انصاف کی تلاش اور عدالتی سفر

بات بہت خوبصورت لگتی ہے کہ وقت پر انصاف ہوگا ،قانون حرکت میں آئے گا ،غریب کیلئے بھی وہی قانون ہے جو امیر کے لیے، مگر الٹا ہی ہوتا ہے کبھی ایسانہیں دیکھا جس میں قانون اور آئین کو فتح نصیب ہوئی ہو۔ ملک خداداد میں ایسا وقت نہ کبھی دیکھنے کو ملا اور نہ ہی سننے کو، سوشل میڈیا کا دور ہے مگر معصوم زینب کے کیس کا فیصلہ ہو ،شاہ زیب قتل کیس ہو یا پھر نقیب اللہ محسود قتل کیس ،پہلے زیادتی کا شکار معصوم بچی جہان فانی سے کوچ کرگئی تو میڈیا سمیت ایوانوں میں شور مچا اور نتیجہ نکلا صفر۔ پھر بات کریں شاہ زیب قتل کی تو مجرم عدالت بھی گیا، مقدمہ بھی چلا مگر وہی ہوا جس سے ملکی تاریخ میں بھری پڑی ہے ،صاحب دیت کے بدلے آزاد ہی نہیں بلکہ وکٹری نشان بناتے ایسے نکلے جیسے صاحب نے کشمیر فتح کرلیا ہواور آخرمیں شہر کراچی کے ایک نایاب پولیس آفیسر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے کم و بیش 1500 کے قریب نام نہاد دہشت گردوں کو مارا لیکن صاحب کی بہادری سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کو کبھی نہ پولیس مقابلوں میں گولی لگی نہ ہی زخمی ہوئے ایسے آفیسر کو پاک بھارت بارڈر پر ہونا چائیے تھامگر بدنصیبی تھی اس معصوم نقیب کی وہ سوات سے کراچی روزگار کی تلاش میں آگیا پھر کیا تھا یہ کیس بھی عدالت گیا اور ہمیشہ کی طرح مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کو ہاٹ ایشو سمجھ کر خوب پذیرائی حاصل کی، روڈ بلاک کئے گئے ،دھرنے دیے گئے اور وعدے کیے گئے ،مگر جواب کسی کو نہ ملا اور باپ اکیلا کورٹ کے چکر لگاتا رہا اور آج تک کیس کا نہ فیصلہ ہوا نہ ہی میڈیا میں اب کوئی شور ہے ۔سب وقت کے ساتھ ساتھ دھول مٹی کی نظر ہوجاتے ہیں اور رہ جاتی ہیں صرف قانون کے سہارے بنائی گئیں فائلیں ،کیوں کہ انسانوں کے گزر جانے کے بعد ہی فیصلے ہوا کرتے ہیں جب وہ اپنی زندگی کیس لڑنے میں لگا دیتے ہیں تو نہ عدالت میں ان کی شنوائی ہوتی ہے اور نہ کسی کو خیال آتا ہے ۔
اب ذکر کرتے ہیں کہ کون سے کیس کا آغاز کب ہوا اور پھر اس کی کیا سرگرمیاں رہیں مگر دو کیس ایسے بھی ہیں جوزمین کے حوالے سے ہیں جو عدالت گئے مگر اس کا فیصلہ جب ہوا تب جب وہ دونوں مشہور شخصیاتــ”صدر پاکستان ” تک پہنچ گئے۔7سالہ زینب کا قتل کاکیس اس وقت صحیح معنوںمیں اجاگر ہوا جب سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے مجرم کو سزا دینے کی مہم عروج پر پہنچ گئی ایک وقت ایسا لگا کہ مجرم کو جلد از جلد پھانسی کے گھاٹ پر لٹکا دیا جائیگا مگر عدالت کی جانب سے ملزم کو 4،4بار موت کی سزا سنائی گئی اور یوں کیس فارغ کردیا گیا،مجرم آج بھی پھانسی کا منتظر ہے اور اہل خانہ آج بھی انصاف کا راستہ تلاش کررہے ہیں کہ کب فیصلے پر عمل ہوتا ہے۔
دوسرا کیس تھا سب سے زیادہ ہائی پروفائل کیس کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا میں یہاں شاہ زیب قتل کیس کی بات کررہا ہوں جس کا فیصلہ ہوا قانون کے مطابق مگر قانون کی دھجیاں اڑا کر شاہ زیب کاکیس اس وقت منظر عام پر آیا جب اپنی بہن کو نازیبا فقرے کہنے والے غنڈوں کو منع کیا تو انہوں نے گولی چلا کر 25 دسمبر 2012ء کو کراچی ڈیفنس کے علاقہ میں شاہ زیب کو قتل کر دیا۔ غنڈوں میں سندھ کے وڈیرے جتوئی خاندان کا بیٹا شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور اور دو دوسرے تھے۔ جتوئی دبئی فرار ہو گیا،طالب علم شاہ زیب کے قتل پر سماجی ابلاغ پر تحریک چلی جسے دیکھتے ہوئے عدالت عظمی نے مداخلت کی اور ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے دبئی کے شیخوںسے درخواست کی کہ ملزم کی حوالگی میں مدد کریںیوں شاہ رخ کو انٹر پول کے ذریعے پاکستان واپس لایا گیا اور جیل میں ڈالا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے دو ملزموں شاہ رخ اور سراج تالپور کو موت اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی۔ 2013ء میں سبھاگو خان جتوئی نے دونوں خاندانوں کے درمیان میں “صلح” کروائی اور مقتول کے خاندان کو 35 کروڑ روپے کی رقم ادا کی گئی۔ مقتول خاندان نے عدالت میں بیان جمع کروایا کہ انھوں نے ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے جس کے بعد عدالت نے چاروں مجرموں کو رہا کر دیا، مجرم انگلیوں سے فتح “V” کا نشان بناتے ہنستے عدالت سے باہر آئے اور یوں عدالت سمیت قانون کے پروانوں کو ایک سبق یاد کروایا جس سے تاریخ ناآشنا تھی،22 اگست 2018کو جب ایک طرف ملک بھر میں عید کا سماں تھا تو دوسری جانب جوان بیٹے کے غم میں مبتلا باپ نیوزی لینڈ میں انتقال کرگئے یوں عدالتی نظام کی قلعی کھل گئی۔
اب بات کرتے “صاحب ــ”یعنی کہ عظیم سپاہی اور مرد مجاہد راؤ انوار کی جنھوں نے رات کی تاریکی میں کئی کامیاب آپریشن کئے اور کراچی سے دہشت گردوں کا نام دے کر آبادی کو کم کرنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے رہے ،نقیب اللہ محسود سوات سے کراچی آیا جبکہ اس کا بھائی دبئی میں رہائش پذیر تھا، نقیب الآصف اسکوائر میں کام کرتا تھا نقیب کو نام نہاد آپریشن میں قتل کیا گیا جس میں مقابلہ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ صاحب راؤ انوار تھے جو گزشتہ کئی سالوں سے ایک ہی تھانے کے ایس ایس پی تھے جو کہ ملیر اور سہراب گوٹھ جیسے علاقوں پر مشتمل ہے کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب پلاٹوں پر قبضے سمیت دیگر غیر قانونی کاموں بھی ملوث ہیں خیر 22جنوری کا دن نقیب اور اس کے اہل خانہ پر قیادت بن کر ٹوٹ پڑا جب ایس ایس پی ملیر نے راتوں رات پولیس آپریشن کرکے نقیب اللہ محسود کو قتل کردیا ۔ نقیب کو دہشت گرد قرار دینے والے پولیس کے جان باز انسپکٹرکو مشکلات درپیش ہوئیں جب کیس سوشل میڈیا کی زینت بنا پھر کیا تھاسماجی سیاسی شخصیات میدان میں آگئیں اور انصاف دلانے کے مذاق کئے جو کہ آج تک پورے نہ ہوسکے نقیب کا باپ اور محسود قبیلہ آج بھی راؤ انور کی سزا کا انتظار کررہا ہے ،ایس ایس پی صاحب کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے تو وہیں عدالت نے انصاف کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ “صاحب”کے گھر کو ہی جیل کا درجہ دے کرمقدمہ کو لٹکا دیاگیا جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ انصاف کے ٹھیکیدار وں نے زبانی جمع خرچ کرلیا ہے ۔
میں نے اپنے آرٹیکل میں دو صدور پاکستان کے کیس کے بارے میں بھی بتانا تھا جو کچھ اس طرح ہے دس سال سے زیادہ کے عرصے فائز رہنے والے جنرل ضیاء الحق جن کے والد جالندھر میں امام مسجد تھے جو 1947میں پاکستان آگئے تھے جس کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے ان کے والد کو ایک گھر الاٹ کیا گیا تھاجنرل ضیاء کی آمدنی خاطر خواہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے گھر کاایک حصہ کرائے پر دے دیا تھا جس پر کرائے دارنے 1970میں اس گھرپر قبضہ کرلیا تھا ،جنرل صاحب کے والدنے علاقے معززین کو بتائی جنھوں نے صلح کرانے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی تھی اور بالآخر جنرل ضیاء کے والد نے اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا فیصلہ کیا تو اس وقت تو ضیاء الحق بھی آرمی میں بھرتی ہوچکے تھے بریگیڈیر ،میجر جنرل ،لیفٹینٹ جنرل سے آرمی چیف ضیاء الحق ہوگئے مگر افسوس کے ساتھ کیس کا فیصلہ نہ ہوا جب ضیاء الحق صدر پاکستان بن گئے تو اسی شخص نے ایک دن ان کے دفتر آکر چابی ضیاء الحق کے حوالے کردی اور معافی مانگی ۔
ایساہی ایک واقعہ ملک کے معروف آمر اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے سابق آرمی چیف و صدر پاکستان پرویز مشرف کا بھی ہے جن کے والدسید مشرف الدین منسٹری آف فارن افئیر کے ملازم تھے جن کو ایک غلط فہمی کی بنیاد پر فارغ کرکے گھر بھیج دیا گیا اور ان کی پینشن روک لی گئی پرویز مشرف کے والد خود کو بے قصور سمجھتے تھے اس لیے ادارے کے خلاف مقدمہ درج کروایامگر ان کے والد کو بھی انصاف نہ مل پایا اور جب پرویز مشرف صدر پاکستان بنے تو پھر کیا تھا ادارے نے خود معافی بھی مانگی اور ان کی پنشن بھی بحال کردی ۔
اب ایسا عدالتی نظام ہوگا کہ جب کوئی شخص صدر بنے گا تو ہی انصاف ملے تو پھر کیا توقع رکھی جائے اداروں کی جانب سے ایک غریب کو انصا ف مل سکے گا؟

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں