اقتدار یا نشہ ۔۔؟

پورے ملک کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے، دھاندلی زدہ الیکشن اور پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گے، عام انتخابات کے تمام نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ 14اگست پر جشن آزادی نہیں منائیں گے کیونکہ ہمارا حق مارا گیا ہے۔

یہ بیانات ہیں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام کے تاحیات سربراہ مولانا فضل الرحمان  کے جو کہ اس بوگس اور جعلی الیکشن اور پارلیمنٹ کے ممبران سے صدارتی انتخاب میں ووٹ لینے کے لئے سرگرم ہیں اور آج کراچی  میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور جی ڈی اے کے دفاتر پہنچے  اور ووٹ کی التجا کی ۔

مولانا صاحب گزشتہ تمام حکومتوں میں کسی نہ کسی طرح وفاقی اور صوبائی  حکومتوں  کا حصہ رہے ہیں  اور گزشتہ دس سال کشمیر کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے ۔ لوگ کہتے ہیں مولانا کی سیاست اقتدار کے گرد گھومتی ہے لیکن  مولانا کہتے ہیں اقتدار اُن کے گرد گھومتا ہے ۔

کچھ دن پہلے تک مولانا انتخابات کو جعلی قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے لئے بضد تھے اور بظاہر بڑے بے چین بھی ، لیکن جب سے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے صدارتی نامزدگی سامنے آئی ہے  تو بڑے ہی  متحرک   اور  پرسکون انداز سے اپنے صدارتی الیکشن کے لئے مہم چلاتے نظر آرہے ہیں ۔

مولانا کی بطور صدر نامزدگی کی کہانی بھی سامنے آئی ہے جو کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن کے اجلاس میں جب کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آرہی تھی تو میاں شہباز شریف نے مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے اُن سے رائے مانگی اور مولانا نے کہا کہ “میں ہوں نا۔۔”

مسند اقتدار  کسی بھی نوعیت کا ہو ،  واقعی ایک نشہ ہے جس کی تازہ  مثال ہم نے الیکشن کے بعد سے اب تک  کی صورتحال میں یکھی ہے ۔

حصہ
mm
سلمان علی صحافت کے طالب علم ہیں، بچپن سے ہی پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے ۔ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ ایک اخبار سے وابستہ رہے ، فی الوقت ایک رفاعی ادارے کے شعبے میڈیا اینڈ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں ۔معاشرتی مسائل، اور سیر و سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں