وفا ہےذات عورت کی

عورت کی وفا کی میں ہمیشہ قائل رہی ہوں اس لیئے نہیں کہ میں خود ایک عورت ہوں بلکہ اس لیئے کہ ہمیشہ عورت کو کئی رشتوں کو نبھاتے اور اپنے کنبے کے لیئے ان تھک قربانیاں دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ویسے تو عورت کو صنفِ نازک کہا گیا ہے لیکن قدرت کی طرف سے ایک عورت ذات کو ہی بہت مضبوط اور صابرین بنایا گیا ہے جس کی مثالیں ہمیں ہر دور میں ملیں گی۔ جب تک دنیا آباد ہے یہ حقیقت نہیں بدل سکتی کیوں کہ یہ اٹل ہے۔ آج میرے منتخب کیئے ہوئے عنوان میں شائد کوئی نئی بات شامل نہ ہو لیکن میں اتنا دعٰوی سے کہہ سکتی ہوں کہ میری آج کہی ہوئی ہر بات ایک عورت کے دل کی اپنی آواز ہوگی ۔ اپنی تحریر کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات کہنا چاہوں گی ۔
آج کے اس مشینی دور اور ریل گاڑی کی طرح چلتے ہوئے تیز رفتار وقت کے ساتھ انسان اپنی ذندگی کی مصروفیتوں میں اتنا مگن رہتا ہے کہ کئی بار ہم بہت  عام  سی باتوں پر دھیان نہیں دیتے اور کئی بار حالات انسان کو اتنا اُلجھا دیتے ہیں کہ ہمیں ہر چھوٹی سی بات بہت بڑی لگتی ہے ،  ایسی صور ت میں کبھی کبھار ہم زندگی میں کئی بار وہ باتیں دہراتےہیں جس سے ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے محض اپنی ذات کو مطمئن کرنے کے لیئے۔

اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آئوں گی ، آج میں نے بہت عرصے بعد ایک ناول پڑھا ، (وفا ہے ذات عورت کی جس کے مصنف ریاض عاقب کوہلر ہیں) ۔ پڑھ کر بہت متاثر ہوئی کہ ایک مرد نے اس تحریر کو نہایت سادہ الفاظ میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ کہتے ہیں ایک ادیب کو ایسا لکھنا چاہیئے کہ قارئین اُس میں کھو جائیں اور ہر لفظ کو محسوس کر کے پڑھیں۔ اور ایسا ہی مجھے محسوس ہوا جب میں ناول کے کرداروں کو ایک حقیقت کا روپ دیا۔ میں نے لکھنے کے لیئے کئی عنوان سوچ رکھے تھے لیکن اس ناول کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے اُن خیالات کو تحریر کرنے پر مجبور کردیا۔یہ کہانیاں تو فرضی ہوتی ہیں لیکن دل کو چھو جاتی ہیں ۔ ناول میں ساحرہ ( مانو) کا کردار عورت کی فطرت کو اُجاگر کرتا ہے ۔ (مانو) شہیر سے بے پناہ محبت کرتی رہی اور دیوانوں کی طرح ہر قدم پر ساتھ دیتی رہی لیکن شہیر نے اُس کے ساتھ فریب کیا لیکن کہانی کے آخر میں بھی (مانو نے شہیر کو) معاف کرکے نئی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب احساس ہوا کہ سچ ہے ایک عورت وفا کا پیکر ہے ۔ زندگی کے ہر دوراہے پر ایک ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے والی ایک عورت کی ذات ہی ہوسکتی ہے کیوں کہ مرد میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ اپنی شریکِ حیات سے تا حیات وفا کرے ۔ ایک عورت کا دل ہی موم کی طرح ہوتا ہے جو چاہے کتنا بھی سخت بننا چاہے لیکن اپنے رشتوں کی محبت کی تپش میں پگھلتا رہتا ہے۔ عورت ایک مرد کے ساتھ جنت تک کاسفر سوچ لیتی ہے لیکن ایک مرد اُس سے اگلے دن تک کا ساتھ دنے کے لیئے بھی سو بار سوچتا ہے ۔ عورت کی زندگی میں چاہے شریک حیات اپنی محبت ہو یا گھر والوں کی پسند لیکن جب ایک بار وہ رشتہ جو ڑ لیتی ہے تو آخری سانس تک نبھاتی ہے ۔ کہتے ہیں نکاح میں بہت تا ثیر ہوتی ہے اور دستخط کرتے ہی دو روحیں ایک ہوجاتی ہیں اور ایک عورت اُس وقت اپنا ہر دکھ سکھ اپنی آخری سانس تک اُسی انسان کو سہارا بناکر جینے کا ارادا کرتی ہے ۔ لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ نکاح کی تا ثیر بھی کبھی مرد کی فطرت نہیں بدل سکی جو عورت سے وفا کرلے ۔ کہتے ہیں عورت کا گہنا اُسکی حیاء اور وفا ہوتی ہے اس لیئے وہ اس کی حفاظت خود سے بڑھ کر کرتی ہے ، ہر قربانی دینے کے ساتھساتھ وہ کبھی اپنے کردار،خلوص اور محبت پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ عورت کی فطرت میں مرد سے تعلق نبھانے کی وہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ چاہے مرد کیسا بھی ہو لیکن وہ اپنے سچے من سے وفا کرتی ہے۔ عورت گھریلو ناچاکیوں کے باعث لڑ جھگڑ سکتی ہے ، غصہ کر سکتی ہے اور مرد کی مشکوک حرکتوں کی بناء پر شک بھی کر سکتی ہے لیکن کبھی خود سے جڑے ہوئے اس مقدس رشتے سے دستبردار ہوکر بے فائی نہیں کرسکتی۔ اگر دیکھا جائے تو ان سب میں بھی اُس کی محبت چُھپی ہوتی ہے ۔ لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ مر د ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی کبھی عورت کی خوبیوں کو نہیں پرکھ سکتا ۔ ہر زاویے سے عورت کو ہی سہنا پڑتا ہے اور صبر کرنا پڑتا ہے ۔ قدرت کی طرف سے عورت میں صبر اور برداشت کی کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ اب اس بات کا اندازہ اسی سے کرلیں کہ جب گھریلو مسائل یا کسی بھی نو عیت کے مسئلے دولوگوں کے بیچ ہوتے ہیں تو مرد کہیں نہ کہیں بھٹک جاتا ہے ، یہاں تک کہ اپنا پیار ، توجہ تک وہ رشتے میں نہیں دے سکتا ،ہر وقت اُکھڑا پن اور اپنی غلطیوں کے باوجود عورت کے ساتھ اکڑ کر برتاوٗ کرنا مردانگی سمجھتا ہے لیکن عورت کا یہ ظرف ہے کہ وہ کبھی اپنا پیار ، توجہ، چاہت نہیں بدلتی اور خاموشی سے اچھے وقت کی آس لگائے اپنی زندگی گزارتی ہے ،لیکن زندگی کئی بار ایسی چال چلتی ہے کہ عورت کے حصے میں تکلیف کے سوا کچھ نہیں آتا۔ لیکن یہی عورت تمام دردسہنے کے باوجود بھی ٹوٹ کر محبت کرتی ہے اور اپنے شریکِ حیات کی تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف کرکے وقت سے ایک نئی اُمید باند ھتی ہے اور اپنے رشتوں میں اتنی گنجائش رکھتی ہے کہ سامنے والے سے بے خوف نظر ملا سکے ۔
کتنی خوبیوں کی مالک ہے ایک عورت اور اب میں اس ناول کو پڑھنے کے بعد زندگی کی ان تمام باریکیوں پر نظر ثانی کرکے اس وقت خود کو بہت پُر سکون محسوس کر رہی ہوں اور شکر ادا کررہی ہوں کہ ہم عورتوں کے پاس اتنی اذیتیں سنہنے کے بعد بھی اتنا کچھ ہے کہ ہم ہر دور میں فخر سے اپناآپ ،اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں کیوں یہ صلاحیتیں ہمیں رب کا تحفہ ہے جس کی بناء پر ہمیں کبھی آج تک خود کو ثابت کرنے کے لیئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں پڑی اور ہم پورے اعتماد سے اپنی زندگی کی ہر جنگ کو لڑتے آئے ہیں ۔بے شک جیت ہماری نہ ہو اور جانیں بھی جاتی ہیں لیکن دل کو اطمینان رہتا ہے آخری سانس تک کہ ہم غلط نہیں اور خدا کی عدالت میں انصاف بھی ملے گا اور اجر بھی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں