آپ مان لیں کہ ہم بنیادی طور پر منافقت کی زندگی جی رہے ہیں ۔ جو ہم کہتے ہیں وہ ہم کرتے نہیں ہیں ۔ اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم کر نہ سکو ۔ آپ یقین کریں میں کبھی کبھی حیران ہوجاتا ہوں جب میں سیرت کے واقعات پڑھتا ہوں ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں چالیس چالیس دن تک نبی ﷺکے گھر میں کھانے کے لئیے سوائے دو کالی چیزوں کے اور کوئی تیسری چیز نہیں ہے لیکن بیویاں ہیں کہ آپکا دامن تک چھوڑنے کے لئیے تیار نہیں ہیں ۔
رسول خدﷺا سے بیچ محفل میں ایک صحابی ؓنے سوال کیا کہ آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے ؟ آپ ﷺنے بلا جھجک جواب دیا عائشہؓ سے ۔ صحابی ؓنے پوچھا میرا مطلب تھا مردوں میں ۔ آپ ﷺنے فرمایا اس کے باپ سے ۔یہ دونوں جہانوں کے سردار ہیں ان کے پاس ایک قافلے کے بعد دوسرے قافلے کو پیغام پہنچانے کی فکر دامن گیر ہے اور دوسری طرف حضرت عائشہ ؓکو آٹا بھی گوند کر دیتے ہیں ۔ اپنے کندھے پر تھوڑی رکھوا کر “تماشہ “بھی دکھاتے ہیں ،کبھی اپنی بیگم کا سر بھی دباتے ہی اور کبھی ساتھ میں دوڑ بھی لگواتے ہیں ۔
حضرت حفصہ ؓکسی بات پر ناراض ہوگئیں ۔ گفتگو کے دوران ان کی ٓواز ذرا بلند ہوگئی ۔ حضرت عمر ؓجو کہ ان کے والد بھی تھے باہر ہی موجود تھے ۔ بیٹی کی آواز سن کر اندر آگئے چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ۔ چیخ کر بولے رسول خدا ﷺسے اس لہجے میں بات کرتی ہو ؟ آپ حضرت حفصہ ؓکے سامنے آگئے اور فرمایا عمر ؓ! یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے تم باہر جاو ۔ جب حضرت عمر ؓچلے گئے تو آپ نے حضرت حفصہ ؓکی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولے “دیکھا کیسا بچایا “؟
ہمارا معاشرہ اور اس معاشرے کا مرد اپنی بیوی کو پورے خاندان کے سامنے جھڑکنا لازم سمجھتا ہے ۔ مرد کی عزت کی “شان “یہ ہے کہ جب تک اماں ، بہنوں کے سامنے بیوی کو زور سے ڈانٹ کر بے عزت نہیں کرینگے تب تک مردانگی کا یقین کیسے آئیگا ؟ حضرت علی ؓنے فرمایا “جس نے کسی کو اکیلے میں نصیحت کی اس نے اسے سنوار دیا اور جس نے کسی کو سب کے سامنے نصیحت کی اس نے اسے بگاڑ دیا “۔ ہم ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی عورت کو اس کے سسرال والوں کے سامنے بے عزت کریں اور پھر اس سے محبت کی امید رکھیں تو سمجھیں کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔
رسول خدا ﷺ کا حضرت عمر ؓکے گھر کے باہر سے گذر ہوا تو ان کی زوجہ کی آواز آرہی تھی وہ حضرت عمر ؓکی کسی بات پر ناراض ہورہی تھیں ۔ آپ مسکرائے اور مسجد تشریف لے گئے ۔ جب حضرت عمر ؓآئے تو آپ ﷺنے مسکراتے ہوئے پوچھا عمر ؓ!کیا بات ہے آج تمھاری بیگم کی آواز تم پر خاصی اونچی تھی لیکن تم خاموش تھے ؟ حضرت عمر ؓنے فرمایا “یارسول اللہ ﷺ! وہ میرے بچوں کی تربیت کرنے والی ہے ۔ میں اسے اس کے بچوں کے سامنے بھلا کیسے ڈانت سکتا تھا؟”
کہتے ہیں کہ جو اپنی عزت خود نہیں کرتا معاشرے کی نظر میں بھی بے عزت ہوجاتا ہے ۔ جب آپ “بیڈروم “کے جھگڑوں کو فخر جتانے کے لئیے ہر کسی کے سامنے ذکر کرنے لگیں گے تو پھر بطور شوہر کون آپ کی عزت کریگا ؟ سب سے بڑا المیہ ہمارے معاشرے کے “بڑوں “کا بھی ہے ۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ اگر بزرگی کے ساتھ “حکمت “نہ آئے تو پھر معاشرے اور گھر فساد کے کٹھرے بن جاتے ہیں ۔ ہمارے بڑوں کو” بڑا “بننے کا شوق ضرور ہے لیکن بڑ”ا بن کے دکھانے “کا شوق نہیں ہے ۔ انھیں اپنا “بڑا پن “ظاہر کرنا مشکل لگتا ہے ۔ ہم ہمیشہ چھوٹوں سے معافی کی امید رکھتے ہیں ۔ کبھی ان کو معاف کر کے دکھاتے نہیں ہیں کہ معاف کیا کیسے جاتا ہے ۔ ان سے اپنی ہر بات منوانا لازم جانتے ہیں لیکن عفو ، درگذر ، دانائی اور حکمت کے ساتھ ان کی بے صبری کو “ڈیل “کرنا نہیں جانتے ہیں ۔ حکمت اتنی بڑی چیز ہے کہ اللہ تعالی قرآن میں اسے” خیر کثیر “فرماتے ہیں اور حضرت لقمان کو کہ جو کوئی نبی بھی نہیں تھے ۔ اللہ تعالی ان کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی ۔
اپنی عمر کے سالوں کو ، اپنی سوانح حیات کو بار بار اپنے سے چھوٹے لوگوں کے سامنے تجربے کے نام پر بیان کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ حکمت کے ساتھ معاملات کو سلجھانا سیکھیں ۔ اختلافات کو نفرت ، بغض اور دشمنی کی شکل دینے کے بجائے احترام دینا سیکھیں ۔ ہماری نوجوان نسل میں صبر ختم ہوچکا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں میں حکمت کا فقدان ہے ۔
یاد رکھیں اس کائنات کا اصول اللہ تعالی نے بڑا عجیب طے کر رکھا ہے ۔ عزت ، محبت اور معافی اللہ تعالی کی اس کائنات میں” ڈیمانڈ “سے کبھی بھی نہیں ملتی ہے ۔ واصف علی واصف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ” لوگوں سے دعا کا مت کہا کرو ، اپنے کرتوت ایسے کرلو کہ لوگ تمھیں دعا دینے پر مجبور ہوجائیں “۔اور اقبال نے اسی کو یوں بیان کیا ہے کہ :
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ ذرہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے
اپنے احسانات گنوا گنوا کر اپنے لئیے عزت اور محبت مانگنے کے بجائے اپنے درگذر ، شفقت اور حکمت کے ذریعے ان “نعمتوں” کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ یاد رکھیں جس طرح پیسہ کمانا پڑتا ہے ٹھیک اسی طرح عزت “کمانی “پڑتی ہے ۔میں نے بڑھاپے میں بزرگوں کو بالکل تنہا چارپائیوں پر آہیں بھرتے اور کروٹیں بدلتے دیکھا ہے ۔ میں نے ان کی دس دس آوازوں کے بدلے ان کے بہو ، بیٹوں اور پوتوں کو بیزاری سے ” جی بولیں “کہتے سنا ہے ۔ لیکن آپ یقین کریں مجھے اس پر تعجب نہیں ہے کیونکہ ان کی کڑوی کسیلی باتیں ، سامنے والوں کی ہر بات میں مین میخیں نکالنا ، گفتگو میں طعنوں کا کثرت سے استعمال اور لکڑیاں توڑتے جملوں کا صلہ بالآخر اسی انداز میں نکلتا ہے ۔ لیکن مجھے تعجب بعد والوں پر ہوتا ہے کہ یہ سب دیکھ کر بھی ان کے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی ہے ۔
ہم “جوائنٹ فیملی سسٹمز” میں رہتے ہیں ۔ اپنے بہو ، بیٹوں کے لئیے بھی اتنا ہی بڑا دل گردہ کرلیں جتنا بیٹی داماد کے لئیے کرلیتے ہیں ۔ اگر گھر میں سکون چاہتے ہیں تو پھر صبر ، برداشت ، عفو ، درگذر ، حکمت اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے سے نباہ کریں ۔ گھروں میں تعاون کی فضا پیدا کریں ۔ گھر خودبخود جنت کا نمونہ بن جائینگے۔