مقصد حیات

تحریر: علینہ فاطمہ، رحیم یار خان
وہ ایک سرکاری اسکول میں استاد تھا۔ اس کا باپ ایک کسان تھا۔ اس کے باپ کو ایک کسان ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا۔ اس نے پیار سے سختی سے کوشش کی کہ اس کے بچے پڑھ سکیں۔ اپنے بہن بھائیوں اور پورے خاندان میں سے یہی تھا جس نے تعلیم حاصل کی اور استاد کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے سے نوکری کرنے تک بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ چالیس کلومیٹر سے زیادہ تک کا سفر اس نے پیدل چل کر طے کیا تھا۔ لیکن ہمت نہیں ہاری اور کامیابی حاصل کی۔ ایک دن اس کے دل میں خیال آیا جس طرح اس نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس میں آنے والی مشکلات کا سامنا کیا کیوں نہ اس سب مشکلات سے اپنے بچوں کو نکالنے کے لیے کوئی اقدام کرے، اس نے تو ان مشکلات کا سامنا کیا ہی مگر اس کے بچے تو اپنی آنے والی زندگی میں آسانیاں حاصل کر سکیں گے۔ اس نے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا آبائی گاؤں چھوڑنے کا سوچا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس نے اپنی شریک حیات سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
رات ہوئی اس نے اپنی شریک حیات سے بات شروع کی۔ یہاں پر کوئی اسکول نہیں ہے۔ جس میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کو شہر جانا پڑے گا۔ شہر بہت دور ہے ہمارے بچے اتنے بڑے نہیں ہیں۔ ان کو روز پیدل اسکول جانے میں مشکل ہو گی۔ میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم یہ گاؤں چھوڑ دیں۔ اپنا آبائی گاؤں، اپنا گھر چھوڑنا وہ گھر جسے بہت محنت اور مشقت سے بنایا گیا ہو مرد کی نسبت عورت کے لیے اسے چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی کچھ اس طرح کی صورتحال تھی۔ پہلے تو اس کی بیوی نے کہا ہم سفید پوش لوگ ہیں اتنا ذرائع نہیں جن سے ہم یہ گھر چھوڑ کر شہر میں گھر لے سکیں اور میں اپنے خاندان، بہن، بھائیوں اور امی کو چھوڑ کر شہر میں اکیلی نہیں رہ سکتی۔ جس پر اس نے اپنی بیوی کو اس طرح قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہماری تھوڑی سی قربانی سے جو گھر کو چھوڑنے کی صورت میں ہم اپنے بچوں کے لیے دیں گے اس سے ہم اپنے بچوں کا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ تم اس بات کو دیکھو اس میں ہمارے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے ضد نہ کرو میرے ساتھ شہر چلو۔
ٹھیک ہے ۔ تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن ایک شرط ہے شہر میں جب تک اپنا گھر نہ بنا لیں مجھے یہ گھر چھوڑ کر نہیں جانا۔ میں اس طرح سے اپنے خاندان کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دی سکتی کہ ہم یہاں اپنا بنا بنایا گھر چھوڑ کر شہر میں کرائے کے گھر میں رہ رہے ہوں۔ یوں اس نے اپنی بیوی کے مشورے سے شہر میں ایک پلاٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ دن گزرتے گئے لیکن وہ بھی اپنی دھن کا پکا نکلا۔ یوں اس نے اپنے اسکول کے ساتھیوں کے مشورے سے شہر میں ایک پلاٹ لیا اور اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنا لیا۔
گھر چھوڑنے کی گھڑی آئی وہ چپ تھا بالکل خاموش۔ کیوں کہ شاید اس کے پاس اب وہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا یکے بعد دیگرے ماں اور باپ دونوں کا سایہ سر پر سے اٹھ گیا تھا۔ بڑا بھائی اپنے بیوی بچوں میں خوش تھا اسے اس کے وہاں رہنے یا نہ رہنے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک بہن جو بیوہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کے ساتھ اکیلے اپنے گھر میں رہتی تھی اس کی ذمہ داری سے وہ پہلے بھی نہیں بھاگا تھا وہ شہر میں رہ کر بھی اپنی ذمہ داری سے غافل ہونے والوں میں سے نہیں تھا۔ اب اس کے پاس بچا تھا تو یہی بیوی بچے جن کے بہتر مستقبل کے لیے اس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اس کی بیوی کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس کے لیے اپنا آبائی گاؤں اپنا گھر چھوڑنا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا۔ اس لمحے سے بھی زیادہ مشکل جب وہ بیاہ کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں آئی۔ باپ کے بعد بہن بھائیوں اور خاص طور پر ان چھوٹے دو بھائیوں کو چھوڑ کر آنا جن کے سر پر باپ کے بعد اس بہن کا سہارا تھا۔ لیکن اپنے بچوں کے لیے اور ان بہن بھائیوں کے لیے اسے بھی قربانی تو دینی تھی سو رونا چھوڑ کر وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ گھر چھوڑ کر شہر آگئی۔
وقت گزرتا گیا دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ اس نے دن رات محنت کر کے اپنے بچوں کی ضرورتوں کو پورا کیا۔ اس نے بچوں کو تعلیم دلوانے کے ساتھ ایک اچھا انسان بنانے کے لیے بھی کوشش کی۔ وہ کم وسائل ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو بہت اعلی تعلیمی اداروں میں تو نہیں بھیج سکا لیکن اس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد اسی بات کو بنا لیا کہ اپنے بچوں کو اس قابل کر دے کہ اس پر تنقید کرنے والے ایک دن خود اس سے کہیں کہ واقعی تمہاری محنت رائیگاں نہیں گئی۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ اس کے بچوں نے نا صرف تعلیمی کامیابی حاصل کی بلکہ وہ اچھی نوکریوں کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی اس کے پاس تقریباً دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئی،ابو ابو یہ دیکھیں میرا فائنل لسٹ میں نام آگیا ہے۔ میری سلیکشن ہو گئی ہے استاد کے طور پر اور پتا ہے نوکری ہوئی کہاں۔کہاں ہوئی بیٹا؟ ابو آپ کے اپنے آبائی گاؤں میں۔ اس گاؤں میں، جس کو کبھی آپ نے ہمارے اچھے مستقبل کے لیے دل پر پتھر رکھ کے چھوڑا۔ میں اب ا س گاؤں میں جا کر بچوں کو پڑھایا کروں گی تاکہ وہ گاؤں میں رہ کر بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔
اس کے بعد اس کے بچوں میں سے بھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی استاد جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہوئے اور یوں سہی معنوں میں اس نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لی۔ اور اس سے یہ بات ثابت کر دی کہ ضروری نہیں بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ہی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہو۔ اپنے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانا کر بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
کیوں کہ بقول شاعر:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

حصہ

جواب چھوڑ دیں