مدرسہ کرکٹ لیگ ، ضرورت اور اہمیت

وزارت تعلیم کے مطابق پاکستان میں 18 لاکھ طالب علم دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور یقیناًیہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کہ نوجوان بھی ہے ا ور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور کسی حد تک کر بھی رہی ہے۔
مدارس اسلام کے قلعے کہے جاتے ہیں ہیں لیکن یہ بھی بجا ہے کہ زیادہ تر مدارس خاص مسالک اور فرقہ کے ترویج کے لئے کام کررہے ہیں۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک لیکن نصاب کو پڑھانے اور تربیت کا طریقہ کار کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف اپنے مسلک کے دفاع اور ترویج کے چکر میں دوسرے مسالک کے کو غلط سمجھا جاتا ہے جس سے معاشرے میں عدم برداشت اور انارکی پھیلتی ہے۔ اس  میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کے طلبہ انتہائی قابل اور ذہین ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مدارس کے فارغ التحصیل اور یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ میں فرق محسوس ہوتا ہے جس میں خود اعتمادی ، نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونا، سوشلائیزیشن اور اسی قسم کی کچھ چیزیں شامل ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں اور بڑے اور معیاری مدارس اس قسم کی فضا کو ختم کرنے کے لئے قابلِ قدر کام کررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومتی سطح پر مدارس کی سرپرستی اور سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ اگر حکومت ، یونیورسٹی ، کالج اور اسکول کی سرپرستی کر سکتی ہے تو مدارس کی کیوں نہیں۔۔؟
پشاور ذلمی کے مالک جاوید آفریدی بہت ہی متحرک کاروباری شخصیت ہیں اور ہمیشہ کچھ اچھا اور نیا کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ پشاور ذلمی اور ذلمی فاؤنڈیشن کے مالک جاوید خان آفریدی کے ہر کام اور سرگرمی سے پاکستان سے محبت ، پاکستانیوں کو آپس میں جوڑنے اور کسی حد تک اسلام سے لگاؤ کا عنصر جھلکتا ہے۔
ذلمی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جاری چار روزہ “زلمی مدرسہ لیگ “کا فائینل کل ارباب نیاز اسٹیڈیم میں کھیلا گیا ۔ اس ٹورنامنٹ میں شیعہ ، سنی ، بریلوی ، اورا اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صوبہ بھر کے مدارس کے طلباء نے شرکت کی۔ ان تمام مدارس کے طلباء و اساتذہ چار دن تک ایک ساتھ رہے ، ایک ساتھ کھایا پیا اور نئے دوست بھی بنائے۔ مولانا سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علم محمد اعجاز نے میڈیا کو بتایا کہ اس ٹورنامنٹ میں شیعہ، سنی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے مدارس کے طلبا نے ایک دوسرے کو جانا دوستیاں کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سب ایک طرح کے تھے کچھ فرق نہیں تھا۔ جبکہ اورکزئی ایجنسی سے آئے اہل تشیع کی ٹیم کے مہتمم نے کہا کہ تمام مدارس کے درمیان جو کدورتیں تھیں تو اس سے وہ ختم ہوئی ہیں اور یہ ایک مثبت کوشش تھی۔
اتحاد بین المسلین کی یہ چھوٹی سی اور منفرد کوشش تھی کہ جس نے تمام مسالک کے مدارس کے طلباء کو باہم شیروشکر دیا اور ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا موقع دیا۔او ر یقیناَ اس کے نتائج مثبت آئیں گے اور ایک دوسرے کے ذہن میں جو تعصب اور کدورتیں ہونگی ، وہ کسی حد تک زائل ہوچکی ہونگی۔ اور یہ سفر یہاں نہیں رکے گا ، جب یہ لوگ اپنے اپنے مدارس اور کمیونٹی میں جائینگے تو اچھے اور مثبت ذہن کے ساتھ جائیں گے جس سے باہمی اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
جاوید آفریدی نے ایسے منفرد کام کی بنیاد رکھی ہے جس سے حقیقی معنوں میں تمام مسالک کے طلباء کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے اور کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے ، اب حکومت اور تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ذمہ د اری ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔

حصہ
mm
سلمان علی صحافت کے طالب علم ہیں، بچپن سے ہی پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے ۔ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ ایک اخبار سے وابستہ رہے ، فی الوقت ایک رفاعی ادارے کے شعبے میڈیا اینڈ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں ۔معاشرتی مسائل، اور سیر و سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں