20مارچ 1739 ء دہلی میں محلہ حوض قاضی کی سنہری مسجد کا منظر ، یہ مسجد روشن الدولہ کی مسجد بھی کہلاتی ہے ۔ مسجد کی سیڑھیوں پر ایک سپہ سالار ننگی تلوار ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ اس کے گرد محافظین کا دستہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ سپہ سالار ان افواج کا سربراہ ہے جو گزشتہ نو گھنٹوں سے دہلی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان نو گھنٹوں میں دہلی میں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ افراد قتل کیے گئے ہیں۔ گلی کوچوں میں لاشوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں۔ شرفاء دہلی کے گھروں کے دروازے کھلے پڑے ہیں اور حملہ آور افواج کے سپاہی ان گھروں کے باسیوں پر تشدد کرکے پوشیدہ مال و دولت نکلوارہے ہیں۔ دہلی کے خوبصورت مکانات دھڑا دھڑ جل رہے ہیں۔ حملہ آور سپاہی پورے پورے محلے لوٹ مار کے بعدنذرآتش کررہے ہیں۔ مرد و عورت اور جوان بوڑھے کا فرق کیے بغیر قتل وغارت گری کی جارہی ہے۔ دہلی والوں نے بھلا ایسی قیامت کب دیکھی تھی؟ اس قتل عام نے تین سو سال پرانی امیر تیمور کی دہلی پر یلغار کو بھی شرما دیا ہے۔
اب مجبور ہو کر بادشاہ دہلی نے نظام الملک آصف جاہ کو روشن الدولہ کی مسجد بھیجا ہے اور نظام الملک حملہ آور سے دہلی والوں کے لیے جان بخشی طلب کرتے ہیں۔ آخر کار حملہ آور سپہ سالار تلوار نیام میں ڈال لیتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ قتل و غارت گری بند کردی جائے!
یہ سپہ سالار ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار ہے جسے تاریخ میں نادر قلی بیگ بھی کہا گیا ہے اور یہ آج دہلی والوں پر قیامت بن کر ٹوٹا ہے۔ گزشتہ ماہ 24فروری 1739 ء کو دہلی سے سو کلو میٹر دور کرنال کے میدان میں مغل لشکر نادر شاہ کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگیا تھااور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلاکو نادر شاہ نے اس معرکے میں گرفتار کرلیا تھا۔
دہلی میں شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مغل فوج کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے۔ صرف32سال پہلے مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر کی وفات کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے تقریباً پچاس سال قندھار اور کابل سے لے کر دہلی اور لاہور تک جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کی تھی۔ عالمگیر نے اپنی بیشتر زندگی میدان جنگ میں گزاری تھی اور اپنے دور حکومت میں مرہٹوں اور سکھوں کی یورش پر بڑی کامیابی سے قابو پالیا تھا۔ آج اس کی وفات کے صرف 32سال بعد ایران سے نادر شاہ ایرانی لوٹ مار کرتا چلا آرہا تھا اور دہلی کے لال قلعے تک اسے روکنے والا کوئی نہ تھا!
محمد شاہ رنگیلا1719 ء تا 1748 ء:
1707 ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد سے 1719 ء میں محمد شاہ رنگیلا کی تخت نشینی تک12سال کے وقفے کے دوران مغل تخت پر چھ حکمران مسندنشین ہوئے، اعظم شاہ، بہادر شاہ اول، جہاں دار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، اور شاہجہاں ثانی۔ یعنی12سال میں مغل سلطنت کے چھ حکمران ! عالمگیر کی وفات کے بعد زوال حکومت کی یہ واضع نشانی تھی۔ بہر حال1719 ء میں دہلی کی مغل سلطنت پر محمد نصیر الدین شاہ روشن اختر بہادر تخت نشین ہوئے جو تاریخ میں اپنی طبیعت کی جولانی اور رنگینی کے سبب محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
محمد شاہ رنگیلا رقص و سرور کی محافل کا دلدادہ تھا اور شمشیر و سنان اس کے بس کا روگ نہیں تھیں۔ ’’کوکی‘‘نام کی ایک کنیز اس کے مزاج پر اس قدر حاوی ہوگئی تھی کہ مغلیہ دربار کے سرکاری امور باقاعدہ اس کی مہر سے انجام پانے لگے ۔ اپنے اس مزاج کے باعث محمد شاہ عوام میں رنگیلا بادشاہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ وہ تمام فتنے جو ہندوستان بھر میں اورنگزیب عالمگیر نے بزدر طاقت دبائے ہوئے تھے وہ سر اٹھانے لگے۔ پنجاب کے سکھ، شمال کے افغان روہیلے اور مرہٹے طاقتور ہوگئے۔ درباری امراء میں ایرانی اور ترک تعصب نظر آنے لگا۔
یورپی تاریخ دان فلپ وڈرف”The man who ruled india” میں رقم طراز ہے، ’’عالمگیر کے بعد آنے والے چالیس برسوں میں محض نام کے بادشاہ یکے بعد دیگرے آتے رہے جو عیاشی میں غرق تھے۔‘‘
مختصراً یہ کہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں مغل سلطنت کی تباہی کے تمام عناصر مرکز دہلی میں یکجا ہوچکے تھے کہ ایسے میں ایران سے نادر شاہ ایرانی کی فتوحات کی خبریں آنے لگیں۔
نادر شاہ:
نادر شاہ ایران کی سلطنت افشار کا بانی تھا اور اس کا مکمل نام نادر قلی بیگ تھا، جو حکمران بننے کے بعد نادر شاہ افشار یا نادر شاہ رہ گیا۔ ’’آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا‘‘ کے مطابق 1736 ء میں ایران کی صفوی بادشاہت کا خاتمہ کرکے نادر شاہ ایران کا بادشاہ بن گیا، اسی دوران نادر شاہ کے مخالف امراء میں سے کچھ نے کابل میں سلطنت مغلیہ میں پناہ لے لی۔ نادر شاہ نے دہلی میں محمد شاہ کے دربار میں اپنا ایلچی بھیجا اور مطالبہ کیا کہ ان امراء کو کابل سے بے دخل کیا جائے۔ دوران سفرایلچی کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور جب وہ دہلی پہنچا تو اس کی حالت نہایت خستہ تھی۔ مرتضیٰ احمد خان ’’تاریخ عالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب نادر شاہ کا ایلچی محمد شاہ رنگیلاکے پاس پہنچا تو شہنشاہ ہند شوق فرمارہے تھے اور حالت نشہ میں ہی انہوں نے نادر شاہ کے خط کو ’دفتر بے معنی‘ قرار دے کر ’مئے ناب‘کے پیالے میں ڈبو دیا۔ ‘‘دوسری طرف نادر شاہ نے قندھار پر قبضہ کرلیا اور اپنے خط کا جواب نہ ملنے پر دوبارہ ایلچی بھیجا۔ اس دفعہ بھی نادر شاہ کے خط کا مغل دربار سے کوئی جواب نہ دیا گیا ۔
مغل دربار کے اس سلوک کی وجہ سے نادر شاہ کو مغل سرحدیں عبور کرنے کا جواز مل گیا اور وہ کابل پر حملہ آور ہوگیا۔ کابل باقاعدہ مغل سلطنت کا حصہ تھا اور وہ نادر شاہ کے ہاتھوں فتح ہو کر ایرانی سلطنت میں شامل ہوگیا ۔ کابل کے بعد نادر شاہ نے جلال آباد فتح کیا اور برصغیر میں داخل ہونے کیلئے درّہ خیبر پہنچ گیا۔
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت:
نادر شاہ کے ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور دہلی کے قتل عام کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یلغار مغل امراء کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی۔ ایرانی و ترک اور شیعہ و سنی چپقلش نے محمد شاہ کی رنگینیوں کے ساتھ مل کر سلطنت مغلیہ کو تباہ کردیا تھا۔ ایسے میں نادر شاہ خدا کے عذاب کی صورت میں ہندوستان میں داخل ہوگیا۔ امراء کی باہمی رقابت اس درجے پر پہنچ گئی تھی کہ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں مرکزیت کے کمزور ہوجانے کا بھی خیال نہیں رہا۔
یہ قصہ شروع ہوتا ہے امیر المراء سپہ سالار اعظم خان دوراں اور صوبے دار اودھ سعادت خان کی باہمی چپقلش سے۔ کہا جاتا ہے کہ سعادت خان جو محمد شاہ رنگیلا کا قابل اعتماد امیر تھا نسلاً ایرانی تھا اور مغل سلطنت کی کمزوری دیکھ کر اس نے باقاعدہ نادر شاہ کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ آور ہونے پر اکسایا تھا ۔ مگر اس بات کا کوئی ثبوت تاریخ میں نہیں ملتا۔ سعادت خان اور خان دوراں کے درمیان نسلی اور عقائد کے اعتبار سے تعصب بہر حال موجود تھا۔
دوسری طرف نادر شاہ درہ خیبر کو عبور کرکے پشاور پر حملہ آور ہوگیا۔ پشاور میں لوٹ مار کرکے وہ لاہور کی طرف بڑھا اور لاہور کے مغل صوبیدار زکریا خان کی فوج کو تباہ کرکے دہلی کی طرف عازم سفر ہوا۔
ہنوز دلی دور است:
کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ طوفانی انداز میں کابل اور جلال آباد فتح کرتا آگے بڑھ رہا تھا اور دہلی کے دربار میں محمد شاہ رنگیلا کی توجہ اس فوری خطرے کی طرف دلائی گئی تو اس نے بے توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہنوز دلی دور است!‘‘ یہاں تک کہ جب نادر شاہ لاہور فتح کرچکا تو بھی محمد شاہ رنگیلا کا جواب یہی تھا ’’ہنوز دلی دور است!‘‘
(خیال رہے کہ یہ جملہ حضرت نظام الدین اولیاء سے بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ جب فیروز شاہ تغلق نے حضرت کو پیغام بھجوایا کہ میرے دلی پہنچنے سے پہلے شہر سے چلے جائیں تو آپ نے جواب میں یہ جملہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جب فیروز شاہ تغلق دلی سے چند کوس دور رہ گیا تو پھر بھی حضرت نے اپنے مریدین کو اطمینان کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہنوز دلی دور است!، ممکن ہے محمد شاہ رنگیلا نے حضرت نظام الدین اولیاء کا جملہ ہی نقل کیا ہوا مگر بہر حال محمد شاہ رنگیلا کا یہ جواب اردو میں ضرب مثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔)
محمد شاہ اور اس کی رنگیلی فوج:
جب محمد شاہ رنگیلا کو نادر شاہی افواج کے کرنال کے میدان میں مجتمع ہونے کی اطلاعات ملیں تو مجبوراً اسے دہلی سے باہر نکلنا پڑا۔ کرنال کا علاقہ دہلی سے تقریباً سو میل دور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کابل اور قندھار سے طوفان کی طرح سفر کرتا چھ سو میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا مگر صرف سو میل کا فاصلہ محمد شاہ رنگیلا کی مغل فوج سے طے نہ ہوسکا اور جب لڑائی شروع ہوئی تو مغل توپ خانہ وقت پر پہنچ نہ سکا اور ایرانی تو پ خانے نے مغل افواج کا حشر نشر کردیا۔
دہلی سے نکلنے والے مغل لشکر کی رفتاربہت سست تھی اور ایسا لگتا تھا کہ شاہی لشکر سیر و تفریح کی غرض سے نکلا ہے۔ دہلی کی رقا صائیں اور گلو کارائیں بادشاہ کے دل بہلانے کے لیے ساتھ تھیں۔ کھانے پینے کا سامان اور گانے بجانے کے آلات سے لگتا تھا کہ مغل بادشاہ کو نادر شاہ کی طاقت کا صحیح اندازہ ہی نہ تھا۔ کرنال تک کا سفر مغل لشکر نے اس طرح سے طے کیا کہ شاہی افواج دو سالاروں کی قیادت میں جنگ لڑنے جارہی تھیں۔ ایک لشکر خان دوراں کی قیادت میں اور دوسرا سعادت خان کی کمان میں۔ یعنی اس نازک موقع پر بھی مغل امراء کی آپس میں چپقلش صاف نظر آرہی تھی جو ایک ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔
جنگ کرنال 1739 ء :
بہر حال مغل لشکر دو ماہ میں کرنال پہنچا تو نادر شاہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان جنگ میں تیار تھا۔ مغل لشکر دو ٹکڑوں میں تقسیم تھا ۔ طبل جنگ بجا تو معلوم ہوا کہ مغل توپ خانہ تو ابھی میدان میں پہنچا ہی نہیں۔ نادر شاہ نے اس صورتحال سے مکمل فائدہ اٹھایا اور مغلوں کو اپنی توپوں کے نشانے پر لے کر حملہ کردیا۔
نادر شاہ نے بھی اپنی سپاہ کے دو لشکر الگ کرکے خان دوراں اور سعادت خان کے مقابلے پر بھیج دیے اور خود میدان جنگ کے مرکز میں ڈٹ گیا۔ رقص و سرور کا دلدادہ محمد شاہ رنگیلا بھلا کس طرح نادر شاہ جیسے مرد میدان کا مقابلہ کرتا۔ جنگ کا فیصلہ دو گھنٹوں ہی میں ہوگیا۔ خان دوراں کا لشکر مکمل برباد ہوگیا۔ اور وہ خود بھی بری طرح زخمی ہوا۔
’’خان دوراں کی فوج کا یہ عالم تھا کہ ایک خیمہ بھی درست حالت میں نہ ملا کہ جس میں شدید زخمی خان دوراں کا علاج کیا جاسکتا۔‘‘
(سیر المتاخرین۔ طبا طبائی)
اسی حالت میں خان دوراں کا انتقال ہوگیا۔ مغل فوج کے دوسرے لشکر کا بھی یہی حال تھا۔ سعادت خان کو جب معلوم ہوا کہ خان دوراں مرچکا ہے تو اس نے فوراً ہتھیار ڈال کر نادر شاہ کو گرفتاری پیش کردی۔ کہا جاتا ہے کہ سعدات خان ایک قز لباشی سپاہی کی بات سے متاثر ہوگیا تھا کہ جس نے اسے ایرانیوں کے ہم نسل ہو کر ان سے لڑنے کا طعنہ دیا تھا۔
اس طرح اکبر اعظم کے جانشین ایرانی سپاہ کا مقابلہ نہ کرسکے اور ایرنیوں نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ تاریخ میں اس معرکے کو جنگ کرنال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس جنگ میں عملی طور پر مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
سعادت خان کی غداری:
مسلمانوں کا یہ المیہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ غیروں سے زیادہ اپنوں نے انہیں نقصان پہنچایا ہے ۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ۔ نادر شاہ کرنال سے واپس ایران جانے کو تیار تھا مگر مغل امیر سعادت خان نے ایسا نہ ہونے دیا اور امراء کی چقلش بازی نے آخر کار ایک لاکھ بے گناہ عوام کی جان لے لی۔
تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ جب قید کے دوران سعادت خان سے نادر شاہ نے اچھا سلوک کیا تو اس نے نادر شاہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ دہلی کا رخ نہیں کرے گا بلکہ دو کروڑ روپے تاوان لے کر کرنال سے واپس ہوجائے گا۔ سعادت خان کو نادر شاہ نے عزت کے ساتھ رہا کردیا اور وہ یہ پیغام لے کر محمد شاہ رنگیلا کے پاس پہنچ گیا۔
محمد شاہ اس بات سے خوش ہوگیا اور تاوان کے معاہدے کو طے کرنے کے لیے نظام الملک آصف جاہ کو نادر شاہ کے پاس بھیج دیا۔ سعادت خان ایک لالچی امیر تھا اور خان دوراں کی ہلاکت کے بعد امیر الامراء جو دربار کا ایک بڑا عہدہ ہوتا تھا اس کا متمنیٰ تھا ۔ مگر نظام الملک نے محمد شاہ کو باور کرایا کہ نادر شاہ سے معاہدہ اس کی کاوش کا نتیجہ ہے اور محمد شاہ رنگیلا نے نظام سے خوش ہو کر اسے امیر الامراء کا عہدہ تفویض کردیا۔ نظام الملک آصف جاہ ایک لائق امیر تھا اور عالمگیر کے وقت سے دربار سے منسلک تھا۔ (یہ وہی آصف جاہ ہے جو بعد میں دکن جا کر خود مختار ہوگیا اور دکن کی آذاد ریاست کی بنیاد ڈالی جو انگریزی دور میں بھی قائم رہی) بلا شبہ نظام الملک ہی اس عہدے کا اصل حقدار تھا۔ مگر سعادت خان عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے دل میں محمد شاہ رنگیلا کے لیے بغض لیے دوبارہ نادر شاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دہلی کے شاہی محل میں صدیوں سے جمع کیا گیا مغل خزانہ موجود ہے۔ سعادت خان نے نادر شاہ کو تخت طاؤس اور دیگر مغل جواہرات کی داستانیں سنائیں تو نادر شاہ نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا اور محمد شاہ رنگیلا کو امراء کے ساتھ اپنے پاس طلب کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کی مشہور خاتون نور محل نے بھی اس سلسلے میں نادر شاہ کے کان بھرے اور مغل دربار سے اپنی وفاداری ختم کرتے ہوئے نادر شاہ کو شاہی قلعے میں مدفون خزانے سے متعلق مشہور داستانیں بیان کیں۔
مختصر یہ کہ نادر شاہ کے خیمے میں مغل امراء اور بادشاہ کی ضیافت کی گئی اور محمد شاہ رنگیلا نے مہمان فاتح کی خدمت میں ’’رقص و سرور کی محفل کی صورت میں گنگا جمنا تہذیب کا نمونہ‘‘پیش کیا جس کا وہ شائق تھا۔ محفل کے اختتام پر بادشاہ اور امراء کو علیحدہ خیمے میں نظر بند کردیا گیا اور مغل فوج کو واپس دہلی بھیج دیا گیا۔ اب محمد شاہ رنگیلا باقاعدہ نادر شاہ کا قیدی تھا ۔ محمد شاہ سے ایک خصوصی حکم نامے پر دستخط کروائے گئے جس کی روسے لال قلعے میں موجود شاہی محل میں سعادت خان کو رسائی دی گئی۔ اب اس حکم نامے کو لے کر سعادت خان شاہی محل پہنچا اور بابر اور اکبر کے زمانے کے جمع کیے گئے خزانے، جواہرات، مال و دولت اور شاہجہاں کا مشہور زمانہ تخت و طاؤس لوٹ کر نادر شاہ کو پیش کردیا۔
نادر شاہ کی دہلی آمد اور تاریخی قتل وغارت گری :
مغل خزانے پر قبضہ کرنے کے بعد نادر شاہ نے دہلی جانے کا فیصلہ کیا اور محمد شاہ رنگیلا کو آزاد کردیا تاکہ وہ پہلے دہلی پہنچ کر فاتح بادشاہ کا استقبال کرسکے۔ اس طرح نادر شاہ کی دلی میں آمد ہوئی مگر اس نے اپنی سپاہ کو سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ پُر امن باشندوں کو ہر گز تنگ نہ کیا جائے۔
اب نادر شاہ نے کب اور کیوں قتل عام کی اس ضمن میں کئی روایات ملتی ہیں۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں،
’’چند ایرانی سپاہیوں کو ہندوستانی سپاہیوں نے قتل کردیا۔ ایرانی سالار نے اس بات کی شکایت نادر شاہ سے کی تو نادر شاہ جلال میں آگیا اور اس نے حکم دیا ’بزن‘ یعنی مارو۔‘‘
مشہور روایت یہ ہے کہ دہلی میں افواہ پھیل گئی تھی کہ محمد شاہ نے نادر شاہ کو قتل کروادیا ہے۔ اس افواہ کا پھیلنا تھا کہ مغل سپاہ نے دہلی کے گلی کوچوں میں پھرتے ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ پہلے تو نادر شاہ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اچانک کیا شروع ہوگیا ہے۔ پھر جب اسے بتایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہوگیااور اپنے عسکری لباس میں ایک ہاتھی پہ سوار ہو کر دہلی کے بازاروں کا گشت کرنے لگا۔ نادر شاہ کو زندہ دیکھ کر ایرانی سپاہ نے نعرے بلند کرنے شروع کردیے ۔ اب حوض قاضی کی سنہری روشن الدولہ کی مسجد کی سیڑھیوں پر نادر شاہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا، یہ اشارہ تھا قتل عام کا! اب اہل دلی نے تباہی و بربادی کے وہ مناظر دیکھے کہ جنہیں لکھتے ہوئے مورخ بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ ایک دن میں مسلسل نو گھنٹوں تک دہلی والوں کا قتل عام کیا گیا ۔ دہلی کے بازار اور محلے لوٹ مار کے بعد نذر آتش کردیے گئے۔ مغل خزانے خالی کردیے گئے اور امراء کے محلات اور جاگیریں تباہ و برباد کردی گئیں ۔ بربادی کی وجہ سے مغل دارالحکومت دوبارہ سنبھل نہ سکا اور نہ ہی شاہی خزانہ دوبارہ مستحکم ہوسکا۔ یہی وجہ تھی صرف 23سال بعد شاہ عالم ثانی کے دور حکومت میں مغل بادشاہ انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا اور شاہی خاندان کی گزر اوقات انگریزوں کے وظیفوں سے منسلک ہوگئی۔
دہلی کی یہ بربادی اس دور کے ادبی منظر نامے میں بھی نظر آتی ہے۔دہلی میں موجود ادیبوں اور شاعروں نے دہلی کی بربادی کے مرثیے لکھے۔
میر تقی میر نے کہا
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اجڑے دیار کے
سید یوسف بخاری دہلوی اپنی تصنیف ’’یہ دلی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں ،
’’ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے1739 ء میں دہلی پر حملہ کردیا۔ محمد شاہ نے شکست کھائی اور پھر اپنی ہی بے وقوفی سے قتل عام کرایا۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ بازاروں اور گلیوں میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں ۔ سنہری مسجد سے متصل کوتوالی میں بیٹھ کر یہ قیامت برپا کرانے کے بعد نادر شاہ شاہجہاں کا تخت و طاؤس اور اس کے علاوہ اسّی کروڑ روپیہ اپنے ہمراہ لے گیا ۔ جان و مال کا یہ سارا نقصان محمد شاہ رنگیلے کی بدولت بے گناہ رعایا کو بھگتنا پڑا۔‘‘
مختصراً یہ کہ نادر شاہ کا حملہ مغل سلطنت کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ہندوستان بھر میں بغاوتیں زور پکڑ گئیں۔ ریاستوں کی صورت میں ہندو راجے مہاراجے اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے لگ گئے۔ مرہٹے مزید طاقتور ہوگئے اور ان کا زور توڑنے کیلئے شاہ ولی اللہ کو احمد شاہ ابدالی کو مدد کیلئے بلانا پڑا۔ سکھ زور پکڑ گئے اور1799 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور پر قابض ہوگیا۔ نادر شاہ کے حملے کے محض بیس سال بعد دہلی کی مغل سلطنت صرف دارالحکومت تک محدود ہوگئی اور شاہ عالم ثانی نے1762 ء میں ہندوستان کی کئی ریاستوں پر انگریزی اقتدار تسلیم کرلیا۔ مقولہ مشہور تھا ’’حکومت شاہ عالم ! از دہلی تا پالم۔‘‘(پالم دہلی کے نواحی علاقے کانام تھا)
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی:
نادر شاہ کی یہ لوٹ مار انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی شمار کی جاتی ہے۔ اُس وقت دہلی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا تھا اور اس کی آبادی لندن اور پیرس کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ ایران واپسی کے بعد امور سلطنت کے لیے نادر شاہ کو تین سال تک عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ دہلی کی لوٹی گئی دولت ہی کافی تھی۔ H.G Keen کے مطابق ، ’’اس دولت کی مالیت آٹھ کروڑ پونڈ اسٹرلنگ کے برابر تھی۔‘‘ روایت ہے کہ کئی ہفتوں تک سونے جواہرات کی اینٹیں ڈھالی جاتی رہیں تاکہ ان کی ایران منتقلی آسان ہوسکے۔ کوہ نور اور تختِ طاوس کی مالیت ہی آج کے حساب سے اربوں میں تھی۔
نادر شاہ کی دہلی سے روانگی اور غداروں کا انجام:
12مئی1739 ء کو آخر کار نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کی الوداعی ملاقات ہوئی جس میں نادر شاہ نے آخری ڈکیتی مغل بادشاہ کی پگڑی پر ڈالی۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ محمد شاہ نے کوہ نور ہیرا اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا مگر دہلی کی معروف خاتون نور محل جس کی اب اچھی خاصی دوستی نادر شاہ سے ہوگئی تھی اس نے مخبری کی اور بتایا کہ محمد شاہ کی پگڑی میں ایک ایسا ہیرا چھپاہوا ہے جس کے آگے کئی خزانے ہیچ ہیں ۔ چنانچہ اس آخری ملاقات میں نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا کہ اب ہم پگڑی بدل بھائی ہیں اور ایرانی روایات کے مطابق اس برادرانہ رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ایک دوسرے کی پگڑی تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ محمد شاہ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور کوہ نور ہیرا جو مغل سلطنت کی نشانی تھا وہ بھی نادر شاہ کے پاس پہنچ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ آخر میں نادر شاہ نے نظام الملک آصف جاہ اور سعادت خان کو طلب کیا اور دونوں کو بری طرح دھتکارا کہ تم لوگوں نے اپنے آقا کی وفاداری کیوں نہ کی۔ چنگیزی روایت پر عمل کرتے ہوئے نادر شاہ نے بھی غداروں سے برا سلوک ہی کیا۔ The Mughal Empire کے مصنف H.G.Keen کے الفاظ ہیں،
’’ان کی داڑھیوں پر تھوکا اور انہیں اپنے حضور سے دھتکاردیا ۔ اس بے عزتی پر دونوں امیر دلبرداشتہ ہوئے اور آپس میں طے کیا کہ وہ گھر پہنچتے ہی زہر کھالیں گے کیونکہ اتنی ذلت کے بعد زندہ رہنا ممکن نہیں۔ سب سے پہلے نظام نے گھر جا کر نقلی زہر نگل لیا اور بے ہوش ہو کر گھر والوں کے سامنے گر پڑا ۔ سعادت خان کے جاسوس نے اسے فوراًیہ اطلاع پہنچائی۔ اس پر سعادت خان نے اس خیال سے کہ وہ بہادری میں نظام الملک سے پیچھے نہ رہ جائے ‘ فوراً زہر پی کر خود کشی کرلی ۔ جیسے ہی سعادت خان کی روح نے پرواز کی نظام الملک کو ہوش آگیا اور بعد میں وہ اپنے دوستوں کی نجی محفلوں میں برملا کہتا تھا کہ اپنے دشمن سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ اس کی چال تھی۔‘‘
مگر طباطبائی نے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے مطابق سعادت خان کا انتقال پاؤں کے سرطان سے ہوا تھا۔ بہر حال دہلی میں دو ماہ گزار کر نادر شاہ نے تخت دہلی محمد شاہ رنگیلا کو واپس کردیا اور جاتے جاتے امور مملکت کے لیے کئی نصیحتیں بھی کیں۔ نادر شاہ کی یلغار کی بعد محمد شاہ رنگیلا کا اقتدار 9سال برقرار رہا اور 1748 ء میں اس کا انتقال ہوا تو مغل سلطنت برائے نام ہی رہ گئی تھی۔
5 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی دردناک داستان۔۔۔۔لیکن حالات تو اب تک نہیں بدلے۔۔۔
ہماری تاریخ تو بار بار دھر آئی جاتی ہے۔۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے اس سےکہ کوئی نہیں سیکھتا۔
شاید کوئی سیکھ لے۔۔۔ محترم عدیل جمالانئ نےصحرا میں آزان دینے کا یہ ایک عظیم سلسلہ شروع کیا ہے۔
انتہائی دلنشین و پُراثر انداز سے ہمیں جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔۔
دہلی پر نادر شاہ کی یلغار ہماری تاریخ کا ایک دردناک باب ہے اور اس بارے میں عدیل بھائی نے بہت اچھا لکھا ہے۔
اعلی تحریر اور منفرد اسلوب ۔۔۔
ہمیشہ کی طرح!
بہت عمدہ تحریر ، خوب لکھا ماشااللہ سلامت رہیں
مسلمانوں کی تاریخ پڑھ کر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو خود مسلمانوں نے ہی پہنچایا ہے. دورحاض میں بھی یہی ماحول نظر آتا ہے…
ایسے میں جناب عدیل صاحب نہایت محنت، مخلصی اور دردِ دل کے ساتھ تحریر کیے گئے مضامین کے ذریعے امت کو بیدار کر تے نظر آتے ہیں… اللہ پاک ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین
Hi there! I realize this is somewhat off-topic but I had to ask.
Does operating a well-established blog like yours require a large amount of work?
I am brand new to blogging but I do write in my journal on a daily basis.
I’d like to start a blog so I can easily share my personal
experience and feelings online. Please let me know if you have any kind of ideas
or tips for new aspiring bloggers. Thankyou!