بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد میں اضافہ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت بچوں کو جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی کئی رپورٹ شائع کی جاچکی ہیں اور مسلسل کی جارہی ہیں مگر ماضی کی طرح اب تک حکومتی دعوے اور وعدے نہ ہونے کے برابر ہیں،گزشتہ تین سال کے عرصے میں بچوں پر ہونے والے تشدد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جو ایک حیرانگی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے پڑھے لکھے معاشر ے کے منہ پر طمانچہ ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں کیا جارہا ہے جہاں حکومتیں بچوں پر جنسی تشدد کو’ معاشرتی معمول ‘سمجھ کر قبول کر رہی ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے ہزاروں کیس اب بھی عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں تو دوسری جانب اسی طرح بچوں کے اغواہ کا ’کاروبار‘ بھی اس وقت پورے زور پر چل رہا ہے۔ بدقسمتی سے اغوا برائے تاوان اب ایک مستقل ،منافع بخش اور قابل عزت کاوبار بنتا جا رہا ہے ،اس گھناؤنے فعل کو معزز رتبہ دینے میں ہماری حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے۔سندھ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاپ اغواہ برائے تاوان کے بڑے بڑے مراکز ہیں۔یہاں پر کالعدم جماعتیں، سماج دشمن مافیاز اْور کچھ مقامی اوباش قسم کے لوگ بچوں کو اغوا کر تے ہیں۔اْور اِن پر جنسی تشدد بھی کر تے ہیں۔معصوم بچے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں تو وہیں انسانی حقوق کے وزیر اپنے موقف دینے تک کو تیار نہیں ہوتے ۔
ایک طرف ماں باپ اپنی عزت بچانے کیلئے آواز بلند نہیں کرتے اور اگر غلطی سے کردیں یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ اگر اس بدبخت فعل کے اوپر آوازاٹھا دیتا ہے تو رہبرانِ ملت کے کچھ وزراء اس کو دھمکی اور جان سے مارنے کے فلک شگاف نعرے بلند کردیتے ہیں،ثقافتی تنزلی کا اِس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر چھوٹی بڑی آبادی میں گلی محلوں کی بنیاد پر اْوباش لوگوں نے اپنے اپنے ’ کریمنل گروپ‘ بنائے ہوتے ہیں جوریاست کے ’مقدس قانون‘سے کھلواڑ کر تے رہتے ہیں تمام گروپوں کو سیاسی مافیا کی حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے۔
افسوس کا مقام تویہ یہ کہ پاکستانی قانون نافذ کر نے والے اداروں سے رابطے ہوتے ہیں ،یہ لوگ جب بچوں کو اغوا کر تے ہیں یا ان پر جنسی تشدد کر تے ہیں تو ان کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔تھانے میں ملزمان کو ’’پروٹوکول‘‘ملتا ہے اور مدعی کی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کی کتنی ہی مثالیں ماضی میں مل چکی ہیں بعض جگہ تو دونوں پارٹیوں کو سامنے بیٹھا کر باقاعدہ مدعی سے معافی منگوائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بہت سے لو گ بچوں پر جنسی تشدد کی رپورٹ درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔
پاکستان کی جیلوں میں قیدی بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے حوالے سے عوامی سطح پر آگاہی نہ ہو نے کے برابر ہے۔ان قیدی بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کبھی کبھار اخبارات میں کوئی خبر شائع ہو جاتی ہے ،وگرنہ اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی انفارمیشن نہیں ہے کہ جیل میں قید بچوں کے ساتھ کیا ’سلوک ‘ کیا جاتا ہے۔پاکستانی جیلوں میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔وہاں پرموجود ’سپاہی‘ چند ٹکوں کی خاطر کم سن بچوں کو جرائم پیشہ لوگو ں کی بارکوں میں رات کے وقت چھوڑ دیتے ہیں ،قیدی اِن بچوں کے ساتھ زبردستی جنسی فعل کر تے ہیں۔کیا ان مظلوم قیدی بچوں کا بھی کوئی پرسان حال بن سکتا ہے !۔ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟۔کیا یہ پاکستانی نہیں ہیں؟۔یہ وہ سوال ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے اور حکومتی اکابرین کے پاس اس سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے !!!۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جب بھی کم سن بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کا معاملہ زیرِ بحث آیا ہے تو علماء نے معاشرے کی پسماندہ پرتوں میں بڑھتی ہوئی’جنسی پیاس‘ کو ’مغربی تہذیب ‘کے ساتھ نتھی کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
جبری جنسی تعامل کو دنیا کہ تمام سماجوں میں ’قابل سزا ‘ جرم قرار دیا گیا ہے۔مہذب سماجوں میں اس چیز کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔مغرب میں اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے اور یہ بات قابل غور ہے کہ مغرب میں اس طرح کے جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد پاکستان سے کہیں کم ہے۔پاکستان میں اس وقت جنگل کا قانون نافذ ہے ہر سا ل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اخراجات کی مد میں لاکھوں روپے کا بجٹ صرف کیا جاتا ہے جبکہ ان کی کارکردگی صفر ہے۔ایسے حالات میں سب سے زیادہ اثر کم سن اور ناتواں بچوں پر پڑ رہا ہے۔ہر طرف جنسی ہوس رکھنے والے بھیڑیے بچوں کا جنسی استحصال کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
ایسے نظام کا کیا فائدہ جس میں لوگوں کی جان ،مال عزت آبرو اور سب سے بڑ ھ کر تہذیب و ثقافت محفوظ نہ رہے!۔ بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے پولیس کا رویہ روزِ ازل سے ہی ’مشکوک ‘ ہے۔ یہ لوگ چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اسی طرح فرانزک سائنس لیباٹری لاہور کا رویہ بھی ظالمانہ ہے اس ادارے میں بیٹھے لوگ ضمیر فروش راشی ہیں۔یہ لوگ چند پیسوں کی خاطر ڈی۔این۔اے ٹیسٹ میں ہیر پھیر کر کے جنسی بھیڑیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
نظام بنائے جاتے ہیں اور توڑ دئیے جاتے ہیں مگر معاشرے کا ایک خوبصورت اور مستقبل کے معمار بننے والے بچے بے یار و مدد گار سڑکوں اور چوراہوں پرخوار ہوتے نظر آتے ہیں اقتدار اعلیٰ کو اپنی عیاشیوں کی فکر تو ہوتی ہے مگر شاید وہ ان بچوں کو بھول جاتے ہیں جو آنے والے دور میں ان کا سرمایا ہیں ۔عدالتوں کا تو کہنا ہی کیا،عدالتی نظام پر انگلی اٹھانے والے کوغدار ،سرکش،باغی ،گستاخ اور بے ادب کے لقب سے ملقب کر دیا جاتا ہے۔اس لیے عدالتوں کو اپنے حال پر چھوڑنا اور ان پر تنقید نہ کرنا ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے۔ اگر پاکستان کے ریاستی اداروں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو پھر عوام کا سمندر اْٹھے گا اور حکمرانوں کے بتوں کو پاش پاش کر تے ہوئے اپنی تقدیر آپ لکھے گا؟ ۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں