ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۹)
میرا سرسبز و شاداب، پھلوں سے لدا، لہلہاتے کھیتوں اور معدنیات سے بھر پور وطن پہلے جیسا نہ رہا، میں تو یہی کہوں گا کہ وہ جہنم زار میں بدل گیا اور انسان اس دیس میں کیسے رہے جہاں موت اگتی ہو، اس کی فضاؤں میں خوف کا راج ہو اور بدیسی لشکری اس کے شہروں میں خون کی ہولی کھیل رہے ہوں، اپنے پیارے وطن میں اجنبیوں کی طرح رہنا کتنا اذیت ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجنبی میں نہیں ہوا تھا بلکہ مجھے یوں لگتا کہ ترکستان اجنبی ہو گیا ہے .. وہ چہرے پر حیرت کا تأثر لئے اس کشت و خون، قیدو بند اور قتل وغارت کے مناظر دیکھ رہا ہے، اسے تعجب ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں، ہاں یہ محض اﷲ کی قدرت ہے، چند ہی مساجد باقی بچی ہیں، بہت تھوڑے خمدار کمر کے بوڑھے ابھی بھی چھپ چھپا کر انہیں آباد رکھنے کے لئے کوشاں ہیں، وہ برستی آنکھوں سے چپکے چپکے نماز پڑھتے ہیں، جاسوسوں کی نگاہیں انہیں تلاشتی رہتی ہیں، وہ انہیں اذیت بغیر گزر جاتے ہیں، مگر ان کے بیٹے اور اہلِ خانہ تعذیب کا نشانہ بن جاتے ہیں، ہم ان مساجد کے پاس سے گزرتے جس پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا اور انہیں تھیٹر یا تھانے اور انتظامی دفاتر میں تبدیل کر لیا تھا۔ ہم اس کی دیواروں کو چھوتے اور بے آواز روتے، علانیہ رونا موت کو آواز دینے کے برابر تھا، میں شہروں شہروں گھومتا رہا، ہر علاقے میں میرا مختلف نام ہوتا .. آہ .. یہ پرانی یادیں ہیں، مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کون کون سے نام اختیار کئے اور اورومجی جا کر مجھے محسوس ہوا کہ یہاں صرف نام بدلنا ہی کافی نہیں، تو میں بوجھ اٹھانے والا مزدور بن گیا .. میں نے سر پر کپڑوں کا گٹھڑ اٹھایا، اور ہاتھ میں چھڑی پکڑ لی، میں نے مونچھ ڈاڑھی کو بھی خط بنائے بغیر بڑھنے کے لئے چھوڑ دیا، میرے ننگے پاؤں جگہ جگہ سے پھٹ گئے، گویا میں سالوں سے اسی حلیے میں ان علاقوں کی خاک چھان رہا تھا، میں گونگا بن گیا کیونکہ انسان کی زبان اور معقول الفاظ بھی اس کی چغلی کھا دیتے ہیں اور شخصیت ظاہر ہو جاتی ہے، شام کو میں ایک تنگ و تاریک کمرے میں پناہ لیتا اور اﷲ کی بندگی کرتا .. مجھے ایسے لگتا جیسے ملائکہ میرے گرم ابلتے آنسو پونچھ ڈالتے ہوں، ہماری تہذیب مٹ رہی تھی .. گھل رہی تھی .. روسی ہزاروں لوگ لا رہے تھے اور چینی بھی۔ چینی عورتیں بھی منصوبے کے تحت لائی جا رہی تھیں تاکہ ترکستانیوں اور ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے قائم ہوں، حاکمِ چین ’’شین سی تسائی‘‘ اسٹالین سے ملنے گیا اور اس کی منت سماجت کرتا رہا تاکہ وہ اسے کیمونسٹ پارٹی کا رکن بنا لے، واپس آ کر اس نے اعلی چینی قائد ’’چیانگ کائی چیک‘‘ کو خفیہ خطوط ارسال کئے تاکہ وہ اس کی مدد کرے اور اس باہمی رسہ کشی میں ہم پھٹے ہوئے کپڑے کی طرح ادھڑ رہے تھے .. میں بتا چکا ہوں کہ میں قلی بن گیا تھا .. میں اپنی کمر پر ہر طرح کے بوجھ لادتا اور انہیں بڑی بڑی گاڑیوں یا ریل گاڑی پر لادتا اور معدنیات پھل مویشی اور زرعی اجناس .. جو روسی اور چینی علاقوں میں بطور ہدیہ بھیج دیا جاتا .. وہ ناچتے گاتے، مے کے جام لنڈھاتے، انکے دن سوتے اور راتیں جاگتیں اور میں ان عجائب کو حیرت سے تکا کرتا .. کتنے ہی خائن تھے جنھوں نے اپنے ضمیر کا سودا کیا، اپنے دین کو بیچ ڈالا اور حملہ آوروں کے سامنے پسپا ہو کر انہیں کے اشاروں پر چلنے لگے، وہ اعلی عہدوں پر فائز ہو گئے اور دن یا اس کے کچھ حصے ہی میں ایک نئے انسان کے سانچے میں ڈھل گئے .. میں ان کے چہروں کو دیکھتا تو ایسا لگتا کہ وہ کبھی ترکستانی تھے ہی نہیں۔ ان کے طور طریقے انکا کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، حتی کے انکے انداز و اطوار بھی بدل گئے .. ان کی ہر عادت میں تغیر آگیا، وہ فاتحین کی نقالی کرتے نہ تھکتے خاص طور پر روسیوں کی .. وہ سرخوں کے انسگنیا(علامتی نشان، جیسے ہتھوڑا اور درانتی) شوق سے سینے پر آویزاں کرتے اور کیمونزم کے نعرے لگاتے، ان کی گفتگو میں کثرت سے روسی الفاظ کا استعمال ہوتا، میں جب اپنے مقبوضہ علاقے میں یہ چلن دیکھتا تو خوفزدہ ہو جاتا، ترکستان شرقیہ کی یہ پاکباز دلہن اپنی پاکیزگی اور صفائی کیسے لوٹائے گی، مایوسی سے میرا دم گھٹنے لگتا .. میں زمین میں کچھ اور جھک جاتا اور کمر پر لادا بوجھ گاڑیوں سے بندرگاہ منتقل کرتا رہتا اور اسی گردش میں ایک روز مجھے وہ نظر آگئی .. حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا .. اور میں بلا ارادہ پکارا:
’’نجمۃ اللیل .. ‘‘
اور نایاب قسم گاڑی جسے چینی ڈرائیور چلا رہا تھا رک گئی، اس کا زرد چہرہ تھا، میں نے اپنے حواس پر قابو پایا اور دوسری جانب دیکھنے لگا اور کھسکنے کی کوشش کی، لیکن وہ گاڑی سے اتری اور مجھے آن پکڑا … اس نے سپاٹ نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور بولی:
’’محل تک میرے پیچھے پیچھے آجاؤ .. ‘‘
میں کانپ اٹھا اور تنگی سے بولا:
’’میں آپ کو نہیں پہچانتا .. میں چاہتا ہوں .. ‘‘
وہ فیصلہ کن انداز میں بولی:
’’میرے پیچھے آجاؤ .. سر باودین کو ذاتی خدمت گار کی ضرورت ہے .. وہ آج اورومجی سے باہرگئے ہوئے ہیں‘‘
’’تمہیں لازماً آنا ہے .. ‘‘
اور قبل اس کے کہ میں اس اچانک افتاد سے سنبھلتا، لشکارے مارتی گاڑی جا چکی تھی، جانے سے پہلے اس نے مختصر الفاظ میں محل کا نقشہ سمجھا دیا تھا، میں اپنے تنگ و تاریک کمرے میں لوٹ آیا، نماز پڑھی اور میرے آنسؤوں کی جھڑی لگ گئی .. باربار مجھے ایسا لگتا کہ موت زندگی سے سہل ہے (کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت)، مردے ہر احساس سے عاری ہو جاتے ہیں .. اور کبھی میرا دل یقین سے بھر جاتا، کہ اسلام ضرور غالب آئے گا اور آخر کار ہم بھی آزاد ہو جائیں گے۔ میں امید و یاس کے بیچ معلق تھا، کبھی مجھے موت بھلی لگنے لگتی اور کبھی میں زندگی کا حریص بن جاتا، میں وہ کٹا پھٹا، عذاب اورضیاع کی بھٹیوں میں تپا ہوا انسان تھا، جسے یہ بھی خبر نہ تھی کہ کس راستے پر چلے اور کس پناہ گاہ میں اپنا سر چھپائے ..
سر باودین کا محل تلاش کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا، یہ آبادی سے ہٹ کر ایک الگ تھلگ مقام پر تھا، اس پر کچھ گارڈز متعین تھے، میں ان بوسیدہ کپڑوں میں وہاں کیسے جاتا، میں نے نئی پوشاک خریدی اور قلی کے کپڑے اتار دیے، اب میرا لباس قصرِ امیر کے سابق چوکیدار کے معیار کے قریب تھا جس کا دور ختم ہو چکا ہو اور خاندان بکھر گیا ہو ..
مجھے کسی نے نہ روکا .. گارڈ نے آگے بڑھ کر پوچھا:
’’کیا آپ محترمہ سے ملنے آئے ہیں .. ‘‘
میں سے خوف سے سر ہلایا .. اور اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھ سے میرا نام نہیں پوچھا،حالانکہ اپنا نام بتانے میں بظاہر کوئی خطرہ بھی نہ تھا، دشمن جب طاقت پا جاتا ہے تو اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی لئے برابر خوف کا شکار رہتا ہے، لیکن بظاہر لاپرواہی برتتا ہے، خوش قسمتی سے محل خالی تھا ..
یا الہی میں کیوں آگیا ہوں؟؟ میں اس سے کیا کہوں گا؟؟ اور اب جبکہ وہ طبقہء اشراف کی نمائیدہ بن گئی ہے، کیا میں اس کے ہاں ملازمت قبول کر لوں اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دوں کہ وہ کل تک میرے لئے پلکوں پر خواب سجائے بیٹھی تھی، میرے اس عمل کے کیا معنی ہونگے؟؟ وہ آسمان کی بلندیوں پر تھی اور میں مٹی میں پڑا تھا، موت میرا اسی طرح تعاقب کر رہی تھی جیسے پرانے جنگجوؤں کا، لیکن میری متجسس محبت مجھے خاردار راہوں کی جانب دھکیل رہی تھی، وہ سرخ مخملیں صوفے پر بیٹھی تھی، سیاہ لباس پہنے جو اس کے فتنہ گر حسن میں اضافہ کر رہا تھا۔ نجمۃ اللیل کس قدر بدل گئی تھی، وہ بہت حسین اور باوقار نظر آرہی تھی، اس کے چہرے پر غم کے سائے صاف دکھائی دیتے تھے، اس پر بدمست جوانی کا خمار تھا نہ صبا کی چھیڑخانی کا اثر، وہ ایک جوان بیوہ کے روپ میں تھی ..
’’میری بڑے عرصے سے خواہش تھی کہ تمہیں دیکھوں‘‘
میں نے بلا جواب دیے اسے نظر اٹھا کر دیکھا
’’میں نے سوچا تم بھی جنگ میں کام آگئے ہوگے .. ‘‘
میں خاموش رہا، بولنے کی کوشش کی مگر زبان نے ساتھ نہ دیا
’’اور مایوسی انسان سے بہت کچھ کروا لیتی ہے مصطفی مراد حضرت .. ‘‘
وہ خواہ مخواہ میرے ردِ عمل کا انتظار کرتی رہی، وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی:
’’میں معرکے میں کام آنے والے شہداء کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتی ہوں .. کاش ان سولیوں پر اور تعذیب خانوں میں کوئی نہ مرتا .. معرکہ میدانِ جنگ میں ہونا چاہیے اور میدانِ جنگ ہی میں اس کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ کوئی زندہ شخص دشمنوں کے ہاتھ نہ آئے‘‘
میں ڈٹ کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس سے کہا:
’’نجمۃ اللیل پھر تم نے اپنا زندہ وجود ان کے حوالے کیسے کر دیا‘‘
وہ دکھ سے ہنسی:
’’آخر کار تم بولے تو .. ٹھیک ہے .. میں اپنا دفاع نہیں کرونگی، جب محل پر قبضہ ہوا تو میں نے اس کے مکینوں کو بچانا چاہا اور ساتھ ہی میں نے یہ کوشش بھی کی کہ میں ہر سپاہی کی جاگیر نہ بن جاؤں، اسی لئے میں نے ایک شخص کا انتخاب کیا اور اس سے شادی کر لی .. ‘‘
میں حیرت سے بولا:
’’تم نے شادی کیسے کر لی؟؟‘‘
’’جیسے ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں .. اس نے اسلام قبول کرلیا اور مجھ سے شادی کرلی .. ‘‘
وہ حسرت سے ٹھنڈی آہ بھر کر بولی:
’’بڑی سادگی سے سارا معاملہ طے ہو گیا .. جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہے، میں نے کچھ شرائط پیش کیں جو اس نے قبول کر لیں .. میں جانتی ہوں کہ اس کا اسلام بس ظاہری اقرار ہے بلا حرارتِ ایمان کے .. اور مجھے معلوم ہے کہ میں اسے دھوکہ دے رہی ہوں اور اپنے آپ کو بھی … میں تمہیں کیا بتاؤں .. میں برداشت نہ کر سکی کہ بھیڑیے مجھے بھنبھوڑیں .. میں نے اس سے شادی کر کے اپنے آپ کو بچایا اور وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتا ہے .. ‘‘
میں حیرت سے بولا:
’’اور تم اس شخص کے حصار میں کیسے رہتی ہو جس سے تمہیں کوئی لگاؤ نہیں .. ‘‘
اس نے ساخرانہ انداز میں کندھے اچکائے اور کہنے لگی:
’’جیسے میرا وطن پنجہء استبداد تلے زندہ ہے .. جیسے تم اورومجی میں رہتے ہو جہاں روسیوں اور چینیوں کی حکمرانی ہے .. یہاں سب کچھ روح کے بغیر ہے .. ‘‘
میں بڑبڑایا: ’’روح ؟؟‘‘
بولی: ’’ہاں ہم عشق اور محبت سے دستبردار ہو گئے ہیں، اسی لئے ہم بلا روح کھاتے پیتے اورسوتے ہیں ..اور ہم یوں حرکت کرتے ہیں جیسے ہم شمع کے مجسمے ہوں، جو دوسروں کے محتاج ہوں کہ وہ ان میں روح پھونک دے اور پلاسٹک یا کپڑے کی جاپانی گڑیا کی طرح جو اپنے کرتب دکھانے کے لئے کسی کے بٹن دبانے کی محتاج ہو .. حقیقی زندگی ناپید ہو گئی ہے .. ہم تھیٹر کے اداکاروں کی طرح ہنستے روتے اور دیگر کردار نبھاتے ہیں .. کیا تمہیں سمجھ آئی مصطفی مراد حضرت .. ‘‘
اس نے ایک زور دار تالی بجائی، رئیسۃ الخدام حاضر ہوئی .. اس نے اس سے میرا تعارف کروایا:
’’یہ دیانت دار خادم ہے .. اس کا نام ’’تورسون‘‘ ہے .. اس کو اچھا سا لباس فراہم کردو .. جو قصرِباودین کے رہائشیوں کے شایانِ شان ہو .. ‘‘
اب میرا نام تورسون ہو گیا، میں باودین کے محل میں گھومتا پھرتا .. ایسے لگتا تھا کہ میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں .. محل کی مالکہ خوبصورت ترکستانی عورت تھی .. میرے اس دوغلے کردار پر اسے اطمینان سا ہو گیا .. اور خدام کے آرام دہ اور خوبصورت کمرے میں میں کئی سالوں بعد کچھ دیر کیلئے پرسکون سویا، میری کمر ابھی تک درد کر رہی تھی، حالانکہ ترکی حمام سے مجھے خاصا افاقہ محسوس ہوا، میں نے شیو بنائی اور آئینہ دیکھا .. میں پھر سے جوان ہو گیا تھا .. یا الہی اتنی تبدیلیوں کے بعد بھی میری آنکھوں کا کوہستانی وحشی پن چیخ چیخ کر اپنا آپ منوا رہا تھا .. میری سوچوں کا رخ پھر نجمۃ اللیل کی جانب مڑ گیا .. میرے خیالات ایسے شخص کے تھے جس کی عورت اس سے چھین لی گئی ہو .. اور نجمۃ اللیل .. ایسی اسیر تھی جس پر دشمن نے استبدادی قبضہ جما رکھا تھا اور بات عشق و محبت کے ذاتی جذبوں سے بڑھ کر آزادیء وطن تک جا پہنچی تھی .. ہا .. ہا .. میں ہنسنے لگا .. ابھی تک میری سوچ کسی ایک رخ پر مرتکز نہ ہوئی تھی ..
اور اگلے روز وہ مجھے اپنی خوبصورت گاڑی میں ساتھ لے گئی .. اور ہم ایک سبزہ زار میں داخل ہوئے جہاں گھنے درخت تھے اور پھول اور پھل .. قابض انتظامیہ نے آگے بڑھ کر نجمۃ اللیل کا استقبال کیا، اور اس کے لئے راستہ چھوڑ دیا .. ہم اترے اور وہ پھولوں کی کیاریوں اور پھلوں سے جھکے درختوں کے بیچ میرے آگے آگے چلتی رہی .. میں چپ چاپ اس کے پیچھے چلتا رہا .. وہ اچانک گویا ہوئی:
’’وہ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے شرف اور عفت کو بٹہ لگایا .. ‘‘
اس نے ایک چھوٹی سی شاخ توڑی، اور غروب ہوتے سورج کو دیکھا جس کی سنہری کرنیں اس کے چہرے پر اپنا عکس ڈال رہی تھیں اور ہولے سے کہنے لگی:
’’اہلِ قومول کتنی آسانی سے اپنے بیچ جھوٹے قصے پھیلا دیتے ہیں .. آخر انہیں میرے قصے سے اتنی دلچسپی کیوں تھی؟؟‘‘
میں امیر کے محل کی ایک معمولی ملازمہ ہی تو تھی .. ‘‘
پھر وہ میری جانب مڑی اور میرا ہاتھ تھام کر بولی:
’’کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مجھ سے شادی کر لو مگر تم نے انکار کر دیا .. ‘‘
’’وہ کوچ کا وقت تھا .. اور ہم اس وقت موت کے نرغے میں تھے .. ‘‘
وہ تلخی سے مسکرائی:
’’لیکن ہم پھر بھی موت کو چکمہ دے کر بچ نکلے، کیا تمہیں پتا ہے کہ قابض حکومت نے کتنے سروں کو کچلا ہے .. وہ .. ایک لاکھ سے زائد ہیں .. ‘‘
میں حیرت سے بولا:
’’تم ابھی تک جنگجؤوں اور شہداء کے بارے میں سوچتی ہو؟؟‘‘
اس نے حقارت سے میری جانب دیکھا اور بولی:
’’تمہارا کیا خیال ہے؟؟‘‘
’’آپ جیسوں کو ایسے معاملات میں سوچنے کی کیا ضرورت ہے .. ‘‘
’’کیا میں تم جیسی مسلمان ترکستانی نہیں ہوں؟؟‘‘
پھر خاموشی چھا گئی، ہوا میں خنکی تھی اور غروبِ آفتاب کا منظر عجیب طرح کا غم انڈیل رہا تھا، بعض قدیم مساجد سے اب بھی پردرد اذانوں کی آواز بلند ہو رہی تھی، گنبد بوڑھے کچھؤوں کی مانند سوئے ہوئے تھے، جیسے میں نے ایک صبح چڑیا گھر میں دیکھا تھا، عمارتیں چھتوں کے بل قدموں میں آ گری تھیں، گویا اب انہیں کسی سے کوئی سروکار نہ ہو ..
نجمۃ اللیل سرخ پھول توڑتے ہوئے بولی:
’’میں نے اس کے قتل کے بارے میں بھی سوچا .. ‘‘
’’کس کے!؟‘‘
’’باودین .. میرا شوہر باودین .. ‘‘
’’کیوں؟؟‘‘
’’میں نے سوچا کہ یہ میرا فرض ہے .. لیکن میں تم سے پوچھتی ہوں، ان میں سے کیا بہتر تھا اسے قتل کرنا یا اسے خوش رکھنا؟؟‘‘
میں نے کندھے اچکا کر پوچھا:
’’اسے خوش رکھنے کی قیمت کیا تھی؟؟ ہر جگہ لوگ ذبح ہو رہے ہیں، تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں، اور سختیاں سہہ رہے ہیں‘‘
اور اس کے قتل کی کیا قیمت ہوتی .. یہ میں تم سے پوچھتا ہوں .. ؟؟‘‘
’’وہ مقدس انتقام تھا .. ‘‘
’’لیکن میں نے اسے خوش رکھ کر زیادہ فائدہ حاصل کیا .. ‘‘
میں پشت موڑ کر کھڑا ہو گیا او ر ایک ایک لفظ زور دے کر کہنے لگا:
’’میری مالکہ! دشمن کی ساری چالیں جھوٹ اور ٹیڑھ پر مبنی ہوتی ہیں‘‘
وہ حیرت سے میرے سامنے آکر بولی:
’’کیا تم یہی سمجھتے ہو؟؟ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ میں لولے لنگڑے فلسفے سے اپنے آپ کودھوکا دیتی رہی تاکہ اپنے آپ کو تشدد اور ضیاع سے بچاؤں .. اور زندہ رہنے کا بہانہ تلاش کروں .. ہا .. کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو؟؟‘‘
میں نے سر ہلایا:
’’اسی لئے تم اہلِ قومول کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہو؟؟‘‘
اس کے آنسو بہہ نکلے، اس نے مجھے سختی سے جھنجھوڑا اور بولی:
’’ان احمقوں کو کچھ سمجھ نہیں آتی .. امیر کے خاندان کو بچانا ضروری تھا .. اس کی کچھ قیمت تو مجھے ادا کرنی تھی .. ہم سب کو زندگی سے پیار ہے اور موت سے فرار.. ‘‘
اس نے آنسو صاف کئے پھر بولی:
’’اور تم مصطفی مراد حضرت .. تم مجھے کیا سمجھتے ہو‘‘
’’تورسون .. میرا نام تورسون ہے … ہمیں پرانا نام بھول جانا چاہیے .. ‘‘
’’تمہاری کیا رائے ہے؟؟‘‘
’’میں نے صاف صاف کہ دیا .. پہاڑوں کی چٹانوں پر جنگجو ساتھیوں کے ساتھ روٹی کا خشک ٹکڑا .. میرا نام تمہارے عالی شان محل میں ذبح ہونے والی سو بھیڑوں کے ساتھ ہے .. ‘‘
اچانک ہی آسمان سے بارش کے قطرے ٹپکنے لگے اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا، بارش کی ٹپ ٹپ صاف سنائی دے رہی تھی، میرے پاؤں سردی سے کٹنے لگے، اور سبزہ میرا گلا گھونٹنے لگا، ایسا لگ رہا تھا یہ ٹھندک مجھے مار ڈالے گی، حالانکہ میں یہ احساس برسوں پہلے کھو چکا تھا ..
’’مصطفی‘‘
’’آپکا خادم تورسون .. ‘‘
’’کہاں چلے؟؟‘‘
’’ان چٹانوں پر جہاں خشک روٹی کے ٹکڑوں پر پلنے والے عظیم مجاہد رہتے ہیں .. ‘‘
’’رکو! ہم آرام سے اس معاملے کو دیکھیں گے .. ‘‘
جب باودین سفر سے واپس محل میں لوٹا تو میں کچھ وقت کے لئے سامنے نہ آیا، اندر داخل ہوتے ہی اسکی نگاہیں نجمۃ اللیل کو تلاش کرنے لگیں، وہ اس سے بے قراری سے ملا:
’’تم میری واپسی پر خوش ہو نا‘‘
وہ نظریں جھکائے ہوئے بولی:
’’بہت خوش .. لیکن تعذیب خانوں میں وہ سینکڑوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں .. ‘‘
’’یہ دوسرا معاملہ ہے .. ابھی اس پر کیوں سوچ رہی ہو؟؟ اس معاملے میں میرے پاس کچھ اختیار نہیں .. ‘‘
’’باودین تم زندگی میں کسی ایک بات پر بھی قائم کیوں نہیں رہتے؟؟
’’بلکہ ایک مقرر شدہ ہدف پیاری .. ‘‘
’’وہ کیا ہے؟؟‘‘
’’تمہاری بات لمبی ہو گئی ہے .. میرا مؤقف یہ ہے کہ میں اپنا کام کرتا ہوں .. ‘‘
’’اپنا کام کرنے اور اپنا فرض نبھانے میں بڑا فرق ہے .. ‘‘
’’میرا کام ہی میرا فرض ہے .. ‘‘
’’میں تمہیں ایک انسان کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں .. ‘‘
’’نجمۃ اللیل کیا ہم پھر سے بے نتیجہ لڑائی لڑنے لگیں‘‘
’’حقیقی انسان وہ ہے جو عذاب میں مبتلا مجبوروں کا درد محسوس کرے‘‘
وہ چڑ کر بولا:
’’تمہیں بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ہم ان مجبوروں کی رسی ذرا سی بھی ڈھیلی کر دیں تو ان میں سے اکثر ہماری تمہاری گردنیں ناپنے لگیں .. ‘‘
وہ عجیب بے چینی سے بولی:
’’میری یہ مراد نہیں تھی .. اہم بات یہ ہے کہ تم اپنا فرض پورا کرو‘‘
وہ زچ ہو کر چلایا:
’’اور میں کون ہوں؟؟ اس عظیم لشکر کا ایک فرد .. ایک بڑی مشین کی ایک چھوٹی سی ڈسک.. اتنے دنوں بعد سفر سے آنے والے شوہر کا تم یوں استقبال کر رہی ہو؟؟ ہماری محبت کہاں گئی؟! میرے پاس آؤ میری پیاری‘‘
وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے، میں نے اپنے آپ سے کہا یہ ملعونہ مجھ سے بھی دل بہلا رہی ہے اور اس سے بھی .. اگر میں اس کے بعد بھی اس کے قریب رہا تو میرے افکار بھی زہر آلود ہو جائیں گے، شہروں میں کچھ بھی خالص نہیں، وہاں پہاڑوں کی چٹانوں پر ہی آزاد منش لوگ بستے ہیں، جن کے کاندھوں پر اسلحہ ہے، ضروری ہے کہ میں اپنی پہلی فرصت میں ان سے جا ملوں ..
دوپہر کے کھانے کے وقت باودین نے مجھے سرسری انداز میں دیکھا اور پوچھنے لگا:
’’کیا یہی ہے نیا خادم‘‘
’’ہاں .. اپنا کام بڑی دلجمعی سے کرتا ہے .. ‘‘
’’تم کس علاقے سے ہو؟؟‘‘
’’میرا نام تورسون ہے التائی سے ہوں‘‘
دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے لدا ہوا تھا اور باہر عوام درختوں کے پتے کھا کر گزارا کر رہی تھی، دوشیزائیں اٹھائی جا رہی تھیں اور لوگ بھوک سے بلبلا رہے تھے، بچے آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور ملکی پیداوار گاڑیوں میں بھری جا رہی تھی یا فاتحین کے گھروں میں اتاری جا رہی تھی ..
میں نے سر گھمایا .. میں دستر خوان پر بیٹھے جھوٹوں کو دیکھ رہا تھا ..
’’تورسون تم جا سکتے ہو‘‘
باودین نے نرمی سے کہا، میں باورچی خانے میں واپس آکر ہذیان بکنے لگا، میری آگ کسی طور ٹھنڈی نہ ہو رہی تھی اور نفرت میرے دل کو اس طرح کھا رہی تھی جیسے آگ لکڑی کھاتی ہے۔ ان کی دین اور عقیدے سے جنگ مجھے مجبور کر رہی تھی کہ میں کسی بھی حماقت کا ارتکاب کر گزروں .. یہ میرا ذاتی معاملہ نہ تھا، یہ اﷲ کی خاطر انتقام تھا ..
***
(جاری ہے)