ستر اکہتر برس کی عمر ایسی آئیڈیل عمر ہوتی ہے خصوصا قوموں اور ملکوں کی زندگی میں کہ اس کے باغ کی ننھی کونپلیں تناور درخت کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ باغ اپنے آنگن میں موجود پیڑوں کو پھلتے پھولتے دیکھ کر نہال وسرشار رہتا ہے۔۔مگر میرا وطن اس عمر میں آہیں بھر رہا ہے کہ کس طرح اسے اپنوں اور غیروں نے نقصان پہنچایا۔ اس کے آنگن میں موجود خاردار جھاڑیوں نے اپنا کام دکھایا، کبھی قومیت کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر ۔کبھی اپنوں کے ہاتھوں تو کبھی غیروں کے ہاتھوں۔ یہ سلسلہ ایسا چلا کہ تھم نہ سکا ۔وطن عزیز کو جس کلمے کی بنیاد پر لیا گیا اس کلمے کا نظام کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ جب سے وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا وڈیرے، جاگیردار اور سیکولر ذہن کے لوگ اس پر حکومت کرتے رہے وطن عزیز پر ہمیشہ سے بددیانت حکمران مسلط رہے آمریت اور جمہوریت کے درمیان رسہ کشی کا عمل جاری رہا۔ملکی ترقی کے لئے عملا کوئی کارکردگی سامنے نہ آ سکی۔ ابھی وطن عزیز چار پاؤں چلتے چلتے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے ہی لگا تھا کہ اندرونی عدم استحکام اور بیرونی حملوں کے سبب اپنا بازو کھو بیٹھا۔ مگر پھر بھی گرتے سنبھلتے اپنے باقی حصے کو قائم رکھنے کا عزم لئے آگے بڑھتا رہا مگر دشمن کی آنکھوں میں آج بھی کھٹک رہاہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی وطن عزیز کا اہم مسئلہ عدم استحکام اور گڈ گورننس ہے ملک دشمن عناصر ملک میں دہشت گرد کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔
وطن عزیز اس حوالےسے خوش قسمت ہے کہ اس کے تازہ دم دستے ایک طرف تو سرحد پر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں تو دوسری طرف اندرون ملک دشمن کی شرانگیزیوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
لیکن اس کے باوجود وطن عزیز کا وجود چھلنی ہے اس کے آنگن میں لگے درخت مسلسل تباہ ہو رہے ہیں۔ اس کے آنگن کے پھول مسلسل مرجھا رہے ہیں۔وطن عزیز کے ادارے تباہ ہو چکے ہیں بیروزگاری اور خودکشی عام ہے نہ ملک میں علاج معالجے کی سہولیات ہیں نہ تعلیم کی ۔کرپشن اور چور بازاری عام ہے جب باغ پر چور اور لٹیرے قابض ہوجائیں اور امین خائن بن جائیں تو پھر اس کے اجڑنے کے لئے کسی آسمانی یا زمینی آفت کا انتظار نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آزادی کی مبارک گھڑیاں قبولیت کی گھڑیاں ثابت ہوں اور آہوں و سسکیوں کے مناظر کہیں کھو جائیں رب تعالی وطن عزیز پر اپنی رحمت بہاراں بھیج دے اور یہ باغ ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے ۔