عوامی فیصلہ اور جمہوریت کے علم بردار

۲۰۱۸ کے انتخابات بخیر و عافیت تکمیل کو پہنچ ہوچکے ہیں ۔ وہ تمام ادارے اور ان سے وابستہ افراد مبارکبادو خراجِ تحسین کے مستحق ہیں،جنہوں نے انتخابات کے کامیاب انعقاد میں اپنا کردار بخوبی و احسن طریقے سے ادا کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدولت ۲۵ جولائی کا دن بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے، بغیر کسی نقصان کے گذرگیا۔ قانون نافذ کرنے والوں کی، ان کاوشوں کا تذکرہ تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتاہے۔ حالیہ انتخابات جمہوریت کے تسلسل کا نتیجہ ہیں۔پاکستان کسی نا کسی وجہ کی بدولت مسلسل سیاسی بھونچال کا شکار رہا لیکن جمہوریت کی ریل گاڑی کو پٹڑ ی سے اترنے نہیں دیا گیااس کا سہرا جمہوریت کے تمام علم برداروں کے سر سجتا ہے۔ جمہوریت کی بقاء ،نام کا ایک نکات سامنے آیا ہے کہ جس پر ہمارے سارے بشمول نامی گرامی اور گمنام سیاست دان یکجا دیکھائی دیئے۔ تھوڑا سا پیچھے جائیے اور اخبارات یا انٹرنیٹ پر دیکھ لیجئے کہ المعروف ڈی چوک نامی جگہ پر ایک دھرنا دیا گیا اور اس دھرنے کیخلاف کس طرح سے تمام سیاسی جماعتیں ہم پیالہ و ہم نوالہ دیکھائی دیں اور سب سے بڑھ کر ایوان کی حاضری میں ان دنوں اضافہ دیکھا گیا، اب اس بحث میں نہیں جاتے کہ وہ دھرنا کس کا تھا اور کس کے خلاف تھا مگر افسوس اس بات کا ضرور ہے کہ دھرنے کے اختتام کا سبب بننے والا سانحہ بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ بہرحال جمہوریت بارہا ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن ہمارے سیاست دانوں نے اسے گرنے نہیں دیا۔ یہاں فوج اور عدلیہ کا تذکرہ نا کرنا متن کے ساتھ زیادتی تسلیم کی جائے گی کیونکہ حالات کے خلاف جاتے ہوئے افواج پاکستان اور اعلی عدلیہ نے اپنے آپ کو اس سیاسی رسہ کشی سے باز رکھا، نا کسی کی مخالفت کی اور ناہی کسی کا ساتھ دیا،سب سے بڑھ کر اقتدار پر قبضے کا بہترین موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
ہم لوگ سچ جانتے ہوئے بھی جھوٹوں کو سنتے ہیں اور ان کے اس جھوٹ کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری بھی لے لیتے ہیں، گاہے بگاہے واہ واہ بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ جمہوریت اپنے لفظی معنی و مفہوم کھوچکی ہے کیونکہ عوامی رائے کو پاکستان میں تو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا ۔ کبھی پیپلز پارٹی نے انتخابات میں فتح حاصل کی تو نواز لیگ نے اسے تسلیم نہیں کیا ، اگر نواز لیگ جیت گئی تو تحریک انصاف نے اسے سکون سے سانس لینے کا موقع فراہم نہیں کیا،یہ چوہے بلی کا کھیل چلتا رہا ۔ اس کے علاوہ کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں ایسی ہیں کہ جو ایوانوں میں حکومتی کرسیوں پر ہی بیٹھتی چلی آرہی ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں کہ ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندگان انفرادی حیثیت میں مزے کرتے رہے جبکہ ان کے حلقے اور ان کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے منتخب کرنے والے مزید زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے گئے۔
تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں میں ایسے قابل قدر لوگ موجود ہیں جن پر پاکستان فخر کر سکتا ہے لیکن ایسے لوگوں کی کمی اورمختلف جماعتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ ،مسلسل پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی چلی جارہی ہے۔اگر یہ لوگ پاکستان کیلئے ایک جگہ جمع ہوجائیں جماعتوں کے منشوروں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کیلئے سوچیں اور اپنی خدمات پیش کردیں تو بہت ممکن ہے جس سفر کی تیاری تحریک انصاف کر رہی ہے تو طویل سفر مختصر ہوجائے گا یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی بہتری چاہتے ہیں لیکن ناگزیر وجوہات جنہیں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ پانچ سال کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کس حد تک اپنے قدم جما چکی ہے یعنی حالات کیسے بھی ہوں حکومت اپنا وقت یعنی پانچ سال پورے کرے گی۔ اب اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام روز روز انتخابات کے اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جبکہ یہ قوم ایک ایک روپیہ جمع کرکے ڈیم بنانے جا رہی ہے ۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا سیاست دان ڈیم کیلئے خطیر رقم دینے کیلئے سامنے نہیں آیا ہے جب کہ اب تو اثاثے بھی پوشیدہ نہیں رہے ہیں۔ اب حکومت مخالف جماعتوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عوام نے جن لوگوں کو سال ہا سال اپنے ووٹوں سے منتخب کیا اور اب نہیں کیا تو کیا کیا وجوہات ہیں بلکہ وجوہات کا ایک پنڈورہ باکس ہے جو اگر کھل گیا تو یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں جاہی نہیں سکیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنانے کیلئے مضبوط ترین جماعت نہ ہونے کہ باوجود سب سے زیادہ فعال ہے جبکہ دیگر جماعتوں نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں جس کی وجہ یہ سمجھ لی جائے کہ اب ان میں انصاف اور قانون کی بالادستی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے یہ لوگ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کرنے کیلئے اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھنا پسند کر رہے ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی مومنٹ اور متحدہ مجلس عمل کو چاہئے کہ وہ حکومت میں شامل ہوں اور تحریک انصاف کے اس ایک نکتے کی حمایت میں ساتھ دیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ آخری اطلاعات کے آنے تک متحدہ قومی مومنٹ تو حکومت میں شامل ہونے جارہی ہے ان کے پاس اس سے اچھا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں کلیدی اتحادی ہونے کے باعث جماعت اسلامی کوئی حتمی مثبت قدم اٹھانے سے گریز کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔جمہوریت جماعت اسلامی سے یقیناً تقاضا کررہی ہوگی کہ وہ اس حکومت میں شامل ہوں ، دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
جمہوریت کے عین مطابق عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اوراب جمہوریت کے علم برداروں سے اپنے ووٹوں کی صورت میں یہ تقاضا بھی کر دیا ہے کہ خدارا پاکستان کیلئے خود تو کچھ کبھی کیا نہیں اگر کوئی کرنا چاہتا ہے توکم ازکم اسکا ساتھ تو دے دو تاکہ آنے والے وقتوں میں قوم یہ تو کہہ سکے کہ چلوپاکستان کو دوبارہ بنانے میں تو کچھ کردار ادا کیا ۔ آج ناصرف پاکستان اور پاکستانی عوام بلکہ وقت بھی یہ تقاضا کر رہا ہے کہ حکومت میں آنے والوں کا ساتھ دیں اور پاکستان کیلئے ساری رنجیشیں ساری مخالفتیں یکسر نظر انداز کردیں۔ دنیا کے سامنے پاکستان اور پاکستانیوں کا اور تماشا نا بنوائیں اب وقت ہے ایک آواز بن کر پاکستان کے نئے صبح و شام کی بنیاد رکھیں۔ دوسروں پربداخلاقیات کے الزامات لگانے والوں کو چاہئے کہ وہ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نا جانے دیں۔ کچھ لوگوں نے تو سیاستی مفادات کی خاطر نا صرف پاکستان کو بدنام کیا ہے بلکہ اسلام کوبھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور جگ ہنسائی کا سبب بنے ہیں۔ کیا یہ مخالفت برائے مخالفت ترک کرنے کا وقت نہیں ہے ؟ کیا یہ پاکستان کی خاطر کچھ کر گزرنے کا وقت نہیں ہے؟ پاکستان ہم سب سے نئی بنیادیں رکھنے کو کہہ رہا ہے ، اگست کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ستر سال بعد پاکستان صحیح معنوں میں جشن آزادی منانے کی تیاری کرنے جا رہا ہے ۔ افہام و تفہیم پر مبنی سیاست کو فروغ دیجئے اور معاشرے کو حقیقی جمہوریت کو سمجھنے کا موقع دیجئے۔ آپ سب ہی تو جمہوریت کے علم بردار ہیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں