انتخابات ہوئے 40 یوم کے قریب ہو چکے ہیں۔ انتخابات کے نتائج پر نہ جانے کتنے زاویہ ہائے نگاہ سے بحث کی گئی ہے اور شاید اب قارئین اس سلسلے میں مزید کچھ پڑھنا پسند بھی نہ کریں پھر بھی میرا دعویٰ ہے کہ اگر کسی بھی قاری نے اس کالم کو پڑھنا شروع کیا تو وہ اس بات کیلئے مجبور ہوجائیگا کہ اسکے اختتام تک جائے۔ میرا یہ دعویٰ کیوں ہے؟۔ اس کا اندازہ اس کالم کے پڑھ لینے کے بعد قاری کو خود ہی ہو جائے گا۔
یہ بات عام طور پر ہر الیکشن کے نتائج کے بعد کی جاتی ہے کہ سات آٹھ گھنٹوں میں لاکھوں ووٹ کس طرح گنے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ بات عام یا معمولی پڑھے لکھے لوگوں کے منھ سے سننے میں آئی ہوتی تو قابل صرفِ نظر بھی ہو سکتی تھی لیکن اگر یہ بہت پڑھے لکھے، نمایاں اور اعلیٰ شہرت رکھنے والے افراد اور خاص طور سے وہ افراد جو ایک طویل عرصے سے چینلوں پر اینکرز پرسن کی حیثیت میں ذمہ داریاں انجام دے رہے ہوں، ان کی زبانی سامنے آئیں کہ پول کئے جانے والے ڈھائی لاکھ ووٹ، جو کسی حلقے میں پڑے ہوں ان کا ڈالا جانا آٹھ گھنٹوں یعنی 8 گھنٹے ضرب 60 منٹ برابر 480 منٹ، میں کس طرح ممکن ہو سکتا ہے جبکہ ایک ووٹ کاسٹ کرنے میں فی فرد کم از کم 3 منٹ تو درکار ہوتے ہیں۔ اس تبصرے میں زیادہ دلچسپ بات ہمیشہ یہی رہی ہے کہ یہ اعتراضات صرف اور صرف کراچی کی کچھ نشستوں پر اٹھائے جاتے تھے جبکہ ملک میں انتخابی نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایسے بیشمار حلقوں میں دو ڈھائی لاکھ ووٹوں سے زائد ووٹ پڑجانے والے حلقوں کی تعداد کراچی کے مخصوص حلقوں میں پڑجانے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ ہوا کرتی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
میرے اس کالم میں یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کی کہ ایسا تبصرہ محض جہالت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر غور کیا جائے تو بقول پڑھے لکھے اینکرز حضرات، اگر ہر حلقے کے پاس 480 منٹ ہی ہوتے ہیں تو اس صورت میں 200 ووٹوں کو بھی نہیں ڈالا جاسکتا۔ اگر یہ سچ ہے کہ 480 منٹ میں 200 ووٹ بھی نہیں بھگتائے جاسکتے تو پھر یا تو الیکشن کمیشن جاہل ہے کہ وہ ہر حلقے کو صرف 480 منٹ یعنی صرف 8 گھنٹے دیتا ہے یا پھر ہر اس فرد کو جو ایسا سمجھتا ہے اس کو اپنی جہالت کا اعتراف کر لینا چاہیے کیونکہ محض 480 منٹ میں ہزار ووٹ بھی پول نہیں ہو سکتے تو لاکھوں کا حساب کیونکر ممکن ہے۔
یہ پڑھے لکھے اینکر اس بات سے بھی خوب واقف ہونگے کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے ووٹوں کا اگر اوسط (ایوریج) نکالا جائے تو وہ فی حلقہ 3 لاکھ نفوس کا بنتا ہے۔ الیکشن کمیشن جو حساب بھی لگاتا ہے وہ اوسطاً 100 فیصد یعنی 3 لاکھ ووٹروں کا ہی حساب لگاتا ہے۔ پورا پاکستان بشمول الیکشن کمیشن، خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ کاسٹ نہیں کئے جاتے لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ الیکشن کمیشن یہ تصور کرلے کہ پاکستان میں 50 فیصد ووٹ ہی پڑیں گے۔ اب کم علمی کے باعث اگر کوئی یہ سمجھے کہ ہر انتخابی حلقے کے پاس صرف 8 گھنٹے یعنی 480 منٹ ہی ہوتے ہیں تو کتنی جہالت کی بات ہو گی۔
الیکشن کے زمانے میں ہر عام و خاص سنتا ہوگا کہ فلاں حلقے میں 300 پولنگ اسٹیشنوں میں سے ایک پولنگ بوتھ میں پڑنے والے نتائج کچھ اس طرح ہیں۔ کیا ثابت ہوا ایک حلقہ، پھر اس میں 300 پولنگ اسٹیشن اور اس میں سے بھی ایک “بوتھ” کا نتیجہ۔ وہ افراد جو ووٹ کو ایک امانت سمجھ کر ہر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے جاتے ہیں ان کو خوب معلوم ہوگا کہ ہر پولنگ اسٹیشن میں کم از کم 6 پولنگ بوتھ ضرور ہوتے ہیں اور بعض جگہ 8 بھی ہوتے ہیں۔ اب اگر حساب لگایا جائے تو 3 لاکھ ووٹ پہلے تو 300 پولنگ اسٹیشنوں میں تقسیم ہوتے ہیں جس کی اوسط 1000 ووٹ آتی ہے پھر اس کو بھی مزید 6 بوتھوں میں تقسیم کیا جائے تو فی بوتھ ووٹرز کی تعداد 166 بنتی ہے۔ اب حساب لگائیں تو ہر پولنگ بوتھ کے پاس 8 گھنٹے یعنی 480 منٹ ہوتے ہیں اور ان 480 منٹوں میں 166 ووٹ ڈالنا ہر صورت میں ممکن ہے جبکہ کسی بھی بوتھ میں ان 166 ووٹوں میں 80 ووٹوں سے زیادہ کا اوسط ہوتا ہی نہیں بلکہ یہ اوسط اس سے بھی کم ہوتا ہے۔
اسی بات کو اب یوں شمار کریں ایک بوتھ کے پاس اگر 480 منٹ ہوئے تو 6 بوتھوں کے پاس ہوئے 2880 منٹ اور اس طرح ایک حلقے کے 300 پولنگ اسٹیشن کے حساب سے ہر حلقے کے پاس 864000 منٹ ہوئے۔ اب بتائیں کہ کیا اس حلقے میں اگر تمام کے تمام یعنی سو فیصد ووٹ بھی پڑجائیں جن کی اوسط 3 لاکھ بنتی ہے تو کیا ان کا ڈالاجانا ناممکن ہے؟۔ پھر اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اینکرز دو ڈھائی لاکھ ووٹ پڑجانے پر یہ تبصرہ کریں کہ کسی بھی حلقے میں اتنے ووٹ 480 منٹ میں کیسے ڈالے جاسکتے ہیں تو کیا ان کے لئے شرم اورغیرت سے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟۔
جیسا کے میں نے عرض کیا کہ اس کالم کو لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا جب تک میرے سامنے کراچی کی 21 نشستوں پر ڈالے جانے والے ووٹوں کی غلط یا درست فہرست نہیں آتی۔ سوشل میڈیا میں پی ٹی آئی کی جانب سے شائع ہونے والی لسٹ کی روشنی میں کچھ دلچسپ اور ناقابل یقین حقائق کو میں قارئین کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں اور پھر اس بات کا تجزیہ بھی کہ اگر کراچی میں پی ٹی آئی کسی “کھمبے” (الیکٹرک پول) کو بھی ٹکٹ دیدیتی تو وہ کامیاب ہوجاتا” میں کتنی صداقت ہے۔
پی ٹی آئی کی شائع شدہ لسٹ کے مطابق کراچی کی 21 نشستوں کیلئے کل ووٹوں کی تعداد 82 لاکھ بتائی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 میں بھی ووٹرز کی کل تعداد یہی یعنی 82 لاکھ ہی تھی جس میں 5 سال کے دوران 18 سال کی عمر تک پہنچنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اب یا تو جس طرح فیس بک یا ٹویٹر پر لوگ ناپسندیدہ فرد کو بلاک کر دیتے ہیں اس طرح کا کوئی بلاک “نادرا” کے پاس بھی ہوتا ہو جس سے بچوں کی عمریں بڑھنا بند ہوجاتی ہوں یا پھر اور کوئی عذر، بہر صورت گزشتہ 5 برسوں میں ووٹروں کی لسٹ میں اضافہ نہ ہو سکا جبکہ نشستیں 20 سے 21 کردی گئیں۔ بہر صورت ان اکیس (21) نشستوں پر پی ٹی آئی کی فراہم کردہ لسٹ کے مطابق کراچی میں 82 لکھ ووٹروں میں سے کل 32لاکھ ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا جس میں سے 10 لاکھ ووٹ پی ٹی آئی نے حاصل کئے اور 10 لاکھ ووٹ حاصل کرکے اس نے 21 میں سے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
اسی لسٹ اور نتائج کو سامنے رکھ لیا جائے اور اس کو “سچ” بھی مان لیا جائے تو کل ووٹ جو 82 لاکھ ہیں ان میں سے پی ٹی آئی کے ووٹ ہوئے 10 فیصد سے بھی کم۔ جس پارٹی نے پورے کراچی سے 10 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کئے ہوں وہ اگر اس بات کا دعویٰ کرے کہ وہ اگر کھمبے (الیکٹرک پول) کو بھی کھڑا کردیتی تو وہ جیت جاتا ایک مضحکہ خیز بات سے زیادہ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ لہٰذا قارئین سے التماس ہے کہ تھوڑی دیر کیلئے ازراہ تبدیلی ماحول، تھوڑا سا ہنس لیں تو کوئی ہرج کی بات نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کل ووٹ جو کاسٹ ہوئے وہ 32 لاکھ سے زیادہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ 22 لاکھ ووٹ جو پی ٹی آئی کو نہیں پڑے جو ان کو پڑنے والے ووتوں کے 200 فیصد سے بھی 20 فیصد زیادہ ہیں، وہ آخر کس کو پڑے۔ ان کا مقابلہ کرنے والے کرا چی میں تین ہی گروپ تھے۔ اول ایم کیو ایم پاکستان، دوئم پی پی پی اور سوئم مجلس عمل۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان، متحدہ مجلس عمل اور پی پی کے علاوہ کوئی بھی طاقتور گروپ یا پارٹی نہیں تھی۔ اب وہ 220 فیصد زائد ووٹ (22 لاکھ ووٹ) کس طرح تقسیم ہوئے جس کے نتیجے میں کراچی کی 21 نشستوں میں سے 14 نشستیں پی ٹی آئی کے حصے میں آئیں، 4 ایم کیو ایم کی قسمت بنیں اور 3 پی پی پی کا نصیب۔ اب باقی 22 لاکھ ووٹوں کو کس طرح تقسیم کیا جائے جو باقی 7 نشستوں میں تقسیم بھی ہوجائے اور پھر بھی 14 نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
یہ دلچسپ بات اپنی جگہ۔ سانپ گزرجائے اور لاٹھی پیٹی جاتی رہے تو اس کا نہ تو کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی حصول اس لئے بات کو ایک اور دلچسپ زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
الیکشن والے دن پاکستان کے ہر آزاد (مگر پابند) چینل سے ایک ہی رپورٹ سارا دن جاری رہی۔ یاد رہے کہ سارے آزاد چینل پابند تھے کہ وہ کوئی ایسی خبر نشر نہ کریں جس سے الیکشن کا عمل شک و شبہ میں پڑ جائے پھر بھی اگر کسی کے پاس اس بات کے خلاف کوئی گواہی ہو تو پیش کرے کہ ہر چینل نے کراچی کے ہر حلقے اور ہر پولنگ اسٹیشن سے یہی رپورٹ پیش کی کہ کراچی میں پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹے کا راج رہا۔ شام 3 بجے تک 60 فیصدو اسٹیشنوں میں سیکڑوں سے زیادہ اور باقی 40 فیصد اسٹیشنوں میں چند ہزار سے زیادہ ووٹ نہ ڈالے جانے کی اطلاع تھی۔ اس کے بعد لمبی خاموشی تھی البتہ کچھ اسٹیشنوں سے یہ اطلاع ضرور موصول ہوئی کہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اس اطلاع کے بعد بھی کسی ٹی وی چینل نے کسی بھی اسٹیشن میں لگی لمبی لمبی قطاریں دکھانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ بہر حال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دن کے 3 بجے تک پڑ جانے والے 32 لاکھ ووٹوں میں سے 6 لاکھ ووٹ پڑ بھی گئے تھے تو باقی 28 لاکھ ووٹ 3 گھنٹوں میں کس طرح کاسٹ ہو گئے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ فارمولا وہی رکھیے جس کا ذکر اوپر کر دیا گیا ہے۔ 32 میں سے باقی 28 لاکھ کو 21 حلقوں پر تقسیم کریں تو فی حلقہ اوسط 1 لاکھ 33 ہزارووٹ بنتی ہے۔ یہ 1 لاکھ 33 ہزار ہر حلقے کے 300 پولنگ اسٹیشنوں میں تقسیم کریں تو تعداد 4433 بنتی ہے اور اگر ہر پولنگ اسٹیشن پر اوسط 6 بوتھ ہوں تو ہر بوتھ پر ووٹوں کی تعداد 740 بنتی ہے۔ اب باقی بچے 3 گھنٹے جس کے بنتے ہیں 180 منٹ تو خود ہی اندازہ لگالیں کہ کیا اوسطاً 740 افراد کو 180 منٹ میں نمٹایا جاسکتا تھا؟۔ جیساکہ سارے چینلوں کی رپورٹ کے مطابق شام 3 بجے تک پولنگ اسٹیشنوں میں سنناٹے کی خبریں تھیں اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو باقی ماندہ وقت جو 3 گھنٹے یعنی 180 منٹ باقی تھا اس میں فی پولنگ بوتھ 740 افراد کو مزید ووٹ ڈالنا تھا جو تقریباً 4 افراد فی منٹ بنتی ہے، اب خود ہی فیصلہ کریں کہ 1 منٹ میں 4 افراد کا ووٹ ڈال دینا کس طرح ممکن ہوا؟، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب قوم کو ضرور ملنا چاہیے۔
سچی بات یہ ہے کہ کراچی پی ٹی آئی ہی کو کیا کسی کو بھی اتنے ووٹ نہیں ملے جن کا چرچا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب رات گئے تک 60 فیصد سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ آچکا تھا اس وقت تک کوئی بھی امید وار ایسا نہیں تھا جس کے ووٹوں کی تعداد 20 یا 22 ہزار ووٹوں سے زیادہ ہو۔ پھر ہوا یوں کہ کراچی کے نتائج روک لئے گئے۔ 24 گھنٹے بھی گزر گئے مگر نتیجے نہیں سنائے گئے۔ مزید 24 گھنٹوں بعد بھی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا بلکہ گنتی ہی ہوتی رہی۔ 48 گھنٹوں سے بھی زائد وقت کے بعد جو صورت حال سامنے آئی وہ سب کو حیران کر دینے والی تھی کہ باقی 40 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹ اچانک ہزاروں سے نکل کر لاکھوں میں کیسے تبدیل ہو چکے تھے۔ یہ وہ ساری باتیں ہیں جن کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور ہر قسم کے ابہام کو دور ہونا چاہیے ورنہ عوام کا الیکشن پر ہی نہیں، اس کے نتائج پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔
ساری باتوں کو چھوڑ کر اب میں فوکس صرف اس بات پر کرتا ہوں کہ بقول پی ٹی آئی کے وہ اگر کھمبے (الیکٹرک پول) کو بھی کراچی میں کھڑا کر دیتی تو وہ الیکشن جیت جاتا تو کیا جس پارٹی کو کل ووٹوں کا 10 فیصدسے بھی کم ووٹ پڑا ہو اور کل ڈالے جانے ووٹوں کا بھی 30 فیصد ووٹ اس کے حصے میں آیا ہو اس کے لبوں پر یہ دعویٰ زیب دیتا ہے؟۔ ماضی قریب میں یہ دعویٰ کراچی کی بنیاد پر شاید ایم کیو ایم (ماضی کی ایم کیو ایم) ہی کر سکتی تھی جس کی ٹوٹ پھوٹ کے طفیل آج پی ٹی آئی کراچی کی 14 نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ اگر کراچی کی یہ 14 نشستیں اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اور مخصوص نشستیں نکال دی جائیں تو خود پی ٹی آئی والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ وزارت عظمیٰ حاصل کر سکتی تھی؟۔
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ جس کراچی کی وجہ سے وہ مرکز میں حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کیا وہ کراچی والوں کا شکریہ کراچی کی صحیح معنوں میں خدمت کرکے ادا کر سکے گی؟۔ شاید یہ کسی بھی پارٹی کیلئےکراچی والوں کا اعتماد حاصل کرنے کا آخری موقع ہو۔ آگے کیا ہوتا ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔