ایک ٹاؤن کی کہانی

یہ ایک ٹاؤن پر مشتمل مختصر سی آبادی تھی۔ زیادہ تر درمیانے طبقے کے مقامی افراد رہتے تھے کچھ ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آتے جاتے رہتے تھے۔
چند ایک کرائے داروں کے علاوہ باقی سب مالک مالکان تھے۔ آپس میں ملنا جلنا رہتا۔خواتین بھی ایک دوسرے کو جانتی تھیں اور مل جل کر بیٹھنا اور کھانا پینا بھی ہوتا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا. کبھی صفائی کے حوالے سے مسائل پیش آنے لگے، کہ کسی کا گٹر ابلنے لگتا، کبھی پارکنگ کی جگہ کا مسئلہ، کبھی پانی کی فراہمی، کبھی سیکورٹی اہلکار غائب، اور کبھی بجلی نہ ہونے  یا طویل معیاد کے لیے غائب ہونے جیسے مسائل پیش آنے لگے! حد تو جب ہوئی جب دن دھاڑے چوری ہوگئی!
ٹاؤن کی یونین پڑھے لکھے ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل تھی. جو ڈھیروں ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگے رہتے. جاب، گھر، بچے، رشتے دار و دیگر احباب کے بعد جو وقت بچتا اسے یونین کے کاموں میں لگاتے. یونین میں شامل افراد کو مینٹیننس نہ دینے والوں نے الگ پریشان کر رکھا تھا وہ لوگ ابھی مسائل بڑھنے کے بعد ان سے نمٹنے میں، حل کرنے میں لگے ہی تھے کہ دبی دبی سی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں. ارے یہ کیا مسائل یا معاملات حل کریں گے؟ ان کو فرصت ہی کہاں ہے؟ اور کیسے کر سکتے ہیں؟ بھئی ہم تو مطمئن نہیں ہیں. رفتہ رفتہ یہ دبی دبی آوازیں بڑھتی گئیں جس کا نتیجہ یونین کے خاتمے پر ہوا. ساتھ ہی نئی یونین کے قیام کے حوالے سے جو کھچڑی پک رہی تھی اس کے نکالنے کا وقت آگیا تھا چنانچہ ان دبی آوازوں کو بڑھانے اور باقاعدہ پھیلانے والے نادہندگان نے اپنے نام رضاکارانہ طور پر آگے کیے. مسائل میں گھیرے لوگوں کو تو وہ لوگ فرشتے محسوس ہوئے، کوئی دوسرا، تیسرا راستہ، اس وقت نہ انھیں نظر آیا، نہ دیکھنے کی کوشش کی گئی محسوس ہونا تو دور کی بات ہے.
چھ افراد پر مشتمل ٹیم جن میں صدر، جنرل سیکرٹری، مینٹیننس کی وصولی، سیکورٹی، صفائی انچارج، مالیاتی انچارج شامل تھے، نے چارج سنبھال لیا. پانی کے حوالے سے پچھلی یونین کے ذمہ دار کا کام تقریباً ختم ہوچکا تھا، نئی یونین نے پہلا کام یہ ہی کیا کہ سب گھروں میں کام ختم ہونے کی نوید سنائی کہ ہم آتے ہی آپ لوگوں کے اس مسئلے کو حل کر رہے ہیں. پانی کی فراہمی پر ٹاؤن کی آبادی نے سکون کا سانس لیا اور سادہ لوح لوگوں نے انھیں اپنا نجات دہندہ ماننا شروع کر دیا. کسی بھی مینٹیننس نہ دینے والوں کے حوالے سے اس قدر بولا جاتا کہ بچارہ سفید پوش انسان اپنے آپ کو بہت بڑا کرپٹ سمجھنے لگتا اور کچھ کرے نہ کرے میٹیننس مہینے کی پہلی پر دے دیتا۔مگر کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یونین میں شامل افراد میٹیننس ادا بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ کبھی چوکیدار پریشان نظر آتا کہ مہینہ گزر جاتا ہے تنخواہ نہیں ملتی اور کبھی صفائی والا نالاں دکھائی دیا. پارکنگ کے مسئلہ جوں کا توں تھااور تو اور چوری کی حالیہ وارداتوں تو نے مکینوں کو ایک بار پھر بوکھلا دیا.
اکا دکا افراد جنھوں نے اس تبدیلی کے حوالے سے کچھ بتانا چاہا تو انہیں خاموش کروادیا گیا. آپ تو رہنے دیجیے، کرایہ دار ہیں اس یا کسی معاملے میں نہ بولیے.
چوروں اور کرپٹ افراد کے حوالے سے بات کی، ان کے حوالے سے حسابات کا کہنا چاہا، کسی نے کان نہ دھرے. بول کر، لکھ کر، اپنا موقف واضح کرنا چاہا. اس کی سنوائی نہ ہوئی. آرام سے، غصے سے کسی بھی طریقے سے مقصد پورا نہیں ہوا. تو پھر انھوں نے جو ہے، جیسا ہے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا، رہنے دیا . خاموش ہوگئے. نہ برا کہا نہ بھلا کہ جہاں لوگ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو تیار ہوں. جہاں اونٹ نگلے جاتے ہوں اور مچھر چھانے جاتے ہوں. منظم طریقے سے کامیابی حاصل کی جاتی ہو. اس ٹاؤن میں سے مسائل نہ حل ہوں گے ، نہ ختم ہوتے ہیں نہ ہوں گے،بلکہ ان کی نوعیت مزید پیچیدہ ہوجائے گی . ان کے لیے دعا کیجیے!

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں