ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۶)
میں نے ’’نجمۃ اللیل‘‘ کو پیچھے چھوڑا اور چاند کی آغوش میں چلا آیا، وہ چودھویں کا چاند تھا، جس کے گرد بادلوں کا ہالہ تھا، لیکن مجھے اس کے پر سکون باوقار چہرے پر ہزار سالہ روشن مسکراہٹ نظر آرہی تھی، اے روشن چاند میں تیرے وجود کی ضیاء میں چل رہا ہوں، اے اندھیروں کو چیلنج دینے والے میں میدان کے وسط میں ہوں، جنگجو قیادت تک پیغام رسانی کے لئے .. میں ان انقلابیوں کے چہرے چھپا لیتا ہوں جب ان میں سے کسی ایک یا سو یا ہزاروں کا ذکر کرتا ہوں .. وہ کثیر التعداد ہیں .. جیسے جنرل محمود محیطی اور عظیم جنرل عثمان باتور اور جنرل شریف خان اور جنرل عثمان اوراز .. اور چوٹیوں پر میں ان گروہوں سے ملا جن کی نگاہیں سارے علاقے اور اس کے شہروں کو تاڑ رہی تھیں اور ان کی تقریریں حریت پسند عوام کے مصائب کے بارے میں نشر ہو رہی تھیں جو ترکستان میں جنگ کے بوجھ تلے سسک رہے تھے .. اور ۱۹۳۲ء کے اواخر میں سیلِ عارم بہہ نکلا …
خوجہ نیاز کہنے لگے:
’’اب ہماری ملاقات ’’اورومجی‘‘ میں چینی حاکمِ عام کے محل کے قریب ہو گی .. ‘‘
ہم سب جانتے تھے کہ یہ مرحلہ طویل ہوگا، اور غالباً کشت و خون سے بھرپور، اس کا اندازہ مجھے جنرل محمود محیطی کے خطاب ہی سے ہو گیا تھا جنھوں نے کہا:
’’اﷲ کی خاص عنایت ہمارے شامل حال ہو گی .. ‘‘
میں بولا: ’’اے عظیم بزرگو .. ہمارے کئی نوجوان روس کے فلسفہء مارکس پر فریفتہ ہو چکے ہیں .. ‘‘
خوجہ نیاز ہنس کر بولے:
’’جب سچ کا سورج نکلے گا تو یہ سارے من گھڑت جھوٹے افسانے دم توڑ دیں گے .. ‘‘
وہ برف پوش چوٹیوں پر نظر ٹکا کر کہنے لگے:
’’اﷲ کا فیصلہ تمام زمینی فلسفوں سے زیادہ قوی ہے، تم جو گمان کر رہے ہو کہ ان کے کسی ملحدانہ فلسفے کو دائمی فتح ملنے والی ہے وہ محض وقتی کامیابی ہے، عنقریب گل ہونے والا چراغ .. تاریخ کے ہر عھد میں خدا کے کلمے کو چیلنج کرنے والے متکبر اٹھتے رہے، ان میں سے کچھ کامیاب بھی ہوئے .. لیکن ناممکن .. اﷲ نے اپنی کتاب میں فرما دیا ہے ’’انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون .. ‘‘ نکلو اﷲ کی مدد کے ساتھ اور اﷲ کے سوا کسی سے نہ ڈرو .. ‘‘
میں نے ترکستانی قوم کا عجب نظارہ کیا، وہ قوم جو اپنے رستے زخموں اور حسرت و اندوہ کیساتھ بظاہر سپر ڈال کر اونگھ رہی تھی، اس کے دل میں مایوسی کا ڈیرہ تھا، اس نے جب ہماری جمعیت کو دیکھا تو سرک کر ہمارے بیچ آ شامل ہوئی، اپنی سستی کے بند توڑ کر اور اپنے ضعف کا جوا اتار کر، اسنے بے یقینی سے آنکھیں کھولیں اور پورے اعتماد کے ساتھ ہمارے ساتھ چلنے لگی .. یا الھی !! چینی کہاں گئے ؟؟ میں نے دیکھا وہ دہشت زدہ ہو کر بھاگ رہے تھے، کتنوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہمارے شانہ بشانہ لڑنے لگے اور کتنی ہی دوشیزائیں ان چینی لشکریوں کی دسترس سے نکل آئیں .. اور رہائی پاکر معرکے میں شامل ہو گئیں ..
ایک شہر میں میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایک مضبوط جسم چینی کو پکڑے ہوئے ہے اور مجمع تالیاں بجا رہا ہے .. یہ عورت کون تھی … ’’کاشغر‘‘ کی صنفِ نازک، اسکا نام ’’خاتون‘‘ تھا .. اس نے ’’چن لی‘‘ نامی چینی سپاہی کو قابو کر کے اسے رسی سے درخت کے تنے کے ساتھ باندھ رکھا تھا .. اور وہ زخمی بیل کی مانند درخت کے گرد بھاگ رہا تھا .. جبکہ وہ چلاتے ہوئے اس کی پشت پر مسلسل کوڑے برسا رہی تھی ..
’’تم نے مجھ سے کہا تھا خاتون .. تم میری ہو .. اور کوئی خدا تمہیں میرے ہاتھ سے بچا نہیں سکتا .. تم مجھے گھسیٹ کر اپنے خیمے میں لے گئے .. کیا یاد ہے تمہیں؟؟ میں نے تمہیں ہزار مرتبہ کہا .. مجھے تم سے نفرت ہے .. شدید نفرت .. اور تمہیں مجھ سے کچھ نہیں ملے گا .. میں نے یقین سے کہا تھا کہ اﷲ مجھ سے اور تم سے زیادہ قوی ہے .. اور اے ملعون ’’چن لی‘‘ تو مجھے برہنہ چھوڑ گیا تھا .. اور تیرے نشے میں مدہوش ساتھی اس ہتھکڑیوں میں جکڑی مظلوم عورت پر پل پڑے تھے .. میں روتی چلاتی رہی اور آسمان کی جانب سے رحمت کی منتظر رہی .. میں نے دل کی گہرائیوں سے اﷲ کو پکارا .. تم نے میرا تمسخر اڑایا اور کہا .. اﷲ تمہاری فریاد نہیں سنے گا کیونکہ وہ موجود نہیں ہے .. لیکن چن لی موجود ہے .. او چن لی دیکھو اب تم کہاں ہو؟؟ .. چاروں طرف سے آنے والوں کو خوب اچھی طرح دیکھ لو .. اور ان کے جھنڈے بھی .. اب یہ شکست نہ کھائیں گے .. چن لی اب تمہیں اﷲ کا یقین آیا؟؟ بولو .. آہ .. اب تم پاؤں پڑ رہے ہو .. تم پر خاک اڑ رہی ہے .. اسی الہ کا واسطہ دیکر مدد مانگ رہے ہو جس کے منکر تھے .. کیا تم مرد ہو؟؟ مجھے تمہاری کم مائیگی کا اندازہ ہے. تم موت سے ڈر رہے ہو .. لیکن اے کمینے تم نے میرا دل زخمی کیا .. اور میرا جسم بھی .. اور جو کسی عورت کی عصمت دری کرے اسکی سزا ہماری شریعت میں .. صرف اور صرف موت ہے چن لی .. ‘‘
خوجہ نیاز نے اس پر ہیبت منظر کو دیکھا تو بولے:
’’ایسا لگتا ہے کہ یہ عورت پاگل ہو گئی ہے .. ‘‘
کاشغر کا ایک شخص آگے بڑھ کر بولا:
’’سارے کاشغر کو اسکا قصہ معلوم ہے .. ‘‘
’’یقیناًاس کے ساتھ بڑی سفاکی کا معاملہ ہوا ہے.. ‘‘
’’یہ بہت اعلی خاندان سے ہے آقا .. ‘‘
’’ظاہر یہی ہوتا ہے .. ‘‘
’’اور چن لی نے چن چن کر اعلی نصب عورتوں کو نشانہ بنایا ہے .. یہ کیمونسٹ ہے اس کی تربیت ماسکو میں ہوئی تھی .. اس نے متعدد علماء اور اہلِ شریعت کو بھی قتل کیا ہے .. ‘‘
خوجہ نیاز آگے بڑھ کر رسیوں سے جکڑے سپاہی کے پاس گئے:
’’کیا جرم ہے تمہارا؟؟‘‘
قیدی نے تھکی ہوئی آنکھیں کھولیں اور بولا:
’’میں نے جو کچھ کیا وہ فاتحین کا حق ہے‘‘
’’فاتحین کے حقوق کیا ہیں؟؟‘‘
چن لی سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو خوجہ نیاز گویا ہوئے:
’’یہ کہ وہ صدیوں پرانی روایات کو کچل ڈالیں؟؟‘‘
’’یہ مجھے اچھی لگی تھی اور میں اسے اپنانا چاہتا تھا .. ‘‘
’’کیا اسی لئے تم جنگ میں اترے تھے؟؟‘‘
’’میں نے بھی وہی کیا جو باقی سب کر رہے تھے، اور جوابدہ تو قیادت ہوتی ہے‘‘
خوجہ نیاز مجمعے کو مخاطب کر کے بولے:
’’اسے دیکھو .. یہ چاہتا ہے کہ ہم اسکا حساب ان سے لیں جو اسے لیکر آئے ہیں .. ‘‘
پھر اسے مخاطب کر کے بولے:
’’سنو چن لی اﷲ کے حضور ہم اکیلے ہی حاضر ہوں گے .. ’’اور قیامت کے دن سب تنہا اسکے سامنے پیش ہوں گے‘‘ کیا تم نے یہ فرمان خدا نہیں سنا؟؟ ہم تم سے تمہاری قیادت کے جرائم کا بدلہ نہیں لیں گے .. لیکن اس کی سزا ضرور دیں گے جسکا ارتکاب تم نے کیا .. ‘‘
چن لی شدتِ غم سے پھٹ پڑا اور چلایا:
’’میں مرنا نہیں چاہتا .. ‘‘
خاتون نے قہقہہ لگایا اور خوجہ نیاز سے کہنے لگی:
’’آقا .. کتنے مظلوم اس سے رحم کی بھیک مانگتے رہے .. ایک شام ایک کڑیل نوجوان اسی طرح اس سے چلا چلا کر کہہ رہا تھا ’’میں مرنا نہیں چاہتا‘‘ .. یہی الفاظ .. لیکن چن لی بالکل بے حس بنا رہا .. ‘‘
پھر وہ چن لی سے مخاطب ہو کر بولی:
’’تم اس کا انکار کر سکتے ہو؟؟ تم بے شرم بن گئے تھے .. تم نے بڑے اطمینان سے اپنی بندوق اٹھائی، اور اس سے کئی تڑتڑاتی گولیاں برسا دیں .. ‘‘ خاتون گھوم کر مجمعے کی جانب مڑی اور اور غم میں گھلی آواز میں گویا ہوئی:
’’وہ مظلوم تڑپتا رہا .. کراہتا رہا .. اس کی آنکھوں میں جینے کی امنگ معدوم ہونے لگی .. اوریہ حقیر کتا چن لی مزے سے چائے پیتا رہا اور دھواں اڑاتا رہا، سردی سے بچنے کے لئے اوور کوٹ پہن کر بیٹھ گیا .. اور قہقہے لگاتا رہا .. اسے نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کی پنڈلیوں پر بیٹھ جاؤں .. اور اسے نے میرے گالوں کو خنجر سے چھیدا .. ذرا تصور کیجئے .. آپ حضرات میرے چہرے کو دیکھیے ان زخموں کے نشان اب بھی میرے چہرے پر موجود ہیں .. اس شہید کا چہرہ شہادت کے اعزاز سے روشن تھا اور میرے چہرے سے خون کے قطرے ٹپک کر اسکے جسدِ اطہر کو بھگو رہے تھے .. ‘‘
اسکا جنون پھر لوٹ آیا وہ پوری قوت سے چلائی:
’’فیصلہ کیا جائے .. ‘‘
سکوت چھا گیا، لوگوں نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا، اور پھر درخت سے بندھے اس سپاہی کو، ایک ساٹھ سالہ برزگ مجمع چیرتے آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں زنگ آلود تلوار تھی، اس نے لمحہ بھر رکے بغیر پوری طاقت سے چن لی کے سر پر تلوار کا وار کیا .. لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی، بوڑھا چلایا:
’’میں اس کا باپ ہوں‘‘
خاتون اپنے باپ سے لپٹ گئی، خوجہ نیاز آگے چل پڑے، کاشغر اور دوسرے کئی شہروں میں معرکہ گرم تھا، اور جنگجو ہر خائن اور قابض کو چھلنی کر رہے تھے ..
ہر مقام پر ایسے ہی دسیوں قصوں کی بازگشت سنائی دیتی ..
خوجہ نیاز بڑبڑاتے: ’’میں اس کا باپ ہوں‘‘ .. وہ گہرے احساس سے یہی الفاظ دہراتے، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان مظلوم دوشیزاؤوں کے باپ کی جگہ ہیں اور سبھی ترکستانی ان پرآشوب حالات میں ایسے ہی مسلمان باپ کی جستجو کر رہے تھے اور ایسے مسلمان بیٹوں کی جو ان کے شرف اور عزت کے رکھوالے بن جائیں اور انکے ایک ایک زخم کا بدلہ لیں جس نے ان کے جسم کو زخمی کیا یا روح کو گھائل ..
مجھے وہ … لعنت زدہ نجمۃ اللیل یاد آئی .. کاش وہ بھی ’’خاتون‘‘ جیسی ہوتی ..
لیکن میں نجمۃ اللیل کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟؟ میں اسکا باپ نہیں ہوں .. اور نہ ہی وہ خاتون ہے .. وہ تو محض بڑائی کا نام تھی .. ہر گلستان میں کچھ کانٹے انگلیوں کو لہولہان کرتے ہیں، کتنے ہی ناگ پھولوں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں .. اور نجمۃ اللیل ایسی ہی اہانت آمیز شکست کا نام ہے .. ’’چن لی‘‘ .. ہمیں چن لی اور اسکے لشکروں سے لڑنا ہو گا .. اور بڑائی کے نام پر بٹہ ’’نجمۃ اللیل‘‘ اور ان جیسوں سے ..
چاروں طرف سکون ہو گیا اور کاشغر میں نئی جمھوریہ کا اعلان کر دیا گیا اور خوجہ نیاز کوجمھوریہ ترکستانیہ کا سربراہ چن لیا گیا اور قاہرہ کے مہاجر نیک بزرگ مولانا ثابت کو وزیرِ اعظم چنا گیا اور نائبین اور وزراء کونسل مقرر کر دی گئی … یہاں کے استحکام کے بعد ’’اورومجی‘‘ کی جانب توجہ دی جہاں کا حاکم چینی تھا ۔۔ اگلا مضبوط قلعہ …
مجھے طاقت کے اجتماع اور بعض احکام قومول پہنچانے کے لئے بھیجا گیا .. میں بہت خوش تھاکہ میں قومول میں فاتحانہ داخل ہو رہا ہوں .. اپنی ہزیمت کے مقام پر فاتحانہ قدم کتنے بھلے لگتے ہیں، انسان سر اٹھا کر چلتا ہے، لوگوں کو محبت اور مودت سے ملتا ہے، اور اپنے اور انکے درمیان مضبوط تعلق محسوس کرتا ہے، اسکے دل انکے ساتھ دھڑکتے ہیں، وہ انکی روحوں اور آرزؤوں کا شریک بنتا ہے، انکی خوشیوں اور غموں کا ساتھی، فتح عظیم ہے ۔ جیسے الم عظیم ہے ۔ جو دلوں کو باہم جوڑ دیتی ہے، اور ساری آرزویں ایک پیکر میں ڈھل جاتی ہیں …
اپنے علاقے میں لوٹنے والا ہیرو فخر سے اپنی سرزمین کو سلیوٹ کرتا ہے .. اور کھڑکیوں سے جھانکتے خوشی سے چمکتے خوبصورت چہروں کو دیکھتا ہے، اور ان بچوں کی طرف جنکے گورے چہروں پر سورج کی سنہری کرنیں چمکتی ہیں، اور وہ مزدور اور کسان جو امن اور سعادت کی زندگی بسر کرتے ہیں .. یہ ہیرو فرض کی ادائیگی کے احساس سے سرشار ہوتا ہے، وہ ماضی کے قلعے روند ڈالتا ہے، اپنی پرانی بندوقوں سے اور چینی عملداری سے سرزمین کو پاک کرتا ہے، اے مترنم گیتو!! میں ہوں لوٹ کر آنے والا بہادر جنگجو .. میری سینے پر برف جمی ہے کہ میں نئے فلسفے کے پجاری دیکھوں .. فلسفہء مارکسیت .. منہدم ہو گیا اور ان کی ہر منطق فنا کی بھینٹ چڑھ گئی .. تو انہیں فوراً ہی اﷲ کی یاد آگئی .. مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں کہہ رہے .. ان کی آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا تو وہ اپنی فطرت پر لوٹ آئے مصیبت کے وقت ۔ اﷲ کی جانب ۔ وہی روشنی کی پہلی کرن جسے کوئی اندھیرا مٹا نہیں سکتا ..
میں چلتا رہا .. چلتا رہا .. میں نئے قدموں سے زمین کا سینہ پاٹ رہا تھا .
. میں نے اپنے عقب میں ایک آواز سنی:
’’تم دوبارہ لوٹ آئے مصطفیٰ مراد حضرت .. مجھے یقین ہے تم اسے ہی تلاشتے آئے ہو .. ‘‘
میں پیچھے مڑا وہ منصور درغا تھا .. اسکے دائیں بازو پر سفید پلاسٹر چڑھا تھا، اسکے سر پر بھی پٹی کی ہوئی تھی میں خوشی پکارا:
تم پہچانے نہیں جاتے .. ‘‘
ہم گلے ملے، منصور بتانے لگا: ’’ میں کچھ عرصہ ہسپتال میں رہا، انھوں نے دو یا تین گولیاں میرے بازو سے نکالیں .. مجھے نہیں معلوم .. وہ کہتے ہیں میری ٹانگ مفلوج ہو گئی ہے .. لیکن یہ بات اہم نہیں .. ‘‘
وہ سر جھکا کر غم سے بولا:
’’بہت لوگ شہید ہو گئے ہیں .. مجھے موت سے نفرت ہو گئی ہے .. انسان کا انسان کو مارڈالنا بہت ہولناک ہے … یہ سب حماقتیں کیوں ہوتی ہیں .. میں ان سب کو بھلا دینا چاہتا ہوں .. میں نے کندھے جھٹکے .. اور اپنی گن اٹھائی .. اور چینی و روسی لشکروں کی جانب بے مقصد نشانے لینے لگا .. میں انہیں مارنا نہیں چاہتا .. لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے قتل سے باز آجائیں .. میری خواہش ہے کہ انکا اسلحہ آگ اگلنا بند کر دے .. میصبت یہ ہے کہ انکا اسلحہ خاموش کروانے کے لئے پہلے انہیں خاموش کرانا پڑتا ہے .. اور یہی المناک ہے .. ضروری ہے کہ انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے کہ وہ اسلحہ کے اس جنونی استعمال سے رک جائیں .. آؤ قہقہے لگائیں
یا الہی .. تم ان خون آشام دنوں میں بھی اسے یاد کرتے ہو؟ .. ‘‘
میں حیرت سے بولا:
’’کون؟؟‘‘
’’نجمۃ اللیل‘‘
’’میں اسکا باپ ہوں .. ‘‘
اور میرا جواب سن کر منصور خوب ہنسا:
’’تو پھر تم اسکے باپ ہو؟؟‘‘
میں اجڑے ہوئے محل کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا:
’’میں نے کاشغر میں ایک بوڑھے کو یہی کہتے سنا .. میں اسکا باپ ہوں .. اور میں نے اپنے آقاخوجہ نیاز حاجی کو بھی کہتے سنا .. میں اسکا باپ ہوں ..منصور ہمارے وطن کو ان مصائب میں ایسے لوگوں کی شدید ضرورت ہے جو مکرر کہتے رہیں:
میں اسکا باپ ہوں؟؟
منصور نے میرے کندھے پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا اور بولا:
’’جنگ نے تمہارے اعصاب توڑ کر رکھ دیے ہیں‘‘
میں مایوسی سے بولا:
’’ہو سکتا ہے‘‘
’’تم لوگ اورومجی تک پہنچے ہو‘‘
’’ہم نے اسکا محاصرہ کر رکھا ہے .. اور معرکہ ختم ہونے کے قریب ہے .. ‘‘
منصور ہنس پڑا کہنے لگا:
’’میں تو کہوں گا کہ ہمارے اس عذاب کا کوئی اختتام نہیں، جب تک ہم اس جال میں پھنسے رہیں گے:
پہلے چینی کافروں نے اسے توڑا، پھر روسی الحاد نے اسے نشانہ بنایا .. اور دونوں اسے للچائی نظروں سے دیکھتے رہے، وہ اسلام کی بیخ کنی چاہتے تھے … کیونکہ اسلام کا خاتمہ درحقیقت ہمارا خاتمہ تھا .. میں نے انکے فلسفیوں کو یہی کہتے سنا .. کئی علاقوں میں جب ہم اپنی سرزمین کا قبضہ چھڑانے پہنچے تو انکی کئی دستاویزات ہمارے ہاتھ لگیں جنہیں وہ ضائع نہ کر سکے تھے، ان سے ان کے عزائم عیاں تھے .. میرے پاس ان منشورات کے ثبوت موجود ہیں .. جو میں خوجہ نیاز تک پہنچاؤں گا .. یہ نئے انداز کی صلیبی جنگ ہے .. ‘‘
اچانک منصور جھکا اور میرے کان میں سرگوشی کی:
’’نجمۃ اللیل .. رات کی تاریکی میں فرار ہو گئی ہے .. ‘‘
’’کیسے پتا چلا؟؟‘‘
’’جس سپاہی نے اسے اپنایا تھا وہ سب سے پہلے فرار ہونے والوں میں سے تھا .. ‘‘
’’اس میں اور خاتون میں زمین آسمان کا فرق ہے .. ‘‘
منصور تلخی سے ہنسا بولا:
’’نجمۃ اللیل .. تمام عمر زمین پر .. بلکہ کیچڑ در کیچڑ میں لتھڑی ہوئی .. میں اس بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں .. پیارے دوست میں تمہیں اسکی حقیقت بتاتا ہوں .. اسکے دسیوں عشاق تھے .. گھوڑوں کے سائیس، چرواہے، لشکری اور امیر بڈھے جو اس پر زیورات لٹاتے .. مصطفیٰ تم بالکل پاگل ہو .. غم نہ کرو .. میں تم سے مختلف ہوں .. ان سیاہ ایام میں میرا ہر چیز سے اعتماد اٹھ گیا ہے سوائے ایک چیز کے .. اس انسان کے جو اسلحہ تھا متا ہے اور اس فساد اور ضیاع کے زمانے میں زندگی بھر کے لئے ٹکر لے لیتا ہے .. یہاں زندگی لعنت ہے .. نجمۃ اللیل اورومجی جا چکی ہے .. مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اورومجی میں داخل ہو گئے، تو وہ ٹسوے بہاتی تمہارے پاس چلی آئے گی اور یوں ظاہر کرے گی جیسے وہ اس ظلم و طغیان کے دور کی شہیدہ ہے … اور لوگ اسکا یقین کر لیں گے .. اور تمہارا بھی دل پسیج جائے گا .. ‘‘
میں نے اپنی بندوق پر ہاتھ رکھا اور دھاڑا:
’’خائن کے لئے موت .. ‘‘
منصور کندھے اچکا کر ہنسا:
’’تم یہ نہیں کر سکتے .. تم اپنے کئے پر مضطرب نہیں تھے؟؟‘‘
’’ہمیں اپنے وطن کو زہریلے کیڑوں اور امربیل سے پاک کرنا ہوگا .. ‘‘
منصور مسکرا دیا:
’’کیڑے مکوڑے بھی اﷲ کی مخلوق ہیں .. اور امر بیل بھی ہر خطے میں موجود ہوتی ہے .. میں نے ایک خانہ بدوش سے شادی کر لی ہے جو جنگ کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی ..
ہنہ .. اور تم؟؟‘‘
’’میں قومول میں ایک دو روز ٹھہروں گا، اور پھر اورومجی چلا جاؤں گا.‘‘
’’اور دو ہفتے سے پہلے تم سے نہیں مل سکوں گا .. ‘‘
میں نے منصور کو الوداع کہا، اور قومول کی سڑکوں کی خاک چھاننے لگا۔۔
***
(جاری ہے)