20مارچ 1739 ء دہلی میں محلہ حوض قاضی کی سنہری مسجد کا منظر ، یہ مسجد روشن الدولہ کی مسجد بھی کہلاتی ہے ۔ مسجد کی سیڑھیوں پر ایک سپہ سالار ننگی تلوار ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ اس کے گرد محافظین کا دستہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ سپہ سالار ان افواج کا سربراہ ہے جو گزشتہ نو گھنٹوں سے دہلی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان نو گھنٹوں میں دہلی میں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ افراد قتل کیے گئے ہیں۔ گلی کوچوں میں لاشوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں۔ شرفاء دہلی کے گھروں کے دروازے کھلے پڑے ہیں اور حملہ آور افواج کے سپاہی ان گھروں کے باسیوں پر تشدد کرکے پوشیدہ مال و دولت نکلوارہے ہیں۔ دہلی کے خوبصورت مکانات دھڑا دھڑ جل رہے ہیں۔ حملہ آور سپاہی پورے پورے محلے لوٹ مار کے بعدنذرآتش کررہے ہیں۔ مرد و عورت اور جوان بوڑھے کا فرق کیے بغیر قتل وغارت گری کی جارہی ہے۔ دہلی والوں نے بھلا ایسی قیامت کب دیکھی تھی؟ اس قتل عام نے تین سو سال پرانی امیر تیمور کی دہلی پر یلغار کو بھی شرما دیا ہے۔
اب مجبور ہو کر بادشاہ دہلی نے نظام الملک آصف جاہ کو روشن الدولہ کی مسجد بھیجا ہے اور نظام الملک حملہ آور سے دہلی والوں کے لیے جان بخشی طلب کرتے ہیں۔ آخر کار حملہ آور سپہ سالار تلوار نیام میں ڈال لیتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ قتل و غارت گری بند کردی جائے!
یہ سپہ سالار ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار ہے جسے تاریخ میں نادر قلی بیگ بھی کہا گیا ہے اور یہ آج دہلی والوں پر قیامت بن کر ٹوٹا ہے۔ گزشتہ ماہ 24فروری 1739 ء کو دہلی سے سو کلو میٹر دور کرنال کے میدان میں مغل لشکر نادر شاہ کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگیا تھااور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلاکو نادر شاہ نے اس معرکے میں گرفتار کرلیا تھا۔
دہلی میں شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مغل فوج کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے۔ صرف32سال پہلے مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر کی وفات کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے تقریباً پچاس سال قندھار اور کابل سے لے کر دہلی اور لاہور تک جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کی تھی۔ عالمگیر نے اپنی بیشتر زندگی میدان جنگ میں گزاری تھی اور اپنے دور حکومت میں مرہٹوں اور سکھوں کی یورش پر بڑی کامیابی سے قابو پالیا تھا۔ آج اس کی وفات کے صرف 32سال بعد ایران سے نادر شاہ ایرانی لوٹ مار کرتا چلا آرہا تھا اور دہلی کے لال قلعے تک اسے روکنے والا کوئی نہ تھا!
محمد شاہ رنگیلا1719 ء تا 1748 ء:
1707 ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد سے 1719 ء میں محمد شاہ رنگیلا کی تخت نشینی تک12سال کے وقفے کے دوران مغل تخت پر چھ حکمران مسندنشین ہوئے، اعظم شاہ، بہادر شاہ اول، جہاں دار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، اور شاہجہاں ثانی۔ یعنی12سال میں مغل سلطنت کے چھ حکمران ! عالمگیر کی وفات کے بعد زوال حکومت کی یہ واضع نشانی تھی۔ بہر حال1719 ء میں دہلی کی مغل سلطنت پر محمد نصیر الدین شاہ روشن اختر بہادر تخت نشین ہوئے جو تاریخ میں اپنی طبیعت کی جولانی اور رنگینی کے سبب محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
محمد شاہ رنگیلا رقص و سرور کی محافل کا دلدادہ تھا اور شمشیر و سنان اس کے بس کا روگ نہیں تھیں۔ ’’کوکی‘‘نام کی ایک کنیز اس کے مزاج پر اس قدر حاوی ہوگئی تھی کہ مغلیہ دربار کے سرکاری امور باقاعدہ اس کی مہر سے انجام پانے لگے ۔ اپنے اس مزاج کے باعث محمد شاہ عوام میں رنگیلا بادشاہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ وہ تمام فتنے جو ہندوستان بھر میں اورنگزیب عالمگیر نے بزدر طاقت دبائے ہوئے تھے وہ سر اٹھانے لگے۔ پنجاب کے سکھ، شمال کے افغان روہیلے اور مرہٹے طاقتور ہوگئے۔ درباری امراء میں ایرانی اور ترک تعصب نظر آنے لگا۔
یورپی تاریخ دان فلپ وڈرف”The man who ruled india” میں رقم طراز ہے، ’’عالمگیر کے بعد آنے والے چالیس برسوں میں محض نام کے بادشاہ یکے بعد دیگرے آتے رہے جو عیاشی میں غرق تھے۔‘‘
مختصراً یہ کہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں مغل سلطنت کی تباہی کے تمام عناصر مرکز دہلی میں یکجا ہوچکے تھے کہ ایسے میں ایران سے نادر شاہ ایرانی کی فتوحات کی خبریں آنے لگیں۔
نادر شاہ:
نادر شاہ ایران کی سلطنت افشار کا بانی تھا اور اس کا مکمل نام نادر قلی بیگ تھا، جو حکمران بننے کے بعد نادر شاہ افشار یا نادر شاہ رہ گیا۔ ’’آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا‘‘ کے مطابق 1736 ء میں ایران کی صفوی بادشاہت کا خاتمہ کرکے نادر شاہ ایران کا بادشاہ بن گیا، اسی دوران نادر شاہ کے مخالف امراء میں سے کچھ نے کابل میں سلطنت مغلیہ میں پناہ لے لی۔ نادر شاہ نے دہلی میں محمد شاہ کے دربار میں اپنا ایلچی بھیجا اور مطالبہ کیا کہ ان امراء کو کابل سے بے دخل کیا جائے۔ دوران سفرایلچی کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور جب وہ دہلی پہنچا تو اس کی حالت نہایت خستہ تھی۔ مرتضیٰ احمد خان ’’تاریخ عالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب نادر شاہ کا ایلچی محمد شاہ رنگیلاکے پاس پہنچا تو شہنشاہ ہند شوق فرمارہے تھے اور حالت نشہ میں ہی انہوں نے نادر شاہ کے خط کو ’دفتر بے معنی‘ قرار دے کر ’مئے ناب‘کے پیالے میں ڈبو دیا۔ ‘‘دوسری طرف نادر شاہ نے قندھار پر قبضہ کرلیا اور اپنے خط کا جواب نہ ملنے پر دوبارہ ایلچی بھیجا۔ اس دفعہ بھی نادر شاہ کے خط کا مغل دربار سے کوئی جواب نہ دیا گیا ۔
مغل دربار کے اس سلوک کی وجہ سے نادر شاہ کو مغل سرحدیں عبور کرنے کا جواز مل گیا اور وہ کابل پر حملہ آور ہوگیا۔ کابل باقاعدہ مغل سلطنت کا حصہ تھا اور وہ نادر شاہ کے ہاتھوں فتح ہو کر ایرانی سلطنت میں شامل ہوگیا ۔ کابل کے بعد نادر شاہ نے جلال آباد فتح کیا اور برصغیر میں داخل ہونے کیلئے درّہ خیبر پہنچ گیا۔
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت:
نادر شاہ کے ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور دہلی کے قتل عام کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یلغار مغل امراء کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی۔ ایرانی و ترک اور شیعہ و سنی چپقلش نے محمد شاہ کی رنگینیوں کے ساتھ مل کر سلطنت مغلیہ کو تباہ کردیا تھا۔ ایسے میں نادر شاہ خدا کے عذاب کی صورت میں ہندوستان میں داخل ہوگیا۔ امراء کی باہمی رقابت اس درجے پر پہنچ گئی تھی کہ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں مرکزیت کے کمزور ہوجانے کا بھی خیال نہیں رہا۔
یہ قصہ شروع ہوتا ہے امیر المراء سپہ سالار اعظم خان دوراں اور صوبے دار اودھ سعادت خان کی باہمی چپقلش سے۔ کہا جاتا ہے کہ سعادت خان جو محمد شاہ رنگیلا کا قابل اعتماد امیر تھا نسلاً ایرانی تھا اور مغل سلطنت کی کمزوری دیکھ کر اس نے باقاعدہ نادر شاہ کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ آور ہونے پر اکسایا تھا ۔ مگر اس بات کا کوئی ثبوت تاریخ میں نہیں ملتا۔ سعادت خان اور خان دوراں کے درمیان نسلی اور عقائد کے اعتبار سے تعصب بہر حال موجود تھا۔
دوسری طرف نادر شاہ درہ خیبر کو عبور کرکے پشاور پر حملہ آور ہوگیا۔ پشاور میں لوٹ مار کرکے وہ لاہور کی طرف بڑھا اور لاہور کے مغل صوبیدار زکریا خان کی فوج کو تباہ کرکے دہلی کی طرف عازم سفر ہوا۔
ہنوز دلی دور است:
کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ طوفانی انداز میں کابل اور جلال آباد فتح کرتا آگے بڑھ رہا تھا اور دہلی کے دربار میں محمد شاہ رنگیلا کی توجہ اس فوری خطرے کی طرف دلائی گئی تو اس نے بے توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہنوز دلی دور است!‘‘ یہاں تک کہ جب نادر شاہ لاہور فتح کرچکا تو بھی محمد شاہ رنگیلا کا جواب یہی تھا ’’ہنوز دلی دور است!‘‘
(خیال رہے کہ یہ جملہ حضرت نظام الدین اولیاء سے بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ جب فیروز شاہ تغلق نے حضرت کو پیغام بھجوایا کہ میرے دلی پہنچنے سے پہلے شہر سے چلے جائیں تو آپ نے جواب میں یہ جملہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جب فیروز شاہ تغلق دلی سے چند کوس دور رہ گیا تو پھر بھی حضرت نے اپنے مریدین کو اطمینان کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہنوز دلی دور است!، ممکن ہے محمد شاہ رنگیلا نے حضرت نظام الدین اولیاء کا جملہ ہی نقل کیا ہوا مگر بہر حال محمد شاہ رنگیلا کا یہ جواب اردو میں ضرب مثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔)
محمد شاہ اور اس کی رنگیلی فوج:
جب محمد شاہ رنگیلا کو نادر شاہی افواج کے کرنال کے میدان میں مجتمع ہونے کی اطلاعات ملیں تو مجبوراً اسے دہلی سے باہر نکلنا پڑا۔ کرنال کا علاقہ دہلی سے تقریباً سو میل دور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کابل اور قندھار سے طوفان کی طرح سفر کرتا چھ سو میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا مگر صرف سو میل کا فاصلہ محمد شاہ رنگیلا کی مغل فوج سے طے نہ ہوسکا اور جب لڑائی شروع ہوئی تو مغل توپ خانہ وقت پر پہنچ نہ سکا اور ایرانی تو پ خانے نے مغل افواج کا حشر نشر کردیا۔
دہلی سے نکلنے والے مغل لشکر کی رفتاربہت سست تھی اور ایسا لگتا تھا کہ شاہی لشکر سیر و تفریح کی غرض سے نکلا ہے۔ دہلی کی رقا صائیں اور گلو کارائیں بادشاہ کے دل بہلانے کے لیے ساتھ تھیں۔ کھانے پینے کا سامان اور گانے بجانے کے آلات سے لگتا تھا کہ مغل بادشاہ کو نادر شاہ کی طاقت کا صحیح اندازہ ہی نہ تھا۔ کرنال تک کا سفر مغل لشکر نے اس طرح سے طے کیا کہ شاہی افواج دو سالاروں کی قیادت میں جنگ لڑنے جارہی تھیں۔ ایک لشکر خان دوراں کی قیادت میں اور دوسرا سعادت خان کی کمان میں۔ یعنی اس نازک موقع پر بھی مغل امراء کی آپس میں چپقلش صاف نظر آرہی تھی جو ایک ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔
جنگ کرنال 1739 ء :
بہر حال مغل لشکر دو ماہ میں کرنال پہنچا تو نادر شاہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان جنگ میں تیار تھا۔ مغل لشکر دو ٹکڑوں میں تقسیم تھا ۔ طبل جنگ بجا تو معلوم ہوا کہ مغل توپ خانہ تو ابھی میدان میں پہنچا ہی نہیں۔ نادر شاہ نے اس صورتحال سے مکمل فائدہ اٹھایا اور مغلوں کو اپنی توپوں کے نشانے پر لے کر حملہ کردیا۔
نادر شاہ نے بھی اپنی سپاہ کے دو لشکر الگ کرکے خان دوراں اور سعادت خان کے مقابلے پر بھیج دیے اور خود میدان جنگ کے مرکز میں ڈٹ گیا۔ رقص و سرور کا دلدادہ محمد شاہ رنگیلا بھلا کس طرح نادر شاہ جیسے مرد میدان کا مقابلہ کرتا۔ جنگ کا فیصلہ دو گھنٹوں ہی میں ہوگیا۔ خان دوراں کا لشکر مکمل برباد ہوگیا۔ اور وہ خود بھی بری طرح زخمی ہوا۔
’’خان دوراں کی فوج کا یہ عالم تھا کہ ایک خیمہ بھی درست حالت میں نہ ملا کہ جس میں شدید زخمی خان دوراں کا علاج کیا جاسکتا۔‘‘
(سیر المتاخرین۔ طبا طبائی)
اسی حالت میں خان دوراں کا انتقال ہوگیا۔ مغل فوج کے دوسرے لشکر کا بھی یہی حال تھا۔ سعادت خان کو جب معلوم ہوا کہ خان دوراں مرچکا ہے تو اس نے فوراً ہتھیار ڈال کر نادر شاہ کو گرفتاری پیش کردی۔ کہا جاتا ہے کہ سعدات خان ایک قز لباشی سپاہی کی بات سے متاثر ہوگیا تھا کہ جس نے اسے ایرانیوں کے ہم نسل ہو کر ان سے لڑنے کا طعنہ دیا تھا۔
اس طرح اکبر اعظم کے جانشین ایرانی سپاہ کا مقابلہ نہ کرسکے اور ایرنیوں نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ تاریخ میں اس معرکے کو جنگ کرنال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس جنگ میں عملی طور پر مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
سعادت خان کی غداری:
مسلمانوں کا یہ المیہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ غیروں سے زیادہ اپنوں نے انہیں نقصان پہنچایا ہے ۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ۔ نادر شاہ کرنال سے واپس ایران جانے کو تیار تھا مگر مغل امیر سعادت خان نے ایسا نہ ہونے دیا اور امراء کی چقلش بازی نے آخر کار ایک لاکھ بے گناہ عوام کی جان لے لی۔
تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ جب قید کے دوران سعادت خان سے نادر شاہ نے اچھا سلوک کیا تو اس نے نادر شاہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ دہلی کا رخ نہیں کرے گا بلکہ دو کروڑ روپے تاوان لے کر کرنال سے واپس ہوجائے گا۔ سعادت خان کو نادر شاہ نے عزت کے ساتھ رہا کردیا اور وہ یہ پیغام لے کر محمد شاہ رنگیلا کے پاس پہنچ گیا۔
محمد شاہ اس بات سے خوش ہوگیا اور تاوان کے معاہدے کو طے کرنے کے لیے نظام الملک آصف جاہ کو نادر شاہ کے پاس بھیج دیا۔ سعادت خان ایک لالچی امیر تھا اور خان دوراں کی ہلاکت کے بعد امیر الامراء جو دربار کا ایک بڑا عہدہ ہوتا تھا اس کا متمنیٰ تھا ۔ مگر نظام الملک نے محمد شاہ کو باور کرایا کہ نادر شاہ سے معاہدہ اس کی کاوش کا نتیجہ ہے اور محمد شاہ رنگیلا نے نظام سے خوش ہو کر اسے امیر الامراء کا عہدہ تفویض کردیا۔ نظام الملک آصف جاہ ایک لائق امیر تھا اور عالمگیر کے وقت سے دربار سے منسلک تھا۔ (یہ وہی آصف جاہ ہے جو بعد میں دکن جا کر خود مختار ہوگیا اور دکن کی آذاد ریاست کی بنیاد ڈالی جو انگریزی دور میں بھی قائم رہی) بلا شبہ نظام الملک ہی اس عہدے کا اصل حقدار تھا۔ مگر سعادت خان عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے دل میں محمد شاہ رنگیلا کے لیے بغض لیے دوبارہ نادر شاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دہلی کے شاہی محل میں صدیوں سے جمع کیا گیا مغل خزانہ موجود ہے۔ سعادت خان نے نادر شاہ کو تخت طاؤس اور دیگر مغل جواہرات کی داستانیں سنائیں تو نادر شاہ نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا اور محمد شاہ رنگیلا کو امراء کے ساتھ اپنے پاس طلب کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کی مشہور خاتون نور محل نے بھی اس سلسلے میں نادر شاہ کے کان بھرے اور مغل دربار سے اپنی وفاداری ختم کرتے ہوئے نادر شاہ کو شاہی قلعے میں مدفون خزانے سے متعلق مشہور داستانیں بیان کیں۔
مختصر یہ کہ نادر شاہ کے خیمے میں مغل امراء اور بادشاہ کی ضیافت کی گئی اور محمد شاہ رنگیلا نے مہمان فاتح کی خدمت میں ’’رقص و سرور کی محفل کی صورت میں گنگا جمنا تہذیب کا نمونہ‘‘پیش کیا جس کا وہ شائق تھا۔ محفل کے اختتام پر بادشاہ اور امراء کو علیحدہ خیمے میں نظر بند کردیا گیا اور مغل فوج کو واپس دہلی بھیج دیا گیا۔ اب محمد شاہ رنگیلا باقاعدہ نادر شاہ کا قیدی تھا ۔ محمد شاہ سے ایک خصوصی حکم نامے پر دستخط کروائے گئے جس کی روسے لال قلعے میں موجود شاہی محل میں سعادت خان کو رسائی دی گئی۔ اب اس حکم نامے کو لے کر سعادت خان شاہی محل پہنچا اور بابر اور اکبر کے زمانے کے جمع کیے گئے خزانے، جواہرات، مال و دولت اور شاہجہاں کا مشہور زمانہ تخت و طاؤس لوٹ کر نادر شاہ کو پیش کردیا۔
نادر شاہ کی دہلی آمد اور تاریخی قتل وغارت گری :
مغل خزانے پر قبضہ کرنے کے بعد نادر شاہ نے دہلی جانے کا فیصلہ کیا اور محمد شاہ رنگیلا کو آزاد کردیا تاکہ وہ پہلے دہلی پہنچ کر فاتح بادشاہ کا استقبال کرسکے۔ اس طرح نادر شاہ کی دلی میں آمد ہوئی مگر اس نے اپنی سپاہ کو سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ پُر امن باشندوں کو ہر گز تنگ نہ کیا جائے۔
اب نادر شاہ نے کب اور کیوں قتل عام کی اس ضمن میں کئی روایات ملتی ہیں۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں،
’’چند ایرانی سپاہیوں کو ہندوستانی سپاہیوں نے قتل کردیا۔ ایرانی سالار نے اس بات کی شکایت نادر شاہ سے کی تو نادر شاہ جلال میں آگیا اور اس نے حکم دیا ’بزن‘ یعنی مارو۔‘‘
مشہور روایت یہ ہے کہ دہلی میں افواہ پھیل گئی تھی کہ محمد شاہ نے نادر شاہ کو قتل کروادیا ہے۔ اس افواہ کا پھیلنا تھا کہ مغل سپاہ نے دہلی کے گلی کوچوں میں پھرتے ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ پہلے تو نادر شاہ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اچانک کیا شروع ہوگیا ہے۔ پھر جب اسے بتایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہوگیااور اپنے عسکری لباس میں ایک ہاتھی پہ سوار ہو کر دہلی کے بازاروں کا گشت کرنے لگا۔ نادر شاہ کو زندہ دیکھ کر ایرانی سپاہ نے نعرے بلند کرنے شروع کردیے ۔ اب حوض قاضی کی سنہری روشن الدولہ کی مسجد کی سیڑھیوں پر نادر شاہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا، یہ اشارہ تھا قتل عام کا! اب اہل دلی نے تباہی و بربادی کے وہ مناظر دیکھے کہ جنہیں لکھتے ہوئے مورخ بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ ایک دن میں مسلسل نو گھنٹوں تک دہلی والوں کا قتل عام کیا گیا ۔ دہلی کے بازار اور محلے لوٹ مار کے بعد نذر آتش کردیے گئے۔ مغل خزانے خالی کردیے گئے اور امراء کے محلات اور جاگیریں تباہ و برباد کردی گئیں ۔ بربادی کی وجہ سے مغل دارالحکومت دوبارہ سنبھل نہ سکا اور نہ ہی شاہی خزانہ دوبارہ مستحکم ہوسکا۔ یہی وجہ تھی صرف 23سال بعد شاہ عالم ثانی کے دور حکومت میں مغل بادشاہ انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا اور شاہی خاندان کی گزر اوقات انگریزوں کے وظیفوں سے منسلک ہوگئی۔
دہلی کی یہ بربادی اس دور کے ادبی منظر نامے میں بھی نظر آتی ہے۔دہلی میں موجود ادیبوں اور شاعروں نے دہلی کی بربادی کے مرثیے لکھے۔
میر تقی میر نے کہا
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اجڑے دیار کے
سید یوسف بخاری دہلوی اپنی تصنیف ’’یہ دلی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں ،
’’ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے1739 ء میں دہلی پر حملہ کردیا۔ محمد شاہ نے شکست کھائی اور پھر اپنی ہی بے وقوفی سے قتل عام کرایا۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ بازاروں اور گلیوں میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں ۔ سنہری مسجد سے متصل کوتوالی میں بیٹھ کر یہ قیامت برپا کرانے کے بعد نادر شاہ شاہجہاں کا تخت و طاؤس اور اس کے علاوہ اسّی کروڑ روپیہ اپنے ہمراہ لے گیا ۔ جان و مال کا یہ سارا نقصان محمد شاہ رنگیلے کی بدولت بے گناہ رعایا کو بھگتنا پڑا۔‘‘
مختصراً یہ کہ نادر شاہ کا حملہ مغل سلطنت کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ہندوستان بھر میں بغاوتیں زور پکڑ گئیں۔ ریاستوں کی صورت میں ہندو راجے مہاراجے اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے لگ گئے۔ مرہٹے مزید طاقتور ہوگئے اور ان کا زور توڑنے کیلئے شاہ ولی اللہ کو احمد شاہ ابدالی کو مدد کیلئے بلانا پڑا۔ سکھ زور پکڑ گئے اور1799 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور پر قابض ہوگیا۔ نادر شاہ کے حملے کے محض بیس سال بعد دہلی کی مغل سلطنت صرف دارالحکومت تک محدود ہوگئی اور شاہ عالم ثانی نے1762 ء میں ہندوستان کی کئی ریاستوں پر انگریزی اقتدار تسلیم کرلیا۔ مقولہ مشہور تھا ’’حکومت شاہ عالم ! از دہلی تا پالم۔‘‘(پالم دہلی کے نواحی علاقے کانام تھا)
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی:
نادر شاہ کی یہ لوٹ مار انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی شمار کی جاتی ہے۔ اُس وقت دہلی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا تھا اور اس کی آبادی لندن اور پیرس کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ ایران واپسی کے بعد امور سلطنت کے لیے نادر شاہ کو تین سال تک عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ دہلی کی لوٹی گئی دولت ہی کافی تھی۔ H.G Keen کے مطابق ، ’’اس دولت کی مالیت آٹھ کروڑ پونڈ اسٹرلنگ کے برابر تھی۔‘‘ روایت ہے کہ کئی ہفتوں تک سونے جواہرات کی اینٹیں ڈھالی جاتی رہیں تاکہ ان کی ایران منتقلی آسان ہوسکے۔ کوہ نور اور تختِ طاوس کی مالیت ہی آج کے حساب سے اربوں میں تھی۔
نادر شاہ کی دہلی سے روانگی اور غداروں کا انجام:
12مئی1739 ء کو آخر کار نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کی الوداعی ملاقات ہوئی جس میں نادر شاہ نے آخری ڈکیتی مغل بادشاہ کی پگڑی پر ڈالی۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ محمد شاہ نے کوہ نور ہیرا اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا مگر دہلی کی معروف خاتون نور محل جس کی اب اچھی خاصی دوستی نادر شاہ سے ہوگئی تھی اس نے مخبری کی اور بتایا کہ محمد شاہ کی پگڑی میں ایک ایسا ہیرا چھپاہوا ہے جس کے آگے کئی خزانے ہیچ ہیں ۔ چنانچہ اس آخری ملاقات میں نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا کہ اب ہم پگڑی بدل بھائی ہیں اور ایرانی روایات کے مطابق اس برادرانہ رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ایک دوسرے کی پگڑی تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ محمد شاہ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور کوہ نور ہیرا جو مغل سلطنت کی نشانی تھا وہ بھی نادر شاہ کے پاس پہنچ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ آخر میں نادر شاہ نے نظام الملک آصف جاہ اور سعادت خان کو طلب کیا اور دونوں کو بری طرح دھتکارا کہ تم لوگوں نے اپنے آقا کی وفاداری کیوں نہ کی۔ چنگیزی روایت پر عمل کرتے ہوئے نادر شاہ نے بھی غداروں سے برا سلوک ہی کیا۔ The Mughal Empire کے مصنف H.G.Keen کے الفاظ ہیں،
’’ان کی داڑھیوں پر تھوکا اور انہیں اپنے حضور سے دھتکاردیا ۔ اس بے عزتی پر دونوں امیر دلبرداشتہ ہوئے اور آپس میں طے کیا کہ وہ گھر پہنچتے ہی زہر کھالیں گے کیونکہ اتنی ذلت کے بعد زندہ رہنا ممکن نہیں۔ سب سے پہلے نظام نے گھر جا کر نقلی زہر نگل لیا اور بے ہوش ہو کر گھر والوں کے سامنے گر پڑا ۔ سعادت خان کے جاسوس نے اسے فوراًیہ اطلاع پہنچائی۔ اس پر سعادت خان نے اس خیال سے کہ وہ بہادری میں نظام الملک سے پیچھے نہ رہ جائے ‘ فوراً زہر پی کر خود کشی کرلی ۔ جیسے ہی سعادت خان کی روح نے پرواز کی نظام الملک کو ہوش آگیا اور بعد میں وہ اپنے دوستوں کی نجی محفلوں میں برملا کہتا تھا کہ اپنے دشمن سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ اس کی چال تھی۔‘‘
مگر طباطبائی نے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے مطابق سعادت خان کا انتقال پاؤں کے سرطان سے ہوا تھا۔ بہر حال دہلی میں دو ماہ گزار کر نادر شاہ نے تخت دہلی محمد شاہ رنگیلا کو واپس کردیا اور جاتے جاتے امور مملکت کے لیے کئی نصیحتیں بھی کیں۔ نادر شاہ کی یلغار کی بعد محمد شاہ رنگیلا کا اقتدار 9سال برقرار رہا اور 1748 ء میں اس کا انتقال ہوا تو مغل سلطنت برائے نام ہی رہ گئی تھی۔
66 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
ندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی دردناک داستان۔۔۔۔لیکن حالات تو اب تک نہیں بدلے۔۔۔
ہماری تاریخ تو بار بار دھر آئی جاتی ہے۔۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے اس سےکہ کوئی نہیں سیکھتا۔
شاید کوئی سیکھ لے۔۔۔ محترم عدیل جمالانئ نےصحرا میں آزان دینے کا یہ ایک عظیم سلسلہ شروع کیا ہے۔
انتہائی دلنشین و پُراثر انداز سے ہمیں جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔۔
دہلی پر نادر شاہ کی یلغار ہماری تاریخ کا ایک دردناک باب ہے اور اس بارے میں عدیل بھائی نے بہت اچھا لکھا ہے۔
اعلی تحریر اور منفرد اسلوب ۔۔۔
ہمیشہ کی طرح!
بہت عمدہ تحریر ، خوب لکھا ماشااللہ سلامت رہیں
مسلمانوں کی تاریخ پڑھ کر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو خود مسلمانوں نے ہی پہنچایا ہے. دورحاض میں بھی یہی ماحول نظر آتا ہے…
ایسے میں جناب عدیل صاحب نہایت محنت، مخلصی اور دردِ دل کے ساتھ تحریر کیے گئے مضامین کے ذریعے امت کو بیدار کر تے نظر آتے ہیں… اللہ پاک ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین
Hi there! I realize this is somewhat off-topic but I had to ask.
Does operating a well-established blog like yours require a large amount of work?
I am brand new to blogging but I do write in my journal on a daily basis.
I’d like to start a blog so I can easily share my personal
experience and feelings online. Please let me know if you have any kind of ideas
or tips for new aspiring bloggers. Thankyou!
Wow, great article. Keep writing.
Thanks-a-mundo for the blog article.Thanks Again. Keep writing.
It’s genuinely very complicated in this full of activity life to listen news on Television, therefore I simply use internet for that purpose, and obtain the most up-to-date information.
Looking forward to reading more. Great post.Really thank you! Cool.
Appreciate you sharing, great post.Thanks Again. Really Cool.
I am so grateful for your article.Really looking forward to read more.
Thanks-a-mundo for the blog article.Thanks Again. Want more.
wow, awesome blog.Thanks Again. Really Great.
Thanks for the article. Cool.
Really Appreciate this update, can you make it so I get an email sent to me whenever you make a fresh post?
There’s certainly a great deal to know about this subject. I really like all the points you’ve made.
stromectol online bestellen ivermectin/pyrantel
You have brought up a very fantastic points , appreciate it for the post.
Thanks for sharing, this is a fantastic blog article. Fantastic.
stromectol online pharmacy covid and ivermectin
Howdy! Do you know if they make any plugins to help with SearchEngine Optimization? I’m trying to get my blog to rank for some targeted keywords but I’mnot seeing very good results. If you know of any please share.Thank you!
ivermectin india – stromectol for sale online stromectol tablets for humans
I have fun with, lead to I found exactly what I used to be looking for. You’ve ended my four day lengthy hunt! God Bless you man. Have a nice day. Bye
best ed pills: red erectile dysfunction pill kamagra pills
I really liked your post.Really thank you! Fantastic.
ivermectin otc stromectol for sale – purchase oral ivermectin
Regards for helping out, superb information.
I’m not sure where you’re getting your info, but good topic.I needs to spend some time learning more or understanding more.Thanks for excellent info I was looking for this information for my mission.
Appreciate you sharing, great blog article.Thanks Again. Fantastic.
hydroxychloroquine prophylaxis clonopine meaning
There is visibly a bundle to know about this. I consider you made various good points in features also.
Its like you read my mind! You seem to know a lot about this, like you wrote the book in it or something. I think that you could do with some pics to drive the message home a little bit, but other than that, this is fantastic blog. An excellent read. I’ll definitely be back.
I’ve been browsing online more than 3 hours today, yet I never found any interesting article like yours. It is pretty worth enough for me. In my view, if all webmasters and bloggers made good content as you did, the net will be much more useful than ever before.
Most of what you state happens to be supprisingly precise and that makes me wonder why I hadn’t looked at this in this light before. Your piece truly did switch the light on for me as far as this specific subject goes. However there is actually 1 point I am not too comfy with so while I try to reconcile that with the actual central idea of your issue, let me see what all the rest of your readers have to say.Very well done.
Really Appreciate this update, can I set it up so I receive an alert email whenever you publish a new update?
When I originally commented I clicked the “Notify me when new comments are added” checkbox and now each time a comment is added I get three e-mails with the same comment. Is there any way you can remove people from that service? Cheers!
Appreciating the hard work you put into your site and detailed information you provide. It’s awesome to come across a blog every once in a while that isn’t the same outdated rehashed material. Fantastic read! I’ve bookmarked your site and I’m including your RSS feeds to my Google account.
Does your blog have a contact page? I’m having problems locating it but, I’d like to send you an e-mail. I’ve got some ideas for your blog you might be interested in hearing. Either way, great site and I look forward to seeing it improve over time.
You completed certain fine points there. I did a search on the subject and found nearly all folks will have the same opinion with your blog.
Normally I do not learn article on blogs, however I would liketo say that this write-up very pressured me to try and do so!Your writing style has been amazed me. Thanks, quite nicearticle.
My developer is trying to persuade me to move to .net from PHP. I have always disliked the idea because of the costs. But he’s tryiong none the less. I’ve been using WordPress on numerous websites for about a year and am concerned about switching to another platform. I have heard good things about blogengine.net. Is there a way I can import all my wordpress content into it? Any help would be really appreciated!
Wonderful work! This is the type of info that should be shared around the web. Shame on the search engines for not positioning this post higher! Come on over and visit my site . Thanks =)
Do you have any video of that? I’d want to find out more details.Look at my blog post … omega 3 and omega 6 fatty acids
Hello there! This is kind of off topic but I need some guidance from an established blog. Is it hard to set up your own blog? I’m not very techincal but I can figure things out pretty quick. I’m thinking about setting up my own but I’m not sure where to begin. Do you have any points or suggestions? Many thanks
Hello. İts really very nice artichle. Thank you admin. 🙂
A fascinating discussion is definitely worth comment. I think that you ought to publish more on this issue, it may not be a taboo subject but usually people do not speak about such issues. To the next! Cheers!!
I truly appreciate this blog. Fantastic.
Thank you so much intended for permitting myself know what My spouse and i didn’t know. I count on working with you.
Wow, great blog article.Really looking forward to read more. Want more.
There’s noticeably a bundle to find out about this. I assume you made certain good factors in features also.
Amazing many of great data.writing synthesis essay how to write a movie in an essay report writing help
Hey, thanks for the article.Thanks Again. Great.
Cheers to you, We realized something new. Give thanks to you so much. We glimpse forward to nearby.
Very informative post.Really thank you! Want more.
I’d have to check with you here. Which isn’t one thing I often do! I get pleasure from reading a submit that may make folks think. Additionally, thanks for permitting me to comment!
wow, awesome blog article.Thanks Again.
Looking forward to reading more. Great post. Cool.
Great blog article. Fantastic.
Whats Happening i’m new to this, I stumbled upon this I’ve discovered It positively helpful and it has helped me out loads. I hope to give a contribution & assist other customers like its helped me. Good job.
I really like and appreciate your blog post.Really looking forward to read more. Fantastic.
I am now not certain where you are getting your info, however great topic.I must spend some time finding out more or working out more.Thank you for magnificent info I was looking for this info for mymission.
This is a really good tip particularly to those fresh to the blogosphere.Short but very accurate information… Many thanks for sharing this one.A must read article!
I blog often and I genuinely thank you for your content. This great article has truly peaked my interest. I will book mark your blog and keep checking for new information about once per week. I subscribed to your Feed as well.
Can someone recommend Spanking Paddles? Cheers xox
Im thankful for the blog article. Awesome.
Enjoyed every bit of your blog article.Really looking forward to read more. Will read on…