی صنعت میں کئی معروف شخصیتوں کے خلاف بھی ایسے الزامات سامنے آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر می ٹو کا ہیش ٹیگ سب سے پہلے امریکی سماجی کارکن ترانا برکے نے استعمال کیا اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف اٹھنے والے شور میں اداکارہ الیسا میلانو نے اِسے مقبول بنایا۔ دسمبر۰۱۷ ۲ء میں ٹائم میگزین نے اِن دونوں خاتون کو ٹائمز پرسن آف دی ائیر کیلئے منتخب کرتے ہوئے میگزین کے کور پیج پر تصویر لگا کر’’دی سائلنس بریکر‘‘ سرخی لگائی تھی۔ اداکارہ پوجا بھٹ کا کہنا ہے کہ خود بالی ووڈ میں کئی ہاروی وائنسٹن ہیں لیکن لوگ آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔
اب ہندوستان میں می ٹو مہم کس طرح مقبول ہوئی یہ سمجھنا ضروری ہے۔ کچھ عرصہ قبل سابق رکن پارلیمان اور کانگریس لیڈر رینوکا چودھری نے کہا تھا کہ عورتوں کا جنسی استحصال صرف فلم انڈسٹری تک ہی محدود نہیں ہے اور چاہے پارلیمان ہو یا کوئی اور جگہ یہ مسئلہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ دراصل رینوکا چودھری بالی ووڈ کی مشہور کوریوگرافر سروج خان کے اُس بیان پر اپنی آراء کا اظہار کر رہی تھیں کہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ مردوں کی ہوس کا شکار بننا یا نہ بننا عورتوں کے ہاتھوں میں بھی ہے۔ تم اُس کے ہاتھ میں نہیں آنا چاہتی ہو تو نہیں آؤگی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر تمہارے اندر ہنر ہے تو تم خود کو کیوں فروخت کروگی۔ تیلگو فلمی صنعت میں کاسٹنگ کاؤچ کے خلاف برہنہ ہونے والی اداکارہ شری ریڈی پر ایک صحافی کے سوال کے جواب میں سروج خان نے یہ رد عمل دیا تھا۔ حالانکہ اُس بیان پر تنازعہ ہونے کے بعد سروج خان نے معافی مانگی تھی۔
اُسی بحث کے دوران سروج خان نے ایک اور بات کہی تھی جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ بابا آدم کے زمانے سے یہ چلتا رہا ہے۔ ہر دوشیزہ کے اوپر کوئی نہ کوئی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تم فلم انڈسٹری کے پیچھے کیوں پڑے ہو، وہ کم سے کم روٹی تو دیتی ہے ریپ کر کے چھوڑ تو نہیں دیتی۔ اُسی دوران معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے فرزند ہدایتکار فرحان اختر نے کہا تھا کہ حالات اُس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک عورتیں آواز نہیں اٹھاتیں۔ وہ کھل کر سامنے آئیں گی، اپنے تلخ تجربات بتائیں گی تو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوگا۔ جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کو پوری قوت سے اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں پر بات کرنی ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مجرم سے زیادہ شرمندہ متاثرہ شخص کو ہونا پڑتا ہے۔
دوردرشن پر۰ ۹/کی دہائی میں آنے والے مشہور سیریل ’تارا‘کی مصنفہ اور تخلیق کار ونیتا نندا نے اداکار آلوک ناتھ پر تقریباً دو دہائی قبل آبروریزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جنہوں نے بالی ووڈ کی متعدد فلموں میں بابوجی کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ آلوک ناتھ پردے پر اپنی سنسکاری یعنی مہذب شبیہ کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ونیتا نندا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا ہے کہ مَیں نے اِس لمحہ کے آنے کا ۱۹/سال انتظار کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فلم اورٹی وی دنیا میں وہ سب سے سنسکاری شخص قرار دیئے جاتے ہیں۔ ونیتا نندا کی پوسٹ میں سنسکاری، اہم اداکار اور اس دہائی کا اسٹار جیسے الفاظ کا استعمال کیا جانا صاف طور سے اداکار آلوک ناتھ کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ اب بابوجی کو لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ اُنہوں نے فوراً صفائی دی۔ ابتدا میں می ٹو کا ہندوستان میں کوئی اثر نہیں ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ اِس مہم نے تیزی پکڑی ہے۔ ابھی یہ سامنے آنا باقی ہے کہ اِس کے اثرات کہاں تک جاتے ہیں اور کس کس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ٹائمس آف انڈیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور ڈی این اے کے بانی مدیر رہ چکے گوتم ادھیکاری پر بھی کئی خاتون صحافیوں نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ حال میں ادھیکاری سینٹر فار امریکن پروگریس میں سینئر فیلو تھے۔ الزامات کے بعد اُنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جنسی استحصال کا الزام لگنے کے بعد ہندوستان ٹائمس کے پالیٹیکل ایڈیٹر اور بیورو چیف پرشانت جھا نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ صحافی سندھیا مینن نے دو مدیروں پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور کئی دوسرے لوگوں کی روداد بھی بیان کی جنہوں نے اپنی تکلیف اُنہیں بتائی تھی۔ وویک اگنی ہوتری، اداکار رجت کپور، فلمساز اور شومین سبھاش گھئی کے علاوہ مکالمہ نویس پیوش مشرا، سدھارتھ کپور، گنیش آچاریہ، پروڈیوسر کریم مورانی، سبھاش کپور، ساجد خان کو بھی اِس میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ گلوکار کیلاش کھیر، رگھو دکشت، کامیڈین اُتسو چکرورتی، معروف بزنس مین سہیل سیٹھ اور خاتون اسٹینڈ اپ کامیڈین ادیتی متل، سری لنکن کرکٹر لستھ ملنگا، پرتگالی فٹ بال کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو سمیت کئی اہم نام می ٹو مہم کی زد میں آگئے ہیں۔ یہ فہرست یہیں تمام نہیں ہوتی بلکہ جنسی ہراسانی سے جڑے بڑے ناموں کے انکشاف کا سلسلہ جاری ہے۔
اِسی درمیان بالی وڈ اداکار ریتک روشن نے اپنی آنے والی فلم سپر تھرٹی کے ہدایتکار وکاس بہل پر ہراسانی کے الزام کی وجہ سے فلم چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُنہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میرے لئے نا ممکن سی بات ہے کہ مَیں ایسے شخص کے ساتھ کام کروں جو کسی طرح کی بد اخلاقی میں ملوث ہو، مَیں وکاس بہل سے درخواست کرچکا ہوں کہ وہ اِس معاملے پر حقیقت سامنے لائیں۔ ریتک نے یہ بھی لکھا کہ یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہونا چاہئے بلکہ ذمہ داروں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ ریتک روشن کے جرأت مندانہ فیصلہ کی تائید کرتے ہوئے بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے گلشن کمار کی زندگی پر بننے والی فلم مغل کے ڈائریکٹر سبھاش کپور پر جنسی زیادتی کے الزام کا انکشاف ہونے کے بعد خود کو فلم سے علاحدہ کر لیا ہے۔ عامر اِس فلم سے بطور پروڈیوسر وابستہ تھے۔ ٹویٹ کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ اعلان کیا کہ عامر خان پروڈکشن میں ہمیشہ جنسی استحصال کے تئیں زیرو ٹولرینس پالیسی اپنائی جاتی ہے۔
ویسے ہندوستان میں می ٹو مہم کی شروعات ممبئی سے ہی ہوئی۔ جہاں تک بالی ووڈ کا تعلق ہے وہ بالکل الگ دنیا ہے جہاں مذہب، اخلاقیات، روایتی اقدار، شرافت، عورتوں کا احترام وغیرہ جیسی باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بالی ووڈ میں نئے فنکاروں کے جنسی استحصال کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ اِس لئے اگر فلمی دنیا کے بارے میں کوئی انکشاف ہوتا ہے تو اِس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ لوگ جانتے ہیں کہ ’اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں۔‘ فی الوقت جو فلمی اداکارائیں اور دیگر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی الگ الگ صورتوں کے بارے میں می ٹو مہم کے تحت دردِ دل بیان کر رہی ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ عزت دار جگہوں پر ہونا اور تعلیم یافتہ نظر آنا کسی مرد کے مہذب ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔
یہ مہم سینما، سیاست اور صحافت کے گلیاروں سے ہوتی ہوئی کھیل کے میدان تک پہنچ گئی ہے۔ ارجن ایوارڈ فاتح ہندوستانی بیڈ منٹن کھلاڑی جوالا گٹا نے ہمیشہ ہی عوامی طور پر اپنی بات کو بے خوف ہو کر سامنے رکھا ہے اور اب انہوں نے سلیکشن کے عمل پر ذہنی دباؤ کی بات کہی ہے۔ جبکہ اولمپک اور عالمی چمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے والی بیڈ منٹن اسٹار پی وی سندھو نے ہیش ٹیگ می ٹو مہم کی بحث سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایسے متعدد معاملات روشنی میں آتے رہتے ہیں اور یہ صرف بالی ووڈ تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاست، صحافت، کھیل، کارپورٹ سے لے کر دفاتر تک اور ملازمت کے حصول سے لے کر پرموشن تک عموماً ہم ہر طرح کی سودے بازی یا مفاہمت دیکھتے ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی یہ صورتحال افسوسناک ہی نہیں انتہائی شرمناک بھی ہے۔
ملک میں اب تک اِس قسم کے جتنے بھی معاملے سامنے آئے ہیں اُن میں سب سے سنگین معاملہ ایم جے اکبر کا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور سابق قدآور صحافی ایم جے اکبر پر ایک دو نہیں بلکہ اب تک تقریباً نو خواتین صحافی جنسی استحصال کا الزام لگا چکی ہیں۔ ایم جے اکبر پر پریہ رمانی سے لے کر غزالہ وہاب اور صبا نقوی جیسی معروف خاتون صحافیوں نے جو الزامات عائد کئے ہیں اُنہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور ویمن امپاورمینٹ کا نعرہ لگانے والی نیز خواتین سے انتہائی درجہ کی ہمدردی رکھنے والی موجودہ حکومت اِس موضوع پر بالکل خاموش ہے۔ ہر چند کہ یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ یہ خواتین اُس وقت کیوں خاموش رہیں جب اُن کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھیں؟ حالانکہ وہ خود صحافی تھیں اور بے باک صحافی تھیں۔ بڑے انتظار کے بعد ایم جے اکبر نے افریقہ دورے سے وطن لوٹتے ہی اپنی رہائش گاہ سے اِس موضوع پر ایک بیان جاری کیا۔ اُنہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے پر اُس میں زہر ضرور ہوتا ہے جو بے بنیاد طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔ موصوف کے بیان میں کتنی سچائی ہے یہ تفتیش کا موضوع ہے۔ لیکن خاتون صحافیوں کے نہایت ہی سنگین الزامات کے سامنے اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ حکومت ہند کو بھی وضاحت کرنی چاہئے کیونکہ خاموشی کا مطلب یہی نکالا جائے گا کہ الزامات میں صداقت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سزا کی پرانی تعریف اب بدل رہی ہے۔ خواتین ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں اور اِسی لئے وہ کھل کر بول رہی ہیں۔ می ٹو مہم کو لے کر ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کہا ہے کہ جنسی استحصال کے مجرم پائے گئے کسی بھی شخص کو قانون کے حساب سے سزا دی جانی چاہئے۔ ملک میں پریس کی آزادی کیلئے غیر جانبدار، انصاف پسند اور محفوظ ماحول کام کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ایڈیٹرس گلڈ کے اِس بیان سے ہم پوری طرح متفق ہیں مگر ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ جنسی زیادتی کے موضوع پر صرف اُسی وقت بات نہ کریں جب یہ ٹرینڈ کر رہا ہو بلکہ اِس مسئلے پر ایک مسلسل اور سنجیدہ بحث ہونی چاہئے۔
جن لوگوں پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اُن کے خلاف کارروائی بھی ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ظلم کے خلاف کبھی بھی آواز بلند نہیں کی جا سکتی ہے لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر جن لوگوں پر دس یا بیس سال بعد جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اُن کی سچائی کا پتہ اب کیسے چلے گا؟ ایسا بھی ممکن ہے کہ اُس وقت خواتین کی کوئی مجبوری رہی ہو، اِس لئے وہ اب پردہ فاش کر رہی ہیں؟ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اِس لئے لازمی ہے کہ جو خواتین ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنسی ہراسانی کا الزام عائد کر رہی ہیں اُن کے معاملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قصوروار پائے جانے پر مجرم مرد کو سخت سزا دی جائے اور اگر معاملہ خاتون کے خلاف نکلتا ہے تو وہ بھی سزا کی مستحق ہے۔
(مصنف ممبئی،اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صَحافی ہیں)
5 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
I love it when folks get together and share opinions.
Great blog, stick with it!
Fantastic web site. A lot of useful info here. I am sending it to
a few pals ans also sharing active wear in pakistan delicious.
And obviously, thanks in your effort!
When you learn how to do stamped concrete over an existing
patio, you will soon come to realise that it is not only a great
way to create curb appeal, but it is also an extremely practical way to extend the usability of your patio. https://www.google.com/maps/place/?cid=10866013157741552281
Choosing a new driveway is a great way to add curb appeal and style to
your home. It is also an easy way to update an old driveway
by updating its look. https://www.google.com/maps/place/?cid=5307152812782115180
Concrete driveways are an essential part of your home’s landscape and do not have to be expensive.
The best way to add curb appeal to your home is to use a concrete driveway with an upscale look and feel. https://search.google.com/local/reviews?placeid=ChIJLRrbgctL4okRbNmXXl3Lpkk