ایک حقیقت ۔ایک آپ بیتی 

یہ تحریر ایک حقیقت پر مبنی ہے ۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی آپ بیتی ہے جس نے گرتے سنبھلتے جب ہدایت کی رسی کو تھا ما تو اُس سچائی کی راہ پر بھی اُ س نے خود کو بہت تنہا پایا اور آج بھی وہ اِس سفر میں تنہا ہے جہاں اب اُسے صرف اپنے رب کی ذات پر بھروسہ ہے کیوں کہ وہ اب ہارنا نہیں چاہتی ۔

 جب سے میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا اور وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے اُتار چڑھا وٗ کو سمجھنے لگی ، لوگوں کے ساتھ کچھ بُرا ہوتے ہوئے دیکھتی یا ہر آئے دن کچھ انہونےاور انو کھے واقعات سنتی تھی جیسے خواتین کے ساتھ ظلم وتشدد ، کبھی کسی کا طلاق ،کبھی کسی عورت کو شوہر ،سسرال میں جلانے مارنے کے ایسے کئی قصے کہانیاں سُن کر دل دہل جاتاتھا ۔ یہ سب سُن کر مجھے لگتا تھا کہ جب کوئی کسی کے ساتھ بُرا کرتا ہے تو اُس کے ساتھ بُرا ہوتا ہے ، کیوں کہ میں مکافاتِ عمل پر یقین رکھتی ہوں لیکن یہ اور بات ہے کہ وقت نے احساس دلایا کہ مکافاتِ عمل صرف عورتوں کے لیئے ہوتا ہے ،مردوں کے لیئے نہیں۔لیکن یہ بھی کہیں پڑھا تھا کہ جن کے دل صاف ہوتے ہیں اُن کے ساتھ کبھی بُرا نہیں ہوتا ۔ اِسی یقین کے ساتھ میں خود کو تسلی دیتی رہی لیکن کبھی دل میں ایک خیال آتا تھا کہ میرا دل صاف ہے سب کے لیئے تو اِس لیئے میرے ساتھ بھی زندگی کبھی کچھ غلط نہیں کرے گی ۔ اب سو چتی ہوں کہ نادانی میں کی جانے والی باتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں ، انسان کیا کچھ اچھا سوچ لیتا ہے پر زندگی کچھ الگ رنگ دِ کھاکر ہمیں ہارنا سِکھا دیتی ہے۔

میں بچپن سے ہی بہت ضدی اور روتُو تھی ، امی کی بہت ڈانٹ بھی پڑتی تھی ، بہت سمجھا تی بھی تھیں لیکن وہ نادانی کا دور ہی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے اور اپنی بے جا خواہشات کے سواکچھ دِکھتا ہی نہیں ،، ہم اپنی ہی دُ ھن میں زندگی جی رہے ہوتے ہیں اور ہماری بے فکری سی خوبصورت دنیا ہوتی ہے۔ وقت بدلتا رہا پر میں نہیں بدلی ، میں ویسی ہی ضدی اور روتُو رہی ۔ ہر کوئی سمجھاتا تھا ، ڈانٹ بھی پڑتی تھی لیکن مجھے کو ئی کبھی مناتا نہیں تھا ۔ ہمیشہ رو رو کر خود ہی چُپ ہو جایا کرتی تھی۔ میری زندگی بہت محدود تھی جس میں کو ئی نہیں تھا میرے خیالوں کے سوا ۔ میں نے خود کو ہمیشہ گُڈے گُڑیا کے کھیل تک محدود کر لیا۔ گھر میں ہر وقت اپنے کھلونوں سے کھیلتی رہتی تھی ،گھنٹوں گزر جاتے تھے مگر کسی اور کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتی تھی ۔ کیوں کہ جب کزنز کھلونے توڑتے تھے کھیل کھیل میں تو یہ مجھ سے بر داشت نہیں ہوتا تھا ۔ وقت کر وٹیں بدلتا رہا ، اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی بدلتے ہیں اور شوق بھی ، لیکن میں پھر بھی ویسی ہی رہی ، نہ میں بدلی اور نہ ہی میرے شوق ۔ کبھی کسی اور کھیل کو اہمیت نہیں دی اور نہ کبھی کسی اور کے ساتھ گُھل مِل کر کوئی کھیل کھیلا کیوں کہ ہارنے سے ڈرتی تھی اور شائد اس سے بھی زیا دہ ہارے جانے کے احساس سے ۔ ہارنے کے اُس ڈر نے مجھے ہمیشہ کے لیئے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہر بات سے ڈرنے لگی ، پرندے ، پالتُو جانور ، سمندر کے پانی سے ،غرض کہ ہر وہ چیز جس پر لوگ خوش ہوتے ہیں انجوائے کرتے ہیں ، پر میں ہمیشہ ڈرتی تھی۔ ا ور اِ س ڈر کے ساتھ یوں ہی میرا بچپن بھی گزر گیا ۔ پر اب ایک بات سوچتی ہوں کہ کیوں مجھے کسی نے اِ س ڈر سے باہر نہیں نکالا ، کیوں بہادر نہیں بنایا ، کسی نے بھی میرے دل کو جان کر اس ڈر کو دُور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ایک وقت ایسا بھی ایا کہ جب دل کرتا تھا کہ والدین مجھے گلے سے لگائیں لیکن جیسے ہی وقت گزرتا گیا ،یہ بات سمجھنے لگی کہ شائد بیٹی اوروالدین کے بیچ پیار کی حد مقرر ہوتی ہے ۔اس لیئے جب بھی دوسروں کو اپنے والدین سے گھلتے ملتے دیکھتی تو بہت عجیب محسوس کرتی ۔ وقت کے ساتھ یہ احساس بھی میرےدل میں بڑھتا چلا گیا کہ آخر میں اتنی غیر اہم کیوں ہوں؟

جب نا دانی کے اس دور سے نکلی تو زندگی میں ایک ایسا وقت آیا جب بہت چھوٹی عمر میں ،بہت کچھ سہنا پڑا ، میں بھی اُن ہی قصے کہا نیوں کی لپیٹ میں آگئی ۔ میری بھی شادی ہوئی ، مجھے بھی وہی سب سہنا پڑا جو آج تک ہر عورت سہتی آئی ہے ۔ اِسی طرح میں نے بھی زندگی کے دو سال سسرال اور شوہر کی بے جاظلم و زیادتی میں گزار دئے ، اِس اُمید پر کہ شائد وقت بدلے گا لیکن میں غلط تھی ،بھول بیٹھی تھی کہ درندہ صفت لوگوں کے پاس دل اور احساس نہیں ہوتا ۔ سو اِسی طرح وہ لو گ مجھے ذہنی اور جسمانی اذتیں دیتے رہے اور میں اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں بُری بنتی رہی ۔ یہ ہے نا بہت ہی عجیب بات ؟ اِس کے پیچھے بھی کئی وجوہات ہیں ،ایسی کئی اذتیں میں نے برداشت کیں لیکن افسوس کہ اُس برداشت کا بھی صلہ نہیں ملا اورآخر کار مجھے طلاق کا ٹیگ دے دیا گیا اور میں بھی اُسی فہرست میں آگئی جہاں لوگ طلاق یافتہ لڑکی کے لیئے غلط رائے رکھتے ہیں۔
اس دلدل سے نکلنے کے بعد وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور میں بھی ۔یوں ہی میں اپنی تعلیم پُوری کرلی جس میں میرے والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔ سب کچھ بدلتا رہا لیکن نہیں بدلی تو لوگوں کی سوچ ۔ کیوں کہ مجھے بہت کچھ سننا پڑتا تھا اور ایک طلاق یافتہ لڑکی کے لیئے لوگوں کا سامناکرنا اتنا آسان نہیں ہوتا وہ بھی اس معاشرے میں جہاں مردوں کی حکومت چلتی ہو ۔
پھر یوں ہی زندگی میں کئی بار ٹھوکریں کھانے کے بعد جب خود کو سنبھالنا چاہا تو بہت دیر ہو چکی تھی کیوں کہ تب تک میرے حصے میں نفرتیں آ چکی تھیں ۔میں پھر بھی ہمت نہیں ہاری ۔ خدا سے اور ہر رشتے سے معافی مانتی رہی لیکن پھر بھی کچھ نہیں بدلا ،نہ مجھے معافی ملی نہ سب کا پیار۔ بہت اذیتوں کا وقت تھا وہ جب  میں سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلی تھی اور مجھے غلط سمجھا جاتا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور زندگی یوں ہی چلتی رہی۔ دل اُداس رہنے لگا ، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ ایسے کسی ایک پل میں، میں نے دل سے دعا کی کہ مجھے ہدایت اور صبر ملے ، بہت کچھ کیا لیکن کچھ نہیں ملا۔ ایسا لگا کہ شائد میں اس کے بھی لائق نہیں ۔ اِ سی طرح میں کئی بار زندگی کے اُتار چڑھاوٗ سے گرتی سنبھلتی رہی ۔ کبھی روزگار کو ہونا کبھی نہ ہونا ، کبھی پڑھ لکھ کر خود کو تسلی دینا ، کھی مایوس ہوجانا ۔ ایسے ہی میں ہر بار ہارتی چلی آئی ۔ کبھی میں غلط ہوتی تو کبھی لوگ غلط سمجھتے ، کبھی اپنے بھی ساتھ نہ دیتے ۔ لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہاری کیوں کہ اپنے بارے میں آخر مجھے ہی کچھ سوچنا تھا سو ایک ٹھو کر کھانے کے لیئے خود کو تیار کرنے لگی۔ بچپن کا خیال تو بہت پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا تھا سو زندگی کو اب غور سے دیکھا تو بہت کچھ سمجھنے لگی ۔

لوگ بھی امیدوں کے سہارے جیتے ہیں اور معجزوں کا انتظار کرتے ہیں ، میں بھی اُسی سمت چل پڑی ۔ یوں ہی اچانک کسی دن ایک انو کھے سے جذبے نے دل پر دستک دیاور اُس احساس نے مجھے ، میری سوچ ، میرے جینے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ۔ یہ سب خدا کی دین تھی یا وہ دعا میں مانگی گئی ہدایت تھی ، لیکن وقت بدلا اور آخر کار میں بھی بدل گئی ۔ اُس معجزے کے بعد میری دنیا ہی بدل گئی ، منفی سے مثبت تبدیلی کی طرف آنے لگی ، اب اچھا لگنے لگا ، کُھل کر جینے لگی، ماضی کے تلخ تجربات ،وہ اذیتیں سب بھول کر میں آگے بڑھی کہ نیا سفر میرا منتظر تھا ۔ لیکن وقت سے میری خوشی برداشت نہیں ہوئی اور ایسے ہی کسی لمحے میں میری خوشیاں بھی دھندلا گئیں ۔ جس کے لیئے میں جینے لگی اُس نے مجھے آج وہیں لا کر کھڑا کردیا جہاں سے میری دنیا بدلی تھی۔ اب اس سفر میں ایک عجیب سی کشمکش ہے ، اب ٹوٹ چُکی ہوں ۔ شائد من کے سچے لوگو ں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ شائد وہ کتابی باتیں سب جھوٹ تھیں  لیکن جب اللہ پاک کی ذات کو سوچتی ہوں تو میرا ایمان بڑھ جاتا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے اب بھی وقت ہے اللہ پاک میرےساتھ کبھی بُرا نہیں کریں گے مجھے میری سچائی کا صلہ ضرور ملے گا۔ ان شاء اللہ ۔ کیوں کہ وہی ایک واحد ذات ہے جو انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتی ۔ بے شک اللہ پاک تو گنہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے اور اُن کی بھی دعا ئیں قبول فرماتا ہے ۔
تحر یر : پر ھ اعجاز

حصہ

جواب چھوڑ دیں