(یوم اساتذہ پر اساتذہ کے نام ایک پیغام)
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے ۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا’’انماانا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلمکم‘‘(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں۔’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جب کہ استاد اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔بطلیموس استا دکی شان یوں بیان کرتاہے ’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘‘
تدریس کا دگر شعبہ جات زندگی سے تعلق؛ زندگی کے تمام پیشے پیشہ تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ ،فوج،سیاست ،بیوروکریسی ،صحت ،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری ،بدامنی اور نیراج کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاد کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں اسے اس کا جائزہ مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔معاشرتی خدمات کی ادائیگی کے سبب معاشرہ نہ صرف استادکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظ خاطر رکھے۔ہر معاشرے اور مذہب میں استاد کو ملنے والی اہمیت اساتذہ سے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا تقاضہ کرتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہؒ سے ان کی عزیز شاگرد حضرت امام یوسف ؒ نے پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپ ؒ نے فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘امام اعظم ؒ کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئے گا۔استاد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ( چنداستشنات کے)اپنی عظمت اور وقار کو تقریبا کھو چکا ہے۔پیشہ تدریس آج صرف ایک جاب(نوکری)،اسکیل(تنخواہ) اور ترقی کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔استاد اور شاگرد کامقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ اس قوم کو عروج اور ترقی نصیب ہوئی جس نے اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کی۔ مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد صاحب مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا ۔اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادانہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا ۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتہ چلا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراما کھڑا ہو گیا اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا “A teacher in the Court( ایک استاد عدالت میں) ، یہکہتے ہوئے ان کا چالان معاف کردیا۔ اٹلی میں بھی ہمارے وطن عزیز کی طرح اساتذہ کی تنخواہیں دلکش نہیں ہیں لیکن وہاں آج بھی تمام رتبے جج،بیوروکریٹس،تجار،پولیس،سیاستدان وغیرہ سب استاد کے پیچھے یو ں چلتے ہیں جیسے ماضی میں غلام اپنے آقاؤ ں کے پیچھے چلتے تھے۔ استاد کی یہی تعظیم مغربی معاشر ے کی عروج کی داستان ہے۔ وہیں مشرقی معاشرے جو اساتذہ کے ادب و احترام کی بنا بام عروج پر تھے اساتذہ کے ادب و احترام کے اعراض کے سبب تنز ل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔استاد کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہیرہ سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہر گز نہ لی جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریا ت نہیں ہوتی ہیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کلید ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایا ں و بلند ہوتا ہے۔معاشرہ استاد کو ایسے نمایا ں مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھمنفعتاور مراعات کی لالچ میں آلودہ نہ کریں ۔
استا د کی ذمہ داریاں؛ استاد نسل نو کی تربیت کا اہم کام انجام دیتا ہے ۔ہر قوم و مذہب میں استاد کو اس کے پیشے کی عظمت کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔استاد طلبا کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتاہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔معاشرے کی زمام کار سنبھالنے والے افراد خواہ وہ کسی بھی شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاد کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔استاد کا اہم اور بنیادی فریضہ انسان سازی ہوتا ہے۔اگرچیکہ اس کام میں نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں لیکن یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاد ہی ہوتا ہے۔نصاب تعلیم جو بھی لیکن استاد اسے جس طرح چاہے پڑھا سکتا ہے۔ایک مسلمان معلم پر عام اساتذہ سے دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے چونکہ وہ پہلے تو ایک مسلمان ہے اوردوسرا ایک مدرس بھی۔فلسفہ اسلام کی رو سے استاد ایک مربی ،مزکی ،رہنما و رہبر ہوتاہے۔ جو نہ صرف نسل نو کی تربیت کرتا ہے بلکہ نسل نو کو اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ نظریہ کے بغیر کوئی بھی قوم حمیت سے عاری بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ مسلم معلمین کے لئے نبی اکرم ﷺ کی سخت وعید ہے ’’جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کے لئے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دیں گے۔‘‘ اس فرمان نبوی ﷺ کی روشنی میں اگر مسلم اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ذرہ بھر بھی کوتاہی برتیں گے تو روز قیامت ان کا سخت مواخذہ کیا جائے گا۔ روز قیامت عدم ساز گار حالات ،مادی وسائل کی کمی،والدین اور طلباء کی عدم توجہی و دیگر عذر مسلم اساتذہ کے لئے کسی کام نہیں آئیں گے۔اساتذہ اپنی اہمیت اور ذمہ دار ی کو محسوس کریں خاص طور پر مسلم اساتذہ اپنے مقام کو پہچانے کہ اول تو وہ مسلمان ہیں اور پھر ا سلامی طرز معاشرت اوردین فطرت کے نفاذ کے لئے نئی نسل کو تیار کرنے والے معلم، استاد مربی او ر رہبر ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی مسلم اساتذہ کا منشاء و مقصد نسل نو کی اسلامی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے چار عملی میدان ہوتے ہیں (1) تعمیر ذات (2) اپنے علم میں مسلسل اضافہ (3) طلباء کی شخصیت و کردار سازی اور (4) تعلیم گاہ اور استاد۔
تعمیر ذات:نئی نسل کی تعمیر کا کام انجام دینے والے استاد کے لئے سب سے پہلے اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہوتی ہے۔طلباء کے لئے استاد کی ذات افکار و اقدار کا اعلی معیار ہوتی ہے۔اساتذہ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نبی اکرم ﷺ کی ذات کو پیش نظر رکھیں۔ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کی ذات پاک بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ معلم اعظم ہیں اسی لئے اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے علاوہ درس و تدریس میں اثر و تاثیر پیدا کرنے کے لئے آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی لازمی پیروی کریں۔ایک معلم کا قلب جب رب حقیقی کی عظمت و کبریائی سے معمور ہوگا ،احکام خداوندی کا پابند اور سنت نبویﷺ پر عامل ہوگا تب اس کا درس شاگردوں کے لئے باران رحمت اور زندگی کی نوید بن جائے گا۔معلم کا خوش اخلاق ،نرم خو،خوش گفتار،ملنسار،ہمدرد،رحمدل،غمگسار و مونس اور مدد گار ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔استاددرس و تدریس کو صرف حصول معاش کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ اس کو رضائے الہی کا ایک ذریعہ مانے۔اسلامی نقطہ نظر سے حصول علم کا مقصد خو دآگہی اور خدا آگہی ہے ہمیشہ یہ نظریہ اساتذہ کے ذہنوں میں پیوست رہے۔۔علوم کی ترویج و تدریس کو ذریعہ معاش نہ سمجھیں بلکہ علو مکی تدریس، ترویج و اشاعت کو اخلاق کی بلندی اور کردار کی تعمیر کے لئے استعمال کریں۔ایک حقیقی استاد اسلاف سے حاصل شدہ علوم(نظریات،تہذیب،عقائد،افکار،عادات ،رجحانات،اور خصائل) کو بالکل اسی طر ح بغیر کسی کم و کاست اگلی نسلوں کو صحت و عمدگی سے منتقل کر ے۔استاد کمرۂ جماعت یا مدرسہ کی چار دیواری تک ہی استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے۔معلم کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔طلباء صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات وہ شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔استاد مدرسہ ،کھیل کا میدان، گھر اور بازار ہر جگہ طلباء کے لئے ایک زندہ نمونہ ہوتا ہے۔طلباء کو فسق و فجور سے منع کرنے والا استاد اگر خود ان افعال میں ملوث ہو تب اس کے اعمال خود فسق و فجور کی طلباء کو خاموش تعلیم دیتے ہیں۔ایک بے صبر اور بدمزاج استاد اگر صبر و تحمل کی تعلیم دے تب اس کاعمل طلباء کوچڑچڑے پن اور عدم تحمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ایک عظیم استاد اپنی شخصیت کو نہ صرف نکھار تا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعہ معاشرے کوبہتر ین انسان فراہم کرتا ہے۔ایک استاد کوصبر و تحمل ،معاملہ فہمی،قوت فیصلہ،طلبہ سے فکری لگاؤ،خوش کلامی اور موثر اندازبیان جیسیاوصاف سے متصف ہونا چاہیے۔ایک استاد کی شخصیت اور بھی دلکش ہوجاتی ہے جب وہ اخلاص ،لگن ،ہمدردی ،دلسوزی اور اصلاح کے جذبے سے نظم و ضبط قائم کرے (2)علم میں مسلسل اضافے کی جستجو؛ انگریزی کا معروف قول ہے کہ “Teaching is nothing but learning”یہ بالکل حقیقت ہے کہ تدریس کے ذریعہ کئی تعلیمی راز عیا ں ہوتے ہیں اور تدریس ہر پل اساتذہ کے علم میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے ۔اس کے باوجود اساتذہ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے جدید معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ درس و تدریس کے دوران کسی خفت اور تحقیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔اپنے علم میں اضافے کے ذریعہ اساتذہ نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی تدریس کو بھی بااثر بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔عربی کا مقولہ ہے کہ ’’علم حاصل کرو گود سے گور تک ‘‘اساتذہ کو اس قول پر ہمیشہ کار بند رہنا چاہیئے۔استاد میں علمی لیاقت ،تدریسی صلاحیتوں کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔(3) طلباء کی کردار و شخصیت سازی؛تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے طلباء کو علم کے عین مقصد سے دور کردیا ہے۔طلباء کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقاء میں معلم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں،آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے اس کو ایمان ،خوف خدا ،اتباع سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔طلباء کی کرداری سازی کے لئے خود بھی تقوی و پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ایک اچھا معلم اپنے شاگردوں میں مقصد سے لگن و دلچسپی پیدا کرتا ہیطلباء کوبیکار و لایعنی مشاغل سے دور رکھتا ہے۔دنیا سے بے نیازی اور مادہ پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔اپنے شاگردوں کو محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔کاہلی سستی اور تضیع اوقات سے طلباء کو باز رکھتا ہے۔(4) تعلیم گاہ اور استاد؛آج اسکول ،کالجس ،یونیورسٹیز تعلیم کی اصل غرض و غایت سے انحراف کرتے ہوئے مادہ پرستی کے فروغ میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔یہ ادارے ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنسدان ،سیاست دان،پروفیسر،ٹیچرز،اور فلاسفرز بنانے میں تو کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن ایک آدمی کو انسان بنانے میں (جو کہ تعلیم کا اہم مقصد ہے ) ناکام ہورہے ہیں۔تعلیمی ادارے انسان سازی کے کار حمیدہ سے آج عاری نظر آرہے ہیں اساتذہ کی ان حالات میں ذمہ دار اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں ۔مادہ پرست نصاب تعلیم و تعلیمی اداراجات میں دانشوری سے تدریس افعال کو انجام دیں تاکہ طلباء میں دہریت اور مادہ پرستی جیسے جذبات سر نہ اٹھا سکیں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔بنر مندی کے ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک اعلی نمونہ قائم کریں۔تعلیم ادارہ جات سے دھوکے باز سیاست دانو ں کے بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔ایسے انجینئر اور ڈاکٹر تیار کریں جو لوگو ں کے علاج کو نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائیں بلکہ اس خدمت کو عباد ت کے درجہ تک پہنچادیں۔اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کر یں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسان بھی باقی رہیں۔اساتذہ تعلیمی ادارجات اور نصاب تعلیم کو بلند مقصد حیات اور فکر سازی کے رجحان سے آراستہ کریں
اساتذہ سے معاشرے کے تقاضے:نوجوان نسل کی کوتاہیاں اپنی جگہ ،والدین کا تغافل نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں بھی اپنی جگہ مگرکار پیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین کریں ۔اگراساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب و علل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سابھی ادارک کر لیں تب یقیناًیہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
82 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
اسکول کی ترقی میں اساتذہ کی شمولیت
sayyadmaji339@gmail.com
… [Trackback]
[…] Here you will find 94416 additional Info on that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
Hello there, I do believe your web site might be having browser compatibility issues.
When I look at your site in Safari, it looks fine but when opening in I.E., it has
some overlapping issues. I simply wanted to give you a quick
heads up! Other than that, fantastic site!
It’s amazing to pay a quick visit this web page and
reading the views of all mates regarding this article, while I am also zealous of getting know-how.
Hi there, just wanted to say, I liked this post. It was funny.
Keep on posting!
I’m very pleased to find this web site. I
want to to thank you for your time just for this fantastic read!!
I definitely savored every bit of it and i also have you bookmarked to look at new things in your website.
Hi, just wanted to tell you, I enjoyed this post.
It was practical. Keep on posting!
At this time I am going away to do my breakfast,
once having my breakfast coming over again to read more news.
… [Trackback]
[…] Find More Info here to that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
… [Trackback]
[…] Read More on that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
Greetings! Very helpful advice in this particular
post! It’s the little changes that will make the largest changes.
Thanks for sharing!
Ahaa, its pleasant dialogue concerning this post at this place at this blog,
I have read all that, so now me also commenting at
this place.
This site was… how do you say it? Relevant!! Finally I have found
something that helped me. Cheers!
… [Trackback]
[…] Read More Information here to that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
I like the helpful information you provide
in your articles. I will bookmark your blog and check again here frequently.
I am quite certain I’ll learn a lot of new stuff right here!
Good luck for the next!
Great information. Lucky me I ran across your website by chance (stumbleupon).
I’ve saved as a favorite for later!
I think this is among the most significant information for me.
And i am glad reading your article. But want to remark on few general things, The web site style is wonderful, the articles is really excellent :
D. Good job, cheers
I’m amazed, I must say. Rarely do I encounter a blog that’s both equally educative and amusing, and let me tell you, you’ve hit
the nail on the head. The problem is something which not enough men and women are speaking intelligently about.
I’m very happy I came across this during my search for something concerning
this.
Tremendous issues here. I am very glad to look your post.
Thanks so much and I’m having a look forward to
contact you. Will you please drop me a mail?
Hey there would you mind letting me know which web host you’re working with?
I’ve loaded your blog in 3 different internet browsers and I must say this blog loads a
lot quicker then most. Can you suggest a good web hosting provider at
a fair price? Thanks, I appreciate it!
This post will help the internet people for setting
up new webpage or even a weblog from start to end.
Hello, I enjoy reading all of your post. I wanted to
write a little comment to support you.
Hey this is somewhat of off topic but I was wondering if blogs use WYSIWYG
editors or if you have to manually code with
HTML. I’m starting a blog soon but have no coding know-how
so I wanted to get advice from someone with experience.
Any help would be greatly appreciated!
It’s amazing in support of me to have a site, which is valuable in favor of
my experience. thanks admin
Thank you for sharing your thoughts. I really appreciate your efforts and
I will be waiting for your next post thanks once again.
You are so awesome! I do not suppose I have read through anything like this before.
So great to discover someone with some genuine thoughts on this subject matter.
Really.. many thanks for starting this up. This web site is one thing that is required on the web, someone with
a bit of originality!
You’ve made some decent points there. I looked on the web
to find out more about the issue and found most people
will go along with your views on this site.
If you are going for most excellent contents like myself, just pay a quick visit this site everyday for the reason that it gives feature contents,
thanks
You need to take part in a contest for one of the
highest quality websites on the internet. I’m going to highly recommend this site!
I savor, lead to I found just what I used to be having
a look for. You’ve ended my four day lengthy hunt!
God Bless you man. Have a nice day. Bye
Hi there, I found your site by the use of Google whilst looking for
a comparable topic, your site got here up, it seems to be good.
I have bookmarked it in my google bookmarks.
Hi there, just changed into alert to your weblog via Google,
and found that it is truly informative. I’m gonna watch out for brussels.
I will be grateful if you continue this in future.
Lots of folks might be benefited out of your writing.
Cheers!
you’re truly a excellent webmaster. The site loading speed
is incredible. It kind of feels that you’re doing any distinctive trick.
Furthermore, The contents are masterpiece. you have performed a fantastic
activity on this subject!
Wow, amazing weblog layout! How long have you been running a blog for?
you make running a blog glance easy. The overall glance of your website is wonderful,
let alone the content!
Greetings from California! I’m bored at work so I decided to check out your
site on my iphone during lunch break. I enjoy the info you provide here and can’t wait
to take a look when I get home. I’m shocked at how fast your blog loaded on my
cell phone .. I’m not even using WIFI, just
3G .. Anyhow, awesome site!
Nice blog here! Also your website loads up fast! What
host are you using? Can I get your affiliate link to your host?
I wish my site loaded up as fast as yours lol
I am sure this paragraph has touched all the internet users, its really really nice
article on building up new blog.
You have made some decent points there. I
looked on the net to find out more about the issue and found most
people will go along with your views on this site.
Heya i’m for the first time here. I came across this board and I find It really useful & it
helped me out a lot. I hope to give something back and
help others like you aided me.
Good day! I know this is somewhat off topic but I was wondering which blog platform are you
using for this website? I’m getting fed up of WordPress because I’ve had problems with hackers and I’m
looking at alternatives for another platform. I would be great if you could point me in the direction of a good
platform.
Hello, I enjoy reading through your article post.
I wanted to write a little comment to support you.
Definitely believe that which you said. Your favorite reason seemed to be on the net the simplest thing to
be aware of. I say to you, I certainly get annoyed while people consider worries
that they plainly don’t know about. You managed to hit the nail upon the top as well as
defined out the whole thing without having side effect , people
could take a signal. Will likely be back to get more. Thanks
Hey there! I know this is kinda off topic
however , I’d figured I’d ask. Would you be interested in exchanging links or maybe guest authoring a blog post or vice-versa?
My site covers a lot of the same topics as yours and I think we could greatly benefit from each other.
If you happen to be interested feel free to send
me an email. I look forward to hearing from you!
Fantastic blog by the way!
Today, I went to the beachfront with my kids.
I found a sea shell and gave it to my 4 year old daughter and said “You can hear the ocean if you put this to your ear.” She
placed the shell to her ear and screamed. There was a hermit crab inside and it pinched her ear.
She never wants to go back! LoL I know this is completely off topic but I had to tell someone!
Just want to say your article is as surprising. The clarity for your post is just excellent and that
i can suppose you are a professional on this subject. Well with your permission allow me to grab your RSS feed to keep updated with imminent post.
Thanks a million and please keep up the enjoyable work.
… [Trackback]
[…] Info on that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
I’m gone to convey my little brother, that he should also go to see this website
on regular basis to get updated from most recent news.
Hi there! I simply wish to give you a big thumbs up for the excellent info
you’ve got right here on this post. I will be coming back to your web site for more soon.
I am sure this paragraph has touched all the internet people, its really really nice post on building up new weblog.
… [Trackback]
[…] Find More to that Topic: jasarat.com/blog/2018/08/31/farooq-tahir-27/ […]
This design is incredible! You certainly know how to
keep a reader amused. Between your wit and your videos,
I was almost moved to start my own blog (well, almost…HaHa!) Fantastic
job. I really loved what you had to say, and more than that, how you presented it.
Too cool!
It’s in point of fact a great and helpful piece of information. I’m glad that you shared this
useful info with us. Please stay us informed like this.
Thanks for sharing.
Your style is unique in comparison to other people I’ve read stuff from.
Thank you for posting when you have the opportunity, Guess I’ll just book mark this web
site.
I’m not positive the place you’re getting your info, however great topic.
I must spend some time finding out more or working out more.
Thank you for excellent info I was looking for this information for my mission.
Stop by my blog post: vpn special code
Hello! I’ve been reading your weblog for a while now and finally got the bravery to go ahead and give
you a shout out from Porter Tx! Just wanted to tell you keep up the great job!
my site :: vpn coupon 2024
When someone writes an paragraph he/she maintains the thought of
a user in his/her brain that how a user can be aware of it.
So that’s why this post is amazing. Thanks!
Take a look at my webpage :: vpn coupon code 2024
I was wondering if you ever thought of changing the page layout of your website?
Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so people could connect with it better.
Youve got an awful lot of text for only having one or two images.
Maybe you could space it out better?
Hi, i think that i noticed you visited my weblog so i came to go back the want?.I’m attempting to to find issues to improve my site!I assume its adequate to make use of
some of your ideas!!
my web page vpn special code
Wow, amazing blog layout! How long have you been blogging for?
you made blogging look easy. The overall look of your web site is fantastic, as well as
the content!
Hi to all, it’s actually a good for me to go to see this web
site, it contains precious Information.
Hello mates, good post and pleasant urging commented here, I am really enjoying by these.
Feel free to visit my web site :: facebook vs eharmony to find love online
Hello i am kavin, its my first time to commenting anyplace, when i read
this post i thought i could also make comment due to this
sensible post.
Here is my web blog: eharmony special coupon code 2024
A motivating discussion is definitely worth comment.
I do believe that you need to publish more about this issue,
it may not be a taboo subject but typically folks don’t speak about such topics.
To the next! Kind regards!!
Here is my website – nordvpn special coupon code 2024
Thanks for finally writing about > معاشرے کی تعمیر میں
اساتذہ کا کردار | Jasarat Blog < Loved it!
I was curious if you ever thought of changing the layout of your
site? Its very well written; I love what youve got to
say. But maybe you could a little more in the way of content so people could connect
with it better. Youve got an awful lot of
text for only having 1 or 2 pictures. Maybe
you could space it out better?
Great blog here! Additionally your website rather
a lot up very fast! What host are you the usage of? Can I am getting your affiliate hyperlink on your host?
I wish my web site loaded up as quickly as yours lol
Basant Club is official website of the best Lottery and Aviator games 2024 which
provides various bonuses and attractive promos
for all its members and is the best Lottery betting site in Pakistan,
with accurate predictions we will give you big wins and
a new Level in playing Lottery.
I am sure this piece of writing has touched all the internet viewers, its really really good paragraph on building up new
website.
Feel free to visit my web-site :: Mostbet Casino Pakistan
This piece of writing is genuinely a good one it helps new web visitors,
who are wishing in favor of blogging.
Тепловизоры дают охотникам и военным
преимущество в условиях недостаточной видимости.
Also visit my website: тепловизоры для военных
Охотникам удобно использовать тепловизоры для сканирования
больших территорий.
Have a look at my page … тепловизоры для военных
This article is truly a nice one it assists new net people,who are wishing for blogging.
Тепловизоры – это не только удобство, но и безопасность на охоте и в
тактических операциях.
Take a look at my web blog тепловизоры (service.megaworks.ai)
Major thanks for the post.Much thanks again. Fantastic.
Have you ever heard of second life (sl for short). It is essentially a game where you can do anything you want. Second life is literally my second life (pun intended lol). If you would like to see more you can see these Second Life authors and blogs
I really like and appreciate your blog post.Really thank you! Cool.
Awesome article.Really looking forward to read more. Will read on…
I appreciate you sharing this post.Much thanks again. Keep writing.
I value the blog article.Thanks Again. Keep writing.
A round of applause for your article.Really thank you! Really Cool.
Muchos Gracias for your article.Thanks Again. Want more.
Thẳng đá Bóng Việt Nam Vs Lebanon. Xem Truc Tiep Bong Da. Futsal Việt Namlich da banh asian cup 2019Nếu cứ chơi như cách vừa tiêu diệt Everton cho tới 3-1 trên sảnh quý khách hàng