وائس اف امریکہ اور جرمن ٹائمز کے خصوصی شماروں میں شائع ہونے والے فیچرز میں دنیا بھر کے تجزیاتی افلاطونوں، جنگی ماہرین ومحققین اور اسکالرز کی اکثریت کے اس تجزئیے اور سچ کی تصدیق کی گئی ہے کہ: 9/11 کا تعلق القاعدہ یامسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ یہ بش کی آئل مافیا کے صہیونی اماموں اور رزیلوں کا کارنامہ ہے، جو اقوام مسلم کے معدنی وسائل کی ڈکیٹی کی پلاننگ کرچکے تھے۔مغربی اخبارات میں شائع ہونے والے متن سے یہ سچ برامد ہوتا ہے کہ یہ کاروائی اسرائیلی ایجنٹوں کا مکروہ کارنامہ ہے۔9/11کے واقعات کامقصد امریکہ کے استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے زمین ہموارکرنا تھا،جن میں وسط ایشیا کی ریاستوں کے تیل اور گیس کے راستوں کو اپنے کنٹرول میں لینا، پاکستان کی معیشت تباہ کرنا،پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستان میں غربت بے روزگاری اور مہنگائی کو فروغ دینا،پاکستان کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کرنا،پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کے درمیان عدم اعتمادکی فضا پیدا کرنا، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنا،پاکستان کو دنیا میں دہشت گرد ملک کی حیثیت سے اور اسلام کو دہشت گرد مذہب کی حیثیت سے پیش کرنا شامل ہیں۔9/11
کے فوراًبعد ایک کال پر ڈھیر ہو کر پاکستان کو تباہ کن فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیاگیا۔ایک آمرمطلق کے فیصلے پراشرافیہ کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج تک بلندنہ ہوئی۔قوم کوکہاگیااس فیصلے کے بعدڈالروں کاسیلاب آئے گا،دودھ اورشہدکی نہریں بہیں گی،خوش حالی کادوردورہ ہوگا۔ہماری اشرافیہ ،جو بزنس کمیونٹی ،بیوروکریسی، وڈیروں،جو دولت لوٹنے ولوں، ٹیکس چوروں،قرضے معاف کرانے وا لوںپرمشتمل ہے،اس نے یہ سوچ کرکہ اگر امریکہ سے اس جنگ کے لیے پیسے آنا شروع ہوجاتے ہیں تو ہمیں بھی ٹیکسوں میں مراعات ملیں گی اورہم سے کوئی حساب نہیںلیاجائے گا،اس غلط فیصلے پرچپ سادھ لی۔ستم ظریفی دیکھیے کہ منتخب حکومت نے بھی آمرمطلق کی پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا،بلکہ امریکہ کی نمک حلالی میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گئے۔
امریکی دانش ورنوم چومسکی نے درست کہا تھا: امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔یوں غیروں کی جنگ ہم نے اپنے ملک میں درآمدکرلی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین فیصلہ تھا ،جس نے ہمیں تباہی، بربادی، کشت و خون، اللہ تعالی کے غضب،غربت و مسکنت کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا،جس سے نکلنے کے بظاہرکوئی آثارنظرنہیں آرہے ہیں۔ہماراملک اس سے قبل خودکش حملوں کی اصطلاح سے نابلدتھا،اب ان حملوں کی آماجگاہ بن گیا۔ہم کسی داخلی انتشاراورعلیحدگی کی تحریک کاشکارنہیں تھے،اب جس طرف دیکھیے علیحدگی کی تحریکیں اورنہ ختم ہونے والاداخلی انتشارنظرآتاہے۔
ہم ڈرون طیاروں اورحملوں سے ناواقف تھے، امریکی تھنک ٹینک نیو امریکن فاونڈیشن کے مطابق 18جون2004میں پاکستان میں جنوبی وزیرستان کے وانا کے مقام پر پہلا امریکی ڈرون حملہ کیا گیا ،جس میں نیک محمد سمیت چار عسکریت پسند شہید ہوئے۔ لندن کے تھنک ٹینک بیورو انوسٹی گیٹو جرنلزم کے مطابق امریکی صدر اوباما کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے بعد پاکستان میں اوسطا ہر چار دن کے بعد ڈرون حملہ کیا گیا۔اب یہ عالم ہے کہ میڈیارپورٹوں کے مطابق پاکستان میں اب تک 309امریکی ڈرونز حملوں میںہزاروںلوگ شہیدہوچکے ہیں۔یہ کون تھے ،جن کایوں بے دردی سے خون بہایاگیا؟ان میں سے اکثراس پاک وطن کے امن پسندمعصوم شہری تھے۔یہ صرف ہمارادعوی نہیں ،بلکہ امریکہ خودبھی بارہااس بات کااعتراف کرچکاہے۔جس مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبروکواللہ کے آخری نبی ۖ نے خانہ کعبہ سے بڑھ کرقابل حرمت قراردیاہے،ہم نے محض ڈالروں کے لالچ میں انہیں چوہے بلی کاکھیل کھیلتے ہوئے پکڑپکڑکرخونی قاتل کے حوالے کردیا۔یہ پاکستانی ایجنسیاں ہی تھیں،جنہوں نے امریکی خواہش کے مطابق ان مسلمان مجاہدین کا پیچھا کیا،انہیں گرفتار کیا اور ا ن کو امریکا کے حوالے بھی کیا۔حالانکہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کو مطلوب نہیں تھااور نہ ہی انہوں نے یہاں کوئی جرم کیا تھا۔مجاہدین کورکھیے ایک طرف،قوم کی عفت مآب بیٹی حافظہ قرآن کیمسٹری کی سائنسدان محترمہ عافیہ صدیقی کاکیاقصورتھا،جسے ہم نے امریکہ کے حوالے کیا،آج میری یہ عزت مآب بہن ہماری اجتماعی بے حسی کاخمیازہ 86سالہ قیدکی صورت میں بھگت رہی اورکینسرجیسے موذی مرض کاشکارہوچکی ہے۔سابق آمرتوٹھہراہی ضمیرفروش،دخترمشرق کی قبرپراپنی ساسی دکان چمکانے اوراختیارواقتدارکے مزے لوٹنے والے عوامی نمائندگی کے دعوے دارحکمرانوں نے کیاکیا؟آج نیٹوسپلائی بحالی کے لیے ناک رگڑنے پرآمادہ امریکہ سے قوم کی اس محتر م بیٹی کوکیوں نہیں مانگاجاتا؟کیاہم میں صلیب کے پجاریوں جتنی بھی قومی حمیت نہیں،جنہوں نے اپنے ایک شہری کے لیے،جوبین الاقوامی قاتل درندہ تھا،تمام اصول بالائے طاق رکھ دیے اورہمارے سرکواپنے پیروں تلے روندکراسے لے گئے تھے۔بے حسی کاکوئی حدسے گزرنادیکھے!اس سے قبل ملک کاکوئی شہری یوں دن دھاڑے لاپتانہیں ہوجاتاتھا،مگراب جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔عیاں راچہ بیاں۔
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کہتی ہے: آج ایک مرتبہ پھر پاکستان 9/11کی طرح فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے ۔ افغانستان کی دلدل میں پھنسا امریکہ تھک ہار گیا ہے، اس کو وہ اہداف حاصل نہیں ہوئے جو اس نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے حوالے سے مقرر کیے تھے،جس کاانتقام اب وہ پاکستان کوعدم استحکام کاشکارکرکے لیناچاہتاہے اورہمارے حکمران ہیں کہ اب بھی ”یس سر”سے آگے کچھ سوچنے کے لیے تیارنظرنہیں آتے۔انہیں تو بس اس بات سے غرض ہے کہ جو قلمدان ملا ہوا ہے یہ پکا رہے۔ آخرقوم کب تک امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی؟ ہم کب تک امریکہ کے سامنے کشگول لٹکاتے رہیں گے؟ قرضوں کا شکنجہ کب تک ہماری گردنیں جکڑتا رہے گا؟ ہم کب تک ڈرون کی ظلمت سہتے رہیں گے؟
امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق جنگی جنون میں مبتلا امریکہ کی فوج بر اعظم ایشیا کے اہم ترین ملک پاکستان سمیت دنیا کے135ممالک میں 800 مقامات پر موجود ہے، پاکستان سمیت کئی ممالک میں فوجی اڈے بھی قائم ہیں۔ امریکہ کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا 43 فیصد حصہ ہے، امریکہ کا سالانہ جنگی بجٹ 698 ارب ڈالر تک ہے جبکہ سال 2010 میں امریکی جنگی بجٹ کے لئے 553 ارب ڈالر رکھے گئے تھے۔تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ امریکہ کے منہ کو”خون کاچسکا”لگ چکاہے،نیزجنگ اس کی مجبوری بھی ہے ،کیوں کہ اس کی معیشت کابڑی حدتک دارومدارذراعت کے بعدعالمی منڈی میں اسلحے کی تجارت پربھی ہے۔
ماضی کی تاریخ اس بات پرشاہدہے کہ امریکہ ”انسانیت کاسب سے بڑاقاتل”ہے۔نومسلم میلکم ایکس نے اپنی آپ بیتی میں اس حوالے سے بڑے تلخ حقائق پیش کیے ہیں۔وہ کہتاہے: صرف1899 تا1902کے مختصر عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ فلپائنیوں کو قتل کیا۔یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا اور مسلمان ہی اس کا خصوصی ہدف تھے۔ امریکا کے جانے کے بعد امریکا کی کٹھ پتلی عیسائی حکومت نے قتل وغارت جاری رکھی۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق 1965 تا1982 کے عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید، 3لاکھ کو بیرون ملک اور 20لاکھ کو اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور کیا۔3لاکھ سے زیادہ گھروں کو تباہ اورنذر آتش کر دیا گیا۔1607 تا1890کے دوران میں شمالی’جنوبی اور سنٹرل امریکا کے 9کروڑ سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا۔1948 کے بعد سے امریکا اور اسرائیل دونوں نے ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا،مہاجرین کی تعداد 40لاکھ سے زیادہ ہے۔1991 سے اب تک امریکا اور NATOکی افواج10لاکھ سے زیادہ عراقی شہری شہید کر چکی ہیں جن میں بچوں کی تعداد دو لاکھ ہے (پابندیوں کے باعث شہید ہونے والے عراقیوں کی تعداد 15لاکھ بتائی جاتی ہے)۔1991 میں امریکا اور NATOکی افواج نے یوگوسلاویہ کے 3لاکھ شہریوں کو قتل کیا۔ 1980 میں ایلسلو اڈور کے 75ہزار شہری امریکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔7۔1975 تا1999 کے عرصے میں مشرقی تیمور کے دو لاکھ شہری امریکہ کا نشانہ بنے۔1993 میں 500صومالیوں کو امریکہ نے قتل کیا۔ 1997 سے اب تک 5لاکھ افغانی براہِ راست یابالواسطہ امریکا کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔1989 میں پانامہ پر حملہ کر کے5ہزاربے گناہ شہریوں کو ہلا ک اور15ہزار کو بے گھر کر دیاگیا۔1988 میں ایران کے ایک مسافر طیارے پر حملہ کر کے209مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔1962 تا1973 کے دوران میں10 ہزار یونانی قتل کیے گئے۔1994 تا1997 کے عرصے میں چلی کے 5ہزار شہری مار دیے گئے۔1945 تا 1974کے دوران میں ویتنام میں25لاکھ افراد ہلاک کیے گئے۔1955 تا1973 کے دوران میں 10تا20لاکھ کمبوڈین قتل کر دیے گئے۔1957 تا 1973 کے عرصے میں لٹویا کے 5لاکھ شہری ہلاک کیے۔1965 میں انڈونیشیا میں 5تا 10لاکھ شہریوں کے قاتلوں کو امریکی مدد حاصل تھی۔6اگست1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پرجو ایٹم بم گرایا گیا، روزنامہ گارڈین کے مطابق اس سے 20ہزار فوجی اور ایک لاکھ دس ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ جاپانی ذرائع کے مطابق3.5لاکھ آباد شہر میں 2لاکھ اموات ہوئیں۔9اگست کو ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ایک لاکھ 40 ہزار اموات ہوئیں۔مارچ1945 میں ٹوکیو میں بمباری سے صرف ایک رات میں 85ہزار انسان ہلاک ہوگئے۔اس ناتمام فہرست میںنائن الیون کے بعدکی امریکی غنڈہ گردی کوبھی شامل کرلیں ،توحقیقت مزید نکھر کر سامنے آجائے گی۔
یہ درست ہے کہ امریکہ کے پاس فوجی طاقت زیادہ ہے لیکن کیا اس طاقت کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر وہ بدمعاشی بھی کرے تو دوسرا اسے چپ چاپ برداشت کرے کیونکہ کمزور ہے؟ نہیں آج کی دنیا میں فوجی میدان میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی میدان ہیں جہاں اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور دنیا کی انصاف پسند رائے عامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنائی جا سکتی ہے اور اپنی حقانیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے ضروری ہوم ورک کیا جائے۔ ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی قائم کی جائے اور پوری قوم ایک ہو کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائے۔ امریکہ اگرچہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ ڈرون حملے افغانستان میں موجود اپنے اڈوں سے جاری رکھے گا مگر گزشتہ ایک ہفتے سے اس سلسلے میں خاموشی ہے اور جوابی کاروائی کے خوف سے ابھی تک کوئی ڈرون وزیر ستان کی فضا میں بلند نہیں ہوا۔اگر پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جائے،تووہ وقت دورنہیں جب امریکہ ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کربرابری کی سطح پرہم سے ڈائیلاگ کرے گا۔
…………
مولانا محمد جہا ن یعقوب
سینئر ریسرچ اسکالر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی
٭٭٭٭٭