20مارچ 1739 ء دہلی میں محلہ حوض قاضی کی سنہری مسجد کا منظر ، یہ مسجد روشن الدولہ کی مسجد بھی کہلاتی ہے ۔ مسجد کی سیڑھیوں پر ایک سپہ سالار ننگی تلوار ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ اس کے گرد محافظین کا دستہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ سپہ سالار ان افواج کا سربراہ ہے جو گزشتہ نو گھنٹوں سے دہلی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان نو گھنٹوں میں دہلی میں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ افراد قتل کیے گئے ہیں۔ گلی کوچوں میں لاشوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں۔ شرفاء دہلی کے گھروں کے دروازے کھلے پڑے ہیں اور حملہ آور افواج کے سپاہی ان گھروں کے باسیوں پر تشدد کرکے پوشیدہ مال و دولت نکلوارہے ہیں۔ دہلی کے خوبصورت مکانات دھڑا دھڑ جل رہے ہیں۔ حملہ آور سپاہی پورے پورے محلے لوٹ مار کے بعدنذرآتش کررہے ہیں۔ مرد و عورت اور جوان بوڑھے کا فرق کیے بغیر قتل وغارت گری کی جارہی ہے۔ دہلی والوں نے بھلا ایسی قیامت کب دیکھی تھی؟ اس قتل عام نے تین سو سال پرانی امیر تیمور کی دہلی پر یلغار کو بھی شرما دیا ہے۔
اب مجبور ہو کر بادشاہ دہلی نے نظام الملک آصف جاہ کو روشن الدولہ کی مسجد بھیجا ہے اور نظام الملک حملہ آور سے دہلی والوں کے لیے جان بخشی طلب کرتے ہیں۔ آخر کار حملہ آور سپہ سالار تلوار نیام میں ڈال لیتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ قتل و غارت گری بند کردی جائے!
یہ سپہ سالار ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار ہے جسے تاریخ میں نادر قلی بیگ بھی کہا گیا ہے اور یہ آج دہلی والوں پر قیامت بن کر ٹوٹا ہے۔ گزشتہ ماہ 24فروری 1739 ء کو دہلی سے سو کلو میٹر دور کرنال کے میدان میں مغل لشکر نادر شاہ کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگیا تھااور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلاکو نادر شاہ نے اس معرکے میں گرفتار کرلیا تھا۔
دہلی میں شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مغل فوج کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے۔ صرف32سال پہلے مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر کی وفات کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے تقریباً پچاس سال قندھار اور کابل سے لے کر دہلی اور لاہور تک جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کی تھی۔ عالمگیر نے اپنی بیشتر زندگی میدان جنگ میں گزاری تھی اور اپنے دور حکومت میں مرہٹوں اور سکھوں کی یورش پر بڑی کامیابی سے قابو پالیا تھا۔ آج اس کی وفات کے صرف 32سال بعد ایران سے نادر شاہ ایرانی لوٹ مار کرتا چلا آرہا تھا اور دہلی کے لال قلعے تک اسے روکنے والا کوئی نہ تھا!
محمد شاہ رنگیلا1719 ء تا 1748 ء:
1707 ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد سے 1719 ء میں محمد شاہ رنگیلا کی تخت نشینی تک12سال کے وقفے کے دوران مغل تخت پر چھ حکمران مسندنشین ہوئے، اعظم شاہ، بہادر شاہ اول، جہاں دار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، اور شاہجہاں ثانی۔ یعنی12سال میں مغل سلطنت کے چھ حکمران ! عالمگیر کی وفات کے بعد زوال حکومت کی یہ واضع نشانی تھی۔ بہر حال1719 ء میں دہلی کی مغل سلطنت پر محمد نصیر الدین شاہ روشن اختر بہادر تخت نشین ہوئے جو تاریخ میں اپنی طبیعت کی جولانی اور رنگینی کے سبب محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
محمد شاہ رنگیلا رقص و سرور کی محافل کا دلدادہ تھا اور شمشیر و سنان اس کے بس کا روگ نہیں تھیں۔ ’’کوکی‘‘نام کی ایک کنیز اس کے مزاج پر اس قدر حاوی ہوگئی تھی کہ مغلیہ دربار کے سرکاری امور باقاعدہ اس کی مہر سے انجام پانے لگے ۔ اپنے اس مزاج کے باعث محمد شاہ عوام میں رنگیلا بادشاہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ وہ تمام فتنے جو ہندوستان بھر میں اورنگزیب عالمگیر نے بزدر طاقت دبائے ہوئے تھے وہ سر اٹھانے لگے۔ پنجاب کے سکھ، شمال کے افغان روہیلے اور مرہٹے طاقتور ہوگئے۔ درباری امراء میں ایرانی اور ترک تعصب نظر آنے لگا۔
یورپی تاریخ دان فلپ وڈرف”The man who ruled india” میں رقم طراز ہے، ’’عالمگیر کے بعد آنے والے چالیس برسوں میں محض نام کے بادشاہ یکے بعد دیگرے آتے رہے جو عیاشی میں غرق تھے۔‘‘
مختصراً یہ کہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں مغل سلطنت کی تباہی کے تمام عناصر مرکز دہلی میں یکجا ہوچکے تھے کہ ایسے میں ایران سے نادر شاہ ایرانی کی فتوحات کی خبریں آنے لگیں۔
نادر شاہ:
نادر شاہ ایران کی سلطنت افشار کا بانی تھا اور اس کا مکمل نام نادر قلی بیگ تھا، جو حکمران بننے کے بعد نادر شاہ افشار یا نادر شاہ رہ گیا۔ ’’آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا‘‘ کے مطابق 1736 ء میں ایران کی صفوی بادشاہت کا خاتمہ کرکے نادر شاہ ایران کا بادشاہ بن گیا، اسی دوران نادر شاہ کے مخالف امراء میں سے کچھ نے کابل میں سلطنت مغلیہ میں پناہ لے لی۔ نادر شاہ نے دہلی میں محمد شاہ کے دربار میں اپنا ایلچی بھیجا اور مطالبہ کیا کہ ان امراء کو کابل سے بے دخل کیا جائے۔ دوران سفرایلچی کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور جب وہ دہلی پہنچا تو اس کی حالت نہایت خستہ تھی۔ مرتضیٰ احمد خان ’’تاریخ عالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب نادر شاہ کا ایلچی محمد شاہ رنگیلاکے پاس پہنچا تو شہنشاہ ہند شوق فرمارہے تھے اور حالت نشہ میں ہی انہوں نے نادر شاہ کے خط کو ’دفتر بے معنی‘ قرار دے کر ’مئے ناب‘کے پیالے میں ڈبو دیا۔ ‘‘دوسری طرف نادر شاہ نے قندھار پر قبضہ کرلیا اور اپنے خط کا جواب نہ ملنے پر دوبارہ ایلچی بھیجا۔ اس دفعہ بھی نادر شاہ کے خط کا مغل دربار سے کوئی جواب نہ دیا گیا ۔
مغل دربار کے اس سلوک کی وجہ سے نادر شاہ کو مغل سرحدیں عبور کرنے کا جواز مل گیا اور وہ کابل پر حملہ آور ہوگیا۔ کابل باقاعدہ مغل سلطنت کا حصہ تھا اور وہ نادر شاہ کے ہاتھوں فتح ہو کر ایرانی سلطنت میں شامل ہوگیا ۔ کابل کے بعد نادر شاہ نے جلال آباد فتح کیا اور برصغیر میں داخل ہونے کیلئے درّہ خیبر پہنچ گیا۔
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت:
نادر شاہ کے ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور دہلی کے قتل عام کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یلغار مغل امراء کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی۔ ایرانی و ترک اور شیعہ و سنی چپقلش نے محمد شاہ کی رنگینیوں کے ساتھ مل کر سلطنت مغلیہ کو تباہ کردیا تھا۔ ایسے میں نادر شاہ خدا کے عذاب کی صورت میں ہندوستان میں داخل ہوگیا۔ امراء کی باہمی رقابت اس درجے پر پہنچ گئی تھی کہ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں مرکزیت کے کمزور ہوجانے کا بھی خیال نہیں رہا۔
یہ قصہ شروع ہوتا ہے امیر المراء سپہ سالار اعظم خان دوراں اور صوبے دار اودھ سعادت خان کی باہمی چپقلش سے۔ کہا جاتا ہے کہ سعادت خان جو محمد شاہ رنگیلا کا قابل اعتماد امیر تھا نسلاً ایرانی تھا اور مغل سلطنت کی کمزوری دیکھ کر اس نے باقاعدہ نادر شاہ کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ آور ہونے پر اکسایا تھا ۔ مگر اس بات کا کوئی ثبوت تاریخ میں نہیں ملتا۔ سعادت خان اور خان دوراں کے درمیان نسلی اور عقائد کے اعتبار سے تعصب بہر حال موجود تھا۔
دوسری طرف نادر شاہ درہ خیبر کو عبور کرکے پشاور پر حملہ آور ہوگیا۔ پشاور میں لوٹ مار کرکے وہ لاہور کی طرف بڑھا اور لاہور کے مغل صوبیدار زکریا خان کی فوج کو تباہ کرکے دہلی کی طرف عازم سفر ہوا۔
ہنوز دلی دور است:
کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ طوفانی انداز میں کابل اور جلال آباد فتح کرتا آگے بڑھ رہا تھا اور دہلی کے دربار میں محمد شاہ رنگیلا کی توجہ اس فوری خطرے کی طرف دلائی گئی تو اس نے بے توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہنوز دلی دور است!‘‘ یہاں تک کہ جب نادر شاہ لاہور فتح کرچکا تو بھی محمد شاہ رنگیلا کا جواب یہی تھا ’’ہنوز دلی دور است!‘‘
(خیال رہے کہ یہ جملہ حضرت نظام الدین اولیاء سے بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ جب فیروز شاہ تغلق نے حضرت کو پیغام بھجوایا کہ میرے دلی پہنچنے سے پہلے شہر سے چلے جائیں تو آپ نے جواب میں یہ جملہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جب فیروز شاہ تغلق دلی سے چند کوس دور رہ گیا تو پھر بھی حضرت نے اپنے مریدین کو اطمینان کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہنوز دلی دور است!، ممکن ہے محمد شاہ رنگیلا نے حضرت نظام الدین اولیاء کا جملہ ہی نقل کیا ہوا مگر بہر حال محمد شاہ رنگیلا کا یہ جواب اردو میں ضرب مثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔)
محمد شاہ اور اس کی رنگیلی فوج:
جب محمد شاہ رنگیلا کو نادر شاہی افواج کے کرنال کے میدان میں مجتمع ہونے کی اطلاعات ملیں تو مجبوراً اسے دہلی سے باہر نکلنا پڑا۔ کرنال کا علاقہ دہلی سے تقریباً سو میل دور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کابل اور قندھار سے طوفان کی طرح سفر کرتا چھ سو میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا مگر صرف سو میل کا فاصلہ محمد شاہ رنگیلا کی مغل فوج سے طے نہ ہوسکا اور جب لڑائی شروع ہوئی تو مغل توپ خانہ وقت پر پہنچ نہ سکا اور ایرانی تو پ خانے نے مغل افواج کا حشر نشر کردیا۔
دہلی سے نکلنے والے مغل لشکر کی رفتاربہت سست تھی اور ایسا لگتا تھا کہ شاہی لشکر سیر و تفریح کی غرض سے نکلا ہے۔ دہلی کی رقا صائیں اور گلو کارائیں بادشاہ کے دل بہلانے کے لیے ساتھ تھیں۔ کھانے پینے کا سامان اور گانے بجانے کے آلات سے لگتا تھا کہ مغل بادشاہ کو نادر شاہ کی طاقت کا صحیح اندازہ ہی نہ تھا۔ کرنال تک کا سفر مغل لشکر نے اس طرح سے طے کیا کہ شاہی افواج دو سالاروں کی قیادت میں جنگ لڑنے جارہی تھیں۔ ایک لشکر خان دوراں کی قیادت میں اور دوسرا سعادت خان کی کمان میں۔ یعنی اس نازک موقع پر بھی مغل امراء کی آپس میں چپقلش صاف نظر آرہی تھی جو ایک ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔
جنگ کرنال 1739 ء :
بہر حال مغل لشکر دو ماہ میں کرنال پہنچا تو نادر شاہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان جنگ میں تیار تھا۔ مغل لشکر دو ٹکڑوں میں تقسیم تھا ۔ طبل جنگ بجا تو معلوم ہوا کہ مغل توپ خانہ تو ابھی میدان میں پہنچا ہی نہیں۔ نادر شاہ نے اس صورتحال سے مکمل فائدہ اٹھایا اور مغلوں کو اپنی توپوں کے نشانے پر لے کر حملہ کردیا۔
نادر شاہ نے بھی اپنی سپاہ کے دو لشکر الگ کرکے خان دوراں اور سعادت خان کے مقابلے پر بھیج دیے اور خود میدان جنگ کے مرکز میں ڈٹ گیا۔ رقص و سرور کا دلدادہ محمد شاہ رنگیلا بھلا کس طرح نادر شاہ جیسے مرد میدان کا مقابلہ کرتا۔ جنگ کا فیصلہ دو گھنٹوں ہی میں ہوگیا۔ خان دوراں کا لشکر مکمل برباد ہوگیا۔ اور وہ خود بھی بری طرح زخمی ہوا۔
’’خان دوراں کی فوج کا یہ عالم تھا کہ ایک خیمہ بھی درست حالت میں نہ ملا کہ جس میں شدید زخمی خان دوراں کا علاج کیا جاسکتا۔‘‘
(سیر المتاخرین۔ طبا طبائی)
اسی حالت میں خان دوراں کا انتقال ہوگیا۔ مغل فوج کے دوسرے لشکر کا بھی یہی حال تھا۔ سعادت خان کو جب معلوم ہوا کہ خان دوراں مرچکا ہے تو اس نے فوراً ہتھیار ڈال کر نادر شاہ کو گرفتاری پیش کردی۔ کہا جاتا ہے کہ سعدات خان ایک قز لباشی سپاہی کی بات سے متاثر ہوگیا تھا کہ جس نے اسے ایرانیوں کے ہم نسل ہو کر ان سے لڑنے کا طعنہ دیا تھا۔
اس طرح اکبر اعظم کے جانشین ایرانی سپاہ کا مقابلہ نہ کرسکے اور ایرنیوں نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ تاریخ میں اس معرکے کو جنگ کرنال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس جنگ میں عملی طور پر مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
سعادت خان کی غداری:
مسلمانوں کا یہ المیہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ غیروں سے زیادہ اپنوں نے انہیں نقصان پہنچایا ہے ۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ۔ نادر شاہ کرنال سے واپس ایران جانے کو تیار تھا مگر مغل امیر سعادت خان نے ایسا نہ ہونے دیا اور امراء کی چقلش بازی نے آخر کار ایک لاکھ بے گناہ عوام کی جان لے لی۔
تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ جب قید کے دوران سعادت خان سے نادر شاہ نے اچھا سلوک کیا تو اس نے نادر شاہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ دہلی کا رخ نہیں کرے گا بلکہ دو کروڑ روپے تاوان لے کر کرنال سے واپس ہوجائے گا۔ سعادت خان کو نادر شاہ نے عزت کے ساتھ رہا کردیا اور وہ یہ پیغام لے کر محمد شاہ رنگیلا کے پاس پہنچ گیا۔
محمد شاہ اس بات سے خوش ہوگیا اور تاوان کے معاہدے کو طے کرنے کے لیے نظام الملک آصف جاہ کو نادر شاہ کے پاس بھیج دیا۔ سعادت خان ایک لالچی امیر تھا اور خان دوراں کی ہلاکت کے بعد امیر الامراء جو دربار کا ایک بڑا عہدہ ہوتا تھا اس کا متمنیٰ تھا ۔ مگر نظام الملک نے محمد شاہ کو باور کرایا کہ نادر شاہ سے معاہدہ اس کی کاوش کا نتیجہ ہے اور محمد شاہ رنگیلا نے نظام سے خوش ہو کر اسے امیر الامراء کا عہدہ تفویض کردیا۔ نظام الملک آصف جاہ ایک لائق امیر تھا اور عالمگیر کے وقت سے دربار سے منسلک تھا۔ (یہ وہی آصف جاہ ہے جو بعد میں دکن جا کر خود مختار ہوگیا اور دکن کی آذاد ریاست کی بنیاد ڈالی جو انگریزی دور میں بھی قائم رہی) بلا شبہ نظام الملک ہی اس عہدے کا اصل حقدار تھا۔ مگر سعادت خان عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے دل میں محمد شاہ رنگیلا کے لیے بغض لیے دوبارہ نادر شاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دہلی کے شاہی محل میں صدیوں سے جمع کیا گیا مغل خزانہ موجود ہے۔ سعادت خان نے نادر شاہ کو تخت طاؤس اور دیگر مغل جواہرات کی داستانیں سنائیں تو نادر شاہ نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا اور محمد شاہ رنگیلا کو امراء کے ساتھ اپنے پاس طلب کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کی مشہور خاتون نور محل نے بھی اس سلسلے میں نادر شاہ کے کان بھرے اور مغل دربار سے اپنی وفاداری ختم کرتے ہوئے نادر شاہ کو شاہی قلعے میں مدفون خزانے سے متعلق مشہور داستانیں بیان کیں۔
مختصر یہ کہ نادر شاہ کے خیمے میں مغل امراء اور بادشاہ کی ضیافت کی گئی اور محمد شاہ رنگیلا نے مہمان فاتح کی خدمت میں ’’رقص و سرور کی محفل کی صورت میں گنگا جمنا تہذیب کا نمونہ‘‘پیش کیا جس کا وہ شائق تھا۔ محفل کے اختتام پر بادشاہ اور امراء کو علیحدہ خیمے میں نظر بند کردیا گیا اور مغل فوج کو واپس دہلی بھیج دیا گیا۔ اب محمد شاہ رنگیلا باقاعدہ نادر شاہ کا قیدی تھا ۔ محمد شاہ سے ایک خصوصی حکم نامے پر دستخط کروائے گئے جس کی روسے لال قلعے میں موجود شاہی محل میں سعادت خان کو رسائی دی گئی۔ اب اس حکم نامے کو لے کر سعادت خان شاہی محل پہنچا اور بابر اور اکبر کے زمانے کے جمع کیے گئے خزانے، جواہرات، مال و دولت اور شاہجہاں کا مشہور زمانہ تخت و طاؤس لوٹ کر نادر شاہ کو پیش کردیا۔
نادر شاہ کی دہلی آمد اور تاریخی قتل وغارت گری :
مغل خزانے پر قبضہ کرنے کے بعد نادر شاہ نے دہلی جانے کا فیصلہ کیا اور محمد شاہ رنگیلا کو آزاد کردیا تاکہ وہ پہلے دہلی پہنچ کر فاتح بادشاہ کا استقبال کرسکے۔ اس طرح نادر شاہ کی دلی میں آمد ہوئی مگر اس نے اپنی سپاہ کو سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ پُر امن باشندوں کو ہر گز تنگ نہ کیا جائے۔
اب نادر شاہ نے کب اور کیوں قتل عام کی اس ضمن میں کئی روایات ملتی ہیں۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں،
’’چند ایرانی سپاہیوں کو ہندوستانی سپاہیوں نے قتل کردیا۔ ایرانی سالار نے اس بات کی شکایت نادر شاہ سے کی تو نادر شاہ جلال میں آگیا اور اس نے حکم دیا ’بزن‘ یعنی مارو۔‘‘
مشہور روایت یہ ہے کہ دہلی میں افواہ پھیل گئی تھی کہ محمد شاہ نے نادر شاہ کو قتل کروادیا ہے۔ اس افواہ کا پھیلنا تھا کہ مغل سپاہ نے دہلی کے گلی کوچوں میں پھرتے ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ پہلے تو نادر شاہ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اچانک کیا شروع ہوگیا ہے۔ پھر جب اسے بتایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہوگیااور اپنے عسکری لباس میں ایک ہاتھی پہ سوار ہو کر دہلی کے بازاروں کا گشت کرنے لگا۔ نادر شاہ کو زندہ دیکھ کر ایرانی سپاہ نے نعرے بلند کرنے شروع کردیے ۔ اب حوض قاضی کی سنہری روشن الدولہ کی مسجد کی سیڑھیوں پر نادر شاہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا، یہ اشارہ تھا قتل عام کا! اب اہل دلی نے تباہی و بربادی کے وہ مناظر دیکھے کہ جنہیں لکھتے ہوئے مورخ بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ ایک دن میں مسلسل نو گھنٹوں تک دہلی والوں کا قتل عام کیا گیا ۔ دہلی کے بازار اور محلے لوٹ مار کے بعد نذر آتش کردیے گئے۔ مغل خزانے خالی کردیے گئے اور امراء کے محلات اور جاگیریں تباہ و برباد کردی گئیں ۔ بربادی کی وجہ سے مغل دارالحکومت دوبارہ سنبھل نہ سکا اور نہ ہی شاہی خزانہ دوبارہ مستحکم ہوسکا۔ یہی وجہ تھی صرف 23سال بعد شاہ عالم ثانی کے دور حکومت میں مغل بادشاہ انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا اور شاہی خاندان کی گزر اوقات انگریزوں کے وظیفوں سے منسلک ہوگئی۔
دہلی کی یہ بربادی اس دور کے ادبی منظر نامے میں بھی نظر آتی ہے۔دہلی میں موجود ادیبوں اور شاعروں نے دہلی کی بربادی کے مرثیے لکھے۔
میر تقی میر نے کہا
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اجڑے دیار کے
سید یوسف بخاری دہلوی اپنی تصنیف ’’یہ دلی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں ،
’’ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے1739 ء میں دہلی پر حملہ کردیا۔ محمد شاہ نے شکست کھائی اور پھر اپنی ہی بے وقوفی سے قتل عام کرایا۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ بازاروں اور گلیوں میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں ۔ سنہری مسجد سے متصل کوتوالی میں بیٹھ کر یہ قیامت برپا کرانے کے بعد نادر شاہ شاہجہاں کا تخت و طاؤس اور اس کے علاوہ اسّی کروڑ روپیہ اپنے ہمراہ لے گیا ۔ جان و مال کا یہ سارا نقصان محمد شاہ رنگیلے کی بدولت بے گناہ رعایا کو بھگتنا پڑا۔‘‘
مختصراً یہ کہ نادر شاہ کا حملہ مغل سلطنت کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ہندوستان بھر میں بغاوتیں زور پکڑ گئیں۔ ریاستوں کی صورت میں ہندو راجے مہاراجے اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے لگ گئے۔ مرہٹے مزید طاقتور ہوگئے اور ان کا زور توڑنے کیلئے شاہ ولی اللہ کو احمد شاہ ابدالی کو مدد کیلئے بلانا پڑا۔ سکھ زور پکڑ گئے اور1799 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور پر قابض ہوگیا۔ نادر شاہ کے حملے کے محض بیس سال بعد دہلی کی مغل سلطنت صرف دارالحکومت تک محدود ہوگئی اور شاہ عالم ثانی نے1762 ء میں ہندوستان کی کئی ریاستوں پر انگریزی اقتدار تسلیم کرلیا۔ مقولہ مشہور تھا ’’حکومت شاہ عالم ! از دہلی تا پالم۔‘‘(پالم دہلی کے نواحی علاقے کانام تھا)
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی:
نادر شاہ کی یہ لوٹ مار انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی شمار کی جاتی ہے۔ اُس وقت دہلی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا تھا اور اس کی آبادی لندن اور پیرس کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ ایران واپسی کے بعد امور سلطنت کے لیے نادر شاہ کو تین سال تک عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ دہلی کی لوٹی گئی دولت ہی کافی تھی۔ H.G Keen کے مطابق ، ’’اس دولت کی مالیت آٹھ کروڑ پونڈ اسٹرلنگ کے برابر تھی۔‘‘ روایت ہے کہ کئی ہفتوں تک سونے جواہرات کی اینٹیں ڈھالی جاتی رہیں تاکہ ان کی ایران منتقلی آسان ہوسکے۔ کوہ نور اور تختِ طاوس کی مالیت ہی آج کے حساب سے اربوں میں تھی۔
نادر شاہ کی دہلی سے روانگی اور غداروں کا انجام:
12مئی1739 ء کو آخر کار نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کی الوداعی ملاقات ہوئی جس میں نادر شاہ نے آخری ڈکیتی مغل بادشاہ کی پگڑی پر ڈالی۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ محمد شاہ نے کوہ نور ہیرا اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا مگر دہلی کی معروف خاتون نور محل جس کی اب اچھی خاصی دوستی نادر شاہ سے ہوگئی تھی اس نے مخبری کی اور بتایا کہ محمد شاہ کی پگڑی میں ایک ایسا ہیرا چھپاہوا ہے جس کے آگے کئی خزانے ہیچ ہیں ۔ چنانچہ اس آخری ملاقات میں نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا کہ اب ہم پگڑی بدل بھائی ہیں اور ایرانی روایات کے مطابق اس برادرانہ رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ایک دوسرے کی پگڑی تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ محمد شاہ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور کوہ نور ہیرا جو مغل سلطنت کی نشانی تھا وہ بھی نادر شاہ کے پاس پہنچ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ آخر میں نادر شاہ نے نظام الملک آصف جاہ اور سعادت خان کو طلب کیا اور دونوں کو بری طرح دھتکارا کہ تم لوگوں نے اپنے آقا کی وفاداری کیوں نہ کی۔ چنگیزی روایت پر عمل کرتے ہوئے نادر شاہ نے بھی غداروں سے برا سلوک ہی کیا۔ The Mughal Empire کے مصنف H.G.Keen کے الفاظ ہیں،
’’ان کی داڑھیوں پر تھوکا اور انہیں اپنے حضور سے دھتکاردیا ۔ اس بے عزتی پر دونوں امیر دلبرداشتہ ہوئے اور آپس میں طے کیا کہ وہ گھر پہنچتے ہی زہر کھالیں گے کیونکہ اتنی ذلت کے بعد زندہ رہنا ممکن نہیں۔ سب سے پہلے نظام نے گھر جا کر نقلی زہر نگل لیا اور بے ہوش ہو کر گھر والوں کے سامنے گر پڑا ۔ سعادت خان کے جاسوس نے اسے فوراًیہ اطلاع پہنچائی۔ اس پر سعادت خان نے اس خیال سے کہ وہ بہادری میں نظام الملک سے پیچھے نہ رہ جائے ‘ فوراً زہر پی کر خود کشی کرلی ۔ جیسے ہی سعادت خان کی روح نے پرواز کی نظام الملک کو ہوش آگیا اور بعد میں وہ اپنے دوستوں کی نجی محفلوں میں برملا کہتا تھا کہ اپنے دشمن سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ اس کی چال تھی۔‘‘
مگر طباطبائی نے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے مطابق سعادت خان کا انتقال پاؤں کے سرطان سے ہوا تھا۔ بہر حال دہلی میں دو ماہ گزار کر نادر شاہ نے تخت دہلی محمد شاہ رنگیلا کو واپس کردیا اور جاتے جاتے امور مملکت کے لیے کئی نصیحتیں بھی کیں۔ نادر شاہ کی یلغار کی بعد محمد شاہ رنگیلا کا اقتدار 9سال برقرار رہا اور 1748 ء میں اس کا انتقال ہوا تو مغل سلطنت برائے نام ہی رہ گئی تھی۔
26 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
ندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی دردناک داستان۔۔۔۔لیکن حالات تو اب تک نہیں بدلے۔۔۔
ہماری تاریخ تو بار بار دھر آئی جاتی ہے۔۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے اس سےکہ کوئی نہیں سیکھتا۔
شاید کوئی سیکھ لے۔۔۔ محترم عدیل جمالانئ نےصحرا میں آزان دینے کا یہ ایک عظیم سلسلہ شروع کیا ہے۔
انتہائی دلنشین و پُراثر انداز سے ہمیں جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔۔
دہلی پر نادر شاہ کی یلغار ہماری تاریخ کا ایک دردناک باب ہے اور اس بارے میں عدیل بھائی نے بہت اچھا لکھا ہے۔
اعلی تحریر اور منفرد اسلوب ۔۔۔
ہمیشہ کی طرح!
بہت عمدہ تحریر ، خوب لکھا ماشااللہ سلامت رہیں
مسلمانوں کی تاریخ پڑھ کر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو خود مسلمانوں نے ہی پہنچایا ہے. دورحاض میں بھی یہی ماحول نظر آتا ہے…
ایسے میں جناب عدیل صاحب نہایت محنت، مخلصی اور دردِ دل کے ساتھ تحریر کیے گئے مضامین کے ذریعے امت کو بیدار کر تے نظر آتے ہیں… اللہ پاک ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین
Hi there! I realize this is somewhat off-topic but I had to ask.
Does operating a well-established blog like yours require a large amount of work?
I am brand new to blogging but I do write in my journal on a daily basis.
I’d like to start a blog so I can easily share my personal
experience and feelings online. Please let me know if you have any kind of ideas
or tips for new aspiring bloggers. Thankyou!
Wow, great article. Keep writing.
Thanks-a-mundo for the blog article.Thanks Again. Keep writing.
It’s genuinely very complicated in this full of activity life to listen news on Television, therefore I simply use internet for that purpose, and obtain the most up-to-date information.
Looking forward to reading more. Great post.Really thank you! Cool.
Appreciate you sharing, great post.Thanks Again. Really Cool.
I am so grateful for your article.Really looking forward to read more.
Thanks-a-mundo for the blog article.Thanks Again. Want more.
wow, awesome blog.Thanks Again. Really Great.
Thanks for the article. Cool.
Really Appreciate this update, can you make it so I get an email sent to me whenever you make a fresh post?
There’s certainly a great deal to know about this subject. I really like all the points you’ve made.
stromectol online bestellen ivermectin/pyrantel
You have brought up a very fantastic points , appreciate it for the post.
Thanks for sharing, this is a fantastic blog article. Fantastic.
stromectol online pharmacy covid and ivermectin
Howdy! Do you know if they make any plugins to help with SearchEngine Optimization? I’m trying to get my blog to rank for some targeted keywords but I’mnot seeing very good results. If you know of any please share.Thank you!
ivermectin india – stromectol for sale online stromectol tablets for humans
I have fun with, lead to I found exactly what I used to be looking for. You’ve ended my four day lengthy hunt! God Bless you man. Have a nice day. Bye
best ed pills: red erectile dysfunction pill kamagra pills
I really liked your post.Really thank you! Fantastic.
ivermectin otc stromectol for sale – purchase oral ivermectin