غزل
جو بات وہ پسِ دیوار کرنا چاہتے ہیں
وہی تو ہم سرِ بازار کرنا چاہتے ہیں
کبھی یہ وقت کسی کانہیں ہوا ہے، تمہیں
ستم شعارو! خبردار کرنا چاہتے ہیں
وہ جن کو اپنی انا کا غرور پیارا ہے
وہ تیرے حکم سے انکار کرنا چاہتے ہیں
خود اپنے تلخ حقائق سنا کے، ہم ان کی
سماعتوں کو گراں بار کرنا چاہتے
ذرا تو ہم سے کئے عہد پر نگاہ کریں
جو لوگ ہم سے نظر چار کرنا چاہتے ہیں
حقیقتوں کو حقیقت تو سچ کو سچ کہنا
اگر ہے جرم تو سو بار کرنا چاہتے ہیں
وہ پہلے خود کوئی کردار اپنا دکھلائیں
جو اپنی قوم کو تیار کرنا چاہتے ہیں
جہاد فرض ہے سب پر سو اب کے اہل قلم
ہر ایک لفظ کو تلوار کرنا چاہتے ہیں
اگر ہے جرم صداقت حبیب جرم سہی
ہم اپنے جرم کا اقرار کرنا چاہتے ہیں
Lajawab,👌👌👏👏 behtareen
بہت عمدہ