ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
ہمارے ارد گرد کی ہر شے بڑی تیزی سے بدل رہی ہے، لوگ، اشیاء، اسلحہ اور مؤقف اور دنیا کانقشہ، ہم میں سے کتنوں کے بچے شکست کے اوقیانوس میں ڈوب گئے اور انکی زبانوں پر نئے کلمات رواں ہو گئے۔ چمکتے ہوئے سلوگنز اور بیٹیاں یا الہی ۔ وہ بے پردہ جسموں سے سڑکوں پر نکل آئیں، غلط تصورات، اسکینڈلز اور فسادِ زمانہ کا سیلِ رواں جدیدیت کے نام پر بنیادوں اور اصولوں کو نگلتا چلا جا رہا تھا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ انسان ظلم و قہر کا بازار گرم کئے بغیر متمدن اور مہذب بن جائے، یا اپنی آزادیوں کا گلا گھونٹے بغیر، یا لوگوں کو بھیڑ بکریوں کے گلے کی طرح غلام بنا کر ہانکے بغیر؟؟ کیا تعلیم کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان کفر کرے، جدیدیت عدالت اور حریت کی باہوں میں باہیں ڈال کر کیوں نہیں چل سکتی؟؟ اور یہ ساری دنیا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خالقِ کائنات پر ایمان کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتی، اور ترقی کی کوئی بھی تحریک عورتوں کے جسموں سے لباس اتارے بغیر کیوں نہیں پنپ سکتی اور اسکے لئے باغیوں اور بدکاروں کے غول کیوں درکار ہوتے ہیں؟؟ قومیں اپنا وجود ثابت کرنے کیلئے دوسری قوموں کا وجود مٹانے کی کیوں کوشش کرتی ہیں، یا ایک قوم دوسری کو منتشر کر ڈالتی ہے، یا اسے دوسرے رنگ و نسل کی قوموں کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے؟؟ ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ شیاطین پوری طرح سر گرمِ عمل ہیں .. اور میں اپنے محارب دوستوں سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ پاکیزگی اور خالص انقلاب کی کرنیں پہاڑوں کی چٹانوں سے پھوٹتی ہیں، میں اپنے مومن قائد جنرال عثمان باتور کو دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں سلف صالحین کے ایمان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
یہ اس نسل کا کمیاب نوجوان ہے جس میں مقصد اور آگہی کا سبق رچا بسا ہے، جو تمدن میں طویل عرصے تک خیر اور شرافت اور پاکیزگی کا فیض بکھیرتا رہے گا … میں مرتے دم تک اس نوجوان کا اطاعت گزار رہوں گا، ہمارے اور جدید اسلحے سے لیس چینی لشکر کے درمیان پر تشدد کاروائیاں ہونے لگیں، ہم کئی معرکوں میں مسلسل فتح یاب ہو رہے تھے، لیکن کیا اس فتح کو باقی رکھنا آسان تھا؟؟ نہیں .. کیونکہ دشمن کی کمک کا سلسلہ جاری رہتا، اور ہمارے لوگ روز بروز کم ہوتے چلے جا رہے تھے، ہماری فتح کے پیچھے بے مثال قربانیاں تھیں، جنرال عثمان باتور بے احتیار بول اٹھے:
’’ہمارے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اور موت کو گلے لگا رہے ہیں‘‘
’’جنرال صاحب .. انہیں معلوم ہے کہ انکی ذمہ داری کیا ہے .. ‘‘
’’مصطفی حضرت یہ لوگ اپنے خون کی سرخی سے اس لمحے کو معرکہء جاوداں بنا رہے ہیں .. لیکن مجھے اپنی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ دشمن نے اس معرکے کو خطرناک تر بنا دیا ہے .. ‘‘
اور یوں تھوڑے ہی دنوں میں، عثمان باتور کے خدشے کے عین مطابق اچانک ایک بڑی چینی فوج انکی مدد کو آن پہنچی، پورے تین ماہ تک معرکے کی آگ بھڑکتی رہی، ہم نے ’’شینہائی‘‘ کی جانب پیچھے جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ اپنی قوت مجتمع کر سکیں اور اسے کیمونسٹوں پر حملے کا مرکز بنائیں، لیکن شینہائی کی جانب راستہ کچھ آسان نہ تھا، موت چاروں جانب سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی تھی، کفار کی دائمی دشمنی نے ہم پر ایام الٹ دیے تھے، اب ہر سمت میں بپھرے ہوئے معاندین کفار نظر آ رہے تھے .. ہم پر چینی علاقے ’’آن سی شا‘‘ سے دس ہزار سے زائد فوج نے حملہ کر دیا، جو قانصو ریاست کا علاقہ تھا، ہمیں فنا کا احساس گھیرے رہتا، گویا ہم اس مقابلے اور دشمن سے خون ریز جنگ اور ٹکراؤ میں اپنی ہی موت مانگ رہے ہوں، یا ہمارے پاس موت قبول کرنے کے سوا کوئی اختیار ہی باقی نہ رہا ہو، یوں پیچھے ہٹتے ہٹتے ہم اگست ۱۹۵۰ء میں ’’ماخای‘‘ شہر میں پہنچ گئے، جو شینہائی ہی کا علاقہ تھا .. ہم کچھ دیر آرام کر کے اپنی سانسیں بحال کرنا چاہتے تھے .. اور مجھے تو نجمۃ اللیل اور اپنے بیٹے کو بھی تلاشنا تھا .. میری تمنا تھی کہ میں مرنے سے پہلے ایک بار انہیں دیکھ لوں .. بعض ساتھیوں کا خیال تھا کہ ان خوفناک دنوں میں ایسی تمنا پالنا کوئی عقلمندی نہیں، بعض کا خیال تھا کہ اگر ان دنوں میں بھی میں اپنے بیوی بچے کی یاد میں کھویا ہوا ہوں تو یہ محض انانیت ہے، ارد گرد کے حالات سنگین ہیں اور وطن ضیاع اور فنا کے حقیقی خطرے سے دوچار ہے .. مجھے انکی باتوں کی بالکل پرواہ نہ تھی، میں نے ہمیشہ اپنے آپ سے سچ بولا ہے .. میں انسان ہوں اور میرے آنسو میری آنکھوں ہی کے راستے بہتے ہیں اور میرے اضطراب کو میرے دل کا راستہ معلوم ہے ..
آگے آگے بھاگ کر بھی معرکے کی حدت کم نہ ہوئی تھی .. قانصو کے علاقے ’’دون خان‘‘ سے ہزاروں لوگ گھسٹ گھسٹ کر ہماری جانب آ رہے تھے … اسی طرح ترکستان کی چینی حدود سے ملحقہ علاقے ’’شر خلق‘‘ لوگوں کی بڑی تعداد ہماری طرف رخ کر رہی تھی ..
جنرال عثمان باتور کہنے لگے:
’’دوستو رات ’’ماخائی‘‘ پر اپنی چادر پھیلا رہی ہے .. اے وہ لوگو جنہوں نے موت کو زندگی پرترجیح دی ہے .. اے ملحد زمانے کے شہداء بھیڑیوں نے آپکے راستے مسدود کر دیے ہیں .. میں دیکھ رہا ہوں کہ افق سرخ پرچموں سے رنگین ہو گیا ہے … ہر روز قصاب بھیڑوں کو ذبح کرنے کے لئے ہانک لے جاتے ہیں .. وہ انسانوں اور بھیڑوں میں کوئی فرق نہیں کرتے .. اے رفیقو ہم نے جو طویل سفر ماریکول سے یا پہاڑوں سے یہاں تک طے کیا ہے .. اس میں حریت پسندوں کی ہڈیاں بچھی ہوئی ہیں، زمین انکے پاک خون سے تر ہے .. اے اعصاب توڑ دینے والے طویل سفر!! عورتیں اور بچے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، ہمیں تلاش کرتے ہوئے .. اپنے پیاروں کو .. دوستو اورومجی کا ریڈیو سٹیشن مسلسل سرخ انقلاب کے گیت الاپ رہا ہے اور فضا کو زہر آلود کر رہا ہے .. اور میرے وطن کے نوجوان شاہراہوں اور گھروں سے، اور بیگار کی فیکٹریوں سے پکڑے جارہے ہیں اور انہیں ہانک کر وطن سے باہر دھکیلا جا رہا ہے، جلا وطنی انکا مقدر بن رہی ہے، یا وہ پھانسی گھاٹ میں لائے جا رہے ہیں، جو گھٹی ہوئی آواز سے پکار رہے ہیں، وہ اﷲ کی پناہ مانگ رہے ہیں اور موت کے ترانے گا رہے ہیں .. یہ وہ زندہ شہداء ہیں جنکا انجام معرکے میں قتل ہو جانے والوں سے زیادہ اذیت ناک ہے .. دوستو ہم پھر معرکے میں داخل ہو رہے ہیں .. آپ میں سے جو زندہ بچ جائے وہ ہمارے جہاد کی داستان دوسروں تک پہنچا دے اور جنوب اور شرق و غرب عرب میں سوئی ہوئی امتِ مسلمہ کو ہمارے طویل عذاب کا قصہ سنا دے .. اور انڈونیشیا، ہند اور پاکستان والوں کو … انہیں بتا دینا کہ ’’اندلس الثانیہ‘‘ اﷲ اور انسانوں کے دشمن کے قبضے میں چلی گئی .. کیا خبر کسی روز مسلمان بیدار ہو جائیں اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے لوگ پھر سے ایک جمعیت بن جائیں اور پھر سے برپا کسی معرکے میں اﷲ کی مدد سے کامیاب ہو جائیں .. پوری دنیا کے مسلمانوں کو خبر دار کر دو کہ دشمن کے میڈیا کا اعتبار نہ کریں اور انکی لکھی ہوئی تاریخ اور فلسفے پر بھروسہ مت کریں، نہ انکی پکار پر کان دھریں‘‘.
عثمان باتور نے آسمان کی طرف دیکھا .. قبلہ رخ منہ کیا اور ہمیں نماز کے لئے پکارا …
اگلے ہی روز چاروں جانب سے دشمن ہم پر ٹوٹ پڑا …
معرکہ گرم ہو گیا .. ہم نے اپنے احساس اور قوت اور ایمان کی کل پونجی آخری معرکے میں لگا دی ..
عثمان باتور دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا .. وہ پورے شرف کے ساتھ سر اٹھا کر شہید ہوا،کیمونسٹ اس کے لباس اور پگڑی اور رومال کو کھینچتے رہے اور موت تک اس کا تمسخر اڑاتے رہے، مگر وہ فولاد کی چٹان بنا رہا ..
جنگجو بکھر گئے، جو تھوڑے بہت باقی تھے وہ مختلف سمتوں میں چل پڑے .. وہ مختلف راستوں سے کشمیر پہنچنے کی کوشش کرنے لگے .. ۲۹ اپریل ۱۹۵۱ء کو .. جنرال عثمان باتور کو پھانسی گھاٹ لایا گیا .. نوّے ہزار ترکستانیوں اور چینیوں کو اس بطلِ جری کی موت کا منظر دیکھانے کے لئے اسلحے کے زور پر لایا گیا .. یوں ترکستان کا عظیم ہیرو مر گیا …
میں بھی بھیس بدلے ’’دون خان‘‘ کے لوگوں کی صف میں اجنبیوں کی طرح موجود تھا .. اس شہید بطل کو دیکھ کر میں ہسٹریائی انداز میں ہنسنے لگا، میری آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے اور میں پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا ’’عدل زندہ باد‘‘ ..
پتھر دل کی مانند سیاہ تاریک رات کو ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا .. جہنم سے بھاگنے والوں کا قافلہ چلنے لگا .. اور کتنی ہی پر مشقت راتوں میں آبلہ پا چلنے کے بعد ہم حدودِ کشمیر میں پہنچے .. کتنے ہی باقی بچ جانے والوں سے ملاقات ہو گئی .. بیس ہزار جنگجؤوں کا قافلہ سکڑ کر تین سو رہ گیا تھا .. راستے میں بھی کئی مقامات پر دشمن کی جھڑپوں کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور ’’تبت‘‘ کے علاقے ’’سینکرس‘‘ اور ’’کوتساو‘‘ تک انکی گولیاں ہمارا تعاقب کر رہی تھیں، لیکن دشمن ہم پر ہاتھ ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکا .. اور یوں ہم بچھے کھچے ساتھی کشمیر میں داخل ہو گئے .. انکی اکثریت عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھی جنکے باپ معرکے میں کام آگئے تھے ..
ہم کشمیر کے دار الحکومت ’’سریناکار‘‘ پہنچے .. کتنے ہی ترکستانی مہاجرین ہم سے ملنے آگئے .. اور مجمع لگ گیا .. میری آنکھوں میں نیند بھری تھی .. میں کھڑا نہ رہ سکا .. اور بے ہوش ہو کر گر پڑا .. اور نہ جانے کتنی دیر اسی حالت میں پڑا رہا .. مغرب سے کچھ دیر پہلے ایک نرم و ملائم ہاتھ نے مجھے ہولے سے ہلایا اور میں نے آنکھیں کھول دیں …
میں خواب میں تھا یا بیداری میں .. یا الہی .. ہاں وہ کشمیری پوشاک میں ملبوس نجمۃ اللیل ہی تو تھی .. اور میرا بیٹا کتنا بڑا ہو چکا تھا، وہ اسکے پہلو میں کھڑا تھا، میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں .. یہ پیارا سا بیٹا .. ڈھلتے سورج کی سنہری کرنیں اسکے چہرے کو اور خوبصورت بنا رہی تھیں …
میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے گلے لگا لیا، میرے حلق میں آنسؤوں کا گولہ پھنس گیا، میں کچھ بھی نہ کہہ سکا، نجمۃ اللیل کی بھی بری حالت تھی، ہاں یہ واقعی ملن کا لمحہ تھا …
’’مصطفی میں تو سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ تم زندہ بچ جاؤ گے .. تمہارے بال سفید ہو گئے ہیں اور فاقوں سے تمہارا چہرہ پچک گیا ہے .. ایسا لگتا ہے ہمیں بچھڑے سو برس گزر چکے ہیں .. ‘‘
میں نے بیٹے کو پیار کرتے ہوئے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا:
’’مجھے کتنا غم ہے ان مسلمانوں کا جنہیں میں تعذیب کدوں میں چھوڑ آیا ہوں اور دو وحشی بھیڑیے چین اور روس مل کر انہیں بھنبھوڑ رہے ہیں .. ‘‘
نجمۃ اللیل کے چہرے کی زردی میں اضافہ ہو چکا تھا، وہ بے اندازہ غم اور ملال سے بولی:
’’میری تمنا ہے کہ ہم اﷲ کے گھر چلے جائیں .. اور مکہ یا مدینہ میں جا رہیں .. ‘‘
میں نے آفاق کی وسعتوں میں جھانکا، مجھے منصور درغا یاد آیا جو مسجد کی دہلیز پر شہید ہوگیا تھا، مجھے اپنے وہ مومن ساتھی یاد آئے جنہوں نے تلواروں کے سائے میں اپنی نذر پوری کی اور وہ شہداء جو نے عثمان باتور کے ساتھ گرفتار ہوئے اور اس دن کا منظر جب پھانسی گھاٹ میں اس عظیم جنرال نے شہادت کو گلے لگایا …
میں ہولے سے بولا:
’’ہم جلد ہی بیت اﷲ الحرام کی زیارت کو جائیں گے .. میری تھکاوٹ اور تشنہ روح کو زمزم کے قطرے ہی سکون دے سکتے ہیں .. میں تصور ہی میں تمام حجاج کو چیخ چیخ کر ان لوگوں کی داستان سنا رہا ہوں جو چین اور روس کے فولادی قبضے میں ہیں اور دنیا کو انکی خبر بھی نہیں .. اور گویا کہ لاکھوں مسلمان اپنے کفن پھاڑ کر توحید کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں، تاکہ نئے سرے سے ہزاروں غلاموں کو آزاد کروائیں … ‘‘
یہی میری داستان ہے …
***