درس و تدریس کو موثر بنانے میں سبق کی منصوبہ بندی (lesson plan) کو کلیدی اہمیت حا صل ہے۔سبق کی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف تدریسی عمل (آموزش) کو دلچسپ اور خوش گوار بنایا جا سکتاہے بلکہ کم وقت میں زیادہ اکتسابی افعال کی انجام دہی بھی ممکن ہے۔ما ہرین تعلیم کی نظر میں ایک کامیاب استاد مو ثر درس و تدریس کے لئے سازگار اکتسابی فضاء ہموار کرتا ہے۔ تدریسی افعال کو سہل اور دلکش بنانے کے لئے ماہرین تعلیم و تجربہ کار اساتذہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں چند ایسے تدر یسی اصولوں اور مہارتوں کووضع کیاہے جو کمرۂ جماعت کے ماحول کو بہتر بنانے میں سود مند ثابت ہوئے ہیں۔تدریسی اصول او ر طریقہ کا ر کا ایک اہم جزو سبق کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے۔اکثر مدارس اور اساتذہ اس اہم کاز کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ تعلیمی مقاصد کا حصول دشوار ہوجاتا ہے اور طلبہ کی ہمہ گیر تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔اساتذہ کی ایسی کثیر تعدا د بھی ہے جو سبق کی ذہنی منصوبہ بند ی کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ در حقیقت سبق کی ذہنی منصوبہ بندی کافی نہیں ہے بلکہ منصوبے کو ذہن سے صفحہ ء قرطاس پر منتقل کر نابھی ضروری ہوتاہے۔ تحریری منصوبہ بندی کا مقصد متعین تدریسی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ مضمون کے استاد کی غیر حا ضری میں دوسرا متبادل معلم بھی تحریر کردہ منصوبہ بند سبق کی روشنی میں بغیر کسی تعطل کے احسن طریقے سے تدریسی عمل کو جاری رکھ سکتاہے۔ جان ڈیوی کی نظر میں”استاد ایک منتظم ہوتاہے جو پہلے تدریسی و اکتسابی سر گرمیوں کو ترتیب دیتاہے اور پھر کمرۂ جماعت میں ترتیب وار ان سر گرمیوں پر عمل پیرا ہوتاہے۔” متعدد ماہرین تعلیم نے سبق کی منصوبہ بندی کے مختلف اصول وپیمانے وضع کئے ہیں لیکن تقریبا ماہرین تعلیم اس بات سے متفق ہیں کہ سبق کی موثر منصوبہ بندی کے لئے (1) سبق کی منصوبہ بندی کا خاکہ ،(2) مقاصد تدریس ، (3) ذہنی آمادگیmotivation))،( 4) بلند خوانی، ( 5) تفہیمی سوالات، (6)نئے الفاظ و معنی کا تعارف، ( 7) سرگرمیاں،( 8 ) سبق کا خلاصہ او ر (9 ) تفویضی کام (ہوم ورک)ضروری ہیں۔
سبق کی موثر منصوبہ بندی تب ہی ممکن ہے جب استاد کو اس بات کا علم ہو کہ وہ کس جماعت کو درس دینے والاہے ، اس جماعت کے طلبہ کی ذہنی صلاحیتیں کیسی ہیں، کو نسا مضمون اور کونسا عنوان پڑھانا ہے،گھنٹے کا دورانیہ کتنا ہو گا اور طلبہ کی کیا تعداد ہوگی اسی لئے ایک استاد کو سبق کی منصوبہ بندی سے قبل سبق کی منصوبہ بندی کا خاکہ تیار کر نا ضروری ہوتا ہے ورنہ سبق کی منصوبہ بندی کتنی بھی عمدہ کیوں نہ ہور تدریس کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔اسی لئے ماہرین تعلیم نے سبق کی منصوبہ بندی کے خاکے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور یہ خاکہ ہی ہوتا ہے جو سبق کو منصوبہ بند طر یقہ سے کا میاب و موثر درس و تدریس کی سمت گامزن کر تا ہے۔سبق کی تدریس سے پہلے سبق سے وابستہ مقاصد کا تعین کر لینا ضروری ہوتا ہے اگر استاد سبق کے مقاصد سے آگا ہی نہ رکھتا ہوتو یہ تعلیم و تعلم پر بہت ہی بد نما داغ سمجھاجاتا ہے۔معلم کو اس با ت کا علم ضروری ہے کہ وہ سبق کی تدریس کے ذریعے طلباء میں کن صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہتاہے۔ابتدائی جماعتوں میں تدریسی مقاصد قلیل ہو تے ہیں اور ان کادائرہ سننے،بولنے،پڑھنے اور لکھنے تک محدود ہوتا ہے جن کو ماہرین تعلیم( LSRW)Speaking,Listening ،Reading اور Writing سے تعبیر کر تے ہیں۔ان ابتدائی مقاصد کو عمومی مقاصد سے تعبیر کیا جا تا ہے جبکہ سبق کے اختتام پر طلبہ میں سبق کے خلاصہ کو بیان اور تحریر کر نے کے استعداد کا حصول، مو ضوع سے متعلق کم از کم پندرہ جملے تحریر کر نے اور سبق میں دئیے گئے نئے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کر نے کی استعداد پیدا کرناوغیرہ تدریس سبق کے خاص مقاصد کہلاتے ہیں۔وہ تعلیم بے اثر اور بے فیض ہو تی ہے جس کا کو ئی منشاء اور مقصد نہ ہو ۔ اس لئے اساتذہ پر یہ قوی ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ وہ تدریسی مقاصد کے تعین میں محتاط رہیں ۔
درس و تدریس کو اس وقت قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے جب استاد دوران سبق مقررہ مقاصد کوغیر محسوس طر یقے سے حا صل کر نے میں کا میاب ہو جا تا ہے۔ اسا تذہ کی تدریسی مقاصد وضع کر نے میں نا کا می طلبہ کے لئے زہر قا تل ثابت ہوگی ا و ر طلبہ جو قوم و ملک کے مستقبل و معمار ہوتے ہیں تعلیمی طور پر معذور و مجروح ہو جا ئیں گے۔آج تدریسی مقاصد کے تعین کی واضح نا کامی کی وجہ سے طلبہ عام سوجھ بوجھ (کامن سینسcommon sense) سے عا ری ہیں۔رٹ ما ر کر امتحانا ت میں اعلی نشانات اور درجہ تو حا صل کر ر ہے ہیں لیکن نفس مضمون کو پا نے سے پھر بھی کو سوں دور ہیں۔ طلبہ ریو نیو اسٹامپ ا ور پوسٹل اسٹامپ اور ایم ایل اے و ایم پی کے ما بین فرق نہیں جانتے۔ اسا تذہ کے تدریسی مقاصد کے تعین میں نا کامی کی وجہ سے ہائی اسکول کی تکمیل کے بعد بھی بچے برقی اور آبرسانی کے بل کی ادائیگی کے طریقہ کار سے نا واقف ہیں اور نہیں جانتے کہ ڈیمانڈ ڈرافٹ اور بینکرس چیک کس طر ح سے بنا یا جا تا ہے اور دونوں کے بیچ کیا فر ق ہے ۔یہ حکومت کی تدوین نصاب کی خامی بھی ہے لیکن اسا تذہ کچھ حد تک ان حالات کے ذمہ دارہیں ۔
تعلیمی و تدریسی مقاصد کے فقدان کی وجہ سے ایسی سند یافتہ جہلا کی ایک فوج ا سکولس اور کالجس سے نکل رہی ہے جو عام سوجھ بوجھ سے کا فی دور ہے۔ان نا مساعد حالات پر ارباب تعلیم و تعلم کو نوحہ کناں ہو نا چاہیئے کہ طلبہ حصول علم کے باوجود دربدر کی ٹھو کر یں کھا نے پر مجبور ہیں۔اساتذہ تعلیم اور زندگی میں وابستگی پید ا کر یں تا کہ اسکولی تعلیم کی تکمیل کے بعد طلبہ کو اسکول کی با ہر کی زندگی اجنبی محسوس نہ ہو۔ سبق کی منصوبہ بندی میں مقاصد تدریس کے تعین کے بعد ذہنی آمادگی (motivation ) کا درجہ آتاہے۔استاد سبق کو مشینی اندازمیں پڑھادینے والے فر د کا نا م نہیں ہے بلکہ استاد ایک رہبر، رہنما ، محرک اور ترغیب کار ہو تا ہے جو طلبہ کی زندگیوں کو سنوارنے میں کو ئی کسر با قی نہیں رکھتا۔ امریکہ کے سالٹ لیک سٹی کے ایک وکیل کے دو توام بونے لڑکوں کو ایک ہی اسکول میں داخلہ نہ ملنے کے سبب علیحدہ مدرسوں میں داخل کر نا پڑا۔ ان میں سے ایک بڑا ہو کر امریکی سینٹ کا معزز رکن بن گیاجبکہ دوسرا ایک معمولی جنرل اسٹور میں چھوٹی سے نوکری کر نے لگا۔غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں کے والدین ایک ہی ہیں لیکن ان کے استاد اور اسکول الگ ہیں۔ استاد پہلے بچے کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی کا نقیب بن جا تا ہے جبکہ دوسرا بچہ استاد کی عدم ترغیب کا شکار ہو کرزند گی میں پچھڑ جاتا ہےِ ۔استاد طلبہ کی تقدیر سنوار تے ہیں پہلے بچہ جو کہ سنیٹر بن گیا اس کو ایک ایسا استاد ملاجو ہر وقت بچہ کو تحریک دیتا تھا کہ رنگ ،نسل،خو ب صورتی و بد صورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ا نسان کی اپنے مقصد کو پا نے کی لگن جستجواہم ہو تی ہے جواس کو کا میابی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ استادکی کا میاب تر غیب کی وجہ سے ایک بونہ لڑکا سینٹر بن جا تا ہے اور اس کا قد اس کی ترقی میں رکاو ٹ نہیں بنتا اس کے بر عکس دوسرا بونہ لڑ کا استاد کے بیجا ترس کی بناء پر احساس بیچارگی اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جا تا ہے۔استاد اس کو سعی و کو شش کا عادی بنا نے کے بجائے تقدیر پر اشک شوئی کا عادی بنا دیتا ہے۔ پہلا بھائی استاد کی تر غیب کی کامیاب مثال ہے جب کہ دوسرا ا بھائی استاد کی نا قص تر غیب کی بد نما مثال ہے ۔اس مثال سے یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ مناسب تحریک و تر غیب طلبہ کی زندگیوں میں خوش گوار تبدیلی کی نقیب ہوتی ہے۔
سبق کی موثر منصوبہ بند ی میں تر غیب و تحریک اہم تصور کی جا تی ہے جس کے ذریعے استاد سبق کے آغاز پر اپنے سوالات اور تجربات کی روشنی میں طلبہ کے ذہنو ں کو تیا ر کر تے ہوئے درس و تدریس کے کام کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔سبق شروع کر نے سے پہلے استاد کو چاہیئے کہ وہ طلبہ سے مو ضوع سے متعلق دلچسپ سوالات کر ے تا کہ طلبہ در س کے لئے ذہنی طو ر پر تیار ہو جا ئیں۔ استاد اگر ذہنی طور پر طلبہ کو آمادہ کرنے میں کا میاب ہو جا تا ہے تو اس کے لئے با قی سبق کی تدریس نہا یت ہی آسان ہو جا تی ہے۔
بلند خوانی کا کام زبانوں کی تدر یس میں بہت اہم ہوتا ہے۔استاد کو چاہیئے کہ بلند خوانی کے دوران طلبہ کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں دور کر یں۔بلند خوانی کے دوران الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر خاص توجہ دیں۔ استاد ہر طالب علم کو ز یادہ سے زیاد بلند خوانی کے مواقع فراہم کرے تاکہ طلبہ روانی سے عبارت خوانی کے قابل ہوجائے ۔ اس مقصد کے تحت ہر طالب علم کو سبق سے چند جملے یا ایک پیراگراف کی بلند خوانی کاموقع فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ ہر طالب علم کو بلند خوانی کا مساوی موقعہ حا صل ہو۔ اس کے علا وہ جو طلبہ پڑھنے سے کترا تے ہیں بلند خوانی سے ان کی جھجھک دور ہو گی اور ان کا اعتما د بڑھے گا ۔بلند خوانی کے دوران معلم کو چاہیئے کہ وہ طلبہ کو اہم نکات سمجھا تا جا ئے اور طلبا ء کو بوریت سے بچانے کے لئے درمیان میں تفہیمی سوالا ت بھی کر تا رہے تا کہ طلبہ سبق کی جا نب بھر پو ر توجہ دے سکیں۔
سبق کی تدر یس کے بعد سبق کو ذہن نشین کر وانے کی خاطر طلبہ سے اعادے کے سوالات کر ے۔درس وتدر یس کے دوران سوالات پوچھنا بھی ایک اہم فن ہے اور اس تکنیک سے درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے متصف ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ سوالات اسی وقت مو ثر ہو تے ہیں جب معلم پہلے سے ا چھی طرح سبق کی تیار ی کرے ۔۔ اگر سبق کی تدریس میں کو ئی کمی بھی رہ جا تی ہے تو استاد کو چاہیئے کہ وہ تفہیمی سوالات کے د و ران اس کا ازالہ کر دے۔ تفہیمی سوالات کے بعد استاد طلبہ کو سبق میں آنے والے نئے الفاظ کے معنی و مفہوم سے آگا ہ کر تے ہوئے ان کو جملوں میں استعمال کر نا سکھا ئے ۔لغت سے طلبہ کو نئے الفاظ کے معنوں کو تلاش کر کے لکھنے کے کام کے ذریعہ استاد طلبہ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھا سکتا ہے۔
زبان کے علاوہ سائنس و دیگر مضامین کی اہم اصطلاحات سے بھی طلبہ کو واقف کرنا اشد ضروری ہو تاہے۔سبق کی تدر یس کے بعد سر گر میوں اور کھیل کھیل میں طلبہ کی صلاحیتوں کو مزیدپروان چڑھایاجا سکتا ہے۔سبق کی اختتام پر تفویض کردہ سرگر میاں سبق کے اعادہ اور سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کر نے میں ممد و معاون ہو تی ہیں۔ سر گر میوں کے ذریعے تیار کردہ تعلیمی اشیاء ماڈلس ،چارٹس، نو ٹس وغیرہ کو بورڈ پر آویزہ کر ئیں تا کہ طلبہ کو احسا س نہ ہو کہ ان کی محنت رائیگاں گئی ہے۔سبق کے تکمیل کے بعد فہم و ادراک اور فکر و تدبر کو فروغ دینے کے لئے استاد طلبہ کو اپنے جملوں میں سبق کا خلاصہ تحریر کر نے کی ہدایت دے لیکن یہ با ت ذہن نشین رہے کہ جماعت چہارم تا ششم کے طلبہ خود سے خلاصہ تحر یر نہیں کر سکتے اس کام کی انجام دہی کے لئے ان کو استاد کی رہبر ی و رہنمائی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔استا د کی رہبری سے طلبہ سبق کا خلاصہ اور سبق یا کہا نی کے اہم نکات کو اجا گر کر نا سیکھ جا تے ہیں۔
سبق کے اختتام پر ہوم ورک کے سوالا ت کے ذریعہ مو ضوع کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ استاد کتا ب کو پڑھا تا ہے نہ کہ کتا ب طلبہ کو پڑھا تی ہے جس طرح ایک خراب کتا ب (مواد) اچھے استا د کے ہا تھ آکر طلبہ کے لئے نعمت غیر مترقبہ بن جا تی ہے اسی طرح ایک بہترین کتا ب نا اہل استاد کے ہا تھ نا کارہ ہو جاتی ہے۔ اسا تذہ صرف سبق کی منصوبہ بندی کے ذریعے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے کیو نکہ کامیابی اور نا کامی کا دینے والا اللہ ہے اسی لئے اسا تذہ کو در س و تدریس کی کا میابی کے لئے اللہ سے دعا نا نگنا چاہیئے تا کہ اللہ ان کے کام میں آسانیا ں پیدا فر مائے۔ ہر معا ملے میں اللہ رب العز ت سے دعا مانگنا نبی اکر م ﷺ کی سنت بھی ہے۔دعا صرف اس وقت ہی نہیں مانگی جا تی جب وسائل کی کمی ہو یا آدمی کسی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوں بلکہ دعا اس وقت بھی مانگی جانی جا تی ہے جب آدمی کے پاس تمام وسائل و اسباب موجود ہوں اور کا میابی کا قوی امکان بھی ہوکیونکہ ہمارا یمان اور عقیدہ ہے کہ وسائل اور اسباب کی موجودگی کا میابی فرا ہم نہیں کر تی ہے بلکہ کا میابی و کامرانی اللہ رب العزت کی دین ہے۔
11 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
تسلیمات!
آپ نے اچھا مضمون لکھا۔ بطور ٹیچر اس سے سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔
یاور عظیم، اسلام آباد، پاکستان
ایک ذمہ دار معلم معاشرے کا حسن ہوتا ہے. آپکی تحریر خوبصورت رہی ہے.
ماشاء اللہ بہت ہی مفید مضامین لکھا ہے اس طرح کے مزید مضامین بھی لکھ دیں: مثلا: کلاس کا ڈسپلن کیسے بنایا جائے، جو طلبہ کرام پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو کیسے پڑھنے کے لیے تیار کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ
ماشا ءاللہ بہت ہی بہترین تحریر ہے سر اس موجوع پر آپکی کوئی کتا تو نہیں ہے ؟؟؟
[…] اس حدیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی۔ کہ جس وقت رشتے کی تلاش کے لئے نکلتے ہو اسی وقت سے مستقبل میں ہونے والی اولاد کو ذہن میں رکھو۔ اور اس کی تربیت کو پیش نظر رکھ کر رشتہ ڈھونڈو۔ کیونکہ اولاد انسانی نسل کے تسلسل کا ذریعہ ہوتی ہے۔اگر رشتہ ازدواج کے بعد اچھی نسل تیار ہوئی۔ تو اچھے نسلی تسلسل کے ساتھ زندگی میں راحت اور نیک نامی کے علاوہ آخرت میں صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہوگی۔ لہذا رشتے کی تلاش کے وقت سے ہی آنے والی نسل کی اچھی تعلیم وتربیت کے لئے ذہنی طور پر نہ صرف آمادہ رہنا چاہیے ۔بلکہ اس کی پوری تیار ی کرنی چاہیے۔مزید پڑھیے […]
بہت خوب قابل تعریف اور قابل ستائش ہے۔
ابتدائ سطح سے اعلی ثانوی سطح تک یہ موثر طریقہ ھے ۔اس پہ عمل کرنے سے ایک استاد اپنی صلاحیتوں ، وقت اور آموزش کو چار چاند لگاسکتا ھے۔
ابتدائ سطح سے اعلی ثانوی سطح تک یہ موثر طریقہ ھے ۔اس پہ عمل کرنے سے ایک استاد اپنی صلاحیتوں ، وقت اور آموزش کو چار چاند لگاسکتا ھے۔ اس طرح توانائ ضائع ہونے سے بچتی ہے گویا دریا جاپانی کنارے کے بیچ بہتا ھے ۔منصوبی بندی کے بغیر تدریس کی سمت بے کنار ھوسکتی ھے۔
دعاگو : جمیل احمد ، ماھر مضمون ، اردو
ضلع لودھراں ۔پاکستان
بہت خوب ، شاندار ، بہت بہترین انداز سے آپ نے اپنی بات کو واضح کیا ہے
بہت ہی اچھا ہو تا اگر آپ اس تحریر کے ساتھ ساتھ انہی با توں کو منصوبہ بندی کا خاکہ بنا کر کسی ایک جما عت کے لیے بطور ما ڈل پیش کر تے اور اگر ممکن ہو تو ان با توں کو ایک ویڈیو کی صورت میں پیش کر مکمل رہنمائی فرمائیں ۔
ماشاءاللہ بہت اچھا
بہت عمدہ تحریر