میری بیٹی لگ بھگ کوئی تین سے چار سال کی تھی،وہ عمر جس میں بچہ گھر سے باہر کے ماحول میں قدم رکھتا ہے،اردگرد کی چیزوں سے اثر لینا شروع کرتا ہے،نئی نئی باتیں نئے نئے سوالات اس کی دماغ کی سلیٹ پر ابھرتے ہیں،کچھ کے جواب ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں کچھ کے نہیں۔۔۔۔۔
ایسا ہی ایک سوال جس نے مجھے لکھنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔
گھر میں دعوت پر کچھ مہمان مدعو تھے،انہی مہمانوں میں میری ایک دوست جوکہ میرے میاں کے دفتر میں ان کے ساتھ کام کرتیں موجود تھیں،
جس تعلق کو آج کل حرف عام میں “Colleague” کے معتبر نام سے جانا جاتا ہے ایسے بہت سے معتبر نام جو نہ جانے کب اور کیسے ہماری لغت میں شامل ہو گئے جو نہ معتبر ہوتے ہوئے بھی معتبر ہوگئے۔۔
کھانے پینے اور معمول کی گفتگو کے بعد محفل برخاست ہوئی،سب مہمانوں کے جانے کے بعد میری ننھی پری نے ایک عجیب سا سوال کردیا جو بہت دن تک میرے دل و دماغ پر ضربیں لگاتا رہا،
“اماں یہ بابا کی “گرل فرینڈ”ہیں
ہم وہ لوگ جو اسکولوں میں داخلے کے وقت بھی ہر طرح کی چھان پھٹک کرنے والے گھروں میں بھی حتی الامکان میڈیا سے دور رکھنے کی کوشش کرنے والے بھلایہ گرل فرینڈ کی اصطلاح ہمارے گھروں میں کیسے داخل ہوئی۔۔۔
وہ ننھا سامعصوم سا سلیٹ ذہن جس پر ابھی بہت سی تصاویر بن رہی ہیں کب اس تہذیبی یلغار کاشکار ہو گیا،کب ہمارے گھر ہمارا معاشرہ نامحسوس طریقے اس تہذیبی یلغار کی زد میں آگیا،ایسا اچانک سے تو نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا اچانک سے ہو سکتا ہے۔
“وقت کرتا ہے پرورش برسوں”
وہ شاخ نازک جس پر ہم آشیانہ بنانے چلے ہیں ہوا کا ایک جھونکا اسے اپنے ساتھ اڑا لے جائے گا اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔
اور اب یہ آشیانہ جھونکوں نہیں بلکہ جھکڑوں کی زد میں ہے جس کو ایک مضبوط شاخ ہی تھام سکتی ہے،اور وہ مضبوط شاخ میری شناخت میری پہچان میری اپنی تہذیب
“اسلامی تہذیب” ہے۔
بہت خوب ماشااللہ