نبی اکرم ﷺ کی احادیث میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی پر مبنی روایات ملتی ہیں ،جن میں سے چند ذیل میں درج کی جارہی ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :بارش کے فرشتے نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ی کی اجازت چاہی، آپﷺ نے اسے شرفِ باریابی کا موقع دیا اورساتھ ہی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : دروازے کی طرف دھیان رکھنا،تاکہ کوئی اندر نہ آنے پائے،لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے پھاندتے اللہ کے رسول ﷺتک پہنچ گئے اور آپﷺکے کندھے مبارک پر کودنے لگے۔
فرشتے نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ فرشتے نے کہا : آپ کی امت اسے قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں ،جہاں اسے قتل کیا جائے گا،پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک مٹھی مٹی اللہ کے رسول ﷺکے سامنے رکھ دی (مسند احمد )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : ٹھیک دوپہر کے وقت اللہ کے رسولﷺ کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال اور چہرہ مبارک مبارک غبار آلود ہیں اور آپ کے ساتھ ایک شیشی ہے، جس میں خون ہے۔ہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : یہ حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔(مسند احمد)
اسی معنی میں ایک روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنن الترمذی میں بھی موجود ہے،جس میں یہ اضافہ بھی ہے : حدیث کے راوی عمارؒ بیان فرماتے ہیں کہ جب حساب لگایاگیا تو خواب دیکھنے کا دن وہی تھا،جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ پیش آیا تھا۔
جس طرح ان کی شہادت کی پیشین گوئی ذخیرہ احادیث میں ملتی ہے،اسی طرح ان کی ولادت سے پہلے بھی بشارتیں ملتی رہیں ،جیسا کہ مستدرک کی روایت ہے :حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ ابھی شکم مادر ہی میں تھے، کہ حضرت عبّاس بن عبدالمطلبؓ کی اہلیہ ام الفضل لبابہ بنت الحارثؓ نے ایک خواب دیکھا ،کہ کسی نے رسول اللہﷺکے جسدِ اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گودمیں رکھ دیا۔ انہوں نے آں حضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ!میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے ،جو ناقابلِ بیان ہے۔ فرمایا :بیان کرو،آخر کیا خواب ہے؟ رسول اللہ ﷺکے اصرار پر انہوں نے خواب بیان کیا۔خواب سن کر آپﷺنے فرمایا :یہ تو نہایت مبارک خواب ہے۔ فاطمہؓ کے لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔
کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیرحضرت سیدنا حسینؓ کی ولادت کی شکل میں ملی،حضرت ام الفضلؓ نے نہ صرف دایہ کے فرائض انجام دیے،بلکہ اپنے بیٹے قثم بن عباس کے ساتھ ساتھ حضرت حسینؓ کو بھی دودھ پلایا۔(مستدرک حاکم،مشکوٰۃ )
حضرت سیدنا حسین بروز ہفتہ4شعبان4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے،ولادت کے موقعے پر رسول اللہﷺ تشریف لائے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے: بچے کو دِکھاؤ، کیا نام رکھا ؟ نو مولود بچے کو منگاکر اس کے کانوں میں اذان دی، پھرحضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھما کو عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔ ساتویں دن آپؓ کا عقیقہ کیا گیا۔ والدین نے ’’حرب‘‘ نام رکھا تھا، آپ صلی اللہ ﷺ کو یہ نام پسند نہ آیا توآپ نے بدل کر ’’حسین‘‘ رکھا ۔(اُسدالغابہ)
حضرت سیدنا حسینؓ شکل وصورت میںآں حضرت ﷺاوراپنے والدبزرگ وارحضرت سیدناعلی کرم اللہ وجہہ کے مشابہ تھے ۔آپ کی ذات گرامی قریش کاخلاصہ اوربنی ہاشم کاعطر تھی۔ذیل میں آپ کے فضائل سے متعلق چنداحادیث درج کی جاتی ہیں؛
(۱)رسول اللہﷺ نے فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔
(۲)آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ!میں ان دونوں(حسنؓ اور حسین)سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو اِن سے محبت کرتے ہیں ان کو بھی اپنا محبوب بنالے۔
(۳) رسول اللہﷺ نے فرمایا: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، جو حسین سے محبت رکھے، اللہ اس سے محبت رکھے۔
(۴)آپﷺنے فرمایا: اے اللہ!میں حسینؓ سے محبت رکھتا ہوں ،تو بھی اس سے محبت فرما۔
(۵)جس کو یہ بات اچھی لگے، کہ وہ جنتی شخص کو دیکھے،تو اسے چاہیے کہ (حضرت )حسینؓ بن علیؓ کو دیکھ لے۔
(۶)آپﷺنے فرمایا :جس نے ان دونوں(حسنؓ اور حسین)سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا ،اس نے مجھے ناراض کیا۔(یہ احادیث بخاری ،مسلم، ترمذی،ابن ماجہ، مستدرک حاکم ،کنزالعمّال سے لی گئی ہیں)
حضرت حسینؓ کے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آں حضرت ﷺ کے پیارومحبت کے واقعات ملتے ہیں۔حضور ﷺ روزانہ دونوں نواسوں کودیکھنے کے لیے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے، ان سے پیار کرتے،انھیں کاندھے پراٹھاتے،جھولا جھلاتے،گود میں اٹھاکر باہر تشریف لاتے۔
حضرت حسینؓ کی عمرمبارک ابھی صرف سات برس تھی، کہ ناناکاسایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔سیدنا صدیق اکبر وفاروق اعظم اورعثمان غنی رضی اللہ عنھم کے ادوارِ خلافت میں بھی حضرت حسینؓ کم عمر تھے ۔ان حضرات کی طرف سے حضرت حسینؓ کے ساتھ ویسی ہی محبت وشفقت اورحسن سلوک کابرتاؤ کیاجاتارہا،جیسا نبی اکرم ﷺ فرمایاکرتے تھے۔تفصیلات موجبِ طوالت ہوں گی۔فتوح البلدان،تاریخ بغداد،کتاب الثقات میں ایسے متعدد واقعات دیکھے جاسکتے ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں دونوں صاحب زادگان جوان ہوچکے تھے،اور امورمملکت کی انجام دہی میں بھی والد گرامی کے شانہ بشانہ رہتے تھے۔جنگ جمل اورجنگ صفین میں اگرچہ اپنے والد کی طرف سے شریک ہوئے،تاہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور دوسرے صحابہؓ ،جومتحارب فریق تھے،کے ساتھ بھی ادب واحترام کا تعلق برقرار رکھا،یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ جنگ جمل سے لوٹنے لگیں ،تو حضرت حسنؓ وحسینؓ ان کو الوداع کہنے والوں میں سب سے آگے تھے۔جنگ جمل کے بعد خوارج کے ساتھ تمام صحابہ ،جن میں دونوں فریق شامل تھے،نے مل کرجوجنگ نہروان لڑی،اس میں بھی حضرت حسینؓ پیش پیش رہے۔جب چھے ماہ خلافت کرنے کے بعد حضرت حسنؓ ،حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردارہوئے اور ان کے ہاتھ پربیعت کی،توحضرت حسینؓ نے بھی ان کے ساتھ ہی امیرالمؤمنین کی بیعت کی۔(تاریخ ابن عساکر،فتح الباری شرح بخاری،مصنف ابن ابی شیبہ)اس کا ثبوت حضرت معاویہؓ کے دور میں ہونے والے جنگی معرکوں میں حضرت حسینؓ کی شرکت سے بھی ملتاہے ۔(البدایہ والنہایہ )خلافت سے دستبرداری کے بعد حضرات حسنین کریمینؓ ہر سال وفد کی صورت میں اپنی اولاد اور اہل خانہ کے ہم راہ حضرت معاویہؓ کے ہاں جاتے،قیام کرتے تھے ۔(تاریخ ابن عساکر)
حضرت معاویہؓ نے یزید کو جن کبار صحابہؓ سے نرمی برتنے کا بطور خاص حکم دیاتھا،حضرت حسینؓ ان میں سرفہرست تھے۔(البدایہ والنہایہ،سیر اعلام النبلاء)لیکن بدقسمتی سے اس وصیت پر یزید نے عمل نہیں کیا،جس کی وجہ سے کربلاکا اتنا بڑا خوں چکاں سانحہ پیش آیا۔حافظ ابن کثیرؒ البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں:واقعہ کربلا دغابازی، بے وفائی اور غداری کی عبرت انگیز داستان بھی ہے، اہل کوفہ نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خطوط لکھ لکھ کر کوفہ بلایا تھا، پھر مصیبت میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ،حضرت مسلم ؒ ا ور ان کے دو صاحب زادوں کے خون سے اپنا ناپاک ہاتھ رنگنا غداری وبے وفائی کی بہت ہی المناک اور گھنانی تاریخ ہے ،جس کے حرف حرف سے مکرو فریب کی بدبو پھیلتی ہے ۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل دوز واقعہ بروز جمعہ، دس محرم الحرام سن 61 ہجری کو پیش آیا۔س وقت آپ کی عمر 58 سال کے قریب تھی۔حضرت حسینؓ کے ساتھ 72آدمی شہید ہوئے، ان میں سے بیس خاندانِ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے۔اہلبیت نبوی میں زین العابدین ،حسن بن حسین،عمروبن حسن اورکچھ شیر خوار بچے باقی رِہ گئے تھے،زین العابدینؒ بیماری کی وجہ سے چھوڑدیے گئے اور بچے شیر خواری کی وجہ سے بچ گئے۔حضرت سیدناحسین نے مختلف اوقات میں متعددشادیاں کیں،آپ کی اولادمیں سے علی اکبرؒ ،عبداللہؒ اور ایک چھوٹے صاحبزادے ؒ واقعۂ کربلامیں شہید ہوئے ،سیدنا زین العابدینؒ باقی تھے، انہی سے نسل چلی۔صاحبزادیوں میں سکینہ،فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھنّ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔
مولانامحمد جہان یعقوب
ریسرچ اسکالر،جامعہ بنوریہ عالمیہ ،سائٹ،کراچی
اس حدیث مبارک کا حدیث نمبر مل سکتا ہے؟؟؟؟؟؟؟
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :بارش کے فرشتے نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ی کی اجازت چاہی، آپﷺ نے اسے شرفِ باریابی کا موقع دیا اورساتھ ہی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : دروازے کی طرف دھیان رکھنا،تاکہ کوئی اندر نہ آنے پائے،لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے پھاندتے اللہ کے رسول ﷺتک پہنچ گئے اور آپﷺکے کندھے مبارک پر کودنے لگے۔
فرشتے نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ فرشتے نے کہا : آپ کی امت اسے قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں ،جہاں اسے قتل کیا جائے گا،پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک مٹھی مٹی اللہ کے رسول ﷺکے سامنے رکھ دی (مسند احمد )