جو چمن سجاکر چلے گئے

ہم سب ابو کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے اور ان لمحوں کی کہانی سن رہے تھے جب پاکستان بن رہا تھا –ہجرت ہمیشہ کرب انگیز ہوتی ہے، تبھی داستان گو کی آنکھیں سرخی مائل تھیں اور لہجہ زخمی تھا، سننے والے مبہوت بیٹھے آنسوؤں کو اندر اتار رہے تھے —

” میرے ننھیال کے علاقہ میں قتل و غارت شروع ہو چکی تھی وہاں سے سب برادری والوں   نے کچھ سامان باندھا اور ہمارے گائوں آ گئے جہاں ابھی بظاہر تو امن تھا لیکن یہ آگ تیزی سے پھیلتی بہت جلد ہم تک بھی آن پہنچی– ایک پانچ چھ سال کا بچہ جو یاد رکھ سکا وہ بس اتنا ہے کہ ایک دن رات ہی رات میں ہمارے سب گائوں والے کچھ کھانے پینے کا سامان اور کچھ نقدی بستر بیل گاڑیوں پہ لاد کے ایک کٹھن سفر پہ نکل گئے پتہ یہی چلا تھا کہ صبح سے پہلے نکلنا ہے کیونکہ گائوں پہ حملہ ہونے والا ہے -ایک ہی جوش ہم سب کو زندہ رکھے ہوئے تھا کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں جو ہمارا اپنا وطن ہے، جہاں ہم سب مسلمان لا الہ الاللہ کی خاطر اکھٹے ہو نگے کوئی کسی کا دشمن نہ ہو گا۔ کوئی کسی کی گردن نہ کاٹے گا یہ سب مسائل اور آزمائشیں یہیں ختم ہونے والی ہیں، کیا ہوا جو آج ہمیں قربانی دینا پڑ رہی ہے، کل ہماری نسلیں ایک ایسے معاشرے میں سانس لیں گی جہاں امن ہی امن ہو گا۔

یہ کب معلوم تھا کی قربانی کا یہ سفر ستر سال بعد تک بھی جاری رہے گا –داستان گو کے چہرے کی اذیت بڑھ گئی —“

پھر آپ کا قافلہ بحفاظت پاکستان پہنچ گیا –“

کچھ وحشت ناک درندوں نے ،ہجرت کو خونی کر ڈالا۔

نہیں — ایک رات قافلہ کی مخبری ہو گئی اور رات کے اندھیرے میں ہی کرپانیں اور تلواریں قافلہ والوں پہ ٹوٹ پڑیں—بس اک قیامت کا سماں تھا مجھے بس چیخ و پکار یاد ہے —شائد پھر میں ہوش میں نہ رہا تھا — جاگنے پہ معلوم ہوا کہ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں — ادھر ادھر لاشیں پڑی تھیں شہدا کے جسموں کو ڈھانپ کے وہیں دفنا دیا گیا۔ ایک اور قیامت جو اس سے بڑی ٹوٹ چکی تھی کہ میری اکلوتی سترہ سالہ خالہ جنہیں ہم ماسی کہتے تھے وہ ہمیں نہ زندوں میں ملیں نہ مردوں میں۔ قریب کے کنویں بھی دیکھ لئے جہاں کئی لڑکیوں نے عزتیں بچانے کی خاطر چھلانگیں لگا کے جان دے دی تھی وہ وہاں بھی نہ تھیں شائد انہیں اتنا موقع بھی نہ مل سکا کہ جان دے کے ایک اذیت ناک زندگی سے بچ سکتیں۔ کیا ہوا کیسے ہوا کسی کو کچھ علم نہ تھا بس کچھ عینی شاہد بتاتے تھے کہ حملہ آور ہندو اور سکھ اغوا کر کے لے گئے ہیں —“

داستان گو خاموش تھا اور سننے والے ان لمحات کی سنسنی کو محسوس کر رہے تھے —

میرے ذہن میں بچپن کا ایک منظر فلم کی مانند چلنے لگتا ہے۔

بیرونی دروازے کی گھنٹی بجتی ہے ہم چاروں بہن بھائی ۔۔۔بی بی ماسی آ گئیں بی بی ماسی آ گئیں کی صدا بلند کرتے دوڑ لگا دیتے ہیں پھر ایک چھ سات سال کی بچی کی نگاہ اس مقدس اور پاکیزہ سے چہرے پہ ٹھیرسی جاتی ہے جہاں معصوم سی مسکراہٹ بھرپور خوشی سے ہنسی میں بدلتی ہے تو موتیوں جیسے دانت کچھ نمایاں ہوتے ہیں سفید بالکل کورا–اجلا ململ کا چادر نما دوپٹہ اس دوپٹہ میں لپٹا نور بھرا چہرہ — بچی کو لگتا ہے یہ جنت کی حور ہیں —

تیس سال سے کچھ اوپر ہی وقت بیت گیا اس اندر کی بچی کو آج بھی یہی لگتا ہے کہ وہ جنت کی حور تھیں —

یہ اسی کی دہائی تھی ان دنوں ہم نشتر کی رہائشی کا لونی کے ایک گھر میں رہتے تھے جن ہستیوں کی آمد کے ہم شدت سے منتظر رہتے ان میں سے ایک بی بی ماسی تھیں۔

بی بی ماسی ہمارے ابو کی خالہ تھیں ابو کے ساتھ انہیں کوئی خاص محبت تھی ابو جی جب بہاولپور سے ملتان نشتر ہسپتال شفٹ ہوئے تو اکثر وہ بہاولپور سے ملتان آیا کرتیں — ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو پاکیزگی و سلیقہ مندی تھا وہ بڑے وقار سے مسکراتی ہوئی  اندر داخل ہوتیں ان کے ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکری ہوتی ان دنوں ایسی ٹوکری سفر ی بیگ کی جگہ استعمال ہوتی تھی –اس ٹوکری میں ان کے دو تین جوڑے نفاست سے تہہ لگے ایک سفید رومال میں لپٹے رکھے ہوتے — پھر ہم بچوں کے لئے کبھی میٹھی روٹیاں کبھی پلاسٹک کے کھلونے کبھی کھانے پینے کی کئی اور مزے دار اشیا ہوتیں۔ صہیب کے لئے ہمیشہ پنگ  پانگ  کی گیندیں ضرور لاتیں جن سے کھیلنے اور اچھالنے میں ہم سب یکساں دلچسپی لیتے —

امی ان سے کہتیں بی بی کھانا کھا کے کچھ آرام کرلیں تو وہ امی کو پکڑ کے بٹھا لیتیں اور کہتیں تم پہلے مجھے دل کو ہلکا کرنے دو میرے پاس بیٹھ جائو کھانا بعد میں کھائونگی– پھر وہ امی کے ساتھ دیر تک باتیں کرتیں ہمیں باتوں سے دلچسپی نہ تھی البتہ جب کبھی وہ اپنے نحیف سے وجود کے ساتھ رونے لگتیں دوپٹہ سے آنسو پونچھتی جاتیں اور امی کی گالوں پہ بھی آنسو روانی سے بہہ رہے ہوتے تب ہم چونکتے– کبھی سمجھ نہ آئی ماجرا کیا ہے—

بی بی ماسی کو کیا غم تھا یہ راز تب کھلا جب ہم نے شعور کی منزلیں طے کیں اور بی بی ماسی تب سکوں کی اور ہمیشہ کی نیند سو چکی تھیں —

ابو جی دوبارہ دل کھول رہے تھے

” میری پیدائش یکم جنوری۱۹۴۲ کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت میں کم عمر بچہ تھا۔ کچھ واقعات ذہن پہ نقش ہیں ۔ہم مختلف جگہ پڑا وڈالتے کھانے کو کبھی کچھ ملتا کبھی دو دو دن بھی بھوکے پیاسے رہنا پڑتا ۔بچے بھوک سے بلکتے رہتے۔ اگست کا مہینہ تھا۔ بارشیں ہوتیں تو کھیتوں میں پانی کھڑا ہو جاتا، جہاں ہر طرح کے کیڑے مکوڑے سانپ بچھو تک ہوتے ۔

ہمارے ساتھ ایک خاتون کے بازو میں زخم آئے تھے وہ بگڑ گئے علاج معالجہ یا دوا کا کوئی تصور نہ تھا ان زخموں میں کیڑے پڑ گئے جو کسی چمٹے نما چیز سے کھنچ کے نکالنے پڑتے — ایک دن اسقدر شدید بارش ہوئی کہ ہماری تھوڑی بہت جمع شدہ خوراک سب بہہ گئی ،کسی کے پاس سے کچھ چاول اور گڑ ملا کئی دن اسی کو کسی طرح آگ جلا کے پکاتے اور کھاتے رہے۔ والٹن روڈ لاہور کے کیمپوں میں بھی وقت گزارا۔ مجھے یاد ہے روز شام کو چیخ و پکار اور آہ و بکا کی آوازیں آیا کرتیں سب اپنے پیاروں کو یاد کر کے روتے —بس پھر آہستہ آہستہ جائیداد وں کا کلیم ملا تو کیمپوں سے ان الاٹ کی ہوئی جگہ پہ چلتے گئے ہم لوگ بھی فیصل آباد کے ایک گائوں میں چلے گئے، جبکہ ماموں بہاولپور میں ملازم تھے —وہ وہیں سیٹ ہو گئے “

ابو جی — بی بی ماسی پھر واپس کیسے آئیں

ملٹری کے ذریعہ گمشدہ لڑکیوں کو بازیاب کروایا گیا تو ان میں ماسی بھی واپس آئیں– دو تین سال لگے تھے اس پراسیس میں — ماموں لوگ گوالوں کے بھیس میں ملٹری والوں کے ساتھ اس علاقہ میں جاتے رہے جہاں سے کچھ اطلاعات کی بنیاد پہ ان کے ملنے کی امید تھی — پھر ایک دن یہ کوششیں کامیاب ہوئیں اور بی بی ماسی پاکستان آ گئیں “

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

بی بی ماسی پاکستان تو پہنچ گئیں لیکن ان کی آزمائشوں کا سفر کبھی ختم نہ ہوا وہاں غیروں نے ان پہ قیا متییں ڈھایئں تو یہاں اپنوں نے انہیں قبول نہ کیا وہاں سرحد پار وہ پاکستان کی خاطر اپنی سب سے قیمتی متاع لٹا آئی  تھیں اور یہاں سب کی نظروں میں ان کے لئے ترس تو تھا مگر حقارت بھی تھی — وہ بے بس تھیں مجبور تھیں خاموش تھیں ،کس کس کو اپنی بے بسی اور بے گناہی کا یقین دلائیں؟ کون تھا جسے اپنے اوپر ڈھائی جانے والی قیامتوں کی کہانیاں سناتیں، انہوں نے خاموشی سے اپنی باقی عمر پاکیزہ سفید چادر اوڑھے گزار دی ۔

بی بی ماسی کو ابو کے ساتھ کوئی خاص محبت تھی

وہ ابو کو گائوں سے بہاولپور لائیں اور اسکول داخل کروا دیا، بس پھر انکی زندگی کا مشن ہی یہ تھا کہ اکرام الحق پڑھ لکھ کے ایک بڑا آدمی بن جائے انہوں نے اپنے غم کو طاقت میں بدل دیا

  — امی آج بھی انہیں یاد کرتی ہیں تو بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں۔ زبان ساتھ نہیں دیتی ہمارے استفسار پہ بھی امی کا جواب یہی ہوتا ہے کہ بی بی کے کچھ راز ایسے ہیں جو میرے سینے میں ہی دفن ہیں مجھ میں نہ اتنی ہمت ہے نہ حوصلہ کہ ان رازوں کو لفظوں میں بیان کر سکوں —

لٹے پٹُے سے قافلے

جو وطن بنا کر چلے گئے

جو نہ رک سکے  نہ جھک سکے

جو چمن سجاکر چلے گئے

ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں

یہ صرف ایک رحمت بی بی کی کہانی نہیں ہے نجانے کتنی رحمتیں تھیں جنہوں نے پاک سر زمین کی بنیادیں اٹھانے کی خاطر اپنی سب سے قیمتی متاع قربان کر دی — اس وطن کی مٹی میں ایسے ان گنت راز پوشیدہ ہیں —

ہم پہ قرض ہے کہ بزرگوں کی ان قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں

ایسا کیا کریں کہ وہ سعید روحیں سکون پاسکیں

ایک پاکیزہ معاشرہ اور

پر امن پاکستان کی منزل کیسے ملے

تعمیر وطن کے لئے تو ہم سب کو مل کے جدو جہد کرنا ہوگی

نوجوانوں نے اپنے عزم ہمت و حوصلہ سے ہمیشہ ہوائوں کا رخ بدلا ہے

تو کیوں نہ پھر  آج عہد کریں کہ اس پاک وطن کو پاکیزہ تر بنائیں گے

یہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول نافذ کریں گے تاکہ

انسان انسانوں کی غلامی سے نجات پا کے بس ایک اللہ کی بندگی میں آ جائیں

تو پھر آیئے عہد کرتے ہیں کہ

ہم دشمن کے ارادوں کو شکست دیں گے

نفرتیں اور عصبیتیں مٹائیں گے

محبت بانٹیں گے امن کے گیت گاہیں گے

ہم ” ایک حقیقی فلاحی ریاست ” تک پہنچیں گے جس کے خواب ہماری گزر جانے والی نے نسل نے دیکھے تھے

میرے وطن یہ عقیدتیں اور

پیار تجھ پہ نثار کر دوں

محبتوں کے یہ سلسلے

بےشمار تجھ پہ نثار کر دوں

میرے وطن میرے بس میں ہو تو

تیری حفاظت کروں میں ایسے

خزاں سے تجھ کو بچا کے رکهوں

بہار تجھ پہ نثار کر دوں

تیری محبت میں موت آئے

تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش

یہ ایک جان کیا، ہزار ہوں تو

ہزار تجھ پہ نثار کر دوں

میرے وطن یہ عقیدتیں اور

پیار تجھ پہ نثار کر دوں

پاکستان  پا ئندہ  باد

حصہ

جواب چھوڑ دیں