اللہ رب العزت نے کائنات کی تمام مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔پانی کائنات کے وجود و بقا کے لئے خالقِ کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔ پانی انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس سے جہاں سیرابی حاصل ہوتی ہے وہیں کاشت اور غلہ و اناج کی پیداوار کے لئے بھی پانی ناگزیر ہے۔ انسانی و حیوانی غذا کا سارا دارومدار پانی پر ہے۔ جو علاقے قلتِ آب سے دوچار ہوجاتے ہیں وہاں غذائی بحران کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ ہر دور میں اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پانی کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی حرارت سے پریشان ہے۔
پاکستان میں ڈیموں کی کمیابی اورپانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے چندے کی اپیل کی کہ سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں اپنے عطیات جمع کروائیں، ان کی اپیل پر ملک و بیرون ممالک سے ہر مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے فنڈز جمع کروانے کا آغاز کیا ۔ آبی ذخائر کی قلت دور کرنے کے لیے پاکستانی عوام کی شروع کردہ تحریک حوصلہ افزا ثابت ہو رہی ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیلات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 24ستمبر کی صبح تک تقریباً تین ارب چوہتر کروڑ چورانوے لاکھ سینتالیس ہزار نو سو پچانوے روپے رقم جمع ہو چکی ہے ۔
دیامیر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ فوجی آمر اور صدر، جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا لیکن متعدد بار تعمیر کا افتتاح ہونے کے باوجود فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم ابھی تک صرف ابتدائی مراحل میں ہے۔ملک کو ڈیم بنانے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے اور اس وقت ملک میں ڈالرز کی کمی ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ ساری چیزیں ایک طرف ڈیم ایک طرف ۔ابتدائی طور پر ہم سب کو اپنے اختلافات بھلا کر سنجیدگی سے ڈیم کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے اورتمام پاکستانی پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے جہاد شروع کر دیں۔
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلاڈیم کی زندگی مزید 35سال بڑھ جائے گی اور اس میں81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیاجاسکے گااور مجموعی طورپر 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی ۔اسی طرح مہمند ڈیم بھی کثیر المقاصد ڈیم ہو گا جس میں 12لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ،مہمند ڈیم سے سالانہ 35ارب روپے کامعیشت کو فائدہ پہنچے گااور ہر سال آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بھی نجات حاصل ہو سکے گی ۔
بھارت جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اوراکیس بائیس کروڑپاکستانیوں کو پانی کی بوند بوند سے ترسادینے کی دھمکیاں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی گھناؤنی پالیسیاں اور چالیں چل رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے طویل عرصہ سے مسلسل پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنانے کے لیے دن رات کام جاری رکھا ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے نکل کر پاکستان آنے والے دریاؤں پر اب تک کئی ہزار ڈیم بناچکا ہے، جس کی وجہ سے چناب و راوی تقریباً سوکھ چکے ہیں اور نیلم و جہلم کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو سالانہ 145ملین ایکڑ فٹ پانی مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جس میں سے ہم صرف 14ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں۔ نئے آبی ذخائر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بہت بڑی مقدار میں پانی کو ہم استعمال میں نہیں لاتے اوروہ سیلاب کی شکل میں تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت کی مضبوطی و استحکام کیلئے وافر توانائی کی طرح وافر پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔پانی کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے پاس 120دن سے کم پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہے تو اس کی زراعت خطرے میں ہے، جبکہ ہم 30دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اورپاکستان کی ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، زراعت کیلئے پانی کی اہمیت ہر کسی کو معلوم ہے ،کئی صنعتوں کا انحصار بھی زرعی پیداوار پر ہے، ملکی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی پیداوار کا ہے، لہٰذا زراعت کی ترقی کے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اس لیے ڈیم بنانا ہمارے لیے ناگزیر ہے ،اگر ہم نے اب ڈیم نہیں بنائے تو7برس بعد یعنی 2025ء میں خشک سالی شروع ہوجائے گی۔ ہمارے پاس اناج اگانے کے لیے پانی نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں خدانخواستہ یہاں قحط پڑسکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر گھرمیں صفائی کرنی ہو، فرش دھونا ہو،کپڑے دھونے ہوں،برتن دھونے ہوں، موٹر بائیک یا گاڑی دھونی ہویاگھر کاکوئی فرد شیو بنا رہا ہو تو پانی بند نہیں کیا جاتا،بلکہ پانی کا بے دریغ استعمال اورضیاع ہوتا ہے۔
پانی کی قدر و قیمت ایسے علاقوں کے رہائشیوں سے پوچھیں جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔پینے کا صاف پانی تو دور کی بات ،روزمرہ کے استعمال کے لئے بھی کئی کلومیٹر دور پیدل جاکر پانی لانا پڑتا ہے،پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری بھی کچھ زمہ داریاں ہیں ہمیں بھی اس سلسلہ میں سوچنا چاہئے کم از کم ہم پانی کو ضائع ہو نے سے تو بچا سکتے ہیں۔ان حالات میں ہمیں حضورؐ کی یہ حدیث یاد آتی ہے جس میں آپؐ نے راستے سے پتھر ہٹادینے کو بھی نیکی کہا ہے۔آپ سوچئے کے موجودہ حالات میں پانی کو بچانا کتنی بڑی نیکی ہو سکتی ہے ۔
آخر میں کچھ ان لوگوں سے عرض ہے جو کہتے ہیں’’ڈیم چندے سے نہیں بنے گا ‘‘ان کے لیے’’ صرف ایک مثال‘‘ ہی کافی ہے عبد الستار ایدھی نے صرف پاکستانیوں کے چندے سے دنیا کی سب سے بڑی پرائیوٹ ایمبولینس سروس شروع کی اور عملی طورپر اس سروس کو چلایا بھی ۔ کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے پاکستانی ہیں۔ فرمان نبویؐہے کہ:’’ پانی کا عطیہبہترین صدقہ جاریہ ہے ‘‘۔ڈیم صدقہ جاریہ ہے پوری پاکستانی قوم کو اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
پاکستان میں ڈیموں کی کمیابی اورپانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے چندے کی اپیل کی کہ سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں اپنے عطیات جمع کروائیں، ان کی اپیل پر ملک و بیرون ممالک سے ہر مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے فنڈز جمع کروانے کا آغاز کیا ۔ آبی ذخائر کی قلت دور کرنے کے لیے پاکستانی عوام کی شروع کردہ تحریک حوصلہ افزا ثابت ہو رہی ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیلات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 24ستمبر کی صبح تک تقریباً تین ارب چوہتر کروڑ چورانوے لاکھ سینتالیس ہزار نو سو پچانوے روپے رقم جمع ہو چکی ہے ۔
دیامیر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ فوجی آمر اور صدر، جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا لیکن متعدد بار تعمیر کا افتتاح ہونے کے باوجود فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم ابھی تک صرف ابتدائی مراحل میں ہے۔ملک کو ڈیم بنانے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے اور اس وقت ملک میں ڈالرز کی کمی ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ ساری چیزیں ایک طرف ڈیم ایک طرف ۔ابتدائی طور پر ہم سب کو اپنے اختلافات بھلا کر سنجیدگی سے ڈیم کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے اورتمام پاکستانی پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے جہاد شروع کر دیں۔
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلاڈیم کی زندگی مزید 35سال بڑھ جائے گی اور اس میں81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیاجاسکے گااور مجموعی طورپر 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی ۔اسی طرح مہمند ڈیم بھی کثیر المقاصد ڈیم ہو گا جس میں 12لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ،مہمند ڈیم سے سالانہ 35ارب روپے کامعیشت کو فائدہ پہنچے گااور ہر سال آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بھی نجات حاصل ہو سکے گی ۔
بھارت جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اوراکیس بائیس کروڑپاکستانیوں کو پانی کی بوند بوند سے ترسادینے کی دھمکیاں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی گھناؤنی پالیسیاں اور چالیں چل رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے طویل عرصہ سے مسلسل پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنانے کے لیے دن رات کام جاری رکھا ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے نکل کر پاکستان آنے والے دریاؤں پر اب تک کئی ہزار ڈیم بناچکا ہے، جس کی وجہ سے چناب و راوی تقریباً سوکھ چکے ہیں اور نیلم و جہلم کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو سالانہ 145ملین ایکڑ فٹ پانی مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جس میں سے ہم صرف 14ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں۔ نئے آبی ذخائر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بہت بڑی مقدار میں پانی کو ہم استعمال میں نہیں لاتے اوروہ سیلاب کی شکل میں تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت کی مضبوطی و استحکام کیلئے وافر توانائی کی طرح وافر پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔پانی کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے پاس 120دن سے کم پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہے تو اس کی زراعت خطرے میں ہے، جبکہ ہم 30دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اورپاکستان کی ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، زراعت کیلئے پانی کی اہمیت ہر کسی کو معلوم ہے ،کئی صنعتوں کا انحصار بھی زرعی پیداوار پر ہے، ملکی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی پیداوار کا ہے، لہٰذا زراعت کی ترقی کے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اس لیے ڈیم بنانا ہمارے لیے ناگزیر ہے ،اگر ہم نے اب ڈیم نہیں بنائے تو7برس بعد یعنی 2025ء میں خشک سالی شروع ہوجائے گی۔ ہمارے پاس اناج اگانے کے لیے پانی نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں خدانخواستہ یہاں قحط پڑسکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر گھرمیں صفائی کرنی ہو، فرش دھونا ہو،کپڑے دھونے ہوں،برتن دھونے ہوں، موٹر بائیک یا گاڑی دھونی ہویاگھر کاکوئی فرد شیو بنا رہا ہو تو پانی بند نہیں کیا جاتا،بلکہ پانی کا بے دریغ استعمال اورضیاع ہوتا ہے۔
پانی کی قدر و قیمت ایسے علاقوں کے رہائشیوں سے پوچھیں جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔پینے کا صاف پانی تو دور کی بات ،روزمرہ کے استعمال کے لئے بھی کئی کلومیٹر دور پیدل جاکر پانی لانا پڑتا ہے،پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری بھی کچھ زمہ داریاں ہیں ہمیں بھی اس سلسلہ میں سوچنا چاہئے کم از کم ہم پانی کو ضائع ہو نے سے تو بچا سکتے ہیں۔ان حالات میں ہمیں حضورؐ کی یہ حدیث یاد آتی ہے جس میں آپؐ نے راستے سے پتھر ہٹادینے کو بھی نیکی کہا ہے۔آپ سوچئے کے موجودہ حالات میں پانی کو بچانا کتنی بڑی نیکی ہو سکتی ہے ۔
آخر میں کچھ ان لوگوں سے عرض ہے جو کہتے ہیں’’ڈیم چندے سے نہیں بنے گا ‘‘ان کے لیے’’ صرف ایک مثال‘‘ ہی کافی ہے عبد الستار ایدھی نے صرف پاکستانیوں کے چندے سے دنیا کی سب سے بڑی پرائیوٹ ایمبولینس سروس شروع کی اور عملی طورپر اس سروس کو چلایا بھی ۔ کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے پاکستانی ہیں۔ فرمان نبویؐہے کہ:’’ پانی کا عطیہبہترین صدقہ جاریہ ہے ‘‘۔ڈیم صدقہ جاریہ ہے پوری پاکستانی قوم کو اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔