ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۱۴)
آخر کار چیانگ کائی شیک نے امداد میں چھ ڈویژن سر بکف فوج بھجوا دی جو جدید آلاتِ حرب سے لیس تھی، یہ اسلحہ چین جاپان جنگ میں اس کے ہاتھ لگا تھا، جب وہ ٹسوے بہاتا برطانیہ کے قدموں میں جا گرا تھا اور التجا کی تھی کہ وہ جاپان کے لئے برما کا فوجی محاذ کھول دے تاکہ فاتح جاپان اس کی گردن سے اپنا پاؤں اٹھا لے، جب چھ ڈویژن فوج ترکستانی سرحدوں پر پہنچی تو اس نے آگے جانے کے راستے مسدود پائے، چینی فوج نے فریب سے کام لیا اور ترکستانی قائد کو پیغام بھجوایا اور کہا:
’’ہم ’’شین‘‘ کی سرکوبی کے لئے آئے ہیں کیونکہ اس نے پشت دکھائی ہے اور روس سے جا ملاہے، ہم آپکے علاقے سے محض کیمونزم کا صفایا چاہتے ہیں .. ‘‘
ترکستانی قائد نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا:
’’پھر تو آپ کو پہلے اپنے علاقے سے کیمونزم کا خاتمہ کرنا چاہیے‘‘
’’ایک ہی بات ہے .. اور ہم باہم دوست ہیں‘‘
’’تو پھر آپ بھی یقین رکھیں کہ ہم نہ صرف اپنے علاقے سے کیمونسٹوں کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ آپ کے خائن قائد کو بھی مزا چکھا دیں گے … ہم شین سے بہت اچھی طرح واقف ہیں … ہم نے اسلام کا علم اٹھا رکھا ہے اور وہ ہر کیمونسٹ محارب اور کیمونسٹ فکر کے مقابلے کے لئے بہترین ڈھال ہے .. ‘‘
چینی قائد بولا:
’’آپ ہمارے سامنے کھڑے ہونگے تو آپ کے دشمنوں کو طاقت جمع کرنے کا موقع مل جائے گا ..‘‘
’’تم بھی دشمن ہی ہو.. ‘‘
’’شین تم سب کو کچل ڈالے گا .. ‘‘
’’اورومجی میں اس کا محاصرہ ہو چکا ہے وہ بھاگنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا .. ‘‘
’’اچھا .. ہم واپس لوٹ جاتے ہیں اور اس ہولناک خطرے میں تم اپنی حکمتِ عملی خود طے کر لینا .. ‘‘
ابھی کچھ دن بھی نہ گزرے تھے کہ ان کے فریب کا پردہ چاک ہو گیا اور وہ سربکف فوج آگے بڑھنے لگی اور انہوں نے اچانک دھاوا بول دیا، اس وقت سرحد پر ناکافی فوج تھی، یوں قوت کا توازن بگڑ گیا اور چینیوں نے سرحد پار کر لی، عوام نے بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا، کتنوں کو اپنی جانیں قربان کرنی پڑیں، گھمسان کی جنگ کے بعد چینی لشکر اورومجی کے نواح میں پہنچ گیا، جہاں حاکمِ چین ایک قیدی کی مانند زندگی کے دن پورے کر رہا تھا اور عثمان باتور کی فوجیں اس کا محاصرہ کئے ہوئے تھیں .. اس مرحلے پر شین (حاکمِ چین) نے روس سے مکمل علیحدگی کا اعلان کر دیا اور چیانگ کائی شیک سے مفاہمت کر لی اور نیا چینی لشکر چیونٹی کی طرح پیش قدمی کرنے لگا، تاکہ عثمان باتور اور اس کی فوج کا مقابلہ کرے.
عثمان باتور کہنے لگا:
’’اے مردانِ کار .. میں ابھی بھی مایوس نہیں ہوں .. ‘‘
’’اے جنرال ہم نے اتنی بڑی چینی فوج کا سامنا کبھی نہیں کیا جس کی نہ ابتدا نظر آتی ہے نہ انتہا .. ‘‘
عثمان باتور اعتماد سے مسکرایا:
’’مہربان دل کی جانب .. پہاڑوں کی طرف‘‘
’’کیسے؟؟‘‘
’’وہاں ہم نئے سرے سے شروع کریں گے مصطفی حضرت ‘‘
’’میرے آقا .. ‘‘
’’میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو، تم چاہتے ہو کہ اورومجی میں معرکہ جاری رکھا جائے .. ہم یہاں موت تک ثابت قدمی دکھا سکتے ہیں .. اور یہ بہت بڑی بات ہے .. لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو زندہ رکھیں اور سرزمینِ اسلام کو ان کے وجود سے پاک کر دیں .. لوگوں میں پہاڑوں کی جانب واپسی کا اعلان کر دو … ‘‘
اور ہم اپنے زخمیوں اور شہیدوں کو اٹھائے غم کی تصویر بنے پہاڑوں پر لوٹ آئے، ہم نے مایوسی کو غالب نہ آنے دیا، ہم خوش تھے کیونکہ ہم نے دشمن کو دونوں مزے چکھائے تھے اور اسے کافی نقصان پہنچایا تھا، اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی تھی اور ہم نے اپنی قوت کو استیصال سے بچا لیا تھا۔ ہمارے عزائم بھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے، پہاڑ دوبارہ صبرو ہمت کے روشن پیکروں سے آباد ہو گیا تھا، نماز کی صفیں اور تکبیر کے نعرے آفاق کا سینہ چیر رہے تھے، نئے سرے سے انوار کی بارش ہونے لگی، مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ چیانگ کائی شیک نے خود اپنے دوست شین سی تسائی کی معزولی کے احکام جاری کر دیے، جس نے اسے مدد کے لئے پکارا تھا اور اس کی جگہ ’’اوگون شین‘‘ کو ترکستان شرقیہ کا نیا حاکم مقرر کر دیا، عثمان باتور مسکرا کر بولا:
’’جو اختیار نہیں رکھتا اس سے بہتر وہ ہے جو استحقاق نہیں رکھتا .. ہمارے علاقے ان کے لئے خاص چراگاہیں ہیں .. ‘‘
نیا حاکم اوگون بہت مکار تھا، اس نے اپنا وجود منوانے کے لئے کئی ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کئے، اور ان میں سے بدترین اقدام یہ تھا کہ اس نے معاشرے کے طبقہء اشراف کو اپنی زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ ادباء شعراء اور علماء اس کی قساوت کا مرکز بن گئے، حتی کہ وہ لوگ جنہوں نے کبھی اسلحے کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا اسکے تیروں کی زد پر آگئے اور اس کے مذبح خانوں کی خوفناک خبروں اور پرالم صداؤوں سے پورا علاقہ تھرّا اٹھا ..
اس روز پہاڑ پر فضا بڑی غمگین تھی، منصور درغا کہنے لگا:
’’مجرم، امت کی روح سلب کرنے کی کوشش میں ہیں‘‘
میں مایوسی سے بولا: ’’فکری محاذ پر حملہ بھیڑوں کی طرح ذبح کر دیتا ہے .. ‘‘
’’ہاں … دین اور خالص فکر دونوں قوم کا وجدان تشکیل دیتے ہیں .. طاغوت کی ضرب اندر سے کاٹتی ہے .. ‘‘
منصور رونے لگا:
’’میں اس شاعر کو جانتا ہوں جو تمام عمر فتح و نصرت اور امیدِ مستقبل کے گیت لکھتا رہا …‘‘
’’اور میں اس عالم کی مجلسوں میں بیٹھتا رہا ہوں جو نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھا، جو اسلام کی تعلیمات سکھاتا اور مسائل کی گتھیاں سلجھاتا تھا اور کمزوروں کو درس دیتا تھا.‘‘
’’حتی کے مدارس کے معصوم بچے جو مظاہروں میں ترانے گایا کرتے تھے انہیں بھی قتل گاہوں کی جانب ہانک دیا گیا .. ‘‘
نجمۃ اللیل منے کو کندھے پر اٹھائے اسے تھپکاتے ادھر ہی آگئی وہ بڑی دیر سے اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی، وہ بھی بول اٹھی:
’’وہ بالغ نظر افراد وہاں کیا کر رہے تھے .. وہ صاحبِ بصیرت جو ان حالات میں اسلحہ نہیں اٹھاتا اور پہاڑ پر آکر نئے سرے سے جدوجہد نہیں کرتا میں اسے صاحبِ بصیرت نہیں مانتی .. ‘‘
میں نے یاس سے کہا:
’’ان لوگوں کے اپنے عذر ہونگے .. ہمارے عوام کو ان سے رہنمائی کی ضرورت ہے اور ان کی علم و حکمت سے لبریز باتیں وہی کام کرتی ہیں جو مجاہد اسلحہ اٹھا کر پہاڑوں پر انجام دے رہے ہیں، بلکہ بعض اوقات ان کا کام اس سے بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے، اسی لئے تم دیکھ رہی ہو کہ چینی سب سے پہلے انہیں موت کی جانب ہانک کر لے جارہے ہیں .. کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہیں .. ‘‘
گوریلا جنگ نئے سرے سے شروع ہو گئی اور چین کو بھی احساس ہو گیا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، پہاڑوں سے لوگ نیچے اترتے اور خود کش حملہ کر ڈالتے، کبھی جنگجؤوں کو چھڑا لے جاتے، ان کے مستحکم نظام کو تلپٹ کر ڈالتے اور ان کے حقیقی امن نافذ کرنے کے دعوؤں کو خاک میں ملا دیتے، اس طرح چین کی ’’حقیقی فتح‘‘ آلام اور قربانیوں اور مستقل عذاب میں مبتلا رہتی …
اسی دوران ’’ایلی‘‘ کے علاقے میں ایک اور قومی انقلاب کی آگ بھڑک اٹھی، جس کی قیادت محبِ وطن رہنما کر رہے تھے اور وہ عالمِ اسلام کی بھی عظیم شخصیت تھے۔ ان کا نام شیخ علی خان تھا۔ چینیوں سے گھمسان کی جنگ کے بعد انہوں نے اس کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا اور ۱۹۴۵ء میں اس کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یوں شیخ علی خان جمہوریہ ترکستان شرقیہ اسلامیہ کے صدر بن گئے، عثمان باتور اپنے ساتھیوں سمیت ان سے جا ملے اور انضمام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور عثمان باتور جیسے ماہرِ فنِ حرب شجاع کی حکمتِ عملی سے ’’آلتائی‘‘ اور ’’تشوشک‘‘ پر غلبہ مکمل ہو گیا، چینی دشمن کو کثیر مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا، صدر جمہوریہ شیخ علی خان نے جنرال عثمان باتور کو ’’التائی‘‘ کا گورنر مقرر کر دیا ..
اتنی بڑی فتح کے پیچھے کافی مقدار میں حاصل ہونے والی غیر مشروط روسی امداد کا بھی حصہ تھا جس کا واحد مقصد ترکستان شرقیہ کو چینی حملہ آوروں کے وجود سے پاک کرنا تھا … چینیوں کو چوبیس گھنٹے کے مختصر دورانیے میں سرنڈر کروا لینا کوئی معمولی بات نہ تھی، جو موت تک لڑنے کا عزم کئے ہوئے تھے، دوسری جانب لوگ آگے بڑھ کر اسلامی ترکستانی فوج میں شامل ہو رہے تھے، اتنی مشقت اور جہدِ مسلسل کے بعد قوم کی امیدوں کو جذبہء تازہ ملا تھا ….
منصور درغا ابھی تک سوچوں میں گم تھا، کہنے لگا:
’’لو ہم فاتح بن گئے، لیکن مجھے ابھی بھی ڈر ہے … ‘‘
میں اعتماد سے بولا:
’’تم بلا وجہ خوف کا شکار ہو، ہم نے یہ فتح مسلسل محنت کے بعد حاصل کی ہے … ‘‘
منصور درغا ساخرانہ انداز میں بولا:
’’اور اسلحے کے بغیر ہماری جہدِ مسلسل کا کیا نتیجہ تھا .. ‘‘
مجھے احساس تھا کہ منصور شیخ علی خان کے روسی مدد قبول کرنے پر اس کے عزائم کے بارے میں شاکی ہے، خاص طور پر جبکہ روس جرمنی پر فتح پا چکا ہے، اسے ڈر تھا کہ ہمارا چھوٹا سا علاقہ ان کی ٹھوکروں پر نہ آجائے .. اور طاقتور قومیں کہیں اس سے فٹ بال ہی نہ کھیلنے لگیں.
’’دنیا بہت بدل گئی ہے منصور اور عالمی جنگ نے سب کو نہ بھولنے والا درسِ عبرت دیا ہے‘‘
وہ کندھے اچکا کر کہنے لگا:
’’بلکہ فاتحین کے تکبر اور سرکشی کو کچھ اور بڑھا دیا ہے‘‘
’’اور مفتوحہ علاقوں میں اسکا کچھ اور ہی رنگ نظر آئے گا .. ‘‘
’’اس سے تمہاری کیا مراد ہے مصطفی؟‘‘
’’یعنی دوستی بھی ملک کشی ہی کی صورت میں ہے، کیا حرج ہے اگر ہم اپنے مددگار روس کے دوست بن جائیں‘‘
منصور میرے چھوٹے بچے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’میں تمہارے بچے کو دیکھتا ہوں .. جانتے ہو مجھے اس کے مستقبل کی پریشانی ہوتی ہے‘‘
’’کیوں؟؟‘‘
’’تم سوچتے ہو کہ صرف ہم نے ہی پر خطر اور ہولناک زندگی گزاری ہے .. لیکن تمہارا بیٹا اور اس کی نسل کے لوگ اس سے بھی زیادہ مسائل کا سامنا کریں گے … ‘‘
نجمۃ اللیل نے بیٹے کو محبت سے سینے سے چمٹا لیا، اور خوف سے بولی:
’’میرے بیٹے کے لئے ایسا نہ کہو‘‘
میں اور منصور بے ساختہ ہنس دیے، اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’شکست خوردہ چینی صلح کا مطالبہ کر رہے ہیں .. ‘‘
’’ہم نے انہیں انکار کر دیا ہے .. ‘‘
وہ گھوم کر میرے سامنے آگیا اور کہنے لگا:
’’تمہیں معلوم ہے کہ روسی صدر جمہوریہ پر صلح قبول کرنے اور مذاکرات کے لئے دباؤ ڈال رہاہے؟؟‘‘
میں غصّے سے بولا:
’’کس بنیاد پر‘‘
منصور کندھے اچکا کر بولا:
’’ہمارے محدود استقلال اور چینیوں کے علاقہ خالی کرنے کی بنیاد پر اور انہیں مختلف کاموں میں شریک کار کرنے کی .. ‘‘
’’پھر تمہیں اور کیا چاہیے؟؟‘‘
’’میں مکمل آزادی چاہتا ہوں، میں یہ کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ روسی خواہش عوامی خواہش سے بھی دو ہاتھ آگے ہو گئی ہے .. ہم چینیوں کے لئے کامل شکست اور انہیں مکمل طور پر اپنے علاقے سے بے دخل کرنا چاہتے تھے .. جبکہ روس کے کچھ اور ہی عزائم تھے .. اور اب وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے .. ‘‘
نجمۃ اللیل بچے کو تھپکتے ہوئے کہنے لگی:
’’ہم نے اس امن کے کتنے خواب دیکھے تھے … کہ ہم اپنے علاقوں اور شہروں میں واپس جائیں اور سکون سے زندگی گزاریں .. اب مستقبل سہانا نظر آنے لگا تھا .. ‘‘
منصور ہاتھ ہلا کر بولا:
’’عورتیں ہمیشہ اچھا گمان رکھتی ہیں .. ‘‘
پھر اس نے جھک کر میرے کان میں سرگوشی کی:
’’عثمان باتور اس روسی اثر ورسوخ کا مخالف تھا .. وہ اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرنے کا خواہاں تھا‘‘
میں دل گرفتہ ہو کر بولا:
’’چینی چلے جائیں .. یہی اہم ہے .. ‘‘
اس نے ایک بار پھر کندھے اچکائے:
’’کون جانے؟؟؟‘‘
***
(جاری ہے)