ہفتے کا دن تھا،ہم باورچی خانے میں دھرے برتنوں کے ڈھیر اور چھولھے پر چڑھے کھانے سے ایک ساتھ نبردآزما تھے کہ کھڑکی پہ دھرا برقی آلہ پہلے تھرتھرایا اور پھر بآوازِ بلند گنگنانے لگا، ہم ہاتھ پونچھتے ہوئے فون کی طرف مڑے تو مدیر ساتھی جناب اعظم طارق کوہستانی کا نام جگمگا رہا تھا،( ہم نے جب نمبر محفوظ کیا تھا تو ان کا نام یہی ہوا کرتا تھا،بنا اطلاعی اشتہار انہوں نے نام تبدیل کرلیا تو ہمارا کیا قصور) ہم نے فون اٹھا کر کانوں سے لگایا اور یوں سلام کیا جیسے ہم اپنے خوب صورت دفتر کے بڑی سی میز کے پیچھے دھری کرسی پہ بیٹھے ہوں اور ہمارے ہ دوسرےہاتھ میں ڈوئی کی جگہ قلم موجود ہو، گفتگو کا لب لباب کچھ یہ ہے کہ 12 اگست بروز اتوار دائرہ ادب اطفال کے تحت بعنوان “بچوں کا ادب ،نئے تقاضے “ایک ادبی محفل منعقد ہو نا طے پائی ہے اور اس میں وہ ہماری شرکت کے خواہشمند ہیں(غالباً منجھی ہوئی قلمکاراؤں نے آنے سے معذرت کر لی ہو گی)۔
تو جناب چھٹی کے دن گھر سے نکلنے کی اجازت (الحمد للہ بہ آسانی)لی اور خوبصورت موسم میں خراماں خراماں منزلِ مقصود پر پہنچے ،(منتظمین کو معاف کرتے ہوئے سفر کی کٹھنائیوں کا تذکرہ جانے دیتے ہیں )۔حسین موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جب کمرے میں داخل ہوئے اے سی کی “ٹھنڈک” نے کڑا امتحان لیا،جی میں کئی بار آیا کہ باہر ہی کہیں صحن وغیرہ میں کرسیاں لگا لینے کی تجویز پیش کی جائے لیکن اپنا سا منہ لیئے رہ جانے کے خوف سے تجویز کا ہی گلہ گھونٹ دینا مناسب سمجھا اور اچھے بچوں کی طرح کوناپکڑ کے خاموشی سے بیٹھ گئے ، اور خالی نشستوں کو گھورنے لگے ، ابھی گھور کے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے راحت عائشہ تشریف لے آئیں اور مزے دار ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز ہوا ، ہم انہیں دیکھتے ہی پہچان گئے البتہ انہوں نے چھوٹتے ہی ہمارا نام پوچھا(ٹھیک ہے بھئی ٹھیک ہے) ۔
کلیم چغتائی صاحب تو نشست گاہ میں ہم سے بھی پہلے سے براجمان تھے،ذرا ہی دیر میں اسلام آباد کے احمد حاطب صدیقی صاحب بھی تشریف لے آئے ، واللہ اتنی ادبی اور متحرک قسم کی شخصیات کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہاں سے کھسک لینے میں ہی عافیت ہے ، لیکن کیا کیجئے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، کیوں؟ کیونکہ ہمیں بٹھایا ہی ایسی جگہ پہ گیا تھا۔ تھوڑی (اور تھوڑی اور تھوڑی اور تھوڑی) دیر میں تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا ، عبد الرحمٰن مومن نے تلاوت کی تو ان کے والدین پہ رشک آیا ، ماشاء اللہ، ( برخوردار )حماد ظہیر نے دائرہ علم و ادب اور اس کے تحت قائم دائرہِ ادبِ اطفال کا تعارف کروایا جسے سن کر دل میں ایکدم ہی شکر کے جذبات امڈ امڈ آئے ،ہماری قسمت کہ ہم اس نشست کا حصہ ہیں ، سب سے پہلے تو یہ اہم معاملہ زیرِ بحث آیا(جسے حماد صاحب نے زیرِ بحث آنے ہی کہاں دیا یہ کہہ کر کہ اس موضوع پہ سیر حاصل بحث لاہور والی نشست میں ہو چکی ہے، ہمارا خیال ہے سیر حاصل سے زیادہ ہی ہوگئی ہو گی ؟۔۔۔)کہ الیکٹرانک ڈیوائسز کے راج میں ادب کا تعلق بچوں سے کیونکر قائم رہے؟ پیغام رسانی کو اہم قرار دیتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ اس سلسلے میں ای میڈیا کا استعمال ناگزیر ہے ویسے ساتھی والے یہ کام کافی حد تک انجام دینے کی کوشش کر بھی رہے ہیں، کاش یہ بات ہم وہاں اس محفل میں بھی کہہ ہی ڈالتے ، اب حماد صاحب نے پورا منصوبہ عمل حاضرین کے سامنے رکھا اور اسی دوران حاطب صاحب اور چَغتائی (چ پہ زبر پڑھی جائے ) صاحب بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے، عطا محمد تبسم صاحب بھی جو دائرہِ علم و ادب سندھ کے صدر ہیں ،سرپرستی فرماتے رہے ، انہوں نے اپنی مختصر سی گفتگو میں کہا کہ بچوں کے ادب میں نظریاتی بنیادوں پہ لکھنے افراد کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے ،یہ سن کر جہاں دل سے الحمدللہ نکلا وہیں یہ چھواٹا سا جملہ بڑی سی خوشخبری محسوس ہوا اور امید کے کئی در وا کر گیا،احمد حاطب صدیقی صاحب نے فرمایا کہ اصل ہدف یہ ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو کس کردار اور کس مزاج کا دیکھنا چاہتے ہیں ، انہوں نے لاہور اور پشاور میں ہ ونے والے اجلاس کی مختصر کاروائی سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی اسلام آباد میں سہ روزہ ادبی کانفرنس منعقد کرنے کے منصوبے سے بھی آگاہ کیا جس کو سنتے ہی ہم نے دعا کی کہ یہ کانفرنس جب بھی ہو چھٹیوں میں ہی،، پھر انہوں نے ہمیں بہت وضاحت سے اہداف بتائے (یعنی کہ کرنے کے کام ) ، اس دوران سلیم مغل صاحب بھی تشریف لے آئے ، ہم ان سے پہلی بار ساتھی رائٹرز ورکشاپ میں واقف ہوئے تھے اور بہت متاثر ہوئے تھے ، وہاں ان کی گفتگو سننے کے بعد ہم نے بچوں کے لیئے تادمِ مرگ لکھتے رہنے کا عہد خود سے کیا تھا ۔ سلیم مغل صاحب نے بتایا کہ چین نے اپنی کامیابی کی بنیاد برسہابرس قبل اپنے بچوں کے ادب میں رکھ دی تھی، انہوں نے کہا کہ “ہم اپنی قوم کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ادب تخلیق کریں”۔
اس سے قبل تمام شرکاء نے ایک فارم پُر کیا اور اپنے لیئے طے شدہ دائرے بتائے اور متعلقہ دائرے میں اپنی اپنی خدمات پیش کیں۔اس دوران گرما گرم چائے (یقیناً گرم ہی ہو گی )،بسکٹ اور پیٹیز سے شرکاء کی تواضع بھی کی گئی اور اگلے اجلاس کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے اس نشست کا اختتام کیا گیا۔
بہت خوب جناب۔۔۔۔شروع شروع میں تو مزہ آیا پھر بور بور باتیں شروع کردیں۔۔۔ویسے آخر تک چٹکلے یا کہہ لیں کہ بریکٹس چلتے رہتے تو ٹھیک رہتا۔۔۔ویسے مجموعی طور پر بہت خوب۔۔۔
آپ یہاں بھی مدیر بن گئے😊اتنا اچھا تبصرہ کرنے کا شکریہ ۔مدیرانہ انداز ایک دن مدبرانہ انداز میں بھی ڈھل ہی جائے گا😊