اس جہاں کو قلم سے سنوریں گے ہم ۔۔

قلم بالوں میں پھنسائے ، ہاتھ تھوڑی پر ٹکائے ہم ساتھی کے سالنامے کی کہانی کے لیے آئیڈیاز پر غوروفکر کررہے تھے جب عالیہ خالد کی جانب سے ہمیں کال موصول ہوئی وہ حریم ادب رائٹرز کنونشن کی تقریب پر ہمیں مدعو کررہی تھیں ۔ہمارے لیے حامی بھرنا مشکل تھا کیونکہ ہم ساتھی رسالہ کے سوا کسی محفل میں شرکت نہیں کرتے تھے اور پھر جماعتیوں کی محفل کے بارے میں توہم نے سنا تھا “جماعتی پکنک پوائنٹ پر بھی درس دینے سے باز نہیں آتے” اور ہم فطرتاً درس سے بھاگتے تھے جب قلم سے رشتہ جوڑا تو اپنی اس خواہش کو پورا کیا کہ اپنے کرداروں میں ہمیشہ غیرمحسوس طریقے سے اچھائی کو آگے منتقل کرنا شروع کیا ۔۔ لیکن عالیہ باجی کا اپنائیت و محبت سے بھراانداز ہمارے ارادوں پر پانی پھیر گیا اور ہم نے جانے کی حامی بھرلی۔ یہ ہمارا پہلا اتفاق تھا “جماعتیوں” کے پروگرام میں اکیلے شرکت کرنے کا ۔

حریم ادب کا یہ ساتواں رائٹرز کنونشن ایس بی ایل آڈیٹوریم میں علم کی شمع روشن کیے تمام ناموراور نئے ادیبوں کی محفل سجائے ہوئے تھا ،یہ ادبی محفل حریم ادب کی جانب سے تھی ہم مطلوبہ وقت پر اس پروگرام میں پہنچ چکے تھے اور انیسہ سلیم کے ساتھ آگے کی نشستوں پر براجمان تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز سورۃ الفلق کی تلاوت سے فضہ علی نے کیا پھر عالیہ خالد نے قلم کی طاقت پر روشنی ڈالی ان کا کہنا تھا کہ ہم قلم سے فتح پائیں گے ۔ راحمہ عادل نے نعت پیش کی اس کے بعد پکار کی سابقہ مدیرہ روبینہ فرید نے اپنی نظم “یہ درہ چھوڑ مت دینا” سے لہو گرمایا ۔ پھر فرحی نعیم نے ایک دلچسپ خاکہ پیش کیا جس میں ایڈیٹر کے کمرے کی صورتحال کو بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ، اس میں ادیبوں کے لیے بےشمار پیغامات چھپے تھے۔ادب اور معاشرے کے تعلق پر مذاکرہ ‘اس جہاں کو قلم سے سنواریں گے ہم’ میں شرکاء نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ “ادب معاشرے کی راہیں متعین کرتا ہے۔ تحریر لکھاری کا عکس ہوتی ہے۔کائنات اگر کارواں ہے تو لکھنے والا میرِ کارواں ہے” اس تقریب میں چلتا پھرتا ہر شخص مجھے اپنی کہانی کا کردار لگ رہا تھا جو غیرمحسوس طریقے سے اچھائی کی طرف راغب کررہا تھا۔ چاہے وہ اخلاق سے ہو کیا کردار و لباس سے ۔۔ درس دینے کی تو نوبت ہی نہیں آئی اور ہم جمعیت سے رشتہ جوڑنے کا سوچنے لگے۔ ہمارے ارد گرد اس باوقار تقریب میں وہ ادیب موجود تھے جو بنا کسی خوف و ڈر کے صرف ایک اللہ کی ذات پر کامل ایمان رکھتے ہوئے قلم کو زیراستعمال میں لیے ہوئے تھے اور پُرعزم تھےکہ”چراغ قلم اک بار چلا ہے تو اب رکے گا نہیں ۔زندگی کے ایک دور سے اگلے دور میں قدم رکھنے والی یہ جماعت آج کے اس پرفتن دور میں جس طرح اپنے رب کی رضا کی خاطر تندہی سے نسل نو کی مختلف طریقوں اورذریعوں سے علمی ، فکری اور ذہنی آبیاری میں مصروف عمل ہے ،وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے ، جس عمر میں نئی نسل سطحی باتوں میں الجھ کر وقت گزارتی ہےیہ جماعت انہیں احساس ذمہ داری اور دنیوی و آخروی فلاح کے راستے کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حریم ادب،یوتھ کنونشن ودیگرناموں سے محفل کا انعقاد کرکے New generation کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت اسلامی کا ہرفرد چلتا پھرتا دین اسلام کا عملی نمونہ ہے ۔اللہ تعالی ان کی کاوشوں میں برکت دے اور ہم سے دین کا بہترین کام لے۔ آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں