چندخصوصیات ایسی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز ونمایاں کرتی ہیں جن میں لیڈرشب (قیادت ) بھی شامل ہے۔قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔باشعور،باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طئے شدہ سمت پر گامزن کرنے کانام ہے۔تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں اور قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قیادت کوئی آسان ا ور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔قیادت کاہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی قیادت اعتماد ،استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ممکن نہیں ہے ۔اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔
آج معاشرے میں ایکفردواحد کو ہی حقیقی قائد و قیادت سمجھنے کا مغالطہ عام ہے۔ لیڈرشب سے مراد کسی فر د واحد کی آمریت ہرگز نہیں ہے بلکہ لیڈرشب (قیادت) ایک باشعور ،باصلاحیت اورمخلص اجتماعیت کا نام ہے ۔فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے ہم آج قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں۔فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں۔آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کودھوکادیتی ہے۔دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتے ہیں۔ایسے لیڈروں کی مقبولیت کے اسباب میں حکمران طبقوں کی نظر عنایت، حکمرانوں کی پسندیدگی،حکمران گھرانے سے تعلق،زندگی کے کسی ایک شعبے میں کامیاب کارکردگی،فن خطابت میں مہارت،عوامی مسائل پر مبنی نعروں کا بے دریغ استعمال وغیرہ شامل ہیں۔عوام بالخصوص نوجوان نسل (طلبہ) کی سیاسی و شعوری تربیت کے فقدان کے سبب یہ جعلی قائدین عوام کی ایک بڑی تعداد کو بے وقوف بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور عوام ہمیں منزل نہیں رہنماچاہئے کے راگ الاپتے نظرآتے ہیں۔ اس قسم کی شخصیت پرستی سے نہ صرف ان جعلی لیڈروں کے لئے تاحیات لیڈری کا راستہ کھل جاتا ہے بلکہ نسل درنسل ان کی خاندانی حکمرانی کے راستے بھی ہموار ہوجاتے ہیں۔ عوام بالخصوص نوجوان نسل کی اس اندھی تقلید کے سبب مفاد پرست گروہ کسی ایک لیڈر کے گرد جمع ہو کر اپنے مفادات کے حصول میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔اس منظر نامے کی تبدیلی کے لئے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔طلبہ میں اخلاص ،شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے حقیقی لیڈر شب کوالیٹیز (قائدانہ اوصاف) کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اس کی عظمت و جلالت کی وجہ سے قیادت کے کسی بھی حکم پراندھا دھند عمل نہیں کیا جاسکتا۔قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔’’اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اور اپنے الوالامر ( صاحبان امر ) کی‘‘ (النساء 59 ) سورۃ النسا کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔ اولوالامر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔قیادت ( الوالامر) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں ۔صاحبان امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں،ان کی اطاعت کرنا اوران کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اگر و ہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں تو ان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔‘‘
اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ،سنت رسول کی روشنی میں متقی ،باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خداا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو۔اللہ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ،رہنمائی ا ور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔انسان اللہ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔اساتذہ اپنے تلامذہ کو،اکابر اپنے اصاغر ،راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے۔ قوم وملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے قیادت کا اولوالعز م ،دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے۔قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے ۔کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ قائدانہ صلاحیتوں (لیڈر شب اسکلز) پر آئے دن کتابیں شائع ہورہی ہیں اور متعدد سیمنار س بھی منعقد کئے جار ہے ہیں جو اپنے علم و معلومات کی بنیاد پر چند مثالی قائدین و رہنماوں کو پیش کررہے ہیں ۔ ان مثالی شخصیات کی مثالیت کو جب اعتبار و تاثیر کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تلوں میں تو تیل ہی نہیں ہے۔آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو ز ندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کرسکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو ۔قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں۔قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن نبی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط و محیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے۔ اس مضمون میں قیادت کے ان اسلامی اوصاف پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے ذریعے آدمی کو سماجی نظام میں ترقی کے مواقع میسر آسکیں اور نیا خون پرانے خون کی جگہ لیتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق عوام کی بہتر رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دے سکے۔
اخلاص؛۔قیادت کی کامیابی و کامرانی میں اخلاص کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔قیادت یقیناًہمیشہ وقتی مصلحتوں اور تقاضوں کے گھیرے میں رہتی ہے لیکن قائد کا اخلاص و للہیت اسے وقار و مرتبہ عطا کرتا ہے۔عبادات میں اگر اخلاص شامل نہ ہو تو فر ض تو ادا ہوجائے گا لیکن عرفان الہی کی دولت سے انسان محروم رہے گا۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوت حق پر آپ کو مکہ کے بت پرستوں نے کتنی اذیتیں نہ دیں ،کیسے کیسے لالچ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کونہیں دیئے گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پائے استقامت و اخلاص میں کوئی فرق نہیں آیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر طر ح کی اذیتیں برداشت کیں اور ہر قسم کی لالچ کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔دنیا گواہ ہے کہ یہ مشقتوں اور آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا اور صرف 23سالوں میں صفحہ ہستی پر ایک ایساعظیم انقلاب رونما ہوا جس نے ہر ظلم ، ہر باطل کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا ۔کسی بھی تحریک انجمن اور تنظیم کے قائد اور کارکنان میں خلوص نیت کا پایا جانا اہم ہے۔جب قائد و قوم اخلاص سے متصف ہوجاتے ہیں تو ان کے قدموں تلے عظمتوں اور رفعتوں کے پرچم سرنگوں ہوجاتے ہیں۔
علم ؛۔علم ملک و ملت کے لئے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔علم میں انسانوں کی بھلائی،بہتری،ترقی ،استقامت ،تزکیہ ،رشد و ہدایت ،سعادت مندی اور نسلوں کا تحفظ پنہاں ہے۔علم سے ذہن و دل روشن ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو علم کے ذریعے فرشتوں پر برتری عطا فرمائی’’اور آدم (علیہ السلام)کو تمام چیزوں کے نام بتلائے ،پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیااور فرمایا ،اگر تم (اپنی بات میں)سچے ہوتو مجھے ان کے نام بتلاؤ(البقرہ31)۔قیادت کے تقاضوں میں علم و حکمت کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔علم سے آدمی میں خیر و شر کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ قوت تمیز کے فروغ و جلا کے لئے قائد میں عام افراد سے زیادہ علم کا ہونا ضروری ہے۔علم انسان میں عدل و توازن پیدا کرتا ہے۔علم کی وجہ سے انسان میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے ’’یقیناًبندوں میں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے علم والے ہی ہوتے ہیں‘‘(فاطر28)۔علم کی وجہ سے اعمال میں حسن و خوبی پیدا ہوتی ہے۔انسان کا عقیدہ ،اخلاص اور سنت کی پیروی علم کے ذریعے ہی ممکن ہے اللہ کا فرمان ہے ’’جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔(محمد:19)اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قول و عمل سے پہلے علم کا ذکر فرمایا ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہے کہ قیادت کے فرائض انجام دینے والے شخص کا علم و حکمت سے متصف ہونا لازمی ہے۔قیادت کا ضروری علوم سے لیس ہونا لازمی ہے تاکہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی درست طریقے سے انجام د ے سکے اور وقت ضرورت دوسروں کی تربیت کے فرائض بھی بہتر طور سے انجام دے سکے۔قائد کے علم میں اتنی وسعت ہو کہ دوسرے مشورے اور رہنمائی کے لئے اس کی طرف دوڑے چلے آئیں۔
حکمت؛۔عقل و حکمت قیادت کی دوسری شرط ہے ۔ایک عام انسان کے بہ نسبت قائد کا زیادہ عقل مند ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآں ہوسکے اور عوام کی رعایت کرسکے۔عقل و حکمت اور دانشوری سے قائد میں تجربہ،فکر اور تدبیر کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔قائد میں عقل و حکمت جیسے اوصاف کو لازمی گردانا جاتا ہے ۔قائد اپنی دانشوری کو برؤے کار لاتے ہوئے بہت احتیاط سے گفتگو کرتا ہے۔دانش مندی اور حکمت مظاہر عقل میں سے ایک عظیم مظہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں‘‘۔(البقرہ 269)۔قیادت کے فرائض انجام دینے والے اشخاص کے لئے قرآن اور سیرت رسول کا مطالعہ لازمی ہے ۔قرآن مجید ایک کتاب انقلاب ہے۔قرآن نہ صرف عصر حاضر کے فتنوں اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ تمام مسائل کا کامیاب حل بھی فراہم کرتا ہے۔جہاں اخلاقی ہدایات دیتا نظرآتا ہے وہیں اقتصادی نظام کی ٹھوس بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔نہ صرف حلال و حرام کی تمیز سیکھاتا ہے بلکہ حق و باطل میں فرق کی تمیز بھی پیدا کرتا ہے۔ عام انسان ،نوجوان اورقیادت کے علمبردار اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔علم و حکمت ،دانش و بینائی کے لئے قائد ین کواس کتاب الہی سے رجوع کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ امن و انصاف کو دنیا میں رائج کیا جاسکے۔
یقین واعتماد؛۔قیادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضہ یہ بھی ہے کہ قائد کو اپنی ذات پر کامل اعتماد ہو اور قوم کو اپنے قائد کی صلاحیتوں پر۔اعتماد قیادت کی اعلیٰ ،اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔قائد جتنا پراعتماد ہوگا اسی قدر و صائب رائے ہوگا۔ اقبالؒ فرماتے ہیں
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے پہلے قائد کا اللہ کے بعد اپنی ذات پر کامل یقین و اعتماد ضروری ہے۔اعتماد جرات کو جنم دیتا ہے اورجب جرات پیدا ہوجاتی ہے تو غلام بھی آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگتے ہیں۔ایک پر اعتماد قیادت اپنے پیروکاروں میں اعتماد و یقین کی ایسی فضا پیدا کردیتی ہے کہ گدا بھی بادشاہوں کے جاہ و جلال کو خاطر میں نہیں لاتے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کی ذات پر کامل یقین اوراورخود اعتمادی ہی تھی کہ وہ دہکتی آگ کے شعلوں میں کود پڑے اور ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابربھی لغزش نہیں آئی بہ زبان علامہ اقبالؒ
بے خطر کود پڑا آتش نمرو د میں عشق عقل ہے محوئے تماشہ لب بام ابھی
اللہ پر یقین اور اپنی ذات پر جب اعتما د ہوتو نصرت الہی مدد کے لئے پہنچتی ہے ’’ہم نے فرمایا ؛اے آگ تو ابراہیم (علیہ السلام)پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہوجا۔‘‘(الانبیا69) ۔
مقصد سے آگہی/ نصب العین؛۔قائد کا نصب العین اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔دوراندیش ولائق قیادت اپنے ملک و قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو وضع کرتی ہے۔قائد کا فرض ہے کہ وہ متعین مقاصد کو صاف اور شفاف انداز میں پوری قوم کے آگے پیش کرے اور خیال رہے کہ مقاصد کے متعلق قائد اور قوم میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔مقاصد واضح ہوں اور مقاصد کے ادراک و تفہیم میں کسی کو بھی کسی قسم کی دشوار ی نہ پیش آئے ۔ اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں زندگی کا مقصد و مدعا بیان کردیا ہے ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘( الذاریات) ۔ اگر ایک جگہ اللہ نے حسن عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘( الملک) تو دوسری جگہ زندگی کا مقصد اور کامیابی کو تزکیہ نفس قراردیا ہے۔’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔‘‘( الاعلیٰ)۔قرآن کی ان آیات سے جہاں انسان کے مقصد حیات اور زندگی کی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھا جاتا ہے وہیں قیادت کے مقاصد بھی بڑے واضح انداز میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں’’لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے‘‘۔مقاصد پوری قوم کی آرزؤ ں اور تمناؤ ں کا مرکز ہو تے ہیں اسی لئے قائد مقاصد کے تعین میں اپنے ملک و قوم کے معاشی ،سیاسی،معاشرتی ،اخلاقی،مذہبی ،دینی،اور علمی حالات کو پیش نظر رکھے۔اسلام قائد کو اونچا مقام ضرور عطا کرتا ہے لیکن وہیں اسے پابند بھی کرتا ہے کہ وہ قوم کا خادم ہے’’قوم کا سردار ،قوم کا خادم ہوتا ہے۔‘‘
اولوالعزمی؛۔قرآن نے صبر کا ایک ساتھی عزیمت کو قرار دیا ہے۔’’اور جو بھی مصیبت تمہیں پہنچے ،اس پر صبر کرو،بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(سورہ لقمان)عزم کے معنی پختہ ارادہ ہے۔ وہ آدمی اولوالعزم ہے، جو کسی مقصد کے لیے ارادہ کرے اور اس پر جم جائے۔ ایسا آدمی جو اپنے مقاصد میں پر عزم ہو اور اس کی نگاہیں اپنی منزل پرجمی ہوں تب وہ راستے کی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ اس کے برعکس جس کے پاس عزم و ہمت کی کمی ہوگی اس کے ارادے پختہ نہیں ہوں گے اور وہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی طرح میدان آزمائش سے بھاگ کھڑاہوگا۔پست عزم و حوصلے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔اولوالعز م قیادت مصائب و وسائل کی کمی کاشکوہ کرنے کے بجائے عزیمت سے مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی سمت گامزن رہتی ہے۔ حضرت عمرؓ ابو عبیدہ بن جراحؓ سے فرماتے ہیں’’فتح امید سے نہیں ،یقینِ محکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘طارق بن زیاد کو جب اندلس کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا گیاساحل سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک تاریخی اور حیران کن اقدام کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلادیں اور فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی کہ’’ہم لو گ یہاں اللہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی حکومت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں گے یا پھر اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کردیں گے لیکن اللہ کی حکومت قائم کیئے بغیر نہیں لوٹیں گے‘‘۔یہ طارق کی اولوالعزمی ہی تھی کہ پوری فوج میں ایک ولولہ پیدا ہوگیا اور انھوں نے اندلس کو فتح کرلیا۔
احساس ذمہ داری؛۔اسلام ہر انسان میں احساس ذمہ داری اور جوابدہی کا جویا پیدا کرتا ہے ۔یہ احساس انسان میں نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، صالحیت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عالی شان ہے ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘(بخاری)۔ذمہ داری اور جواب دہی کے اسی احساس نے صحابہ اکرمؓ کو دنیا والوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بنا دیا۔سرکارصلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ میں ذمہ داری اور پاسداری کا ایسا جویا پیدا کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے ایک روشن مثال ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے پوری ذمہ داری اور دوراندیشی سے خلافت کے فرائض کو انجا م دیا۔بیت المال سے کسی قسم کی مد د یا رعایت کبھی حاصل نہیں کی اور نہایت کسمپرسی میں زندگی گزاری۔دنیا کے ایک وسیع رقبے کو اسلامی حکومت کے پرچم تلے کرنے والے حضرت فاروق اعظمؓ کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ کھجور کی چٹائی پر سوتے راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیر ی کرتے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے حتی کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لادکر رعایا تک پہنچاتے کیو نکہ آپ نے اپنے آقا و قائد سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک سے خندق کھودتے ہوئے دیکھا تھا۔قائد اپنی قوم کا سربراہ ہوتا ہے ۔یہ مخدوم نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔عوام کی خیرخواہی،ان کی ضرورتوں کا خیال،ان کی بہتری کی فکرنہ صرف قائد کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کا فرض منصبی بھی ہے۔قائد میں جب احساس ذمہ داری و جواب دہی جاگزیں ہوتا ہے تو وہ اپنے فرائض کو ٹھیک طور سے انجام دیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام اور اس کے ماتحت اس سے خوش رہتے ہیں۔ان میں جاں نثاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ قائد کو اپنا عملی تعاون پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
امانت و دیانت؛۔قیادت ایک امانت ہے اور اس کو اہل افراد تک پہنچانا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔’’مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناًاللہ سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘(سورہ النساء 58)قیادت جب اہل و اعلیٰ صفات افراد تک پہنچتی ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکراعلیٰ نصب العین کی جانب گامز ن رہتے ہیں۔مذکورہ آیت خاندانی اور موروثی حکمرانی وقیادت کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہے ۔موروثیت،طاقت ،اثر و رسوخ کے بل پر کوئی قیادت کا دعویدار نہیں ہوگا۔قائد وہی ہوگا جوقیادت کا اہل ہوگا،عوام کو جواب دہ ہوگاان کی خیر و بہتری کے اقدامات کرنے والے ہوگا۔
قوانین واصولوں کی پاسداری؛۔قائد اگر پابند ڈسپلن ہوتو اس کا خوش گوار اثر معاشرے ،ماحول اور عوام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ قائد کی ذات اصول و قوانین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے ساتھ قائد کی اصول و قوانین پر عمل پیرائی لازمی ہے۔قیادت کی اصول پسندی سے اس کے رعب ، دبدبے اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چوری کی مرتکب عرب کی ایک معزز وبا اثرخاتون کے ہاتھ کاٹ دینے کا جب حکم جاری فرمایاتو اس کے قبیلے والوں نے رسوائی اور سزا سے بچنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سفارش کی ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں،بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘یہ حدیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔قائد میں جب اصولوں پسندی کا یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو ہر طرف امن و امان کا دور دوررہ رہتا ہے۔امیر غریب الغرض معاشرے کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں۔
اعتدال ؛۔ہر کام کو عمدگی سے انجام دینے کے لئے اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اور ہم نے تمیں امت وسط بنا یا ہے۔‘‘(سورہ البقرہ ۔341)اللہ رب العز ت نہ صرف امت کے ہر فرد کو اپنی زندگی میں اعتدال و توازن برقراررکھنے کا حکم دیتے ہیں بلکہ ہادی اعظم صلی اللہ و علیہ سلم کو بھی اعتدال والی روش اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اے محمدؐ! کہہ دیجئے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔(اعراف ۔92)۔قیادت کے مطلوبہ اوصاف میں اعتدال اور توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہر شخص کو اور بالخصوص قائد کو اپنی زندگی میں شدت پسندی،افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا چاہئے۔
عدل و انصاف؛۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے وہ خود تمہیں نصیحت کررہا ہے کہ تم نصیحت کرو۔‘‘ (سورہ النحل) اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان ہے، جس پر عمل پیرا ہو کرنہ صرف دنیا کی مختصر سی زندگی کو کارآمد بنایاجا سکتا ہے بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنواراجا سکتا ہے۔پہلا حکم عدل کرنے کا ہے۔ عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے بھی ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے تھے۔قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا۔ فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے اس سے بھی کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔حضرت عباسؓ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اس لیے چند صحابہ اکرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور انہیں یو نہی رہا کر دیا جائے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباسؓ سے ان کی امیری کی وجہ سے حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی)۔ اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں قرابت بعد میں ہے اور عدل و انصاف پہلے ہے۔عدل کا دوسرانام اعتدال بھی ہے۔ یعنی آدمی کسی بھی معاملے میں افراط یا تفریط سے کام نہ لے ۔قائد اس با ت کا خاص خیال رکھے کہ ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل وانصاف کے تقاضوں کے منافی ہوتی ہے۔عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل حاکم و رعایا سب پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ حکام(قائدین)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ ’’اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو یقیناًوہ بہتر چیز ہے اس کی نصیحت تمہیں اللہ کر رہا ہے، بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء) سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بلاتخصیص عوام و خواص کو یہی احکامات صادر فرمائے ہیں۔’’کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہر گز نہ چھوڑو،عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت قریب ہے۔‘‘(المائدہ۔8)عدل کا ایک مترادف لفظ انصاف بھی ہے۔عدل کرنے والے کو عادل اور انصاف کرنے والے کو منصف کہاجاتا ہے۔قائد کا عدل و انصاف کے صفات سے متصف ہونا بہت ضروری ہے۔اگر قیادت عدل و انصاف سے کام لینے میں پہلو تہی کر ے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑے گا۔عدل و انصاف کے بغیرامن و امان کا تصور بھی محال ہے اسی لئے قیادت کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر معاملے میں عدل و انصاف کادامن تھامے رہے ۔
شجاعت ؛۔قائد میں شجاعت کاہونا بے حدضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امارت ،قیادت و سیادت ممکن نہیں ہے۔سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ سے زیادہ حسین اوربہادر تھے(بخاری)۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل موقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑجاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہتے ، پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے اور کبھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (الرحیق المختوم)۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ کر (خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرو نہیں (کوئی خطرہ نہیں ہے) (مسلم) اگر آج ہم اپنے سینوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت بھر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
سخاوت؛۔سخاوت ایک عبادت اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز کو اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور جتنا بھی تھا سارا کا سارا اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور اپنے پاس کچھ بھی باقی نہ رکھا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی نے مانگا تو آپ نے انکار نہیں کیا،حتیٰ کہ ایک آدمی نے بکریوں سے بھری وادی کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنے تن پر موجود قمیض بھی اتار کر دے دی۔یہ بھی آپ کی سخاوت ہی ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی امت کی خیر خواہی کیلئے وقف کردی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں’’ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہے۔‘‘(سورہ سبا)۔امت سے آپ کی محبت بھی آپ کی جود و سخا کی ایک مثال ہے۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلمسب سے زیادہ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ایک تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال آپ کے پاس آتا اسے فوراً مستحقین تک پہنچا دیتے۔ جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہئے۔قیادت کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں ہے۔ سخاوت کے کئی طریقے ہیں۔ مال خرچ کرناسخاوت ہے۔ظالم کو معاف کر دیناسخاوت ہے۔ زیادتی کرنے والے سے درگزرکرناسخاوت ہے۔ قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑناسخاوت ہے۔مسلمانوں کی اصلاح کرناسخاوت ہے۔ غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دیناسخاوت ہے۔کسی کا عذرقبول کرناسخاوت ہے۔علم و معرفت اور اپنا تجربہ کسی کو دینا سخاوت ہے۔اپنے حقوق سے دستبردارہونا سخاوت ہے۔کسی کی حوصلہ افزائی کرناسخاوت ہے۔کسی کی عزت افرائی کرناسخاوت ہے۔معاشرے کے کسی بگاڑ کو دورکرناسخاوت ہے۔ اپنا وقت کسی کو دینا سخاوت ہے۔کسی کی حق پر سفارش کرناسخاوت ہے۔کسی کی خدمت کرناسخاوت ہے۔تکلیف دہ اشیاکو راستے سے ہٹانا اورلوگوں کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ چلنا بھی سخاوت ہے۔قیادت کوعلم ہونا چاہئے کہ سب سے آسان ترین سخاوت، ایک مسکراہٹ، کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ملاقات کرنا،اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کردینا، دوا خرید کر دینا،یہ بھی سخاوت ہے۔نہ صرف قیادت بلکہ اب جو چاہے سخاوت کرے ۔سخاوت پر عمل کرنے کے لئے سخاوت کے دروازے اب ہر ایک کے لئے کھلے ہیں ۔
حسن اخلاق؛۔اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں۔حسن اخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔حسن اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھے دلوں میں امید ،عزم ، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ روز قیامت میزان میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم اخلاق و کردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اخلاق کریمانہ سے پوری دنیا کو فتح کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بڑوں سے عزت ،چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یتیموں، غیریبوں اور نادار لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے اور ان سے محبت ،رحم دلی اور جودو سخا کامعاملہ فرماتے تھے۔ گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے۔ام المومنین حضرت عائشہؓ سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے بتا یا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق مکمل قرآن تھے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ آپ نہ تو فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے۔اللہ رب العزت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے ہی اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع اخلاق ہی تھے جس سے دشمن دوست، بیگانے اپنے اور سخت دل نرم خوبنے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ ترجمہ ۔اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق بہت بلند ہے۔ (سورہ قلم) موطا امام مالک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میں بہترین اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں خادم رسول حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے دس برس تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی’’ اس مدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہیں کیا‘‘(مسلم) قائد کے اخلاق و اطوار مثالی ہونے چاہئے۔قائد کے لئے منصب کے حصول سے زیادہ عوام کے دلوں میں جگہ بنانا ضروری ہوتا ہے اورجو دلوں کو فتح کرتا ہے وہی حقیقی فاتح کہلاتا ہے۔
وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کرلے وہ ہی فاتح زمانہ
ایفائے عہد؛۔ایفائے عہد کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔قائد میں عہدو پیمان کی پاسداری اگر نہ ہو تو عوام کا قیادت پر سے یقین و اطمینان اٹھجاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وعدے کے اتنے پکے تھے کہ کفارمکہ آپ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔آج قیادت دھوکہ دہی،مکر و فریب ،جھوٹ،بددیانتی ،خیانت جیسے موذی امراض میں مبتلاہے۔بات بات میں جھوٹ بولنا اور معاملات میں بددیانتی کرنا آج کے قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے۔اسلام میں ایفائے عہد کا بڑی سخت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی و عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘(بنی اسرائیل) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے وفا کرتے ہیں ۔خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (الحج)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ (بخاری) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں ایفائے عہد کس قدر اہم تھا۔قائد و کارکنان ہر دم دوست ہو یا دشمن ،اپنا ہو یا بیگانہ،مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ عہد و پیمان کی پابندی کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے معاہدات اور عہد و پیمان کا پور اپورا خیال رکھتے تھے ۔حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا رضی اللہ تعالی عنہ کا قصہ عجیب ہے۔
فرماتے ہیں: نزول وحی اور اعلان نبوت سے پہلے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کردوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر اس سے بھی زیادہ عجیب یہ کہ میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔بس صرف اتنا ہی فرمایا: تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا ا نتظار کر رہا ہوں۔)سنن ابوداؤد(۔آج کی قیادت خاص طور پر مسلم قیادت میں وعدے اور معاہدے کی پاسداری کا فقدان ہے۔ایفائے عہد کی تکمیل کے بغیر قیادت نہ تو مقبول ہوتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھتی ہے۔
حلم و بردباری(جذباتی ذہانت)؛۔ بعض لوگ اپنے انتہائی بلند آئی کیو لیول کے باوجود دوسروں کی رہبری سے قاصر رہتے ہیں۔ انتہائی ذہین لوگ بھی تنظیمی و انتظامی امور میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اس کی ایک بالکل سادہ سی وجہ جذباتی ذہانت کا فقدان ہے۔ قائد کا اپنے پیروں اور کارکنان کے مثبت اور منفی جذبات کو پہچان کر خود اپنے جذبات پر قابو رکھنا، ایک اچھی اور کامیاب لیڈرشب کی ضمانت ہے۔حلم و بردباری کی تعریف یہ ہے کہ قائد کسی ناگہانی صورتحال میں بھی جذبات کی رو میں نہ بہے۔ناگہانی صور تحال میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھے ۔معاملے پر نہایت سنجیدگی سے غور وخوض کرے۔دوراندیشی سے کام لے اور زعمائے قوم سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ قائد ،قیادت کے نشے میں کسی سے مشاورت کو درخوراعتناء نہیں سمجھ کر جذبات کی رو میں ایسے فیصلے کربیٹھتاہے جو قوم اور ملک کے مفاد میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔نبوی تعلیمات کی روشنی میں وہ حلم قابل تعریف ہے جس میں گالیاں دینے والے کو بھی دعائیں دی جاتی ہیں۔زیادتی کے مرتکب افراد کو نہ صرف معاف کردیا جاتاہے بلکہ اس سے مزید حسن سلوک کا معاملہ کیا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ذاتی دشمنوں اور عزیزوں کے قاتلوں کو تک معاف فرمادیا۔ یہ معاملہ اور حسن سلوک دنیا کی تاریخ میں حلم و بردباری کا ایک سنہری باب ہے۔مختصراً ذاتی معاملات اور نظریات میں اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کرنے اور ان سے حلم و بردباری سے پیش آنا قیادت کی مقبولیت اور اثر پذیری میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔
نرم خوئی(رفق)؛۔ نرم خوئی قیادت کے لئے بہت ضروری ہے۔اگر قائد کے دل میں نرمی ہوگی تو کارکنان(عوام) کے دل میں بھی اس کے لئے محبت و عزت ہوگی اور معاشرہ فتنے و فساد سے محفوظ رہے گا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یا اللہ جو کوئی بھی میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی بھی میری امت کے کسی امر کا ولی بنا اور اس نے نرمی کی تو تو بھی اس پر نر می فرما۔‘‘(مسلم)اور ایک حدیث جو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نرمی فرمانے والاہے او نرمی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(مسلم)مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہوجاتی ہے کہ قیادت (اولوالامر ) کے لئے نرم خوئی(رفق) انتہائی اہم ہے۔
عفو درگزر؛۔زندگی کے سفر میں بعض مرتبہ ناراضگی اوررنجش پیدا ہوسکتی ہے۔ایسے موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپسی رعایت اور عفو ودرگزر کے ذریعے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔عفو و درگزر کی وجہ سے زندگی کے معمولات احسن طریقے سے انجام پاتے ہیں اور سماجی تعلقات اور رشتوں کے درمیان توازن اور الفت پیدا ہوتی ہے۔عفو و درگزر کی صفت قائد کی عظمت کو بلندی عطا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ بھی عفودرگزر سے کام لینے والے بندوں کو پسند فرماتا ہے۔’’اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(بقرہ)قائد کو چاہئے کہ اپنے اعلیٰ کردار اور عفو ودرگزر کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے انہیں حقائق سے روشناس کرائیں۔قیا دت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سختی ،رعونت اور درشتگی کبھی بھی مفید اور کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔سخت مخالفت اور تعصب کے باوجود قائد کو نرمی اور خوداری کا مظاہرہ پیش کرنا چاہئے۔قائد اگر اللہ کی رحمت اور نصرت کا طلب گار ہے تو اسے چاہئے کہ وہ عفوودرگزر کو اپنے اخلاق کا لازمی حصہ بنائے۔
رواداری؛۔سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قائد میں رواداری کا عنصر ہونا بے حد ضروری ہے۔قائد کو چاہئے کہ کو اپنے ہم عقیدہ ،ہم نظریہ اور ہم مذہب سے ہی نہیں بلکہ غیر مذہب اور دیگر عقائد و نظریات کے حامل لوگوں سے بھی رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئے۔قائد کے اردگرد مختلف نظریات اور مختلف ذہنوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کے مذہنی نظریات و عقائد کا پا س و لحاظ رکھے اور نہیں مذہبی عبادت کی پوری آزادی فراہم کرے۔اسلام رواداری والا ایک ایسا واحد مذہب ہے جو مسلمانوں کو دیگر باطل مذاہب کے معبودوں کے متعلق بدکلامی اور گالیاں دینے سے روکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رواداری اور صلہ رحمی کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ جس کی مثال قیامت تک کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ایک عیسائی وفد نجران سے مدینہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مناظرے کے مقصد سے آیا۔ وفد کا ذہن مذہبی عداوت اور تعصب سے زہر آلود تھا۔جب اس وفد کے قیام کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے مسجد نبوی میں ٹھہرانے کا حکم دیا اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے رجوع کیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت کی اجازت مرحمت فرمادی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ رواداری سے اغیار قریب آتے ہیں اور اچھائیاں از خود جنم لینے لگتیں ہیں۔
عوامی رابطہ؛۔ ایک اعلیٰ قیادت خود کو کبھی بھی دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رکھتی ۔اسلام ہمیں لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اور لوگوں سے منہ پھیرکر زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید نے سختی کے ساتھ اس امر سے منع کیا ہے۔ ’’وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ترجمہ؛۔اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘ ۔(سورہ لقمان)صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ قیادت جب اناپرستی کا شکار ہوجاتی ہے تو قائد کا رویہ بھی بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے۔قائد کو اس طرح کے افعال سے سختی سے اجتناب کرنا چاہئے۔
معلومات کا ذخیرہ؛۔دنیا میں جتنے بھی کامیاب لیڈر گزرے ہیں ان میں سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور نئی معلومات اکٹھی کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قائد کے پاس مفید معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ قائد اپنی معلومات کی بنیاد پر جو اچھا یا غلط فیصلہ کر ے گا اس کا براہ راست اثر اس کے پیرروں اور متعلقہ ادارے پر پڑے گا۔ بعض اوقات غلط معلومات یا معلومات نہ ہونے کی وجہ سے قائد سے ناقابل تلافی سرزدہوجاتی ہے۔قائد کو اپنے وسائل سے باخبر اور آشنا رہنا چاہئے۔ قائد کو سخت محنت کے بجائے دانشمندانہ سرگرمیوں اور افعال کی جانب رخ کرنا چاہئے۔ اکثر عام قائد سخت اور کڑی محنت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ایک ہی کاز کی تکمیل کے لئے دیر تک کاوش و کوشش کرنا سخت محنت کے زمرے میں آتاہے۔دانشنمدانہ انداز میں مسائل و کاز کو تخلیقی ،تعمیری اور منطقی انداز میں دیکھا جانا ضروری ہے ۔اس طریقہ کار میں تنوع پایا جاتا ہے۔اگر سخت محنت کے نکتہ پر ہی انسان اڑا رہتا تو بتایئے کہ گوگل اورجاوا جیسی اختراعات آج عالم منظر پر نہیں ابھرسکتی تھیں۔قائد اسی لئے ہاڑورک کے ساتھ اسمارٹ ورک کو ترجیح دے۔اپنے کارکنوں کے اچھے افعال و اعمال کی ستائش کرے۔کارکنوں کو اختیار ات تفویض کرنے کے بجائے انھیں ذمہ داری سونپے۔
قوت فیصلہ؛۔ عام حالات کی طرح مشکل اور ہنگامی حالات میں ہر شخص کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ ایک بااثر قائد مشکل اور کٹھن وقت میں بھی اپنی دانش و بینش کے بل پر اہم فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہتر قائد ہمیشہ فیصلہ سازی میں جماعت کے تجربہ کار اہل علم افراد کو نہ صرف شامل رکھتا ہے بلکہ ان تجاویز و آرا پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔آرا وتجاویز کو رد کرتے وقت ان کی عزت نفس کا بھی خاص خیال رکھتا ہے۔اگر قائد ان امور پر توجہ مرکوز نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کے مشوروں اور تجاویز سے وہ محروم ہوجائے گا اور وہ اسے ایک آمر یت پسند قائد کے طور پر دیکھنے لگیں گے۔
تجربہ و مہارت؛۔قیادتکسی چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہییا پھر ایک بڑی جماعت کی بھی ۔قیادت ادنیٰ درجے کی بھی ہوسکتی ہے اور اعلیٰ درجے کی بھی۔قائد کو جب کوئی قیادت سونپی جائے وہ اس میں مہارت رکھتا ہو یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات کا اسے علم ضرور ہو بصورت دیگر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا۔قائد کا زندگی کے دیگر شعبہ جات جیسے علم ودانش ،معاشیات،مالیات،سیاسیات،قانون،ثقافت،تعلیم و تربیت ،طب و صحت،فلاح و بہبود وغیرہ سے بھی آگہی رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ قیادت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہیں دے پائے گا۔
مسائل کا حل؛۔قائد کے لئے عوامی (تنظیمی)حالات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ان کی فلاح وبہبود کے کام انجام دے سکے۔قائد اپنے کارکنوں اورپیروں سے باخبر رہے ۔اس جانب قرآن ہماری توجہ مبذول کرتاہے’’انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا ہوگیا مجھے ہدہد نظر نہیں آرہا ہے وہ غائب ہے۔‘‘ (سورہ نمل)۔اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنہیں اللہ نے عظیم الشان سلطنت عطا کی تھی وہ نہ تو ہدہد سے بے خبر تھے اور نہ ہی اس کے معاملات سے۔حضرت عمرؓ رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اسی لئے آپ نے کہا ’’اگر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ (بھوک سے)بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء)
دوسروں تک اپنا پیغام پہنچانے کافن؛۔ تقریر ہو یا تحریر، قائد کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہئے۔ اسکے پاس اچھے اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز جیسے عناصر کا لازمی طور پر ذخیرہضروریہے۔قائدین مطالعہ اور اہل علم حضرات کی صحبتوں سے اپنی اس کمی کو دور کرسکتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن در رمیں ایسی صفات کی حامل قیاد ت کا ملنا مشکل تو ضرورہے لیکن محال بھی نہیں ہے۔آج قیادت بدترین شخصیت پرستی اور آمریت کے دور سے گزر رہی ہے۔قیادت و سیادت آج احساس ذمہ دار اور اپنے فرض منصبی سے عاری ہے۔قیادت عیاری ومکاری کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔قوم کے مال پر قائدین اپنی زندگی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور کروفر سے بسر کررہے ہیں۔معصوم عوام قیادت کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیاد ت کی عیاری سے واقف نہیں ہے ۔یہ بالکل واقف ہیں لیکن ان کے پاس جرات نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتو بھی یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاعلم ونابلد ہیں۔علم آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے پھر اعتماد آدمی میں جرات پیدا کرتا ہے۔شخصی و موروثی قیادت کی موجودگی میں نوجوان نسل کی قائدانہ تعلیم وتربیت کا انتظام کیئے بغیر اس منظر نامے کو نہ تو ہم بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی ،خوشحالی اور امن و استحکام کی توقع کرسکتے ہیں۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...