تعریف جس کے لیے موت ضرور ی ہے

بیگم کلثوم نواز کو دُنیا سے گئے ابھی کچھ وقت ہی ہوا ہے کہ دُنیا نے اُن کی تعریف کے پل باندھنا شروع کر دےئے ہیں۔ آپ میڈیا کا کوئی بھی چینل لگا کر دیکھ لیں ، آپ کوئی بھی اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو ہر جگہ بیگم کلثوم نواز کی تعریف ہوتی نظر آئے گی۔ یہاں تک کہ اُن کے سیاسی مخالفین بھی اپنی کہی ہوئی باتوں پر شرمندہ ہو رہے ہیں۔ سابق خاتون اول جب زندہ تھیں تو اُن کے مخالفین خواہ وہ کسی سیاسی جماعت سے تھے یا پھر میڈیا سے منسلک تھے یہ لوگ دن رات شریف خاندان پر اور خاص کر میاں نواز شریف پر یہ کہہ کر تنقید کرتے تھے کہ میاں صاحب اپنی بیوی کی بیماری کا سیاسی طور پر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔میاں نواز شریف کو غلط ثابت کرنے کی غرض سے یہ لوگ اِس حد تک چلے گئے کہ انسانیت اور ہمدردی کو بھی بھول گئے۔ افسوس کہ ہم زندہ لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور جب لوگ مر جاتے ہیں تو پھر اِن کی قربانی اور جرأت و بہادری کے قصے ہر ایک کے منہ سے سننے کو ملتے ہیں۔ آپ بیگم کلثوم نواز کے مرنے کے بعد میڈیا اور اخبارات اُٹھا کر دیکھ لیں اور جب وہ زندہ تھیں اور وینٹی لیٹر پر تھیں آپ تب کا میڈیا اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ کس طرح رنگ بدلہ کرتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کو محترم بینظیر بھٹو اور فاطمہ جناح کے بعد جمہوریت کے لیے نکلنے اور کام کرنے والی خاتون قرار دیا جا رہا ہے۔
کاش ! یہ لوگ اُن کی قربانی کی قدر اُس وقت کرتے جب وہ زندہ تھیں۔ ہم لوگ بھول چکے ہیں کہ ایک دن ہم سب نے مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کی خاطر ہم لوگ کسی کی بیماری او ر موت کا مذاق اُڑانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ میرااُن تمام لوگوں سے سوال ہے جنہوں نے کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اُڑایا کہ اللہ نہ کرے اگر یہ حالات آپ کے ساتھ بن جائیں اور لوگ آپ سے ہمدردی کرنے کی بجائے آپ کو جھوٹا کہیں اور آپ کی دِل آزاری کریں تو آپ پر کیا گذرے گی۔ صرف ایک لمحہ سوچ کر دیکھیں۔ ہم سب کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارا معاشرہ انسانیت اور ہمدردی کے جذبات سے خالی ہوتا جا رہا ہے ہم پر ہر بات کو منفی پہلو سے دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ ہمیں ہر کام میں دوسروں کی سازش اور چالاکی نظر آتی ہے۔
بیگم کلثوم نواز صاحبہ اِس دُنیا فانی سے جا چکی ہیں اور لوگوں کو یقین آگیا ہے کہ وہ واقعی بیمار تھیں اور ایک سال سے اذیت میں مبتلا تھیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کلثوم نواز کو صحت عطا کر دیتا اور ٹھیک ہو کر پاکستان واپس آجاتیں اور دوبارہ سے اپنی روز مرہ کی زندگی گذارنا شروع کر دیتیں اور جیل میں قید اپنی بیٹی مریم نواز اور اپنے خاوند میاں نواز شریف کے لئے ایک تحریک کا آغاز کرتیں تو یقین جانئیے یہی لوگ جو آج ہمدردی کر رہے ہیں یہ کہتے کہ میاں صاحب اپنی بیوی کی بیماری کا جنتا فائدہ لے سکتے تھے لے لیا اور اب وہ ٹھیک ہو کر واپس آگیءں ہیں۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔
افسوس ایسے لوگوں پر !
اخلاق اور رویوں کی بدصورتی کا احساس ہمیں اُس
وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ ہمارے ساتھ نہ برتے جائیں۔
جب تک اِس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ اِس ملک میں موجود ہیں یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ بحیثیت قوم اِس ملک کو بھی تباہ کر رہی ہیں اور اپنی آخرت کو بھی تباہ کر رہی ہیں۔ ہمارے دین نے ہمیں دوسروں کے ساتھ ہمدردی، بھائی چارے اور احسان کرنے کا درس دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مشکل وقت میں اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کھڑے ہو جا ئیں اور اسے ہمت دیں تب ہی ہمارا معاشرہ سدھر سکتا ہے اور جب معاشرہ ٹھیک ہو گیا تو پھر ملک خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ زندگی ہمیں بہت کچھ سیکھاتی ہے۔ اب ہم پر ہے کہ اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھی ہوئی باتوں کو کتنا یاد رکھنا ہے اور کتنا اُن پر عمل کرنا ہے۔
آپ بے شک دوسروں پر تنقید کریں لیکن اِس حد تک نہ جائیں کہ اُن کی دل آزاری کا سبب بن جائیں اور یوں آپ کی آخرت خراب ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ محترمہ کلثوم نواز صاحب کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ امین۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں