آخر کب تک ؟؟

ایک عورت کی زندگی میں جب ایک مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو وہ وقت کے ہاتھوں بہت آسانی سے بے وقوف بن کر یہ سمجھ لیتی ہے کہ اب مشکل ٹل گئی اور اب خوشیوں کا دور بھی آئے گا ، لیکن وہ ساری زندگی یہ نہیں سمجھ پاتی کہ ایک عورت کی زندگی میں ہر قدم پر اَن گنت مسائل اُس کے منتظر ہوتے ہیں۔ یو ں کہیئے کہ ہر مشکل ٹل جانے کے بعد دوسری مشکل اپنی جگہ بنا رہی ہوتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں ،جہاں جدید دور میں عورت خود مختار ہوکر بھی ایک مرد کے آگے اُسکی غلام ہوتی ہے۔ آج میں اپنی تحریر کے زریعے عورت کی زندگی کی ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنا چاہوں گی ،جوشائد عام طور پر لوگ اس موضوع کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ  بات تو ہمارے مشاہدات و مطالعے کی بناء پر واضح ہے کہ عورت کی زندگی میں بے تحاشا مسائل ہوتے ہیں اور ہر گھڑی اُسکی زندگی ایک آزمائش ہوتی ہے۔ لوگوں کا  نکتہ نظر یہ ہوتا ہے کہ یا یوں کہا جائے کہ لوگوں کے نزدیک عورت سے جڑے ہر مسئلے کا حل اُسکی شادی ہوتی ہے ، تو یہ سراسر غلط ہے ۔کیوں کہ شادی کسی بھی صورت میں  ہر مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ میرے نزدیک شادی کے تمام مراحل میں بھی عورت کو ہی ہر مشکل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی اصل پریشانی اُ ن کی  بیٹی کی شادی کروانا اور جہیز اکٹھا کرناہے جب کہ یہ اُن کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے ۔ در حقیقت ایک عورت کی آزمائش اور تذلیل کا سفر یہیں سے شروع ہوجاتا ہے ، جب ایک عورت کے کردار کو اُس کے ماضی یا پھر اُس سے بے ہودہ قسم کے سوالات کرنے کی بناء پر پرکھا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں عورت کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتی کیوں کہ ہر موڑ ہر اُس کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہوا ہوتا ہے ۔ لیکن ایک عورت ہمیشہ اپنا دل بڑا کرکے ہر تکلیف اپنی زات پر جھیلتی آئی ہے ۔

یہاں اگر بات کی جائے ایک لڑکی کے آنے والے رشتوں کی تو یہ بھی ایک سچائی ہے کہ والدین محض رشتہ ہونے تک بہت پریشان رہتے ہیں اور تذبذب کا شکار رہتے ہیں ۔ پہلے رشتے نہ آنے کے مسائل ، جب رشتے آنے لگتے ہیں تو یہ مسئلہ کہ رشتے میں لڑکے والے خود چاہے دودھ کے دُھلے ہوں یا نہ ہوں لیکن لڑکی سے رشتہ جوڑنے کے لیئے وہ لوگ اُس کے باپ دادا کی قبروں تک بھی پہنچ جاتے ہیں ، جب تمام چھان بین کے بعد رشتہ ہوجاتا ہے اور لڑکی بڑی ہی بُرد باری سے بَلی کا بکرا بن کر جب ہر مراحل سے گزرتی ہے تو یہاں والدین کی ذمہ داری پُوری ہوجاتی ہے اور تمام مسائل سے آزادی بھی مل جاتی ہے ۔ لیکن لڑکی کی زندگی کے مسائل کا ایک نیا باب یہیں سے کُھلتا ہے۔ایک لڑکی کے دل میں اُ س وقت سے اَن گنت سوالات اور خدشات جنم لیتے ہیں ۔دورِ قدیم کی سوچ کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکی کے لیئے اصل تحفظ اُس کی شادی کے بعد ہوتا ہے ۔لیکن اب آ ج کل کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں اضافے کا باعث وہ بے جوڑ رشتے ہیں جو بسے بسائے گھروں کی بنیاد ہلا دیتے ہیں ۔ آج ایک عورت رشتہ پکا ہونے کے بعد بھی عجیب وسوسوں کا شکار رہتی ہے اور یہ تکلیف محض اُسکی زات تک ہی محدود ہوتی ہے کیوں کہ اب اُسکی ہر مشکل صرف اپنی مانی جاتی ہے ۔ آج کل لڑکے والے اپنی عزت کے سوا اور کسی کیر کا سوچتے ہی نہیں اور مرد کی اپنی من مانی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا آزاد ہے کہ جب چاہے رشتہ جوڑ سکتا ہے اور موڈ بدلنے پر رشتہ ختم بھی کر سکتا ہے ۔ اس کا مطلب دونوں صورتوں میں نقصان ایک عورت کا ہوتا ہے ، کیوں کہ اب یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ رشتے کب تک قا ئم رہیں گے ۔ ایسے لوگ شائد دل ہی نہیں رکھتے ، کو ئی یہ نہیں سوچتا کہ جب کوئی لڑکی کسی مرد کے ساتھ ایسے پا کیزہ رشتے میں باندھ دی جاتی ہے تو جینا مرنا ، سکھ دکھ اُسی کی ساتھ سوچ لیتی ہے ۔کتنے ارمان اور دل کی وہ تمام حسرتیں ، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سمیٹنے کی چا ہ میں ایک عورت بہت ہی کم عرصے میں بہت ہی طویل سفر طے کر لیتے ہے اور کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ وہی مرد اپنی منکوحہ کے لیئے ایسے جذبات دل میں نہیں رکھتا اور نہ ہی احساس کرتا ہے ، جس کی وجہ سے ہی ایسے مرد کے لیئے رشتہ ختم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی خواہ وہ شادی سے پہلے کرے یا شادی کے بعد ۔ ایسا مرد نہ کبھی عورت کے درد کو سمجھ سکتا ہے اور نہ کبھی سمجھ پائے گا ۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسا واحد مسئلہ ہے جس کا حل کو ئی بھی ہو تو نقصان عورت کا ہی ہوتا ہے۔ آخر کب تک ایسارہے گا ؟ کب تک ایک عورت ایسے ہی برباد ہوتی رہے گی ؟ شا ئد دنیا کے اختتام تک یہ تمام معاملات ایسے ہی رہیں گے اور ہر دور میں ہر روز ایسے جاہل مرد عورتوں کی زندگی سے کھیلتے رہیں گے اور کوئی بھی ایسے لوگوں کا کچھ نہی بگاڑ سکے گا۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہت یک رخی تحریر ہے۔ گھر جوڑنے اور توڑنے میں فریقین ذمہ دار ہیں، آج کے دور میں خلع کے لئے عدالتوں کا رخ کرنے والیوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے، جو بہت حقیقی مسائل کی بنا پر نہیں محض سطحی مسائل کی وجہ سے چلی جاتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں