متحدہ کا بڑا فیصلہ …!! ایم کیو ایم حکومت سازی میں شامل

اِن دِنوں پاکستان تحریک اِنصاف کے سربراہ اور مُلک کے اگلے متوقع وزیراعظم محترم المقام عزت مآب عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ دنیا بھر کے لئے مرکزنگاہ بنی ہو ئی ہے،جہاں سے سرزمینِ پاکستان کی اگلی جمہوری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے حکومت سازی کاعمل اور نمبرز گیم جاری ہے،ابھی تک آنے والی اطلاعات کے مطابق اِس سلسلے میں کئی فیصلے ہوچکے ہیں اور کچھ ہونے باقی ہیں ۔
جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس عمل میں تیزی آتی جارہی ہے، اُمید ہے کہ کئی چینلجز سے دوچار حکومت سازی کا عمل بہت جلد تکمیل کو پہنچے گا اور عمران خان 13/12اگست یا 14اگست 2018کو یومِ جشنِ آزادی کے موقع پر بحیثیت وزیراعظم پاکستان حلف اٹھائیں گے اور مُلک کو اپنی 26جولائی کو کی جانے والے تقریر میں عوام اور دنیا سے کئے گئے وعدوں اور اعلانات کے مطابق چلائیں گے ۔اپوزیشن جماعتوں سے اندر اور باہر احتجاجوں اور تحاریک کی صورت میں ملنے والے ٹف ٹائم سے پوری سیاسی حکمت اور قوت سے نبرد آزما ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔
تاہم اِس سے انکار نہیں ہے کہ آج کچھ ہاری ہوئی اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی بننے والی حکومت کے خلاف کھل کر سا منے آگئی ہیں۔جن کا دعوی ٰ ہے کہ یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے ٹف ٹائم دیں گے ۔ جس کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے کاسمیٹک اے پی سی میں عمران خان کے مقابلے میں اپنامشترکہ وزیراعظم ، اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر لانے کا فیصلہ کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے دودوافراد پر مشتمل ایک طویل کمیٹی بنا دی ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کردیاہے کہ یہ تمام جمہوری جماعتیں اِس پر بھی متفق ہیں کہ یہ سینیٹ کے چیئر مین کی تبدیلی کے لئے بھی سرپھوڑ اور سینہ زور کوششیں جاری رکھیں گے۔ سوچیں ، یہ کیسی جمہوری جماعتیں ہیں؟ جو پہلے تو اِس پر متفق تھیں کہ سینیٹ کا چیئر مین بلوچستان سے ہوگا مگر اَب یہ سب کس منہ سے اِسی بلوچستانی سینیٹ کے چیئر مین کی فوری تبدیل کے لئے لائحہ عمل اور تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔؟یہ وہ نکتہ ہے کہ آج جو اپوزیشن جماعتوں کی جمہوری سوچ اور رویوں پر انمٹ سوالیہ نشان لگارہاہے۔آج یہ ساری باتیں اپنی جگہ غور طلب ضرور ہیں ۔
جبکہ یہاں یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے یہ کہہ کر’’ پی پی کو سندھ میں ہماری ضرورت نہیں ، وفاق میں حکومت سازی میں پی ٹی آئی کے ساتھ جارہے ہیں ‘‘ بیشک !متحدہ پاکستان نے وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں شامل ہو نے کا بڑا فیصلہ کرکے کراچی اور مُلک کی ترقی و خوشحالی کا آدھا مقدمہ جیت لیا ہے، یوں آج پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کی غیر مشروط شمولیت نے ماضی کے متحدہ سے نتھی تمام مفروضوں کو غلط ثابت کردیاہے۔
مگر آج پاکستان تحریک انصاف نے وفاق میں اپنی حکومت سازی کے عمل میں پہلے پیشکش کرکے نہ صرف متحدہ کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا ہے بلکہ اِسے دعوت بھی دی ہے کہ آئیں ہم ماضی کی رنجشوں اور کدورتوں کو بھلا دیں اور ساتھ مل کر صرف کراچی اور مُلک کے استحکام اور ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔ پی ٹی آئی کی اِس بے لوث اور محبتوں بھر ی پیشکش پر ایم کیو ایم نے بھی اپنا مثبت ردِعمل دیا اور یوں پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں شامل ہونے کا اعلان کرکے بڑافیصلہ کرلیاہے ۔
اَب اللہ کرے کہ یہ اِس پر قا ئم بھی رہے اور اپوزیشن جماعتوں کے نشیب وفراز میں بھی پی ٹی آئی کا اپنے وعدے اور اعلان کے مطابق ساتھ دے تو اچھی بات ہے۔ ورنہ تو ابھی یہ خدشہ موجود ہے کہ کہیں متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے کسی دباؤ یاہارس ٹریڈنگ کے لئے بھرے ہوئے بریف کیس دکھائے جانے پر پی ٹی آئی کو چھوڑ کر اِدھر سے اُدھرنہ چلی جائے۔اَب اِسے اپنے اندر ٹھیراؤلانا ہوگا ،اِسے رحمان بھی راضی اور شیطان بھی خوش والی پالیسی پر نظرثا نی کرنی ہوگی کیو ں کہ متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ یہ 22اگست 2016ء کے بعد والی متحدہ ہے۔
بہر حال ،پاکستان کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں تو ہرالیکشن کے بعدہارنے والے انتخابی دھاندلی کا رونا روتے ہیں ، اِس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، حالانکہ الیکشن کمیشن کا ایک یہی دعویٰ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اِس مرتبہ الیکشن سے پہلے اور بعد کے عمل کو ہر قسم کی دھاندلی اور شک و شبہات سے پاک بنایا گیا۔
مگر اَب جیت کی اُمید میں ہار کا منہ دیکھنے والوں اور ہار کی کڑوی گولی نگلنے والوں کا کیا کیاجائے؟آج جو اپنی ہار پر چیخ چیخ کر آسمان کو سر پر اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔یقینی طور پرکاسمیٹک اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں شامل شکست خوردہ افراد کا اپنے اللے تللے کے لئے قومی خزانے پر رال ٹپک رہی ہے۔ اِسی لئے تو یہ تمام شکست خوردہ عناصراپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے جمع ہو گئے ہیں۔ اِس طرح یہ عوام کا عمران خان کودیاجانے والا مینڈیٹ چرانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ غرض یہ کہ آج ہیرے (عمران خان کا عوا می مینڈیٹ) چرانے کے لئے پرانے سیاسی چور پھر اکٹھے ہوگئے ہیں۔
بالآخر کئی سال سے بنیا دی حقوق سے محروم ایڑیاں رگڑ بلکتے سسکتے پاکستا نی عوام کی دُعا قبول ہو ئی ،یوں اَب نئے پاکستان کے ساتھ انقلاب کی تلاش میں سرگرداں پاکستا نیوں کی منزل صر ف چند گا م پر ہے،برسوں سے اقتدار پر قابض مٹھی بھر اشرافیہ اور اِس کے اِدھر اُدھر کے حواریوں کو انداز ہی نہیں تھا کہ 25جولائی کے صاف شفاف انتخابات میں عوام ووٹ کو عزت دو اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر ووٹ کی تعویذنما پرچی کی طاقت سے قومی لٹیروں کے بت پاش پاش کردیں گے اور اِن کی پیشا نی اور کمر پر شکست کی ایسی تاریخی مہر سبت کردیں گے کہ یہ اپنی ناکامی پر ہونے والی سُبکی کو فارم 45کی عدم فراہمی کا ڈھونگ رچا کردھاندلی کا نام دے کر روتے اور چیختے چلاتے پھیریں گے جبکہ اصل میں یہ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ حالیہ انتخابات سو فیصد صاف وشفاف اور ہر قسم کی دھاندلی سے پاک ہوئے ہیں ۔مگر چونکہ یہ ہار گئے ہیں اِس لئے کچھ نہ کچھ بہانا کرکے رونا اِن کا مقدر بن چکاہے۔اَب اِن قومی لیٹروں کی شکست کو تواِن کی آنے والی نسلیں بھی صدیوں یاد رکھیں گیں۔
بہر کیف ،آج اِس سے قطعاً اِنکار نہیں ہے کہ پچھلے دِنوں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستانی باشعور ووٹرز نے ماضی کے شاطر حکمرانوں، سیاستدانوں سے کرسی چھین کر عمرا ن خان کے حوالے کردی ہے جواپنا پیٹ بھر نے کے بجائے مُلک کی مفلوک الحال ، بے بس و بے کس ، مجبورو لا چار عوام کے دامن میں بھی جمہوراور جمہوریت کی شکل میں اس کے ثمرات ڈالے گا۔ جس کا ثبوت اِس شخص نے اپنی پہلی عوامی تقریر میں دے دیاہے۔ بس اَب عوام اِس پر اعتبار کریں اور اِس کا ساتھ دینے کے ساتھ اُس وقت کا بھی انتظار کریں ۔جب یہ عوام دوست ، قوم کا مسیحا شخص سادہ مگر پُروقار تقریب میں بحیثیت وزیراعظم پاکستان حلف اُٹھالے گا ۔تو اُمید ہے کہ اِس کے وعدے اور عہد کے عین مطابق اِس کی حکومت کے ابتدا ئی سو دِنوں میں ہی مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے خاطر کئے جانے والے اقدامات اور اعلانات و منصوبوں سے لگ پتہ جا ئے گایہ عظیم اِنسان جِسے آج دنیا عمران خان کے نام سے جانتی ہے ، اپنے مُلک اور اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی حکمت اور عمل سے آسمان کی کن اُونچی منزلوں سے بھی آگے لے جائے گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں