چھ ستمبر

میری آنکھ کھلی تو خود کو ایک بوسیدہ کمرے میں پایا، جس کے نیم تاریک ماحول میں کچھ ہولے کراہ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ جب آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیکھا کہ ایک کونے میں الیکشن کمیشن زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ دروازے کے پاس نیب کو الٹا لٹکایا گیا تھا۔ عدلیہ اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی اور جگہ جگہ اس کے جسم سے خون رس رہا تھا۔ کمرے کے عین وسط میں لولی لنگڑی جمہوریت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، اس کی حالت بتا رہی تھی کہ اس پہ وحشیانہ تشدد کیا گیا ہے۔ ایک کونے میں میڈیا پڑا ہوا تھا، جس کا منہ خون سے بھرا ہوا تھا، شاید اس کی زبان کاٹ دی گئی تھی۔

مجھے بھی ایک ادھ کھلی کھڑکی کے پاس کرسی کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ مجھ پہ الزام تھا کہ میں نے قومی مفاد کے ریاستی تصورات پہ سوالات اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

ابھی سب لوگوں کی کراہیں جاری تھیں کہ فضا جنگی جہازوں کی گھن گرج سے گونج اٹھی اور کمرے میں پہلے سے سہمے ہوۓ لوگ مزید سہم گئے۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید دو فوجوں کے درمیان جنگ چھڑگئی ہے۔

کچھ دیر بعد یاد آیا کہ آج چھ ستمبر ہے، آئی ایس پی آر کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اس دفعہ چھ ستمبر کو منفرد انداز میں منایا جاۓ گا، جس کے تحت شہدا کی تصاویر پبلک مقامات پر آویزاں کی جائیں گی، شہدا کے لواحقین سے ملاقاتیں کی جائیں گی، اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جاۓ گا۔

سوچوں کے گھوڑے سرپٹ دوڑنے شروع ہوۓ، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس بار ایسا کیا ہو گیا ہے کہ چھ ستمبر کو منفرد انداز میں منانے کی ضرورت پڑ گئی۔ کیا ہماری نمبر ون ایجنسی نے خفیہ محاز پہ ہاری ہوئی کسی جنگ کا پانسا پلٹ دیا ہے؟ یا خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہو گیا ہے جو ابھی تک عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ ہے؟ ایسا تو نہیں کہ مایوسی کے علمبردارں کی تقریریں سن سن کے قوم ہمت ہار بیٹھی ہے؟ کہیں قوم کے خوابِ غفلت میں پڑے پڑے اچانک چھ ستمبر کی گولڈن جوبلی تو نہیں آن پہنچی؟ سوچوں پہ ایک عجیب بےچینی طاری ہو رہی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس بار چھ ستمبر کو منفرد انداز میں منانے کی ضرورت آن پڑی ہے۔

کہیں اس سب کی وجہ سلیکشن کے بعد ملک دشمنوں کی جانب سے لگاۓ جانے والے نعرے اور سجیلے جوانوں کے کردار پہ اٹھنے والی دشمن کی انگلیاں تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سادہ لوح عوام عرصے سے جاری پتلی تماشے کو سمجھ بیٹھی ہے؟ اور عوام کے ایک حصے اس نے اس پتلی تماشے کو الیکشن ماننے سے انکار کر دیا ہے؟

ادھ کھلی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ دل میں خواہش جاگی کہ چند ہفتے قبل ملک کے طول و عرض میں پھیلے دشمن کے خلاف ووٹ کی طاقت سے لڑی گئی جنگ کے شہدا کی تصاویر بھی عوامی مقامات پر آویزاں کی جائیں، اس جنگ کے ہیروز کے قصیدے بھی گاۓ جائیں، ان کے کرداروں پہ بھی پروگرامز ہوں، اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اعزازات سے نوازا جاۓ، اور بہادری کی داستانیں رقم کرتے ہوۓ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا جاۓ۔

ابھی تک میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس جنگ کے کرداروں کو کیوں پردوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ عظیم قومیں تو اپنے شہدا کے کرداروں کا زور و شور سے پرچار کرتی ہیں، انہیں اپنے سروں کا تاج بناتی ہیں، ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہیں۔

یہ کیسی جنگ تھی کہ جس کے کسی بھی کردار کو کھل کر سراہا نہیں جا رہا، ان کی بہادری کی لازوال داستانوں پہ بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ کیا ایسے طرزِ عمل سے ان کے خون سے غداری نہیں کی جا رہی؟ کیا ایسے حالات ک بعدکوئی بھی محبِ وطن دوبارہ ایسی کسی بھی جنگ کا حصہ بننے پر آمادہ ہو گا؟ یہ ہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل کی جنگوں میں کون ووٹ کی طاقت سے دشمن کا راستہ روکے گا؟

بھولی بسری یادیں تازہ ہونے لگیں تو یاد آیا کہ مشرقی پاکستان اور ہمارے 150 بچوں کی شہادت جیسے بڑے بڑے سانحات کے بعد بھی قوم کو تحقیقات سے آگاہ کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی بجاۓ ہمیں ملی نغموں پر ٹرخا دیا گیا تھا۔ اسامہ بن لادن، امریکیوں کو فوجی اڈے دینے اور دہشت گردوں کو امریکہ کے حولے کر کے ڈالر کمانے کے بعد بھی قوم کو وسیع تر قومی مفاد میں خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ لال مسجد، اکبر بگٹی اور 12 مئی جیسے قومی جرائم کے بعد بھی قوم کو حب الوطنی کا درس دیا جاتا رہا تھا۔ جمہوریت پہ تین دفعہ قاتلانہ حملوں کو نظریہٕ ضرورت کا نام دے دیا جاتا تھا۔ معمولاتِ زندگی میں مصروف 70,000 افراد کو اپنی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھانے کے بعد انہیں بھی شہدا کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا تھا۔ بیسیوں کاروباروں کے خلاف اگر کوئی بولنے کی کوشش کرتا تو اس ک اس عمل کو زراعت دشمنی سے تعبیر کیا جاتا۔

شاید اب کی بار بھی ان کا سالہا سال کا آمودہ نسخہٕ جزباتیہ و خاموشیہ ونغمیہ آزمانے کا ارادہ ہے۔

سوچوں کا یہ سفر جاری تھا کہ اسی اثنا میں جنگی جہازوں کی آوازیں ایک بار پھر قریب آتی سنائیدینے لگیں۔ اور میں کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوۓ سوچنے لگا کہ اس چھ ستمبر کو منفرد انداز میں منانے کی مہم ظاہر کر رہی ہے کہ عوام کی جدوجہد بالکل صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں